حجاب
محفلین
[align=right:db5f0d4cf4] ماسی گُل بانو۔
اُس کے قدموں کی آواز بلکل غیر متوازن تھی، مگر اُس کے عدم توازن میں بھی بڑا توازن تھا۔آخر بے آہنگی کا تسلسل بھی تو ایک آہنگ رکھتا ہے۔سو اُس کے قدموں کی چاپ ہی سے سب سمجھ جاتے تھے کہ ماسی گُل بانو آرہی ہے۔گُل بانو ایک پاؤں سے ذرا لنگڑی تھی۔وہ جب شمال کی جانب جا رہی ہوتی تو اُس کے بائیں پاؤں کا رخ تو شمال ہی کی طرف ہوتا مگر دائیں پاؤں کا پنجہ ٹھیک مشرق کی سمت رہتا تھا۔یوں اُس کے دونوں پاؤں زاویہ قائمہ سا بنائے رکھتے تھے اور سب زاویوں میں یہی ایک زاویہ ایسا ہے جس میں ایک توازن،ایک آہنگ،ایک راستی ہے۔سو گُل بانو کا لنگڑا پن کجی میں راستی کا ایک چلتا پھرتا ثبوت تھا۔
گُل بانو جب چلتی تھی تو دائیں پاؤں کو اُٹھاتی اور بائیں کو گھسیٹتی تھی۔اس بے ربطی سے وہ ربط پیدا ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگ گُل بانو کو دیکھے بغیر پہچان لیتے تھے۔عورتیں اندر کوٹھے میں بیٹھی ہوتیں اور صحن میں قدموں کی یہ منفرد چاپ سُنائی دیتی تو کوئی پکارتی ! ادھر آجا ماسی گُل بانو،ہم سب یہاں اندر بیٹھے ہیں۔اور ماسی کا یہ معمول سا تھا کہ وہ دہلیز پر نمودار ہوکر اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی کو دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کرکے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سے اپنی ناک کو دہرا کرتے ہوئے کہتی ،ہائے تونے کیسے بھانپ لیا کہ میں آئی ہوں ۔سبھی بھانپ لیتے ہیں ۔سبھی سے پوچھتی ہوں پر کوئی بتاتا نہیں۔جانے میں تم لوگوں کو اتنی موٹی موٹی دیواروں کے پار بھی کیسے نظر آجاتی ہوں۔
بس ماسی،چل جاتا ہے پتہ۔پکارنے والی عورت کہتی، تم سے پہلے تمہاری خوشبو پہنچ جاتی ہے۔اور گُل بانو مسکرانے لگتی۔
آج تک گُل بانو کو سچی بات بتانے کا حوصلہ کسی نے نہیں کیا تھا۔دراصل اُس سے سب ڈرتے تھے اور اُس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں مدتوں سے مشہور تھیں۔
ادھیڑ عمر کسان بتاتے تھے کہ انہوں نے ماسی گُل بانو کو ہمیشہ اسی حالت میں دیکھا ہے کہ ہاتھ میں ٹیڑھی میڑھی لاٹھی ہے اور وہ ایک پاؤں اُٹھاتی اور دوسرا گھسیٹتی دیواروں کے ساتھ لگی لگی چل رہی ہے ۔مگر گاؤں کے بعض بوڑھوں کو یاد تھا کہ گُل بانو جوان ہو رہی تھی تو اُس کی ماں مر گئی تھی باپ کھیت مزدور تھا۔بیوی کی زندگی میں تو تین تین مہینے تک دوردراز کے گاؤں میں بھٹک سکتا تھا مگر اب جوان بیٹی کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاتا۔پھر جب وہ کماتا تھا تو جب بھی ایک وقت کا کھانا کھا کر اور دوسرے وقت پانی پی کر زندہ تھا مگر اب کیا کرتا۔کٹائی کے موسم کو تو جبڑا بند کرکے گزار گیامگر جب دیکھا کہ فاقوں سے گُل بانو نچڑی جا رہی ہے تو اگلے موسم میں وہ گُل بانو کو ساتھ لے کر دور کے ایک گاؤں میں فصلوں کی کٹائی کرنے چلا گیا۔
وہیں کا ذکر ہے کہ ایک دن اُس نے زمیندار کے ایک نوجوان مزارعے بیگ کو کھلیان پر کٹی ہوئی فصل کی اوٹ میں گُل بانو کی طرف بازو پھیلائے ہوئے دیکھا۔اس گاؤں میں اسے ابھی چند روز ہوئے تھے۔اس وقت اُس کے ہاتھ میں درانتی تھی اُس کی نوک بیگ کے پیٹ پر رکھ دی اور کہا کہ میں تیری انتڑیاں نکال کر تیری گردن پر ڈال دوں گا۔پھر گُل بانو نے باپ کے درانتی والے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے پکڑلیا اور کہا----------------------" بابا ! یہ تو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں تجھ سے شادی کروں گا اور میں کہہ رہی تھی کہ پھر مجھے پیار بھی شادی کے بعد کرنا۔اس سے پہلے کرو گے تو خدا خفا ہوجائے گا۔“
تب باپ نے درانتی اپنے کندھے پر رکھ لی ۔گل بانو کو اپنے بازو میں سمیٹ لیا اور رونے لگا۔پھر وہ بیگ سے برات لانے کی بات پکی کرکے گاؤں واپس آگیا۔برات سے تین روز پہلے گل بانو کو میوں بٹھا دیا گیا اور اُسے اتنی مہندی لگائی گئی کہ اُس کی ہتھیلیاں سُرخ،پھر گہری سُرخ،اور پھر سیاہ ہو گئیں اور تین دن تک آس پاس کی گلیاں گل بانو کے گھر سے اُمڈتی ہوئی مہندی کی خوشبو سے مہکتی رہیں۔پھر رات کو تاروں کی چھاؤں میں برات کو پہنچنا تھا ،اور دن کو لڑکیاں گل بانو کی ہتھیلیوں کو مہندی سے تھوپ رہیں تھیں کہ دور ایک گاؤں سے ایک نائی آیا۔اور اس نے گل بانو کے باپ کو بتایا کہ کل زمیندار ہرن کے شکار پر گیا تھا اور بیگ اُس کے ساتھ تھا۔جنگل میں زمیندار کے پرانے دشمن زمیندار کی تاک میں تھے اُنہوں نے اُس پر حملہ کر دیا اور بیگ اپنے مالک کو بچانے کی کوشش میں مارا گیا۔آج جب میں وہاں سے چلا تو بیگ کی ماں اپنے بیٹے کی لاش کے سر پر سہرا باندھے اپنے بال نوچ نوچ کر ہوا میں اُڑا رہی تھی۔
گل بانو تک یہ خبر پہنچی تو یوں چپ چاپ بیٹھی رہ گئی جیسے اُس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔پھر جب اُس کے پاس گیت گانے والیاں سوچ رہی تھیں کہ ماتم شروع کریں یا چپکے سے اُٹھ کر چلی جائیں ،تو اچانک گل بانو کہنے لگی : " کوئی عید کا چاند دیکھ رہا ہو اور پھر ایک دم عید کا چاند کنگن کی طرح زمین پر گِر پڑے تو کیسا لگے ؟ کیوں بہنو ! کیسا لگے ؟ “
اور وہ زور زور سے ہنسنے لگی اور مسلسل ہنستی رہی۔ایسا لگتا تھا کہ کوئی اُس کے پہلوؤں میں مسلسل گدگدی کئے جا رہا ہے ۔وہ اتنا ہنسی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور پھر وہ رونے لگی اور اُٹھی اور مہندی سے تُھپی ہتھیلیاں اپنے گھر کی کچی دیوار پر زور زور سے چھرر چھرر رگڑنے لگی اور چیخنے لگی۔جب تک اُس کے باپ کو لڑکیاں بلاتیں اس کی ہتھیلیاں چِھل گئی تھیں اور خون اُس کی کہنیوں پر سے ٹپکنے لگا تھا۔پھر وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی صبح تک اسے محرقہ بخار ہوگیا۔اسی بخار کی غنودگی میں اس کی دائیں ٹانگ رات بھر چارپائی سے لٹکی رہی اور ٹیڑھی ہوگئی۔پھر جب اس کا بخار اترا تو اس کے سر کے سب بال جھڑ گئے اس کی آنکھیں جو عام آنکھوں سے بڑی تھیں اور بڑی ہو گئیں اور اُن میں دہشت سی بھر گئی۔پھٹی پھٹی میلی میلی آنکھیں ،ہلدی سا پیلا چہرہ،اندر دھنسے ہوئے گال،خشک کالے ہونٹ اور اُس پر گنجا سر۔جس نے بھی اُسے دیکھا،آیت الکرسی پڑھتا ہوا پلٹ گیا۔پورے گاؤں میں یہ خبر گشت کر گئی کہ اپنے منگیتر کے مرنے کے بعد گل بانو پر جن آگیا ہے اور اب جن نہیں نکلا گل بانو نکل گئی ہے،اور جن بیٹھا رہ گیا ہے۔
یہیں سے گل بانو اور جِنوں کے رشتے کی بات چلی۔ساتھ ہی انہی دنوں اُس کا باپ چند روز بیمار رہا اور اپنے دُکھوں کی گٹھڑی گل بانو کے سر پر رکھ کر دوسری دنیا کو سدھار گیا۔باپ کی بیماری کے دنوں میں گل بانو ہاتھ میں باپ کی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی لے کر چند بار حکیم سے دوا لینے گھر سے نکلی،اور جب بھی نکلی بچے اُسے دیکھ کر بھاگ نکلے۔اسے گلی سے گزرتا دیکھ کر مسجد میں وضو کرتے ہوئے نمازیوں کے ہاتھ بھی رُک گئے ۔اور حکیم نے بھی ایک لاش کو اپنے مطب میں داخل ہوتا دیکھ کر گھبراہٹ میں اُسے نہ جانے کیا دے ڈالا کہ اُس کا باپ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔سنا ہے مرتے وقت اُس نے نہ خدا رسول کا نام لیا نہ کلمہ پڑھا بس کفر بکتا رہا کہ اچھا انصاف ہے ! یہ خوب انصاف ہے تیرا !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
قریب کا کوئی رشتہ دار پہلے ہی نہیں تھا دور کے رشتہ دار اور بھی دور ہو گئے۔مگر اللہ نے گل بانو کی روزی کا عجیب سامان کر دیا۔وہ جو پتھر کے اندر کیڑے کو بھی اُس کا رزق پہنچاتا ہے ،گل بانو کو کیسے بھولتا۔سو یوں ہوا کہ باپ کی موت کے تین دن بعد وہ ایک کھاتے پیتے گھر میں اس ارادے سے داخل ہوئی کہ پاؤ دو پاؤ آٹا ادھار مانگے گی۔اُس وقت سب گھر والے چولہے کے ارد گرد بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ۔گل بانو کو دیکھتے ہی سب ہڑبڑا کر اُٹھے اور کھانا وہیں چھوڑ کر مکان میں گُھس گئے۔گل بانو جو اس سے پہلے بچوں کی خوفزدگی کے منظر دیکھ چکی تھی ،سمجھ گئی اور مسکرانے لگی۔یوں جیسے کسی بےروزگار کی نوکری لگ جائے۔مکان کی دہلیز پر جا کر وہ کچھ کہنے لگی تھی کہ گھر کی بہو نے جس کا چہرہ فق ہورہا تھا ،اُس کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھ دئیے۔گل بانو ایکاایکی ہنسی کہ سب گھر والے ہٹ کر دیوار سے لگ گئے پھر وہ ہنستی ہوئی واپس آگئی۔
باقی آئیندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[/align:db5f0d4cf4]
اُس کے قدموں کی آواز بلکل غیر متوازن تھی، مگر اُس کے عدم توازن میں بھی بڑا توازن تھا۔آخر بے آہنگی کا تسلسل بھی تو ایک آہنگ رکھتا ہے۔سو اُس کے قدموں کی چاپ ہی سے سب سمجھ جاتے تھے کہ ماسی گُل بانو آرہی ہے۔گُل بانو ایک پاؤں سے ذرا لنگڑی تھی۔وہ جب شمال کی جانب جا رہی ہوتی تو اُس کے بائیں پاؤں کا رخ تو شمال ہی کی طرف ہوتا مگر دائیں پاؤں کا پنجہ ٹھیک مشرق کی سمت رہتا تھا۔یوں اُس کے دونوں پاؤں زاویہ قائمہ سا بنائے رکھتے تھے اور سب زاویوں میں یہی ایک زاویہ ایسا ہے جس میں ایک توازن،ایک آہنگ،ایک راستی ہے۔سو گُل بانو کا لنگڑا پن کجی میں راستی کا ایک چلتا پھرتا ثبوت تھا۔
گُل بانو جب چلتی تھی تو دائیں پاؤں کو اُٹھاتی اور بائیں کو گھسیٹتی تھی۔اس بے ربطی سے وہ ربط پیدا ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگ گُل بانو کو دیکھے بغیر پہچان لیتے تھے۔عورتیں اندر کوٹھے میں بیٹھی ہوتیں اور صحن میں قدموں کی یہ منفرد چاپ سُنائی دیتی تو کوئی پکارتی ! ادھر آجا ماسی گُل بانو،ہم سب یہاں اندر بیٹھے ہیں۔اور ماسی کا یہ معمول سا تھا کہ وہ دہلیز پر نمودار ہوکر اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی کو دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کرکے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سے اپنی ناک کو دہرا کرتے ہوئے کہتی ،ہائے تونے کیسے بھانپ لیا کہ میں آئی ہوں ۔سبھی بھانپ لیتے ہیں ۔سبھی سے پوچھتی ہوں پر کوئی بتاتا نہیں۔جانے میں تم لوگوں کو اتنی موٹی موٹی دیواروں کے پار بھی کیسے نظر آجاتی ہوں۔
بس ماسی،چل جاتا ہے پتہ۔پکارنے والی عورت کہتی، تم سے پہلے تمہاری خوشبو پہنچ جاتی ہے۔اور گُل بانو مسکرانے لگتی۔
آج تک گُل بانو کو سچی بات بتانے کا حوصلہ کسی نے نہیں کیا تھا۔دراصل اُس سے سب ڈرتے تھے اور اُس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں مدتوں سے مشہور تھیں۔
ادھیڑ عمر کسان بتاتے تھے کہ انہوں نے ماسی گُل بانو کو ہمیشہ اسی حالت میں دیکھا ہے کہ ہاتھ میں ٹیڑھی میڑھی لاٹھی ہے اور وہ ایک پاؤں اُٹھاتی اور دوسرا گھسیٹتی دیواروں کے ساتھ لگی لگی چل رہی ہے ۔مگر گاؤں کے بعض بوڑھوں کو یاد تھا کہ گُل بانو جوان ہو رہی تھی تو اُس کی ماں مر گئی تھی باپ کھیت مزدور تھا۔بیوی کی زندگی میں تو تین تین مہینے تک دوردراز کے گاؤں میں بھٹک سکتا تھا مگر اب جوان بیٹی کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاتا۔پھر جب وہ کماتا تھا تو جب بھی ایک وقت کا کھانا کھا کر اور دوسرے وقت پانی پی کر زندہ تھا مگر اب کیا کرتا۔کٹائی کے موسم کو تو جبڑا بند کرکے گزار گیامگر جب دیکھا کہ فاقوں سے گُل بانو نچڑی جا رہی ہے تو اگلے موسم میں وہ گُل بانو کو ساتھ لے کر دور کے ایک گاؤں میں فصلوں کی کٹائی کرنے چلا گیا۔
وہیں کا ذکر ہے کہ ایک دن اُس نے زمیندار کے ایک نوجوان مزارعے بیگ کو کھلیان پر کٹی ہوئی فصل کی اوٹ میں گُل بانو کی طرف بازو پھیلائے ہوئے دیکھا۔اس گاؤں میں اسے ابھی چند روز ہوئے تھے۔اس وقت اُس کے ہاتھ میں درانتی تھی اُس کی نوک بیگ کے پیٹ پر رکھ دی اور کہا کہ میں تیری انتڑیاں نکال کر تیری گردن پر ڈال دوں گا۔پھر گُل بانو نے باپ کے درانتی والے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے پکڑلیا اور کہا----------------------" بابا ! یہ تو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں تجھ سے شادی کروں گا اور میں کہہ رہی تھی کہ پھر مجھے پیار بھی شادی کے بعد کرنا۔اس سے پہلے کرو گے تو خدا خفا ہوجائے گا۔“
تب باپ نے درانتی اپنے کندھے پر رکھ لی ۔گل بانو کو اپنے بازو میں سمیٹ لیا اور رونے لگا۔پھر وہ بیگ سے برات لانے کی بات پکی کرکے گاؤں واپس آگیا۔برات سے تین روز پہلے گل بانو کو میوں بٹھا دیا گیا اور اُسے اتنی مہندی لگائی گئی کہ اُس کی ہتھیلیاں سُرخ،پھر گہری سُرخ،اور پھر سیاہ ہو گئیں اور تین دن تک آس پاس کی گلیاں گل بانو کے گھر سے اُمڈتی ہوئی مہندی کی خوشبو سے مہکتی رہیں۔پھر رات کو تاروں کی چھاؤں میں برات کو پہنچنا تھا ،اور دن کو لڑکیاں گل بانو کی ہتھیلیوں کو مہندی سے تھوپ رہیں تھیں کہ دور ایک گاؤں سے ایک نائی آیا۔اور اس نے گل بانو کے باپ کو بتایا کہ کل زمیندار ہرن کے شکار پر گیا تھا اور بیگ اُس کے ساتھ تھا۔جنگل میں زمیندار کے پرانے دشمن زمیندار کی تاک میں تھے اُنہوں نے اُس پر حملہ کر دیا اور بیگ اپنے مالک کو بچانے کی کوشش میں مارا گیا۔آج جب میں وہاں سے چلا تو بیگ کی ماں اپنے بیٹے کی لاش کے سر پر سہرا باندھے اپنے بال نوچ نوچ کر ہوا میں اُڑا رہی تھی۔
گل بانو تک یہ خبر پہنچی تو یوں چپ چاپ بیٹھی رہ گئی جیسے اُس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔پھر جب اُس کے پاس گیت گانے والیاں سوچ رہی تھیں کہ ماتم شروع کریں یا چپکے سے اُٹھ کر چلی جائیں ،تو اچانک گل بانو کہنے لگی : " کوئی عید کا چاند دیکھ رہا ہو اور پھر ایک دم عید کا چاند کنگن کی طرح زمین پر گِر پڑے تو کیسا لگے ؟ کیوں بہنو ! کیسا لگے ؟ “
اور وہ زور زور سے ہنسنے لگی اور مسلسل ہنستی رہی۔ایسا لگتا تھا کہ کوئی اُس کے پہلوؤں میں مسلسل گدگدی کئے جا رہا ہے ۔وہ اتنا ہنسی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور پھر وہ رونے لگی اور اُٹھی اور مہندی سے تُھپی ہتھیلیاں اپنے گھر کی کچی دیوار پر زور زور سے چھرر چھرر رگڑنے لگی اور چیخنے لگی۔جب تک اُس کے باپ کو لڑکیاں بلاتیں اس کی ہتھیلیاں چِھل گئی تھیں اور خون اُس کی کہنیوں پر سے ٹپکنے لگا تھا۔پھر وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی صبح تک اسے محرقہ بخار ہوگیا۔اسی بخار کی غنودگی میں اس کی دائیں ٹانگ رات بھر چارپائی سے لٹکی رہی اور ٹیڑھی ہوگئی۔پھر جب اس کا بخار اترا تو اس کے سر کے سب بال جھڑ گئے اس کی آنکھیں جو عام آنکھوں سے بڑی تھیں اور بڑی ہو گئیں اور اُن میں دہشت سی بھر گئی۔پھٹی پھٹی میلی میلی آنکھیں ،ہلدی سا پیلا چہرہ،اندر دھنسے ہوئے گال،خشک کالے ہونٹ اور اُس پر گنجا سر۔جس نے بھی اُسے دیکھا،آیت الکرسی پڑھتا ہوا پلٹ گیا۔پورے گاؤں میں یہ خبر گشت کر گئی کہ اپنے منگیتر کے مرنے کے بعد گل بانو پر جن آگیا ہے اور اب جن نہیں نکلا گل بانو نکل گئی ہے،اور جن بیٹھا رہ گیا ہے۔
یہیں سے گل بانو اور جِنوں کے رشتے کی بات چلی۔ساتھ ہی انہی دنوں اُس کا باپ چند روز بیمار رہا اور اپنے دُکھوں کی گٹھڑی گل بانو کے سر پر رکھ کر دوسری دنیا کو سدھار گیا۔باپ کی بیماری کے دنوں میں گل بانو ہاتھ میں باپ کی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی لے کر چند بار حکیم سے دوا لینے گھر سے نکلی،اور جب بھی نکلی بچے اُسے دیکھ کر بھاگ نکلے۔اسے گلی سے گزرتا دیکھ کر مسجد میں وضو کرتے ہوئے نمازیوں کے ہاتھ بھی رُک گئے ۔اور حکیم نے بھی ایک لاش کو اپنے مطب میں داخل ہوتا دیکھ کر گھبراہٹ میں اُسے نہ جانے کیا دے ڈالا کہ اُس کا باپ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔سنا ہے مرتے وقت اُس نے نہ خدا رسول کا نام لیا نہ کلمہ پڑھا بس کفر بکتا رہا کہ اچھا انصاف ہے ! یہ خوب انصاف ہے تیرا !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
قریب کا کوئی رشتہ دار پہلے ہی نہیں تھا دور کے رشتہ دار اور بھی دور ہو گئے۔مگر اللہ نے گل بانو کی روزی کا عجیب سامان کر دیا۔وہ جو پتھر کے اندر کیڑے کو بھی اُس کا رزق پہنچاتا ہے ،گل بانو کو کیسے بھولتا۔سو یوں ہوا کہ باپ کی موت کے تین دن بعد وہ ایک کھاتے پیتے گھر میں اس ارادے سے داخل ہوئی کہ پاؤ دو پاؤ آٹا ادھار مانگے گی۔اُس وقت سب گھر والے چولہے کے ارد گرد بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ۔گل بانو کو دیکھتے ہی سب ہڑبڑا کر اُٹھے اور کھانا وہیں چھوڑ کر مکان میں گُھس گئے۔گل بانو جو اس سے پہلے بچوں کی خوفزدگی کے منظر دیکھ چکی تھی ،سمجھ گئی اور مسکرانے لگی۔یوں جیسے کسی بےروزگار کی نوکری لگ جائے۔مکان کی دہلیز پر جا کر وہ کچھ کہنے لگی تھی کہ گھر کی بہو نے جس کا چہرہ فق ہورہا تھا ،اُس کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھ دئیے۔گل بانو ایکاایکی ہنسی کہ سب گھر والے ہٹ کر دیوار سے لگ گئے پھر وہ ہنستی ہوئی واپس آگئی۔
باقی آئیندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[/align:db5f0d4cf4]