محمد بلال اعظم
لائبریرین
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارےپُورے ہُوئے اِک عمر کے ارمان ہمارے
ہم وہ جو کڑی دھوپ میں جسموں کو جلائیں
ہم وہ ہیں کہ صحراؤں کو گلزار بنائیں
ہم اپنا لہو خاک کے تودوں کو پلائیں
اس پر بھی گھروندے رہے ویران ہمارے
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
ہم روشنی لائے تھے لہو اپنا جلا کر
ہم پھُول اُگاتے تھے پسینے میں نہا کر
لے جاتا مگر اور کوئی فصل اُٹھا کر
رہتے تھے ہمیشہ تہی دامان ہمارے
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
اب دیس کی دولت نہیں جاگیر کسی کی
اب ہاتھ کسی کے نہیں تقدیر کسی کی
پاؤں میں کسی کے نہیں زنجیر کسی کی
بھُو لے گی نہ دنیا کبھی احسان ہمارے
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
٭٭٭