احمد فراز کی کتاب "شب خون" سے انتخاب

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
پُورے ہُوئے اِک عمر کے ارمان ہمارے

ہم وہ جو کڑی دھوپ میں جسموں کو جلائیں
ہم وہ ہیں کہ صحراؤں کو گلزار بنائیں
ہم اپنا لہو خاک کے تودوں کو پلائیں
اس پر بھی گھروندے رہے ویران ہمارے
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے

ہم روشنی لائے تھے لہو اپنا جلا کر
ہم پھُول اُگاتے تھے پسینے میں نہا کر
لے جاتا مگر اور کوئی فصل اُٹھا کر
رہتے تھے ہمیشہ تہی دامان ہمارے
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے

اب دیس کی دولت نہیں جاگیر کسی کی
اب ہاتھ کسی کے نہیں تقدیر کسی کی
پاؤں میں کسی کے نہیں زنجیر کسی کی
بھُو لے گی نہ دنیا کبھی احسان ہمارے
یہ کھیت ہمارے ہیں یہ کھلیان ہمارے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اے وطن اے وطن
اے وطن اے وطن
اے وطن اے وطن
تیرے کھیتوں کا سونا سلامت رہے
تیرے شہروں کا سکھ تا قیامت رہے
تا قیامت رہے یہ بہارِ چمن
اے وطن اے وطن

تیرے بیٹے تری آبرو کے لئے
یوں جلائیں گے اپنے لہو کے دئے
پھُوٹ نکلے گی تاریکیوں سے کرن
اے وطن اے وطن

تیری آباد گلیاں مہکتی رہیں
تیری راہیں فضا میں چمکتی رہیں
مسکراتے رہیں تیرے کوہ و دمن
اے وطن اے وطن
اے وطن اے وطن
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میرے اپنے لوگو!
(جنگی قیدیوں کی واپسی پر)
میں بھی اوروں کی طرح
جانبِ در آیا تھا
کہ میں ان آنکھوں کو ان چہروں کو دیکھوں
جو گئے سال گئے تھے
تو نہ واپس آئے
میں بھی آنکھوں کے چراغوں کو جلائے
انھیں رستوں پہ کھڑا تھا
مرے اپنے میرے پیارے لوگو
انھیں رستوں پہ جہاں
ہجر کی تاریک گھڑی
یوں قضا بن کے کھڑی تھی
کہ ٹلے گی ہی نہیں
میں بھی اوروں کی طرح
ہجر کی دہلیز پہ استادہ رہا
آتے جاتے ہُوئے موسم
انھیں گلیوں سے گزرتے ہُوئے
اِک پل کو ٹھہرتے
تو یہ کہتے
"ابھی وہ رُت نہیں آئی
ابھی وہ رُت نہیں آئی"
میں مگر شوق کی دہلیز پہ استادہ رہا
کہ میری طرح کئی ہجر زدہ دل
کئی روتی ہُوئی آنکھیں
کئی بسمِل جانیں
آتے جاتے ہُوئے جھونکوں کو صدا دیتی تھیں
کوئی پیغام؟
کسی کُشتۂ بیداد کے نام
اور خاموش ہوائیں جیسے
عمر بھجتے ہُوئے شعلوں کی بڑھا دیتی تھیں
ہر کوئی نقش بدیوار
سرِ راہگزار
ایک سی سب کی طلب
ہر کوئی حرف بلب
آؤ
بس آ بھی جاؤ
کہ کبھی دن تو پھریں بے سر و سامانوں کے
کہ کبھی زخم سلیں چاک گریبانوں کے
"ندیاں سوکھ گئیں
شوق میں طوفانوں کے"
اور اب ساعتِ دیدار
جب آئی ہے تو کیا دیکھتا ہوں
آنے والے سفرِ درد سے لوٹے ہیں
تو ان کے پیکر
اِتنے بے رنگ ہیں بے جان ہیں
جیسے کبھی زندہ ہی نہ تھے
ان کے ہاتھوں میں
کوئی پرچمِ پرّاں
نہ کوئی مشعلِ تاباں
نہ وہ پندارِ دل و جاں
جو مرے خواب کی تعبیر لگیں
ان کے قدموں میں ابھی تک
وہ گرانی ہے
کہ پا بستہ زنجیر لگیں
آن والے مجھے انساں نہیں تصویر لگیں
میں تو آیا تھا
کہ دیکھوں گا انھیں
جو میری طرح مرے ہم وطنوں کی مانند
درد کی آگ میں ڈھل کر بھی توانا ہوں گے
نئی سج دھج سے
نئی سمت روانہ ہوں گے
ان کے جسموں میں مگر
خوں کی رمق بھی تو نہیں
ایسے ویران ہیں چہرے
کہ اُنھیں اپنی اسیری کا
قلق بھی تو نہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سلام اُس پر
حسین!
اے میرے سر بریدہ
بدن دریدہ
سدا ترا نام برگزیدہ
میں کربلا کے لہو لہو دشت میں تجھے
دشمنوں کے نرغے میں
تیغ در دست دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں
کہ تیرے سارے رفیق
سب ہمنوا
سبھی جانفروش
اپنے سروں کی فصیلیں کٹا چکے ہیں
گلاب سے جسم اپنے خوں میں نہا چکے ہیں
ہوائے جانکاہ کے بگولے
چراغ سے تابناک چہرے بجھا چکے ہیں
مسافرانِ رہِ وفا لُٹ لُٹا چکے ہیں
اور اب فقط تُو
زمین کے اس شفق کدے میں
روشنی کا پرچم لیے کھڑا ہے
یہ ایک منظر نہیں ہے
اک داستاں کا حصّہ نہیں ہے
اک واقعہ نہیں ہے
یہیں سے تاریخ
اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے
یہیں سے انسانیت
نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے
میں آج اسی کربلا میں
بے آبرو-نگوں سر
شکست خوردہ خجل کھڑا ہوں
جہاں سے میرا عظیم ہادی
حسین کل سرخرو گیا ہے
میں جاں بچا کر
فنا کے دلدل میں جاں بلب ہوں
زمین اور آسماں کے عزّ و فخر
سارے حرام مجھ پر
وہ جاں لُٹا کر
منارۂ عرش چھو گیا
سلام اُس پر
سلام اُس پر
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ترانہ
لبوں پہ اہلِ امن کے
لہو ترنگ ہی سہی
عدو سے جنگ ہی سہی
چلو کے دشمنوں کا یہ گھمنڈ
توڑ دیں
جو ہاتھ ہم پہ ظلم کے اُٹھے
مروڑ دیں
غنیم پر یہ عرصۂ حیات
تنگ ہی سہی
عدو سے جنگ ہی سہی
جنگ ہی سہی
کہاں گیا ہے تو
مرے دیار کو پکار کر
جو حوصلہ ہے کچھ اگر تو سامنے سے وار کر
اگر جواب خِشت سنگ ہے
تو سنگ ہی سہی
عدو سے جنگ ہی سہی
جنگ ہی سہی

نہ چاہتے تھے ہم مگر
یہ امتحاں بھی ہو چلے
کہاں ہے لشکرِ ستم
کہ آ گئے ہیں منچلے
اسی کی خاک اسی کے خوں سے
لالہ رنگ ہی سہی
عدو سے جنگ ہی سہی
٭٭٭​
 
Top