صابرہ امین
لائبریرین
معزز محفلین، السلام علیکم
یہ افسانہ لکھنے کی میری پہلی کوشش ہے۔ تمام صاحب علم لوگوں اور سینئرز سے تنقیدی و اصلاحی مدد کی گزارش ہے۔ میں مشکور ہوں گی اگر مجھے میری لکھی گئی نثر کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کیا جائے۔ اس طرح مجھے یقینا اچھا لکھنے کی ترغیب ہو گی۔ شکریہ
وہ اسکول وین سے اتری اور ہمیشہ کی طرح اس نے کام سے واپسی پر سبزی اور گوشت کی خریداری کی۔ پیاز، آلو، مٹر، ٹماٹر اور ہرا مسالہ ساتھ ہی قیمہ اور کباب کے لیے چھوٹی بوٹیاں۔ یہ بھاری تھیلا اٹھا کر وہ دو طویل گلیاں پار کر کے گھر کے دروازے پر پہنچی اور ہانپتے ہوئے گھر کی بیل بجائی۔ دورازہ گھر کی مستقل ملازمہ کے بجائے اس کی شادی شدہ نند نے کھولا۔ اس نے مسکرا کر سلام کیا تو اس کی نند نے حسب معمول بیزاری سے جواب دیا اور بجائے تھیلا اٹھانے یا کم از کم پوچھنے کے دروازہ کھول کر یہ جا وہ جا۔ سارہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور اندر آ کے ساس کو سلام کیا جو سامنے آرام کرسی پر ہی بیٹھی تھیں ماسی رحمتے ان کے پاؤں میں مالش کر رہی تھی۔ سارہ کی ساس تو گویا اس کے انتظار میں ہی تھیں فورا بولیں، " بھئی کم از کم جلدی سے قیمہ چڑھا کر ساتھ ساتھ مٹر پلاؤ بنا لو ساتھ سویاں یا حلوہ، مونا کو آئے دو گھنٹے ہو چکے ہیں بس رحمتے چائے وغیرہ ہی بنا سکی ہے کہ میرے پیروں کی تکلیف آج کچھ بڑھ گئی ہے۔ فٹافٹ کھانا بنا لو بے چاری بھوکی ہو گی۔ اللہ جانے سسرال والوں نے کچھ کھانے دیا بھی یا نہیں۔ اب ہر ایک کی قسمت تو تم جیسی نہیں ہوتی کہ گھر بھر ہم نے تم پر چھوڑ رکھا ہے، سیاہ کرو یا سفید ۔۔ "
"جی امی ابھی بنا دیتی ہوں۔ سب سامان لے آئی ہوں آپ فکر نہ کیجیے۔"، اس نے گھبرا کر جلدی سے بات کاٹی اور کچن کا رخ کیا۔
سارہ کی شادی کو چھ سال بیت گئے تھے۔ تین بچوں کی ماں تھی۔ وہ شادی سے پہلے بھی نوکری کرتی تھی تو ساس کے زور دینے پر اس نے جاری رکھی کہ وہ ایک معقول تنخواہ پاتی تھی اس کے علاوہ اساتذہ کے بچے اس کے اسکول میں مفت تعلیم حاصل کرتے تھے۔ وہ شہر کے ایک مہنگے اسکول میں حساب پڑھاتی تھی۔ دیکھا جائے تو اسے نوکری کی چنداں ضرورت تو نہ تھی کہ اس کے شوہر نوید ایک بینک میں مناسب عہدے پر فائز تھے اور اس کی نوکری کے زیادہ حق میں نہ تھے، مگر ماں کے سمجھانے پر راضی ہو گئے تھے۔ ساس اس سے کم ہی بات کرتی تھیں مگر ماسی کے ہوتے ہوئے بھی سارا دن کاموں میں الجھائے رکھتیں۔ یہ سب بھی گوارہ تھا مگر جب مونا آ جاتی تو اس کی ساس مہمانداری کے ساتھ مونا کے سسرال کو صلاواتیں اور سارہ کو ایک جنت کا مکین ہونے کا بار بار باور کراتی جاتی تھیں۔
اس کی ساس نے کبھی مونا کو کام نہ کرنے دیا کہ ایک عورت کو تو ساری زندگی سسرال میں کام کرنا ہوتا ہے تو اپنے گھر ذرا آرام کر لے۔ سارہ نے شادی سے پہلے میکے میں اپنا گھر تو نہ سنبھالا ہوا تھا مگر شام کی چائے اور روٹیاں بنانا اس کی ذمہ داری اس کی امی نے لگا رکھی تھی۔ اس کے علاوہ ماسی سے کام کرانا اور گھر بھر کے چھوٹے موٹے کام بھی وہ بخوشی کرتی تھی۔ اس کی امی کا کہنا تھا کہ لڑکیوں ہی کو نہیں لڑکوں کو بھی گھر کے کام کرنے کی عادت ہونی چاہیے۔
مونا اس کی اکلوتی اور گھر بھر کی لاڈلی نند تھی۔ اس کی شادی کو پانچ مہینے ہی ہوئے تھے مگر ہر دوسرے تیسرے ہفتے وہ اپنے سسرال سے ہفتہ دس دن کے لیے میکے آ جاتی۔ وجہ کبھی لڑائی تو کبھی امی جی کی یاد ہوتا تھا۔ اس کا آنا ایک قیامت سے کم نہ ہوتا تھا۔ مہمانداری اپنی جگہ، کہ ہر مہمان اپنی قسمت کا کھاتا ہے، اصل مصیبت وہ سسرال کی ظلم کے قصے اوراس کے شوہر کی بے حسی اور بے جا چپ ہوا کرتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ بہو کو اس بھرے پرے گھر کی ملکہ اور عیش کرنے کا احساس دلانا شامل ہوتا تھا۔ اس کی ساس، شوہر اورحتی کہ کبھی کبھار وہ خود بھی اس کے سسرال پر غصہ ہوتی تھی کہ کیسے بےحس لوگ ہیں۔ دیکھنے میں کچھ اور اصل میں کچھ اور۔
کھانا بناتے بناتے ساڑھے چار بج گئے تو سارہ نے جلدی جلدی چار فرض نمٹا کر ٹیبل لگائی۔ گرما گرم آلو قیمہ، مٹر پلاؤ کے ساتھ فرج میں رکھے شامی کباب بھی تل لیے۔ سلاد اور رائتہ بنایا تھا کہ رحمتے بھی روٹیاں بنا کر فارغ ہو گئی تو وہ ساس کو اطلاع دینے ان کے کمرے پہنچی۔ اپنا نام سن کر یکدم اس کے قدم وہیں رک گئے۔ ساس جن کو وہ امی کہا کرتی تھی اس کی نند سے کہہ رہی تھیں" اب اس احمق سارہ کی طرح نہ ہو جانا کہ سر جھاڑ منہ پہاڑ گھر سے باہر دھکے کھاؤ اور نوکروں جیسا حلیہ بنا کر گھومو۔ پتہ نہیں میرے بیٹے کی قسمت کیسے پھوٹ گئی۔ اچھا ہے کہ تم نے اظفر کو قابو میں رکھا ہے۔ ابھی نئی نئی شادی کے دنوں میں اپنی بات منوائی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی سب کو اوقات پر رکھو۔ دیکھنا جلد ہی اپنے الگ گھر میں راج کرو گی۔" اس میں مزید سننے کی تاب نہ تھی۔ واپس کچن میں جا کر رحمتے سے ساس اور نند کو بلانے کا کہا۔ ساس سے طبیعت کی خرابی اور تھوڑا آرام کا کہا اور اپنے کمرے میں آ کر رونے لگی۔
یہ ساری محنت وہ اپنے لیے تو ہرگز نہ کرتی تھی۔ اس کے پاس اپنے لیے وقت ہوتا ہی کب تھا۔ شادی تو ذمہ داریوں کا دوسرا نام ثابت ہوئی تھی۔ اسے اس طرح محنت کرنے پر اعتراض بھی نہ تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ یہ سب وہ اپنے گھرانے کے لیے کر رہی ہے۔ مگر آج اپنے لیے احمق کا خطاب سن کر اس کو سخت ٹھیس لگی تھی۔ اسے اپنے اوپر رحم آنے لگا۔ اس نے سوچا کہ سب سے پہلے تو وہ اپنی بلاضرورت نوکری کو چھوڑے گی اور گھر میں ایک اضافی ماسی کا اضافہ کرے گی تاکہ وہ اس کی ساس کے انٹ شنٹ کام کرے۔ یہ سوچ کر اسے کچھ اچھا لگا اور کچھ عجیب سی الجھن بھی ہوئی۔ بے خیالی میں اس نے کمرے میں موجود ٹی وی آن کیا۔ تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پیش کیا جا رہا تھا۔ " اللہ کسی جان کو اس کی اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ اس نے جو نیکی کمائی اس کے لیے اس کا اجر ہے۔اور اس نے جو گناہ کمایا اس کے لیے اس کا عذاب ہے۔" یہ سننا تھا کہ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ساتھ ہی سکون کا احساس دل میں پیدا ہوا۔ واقعی اللہ نے اس میں اتنی طاقت رکھی تھی کہ آج سے پہلے وہ کبھی خود ترسی کا شکار نہ ہوئی تھی۔
اور پھر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کسی کی غلط بات کا برا نہ منائے گی کہ اس کے رب نے اسے اتنا مضبوط بنایا ہے اور اس گھر سے وابسطہ کیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کے شوہر کو اس سے شکایت نہیں بلکہ وہ اس کے اسطرح کام کرنے پر رشتہ داروں اور احباب میں اسے کھلے دل سے سراہتے ہیں۔ البتہ ساس کی اس بات کو ضرور دل پر لے گی کہ اپنے ظاہری حلیہ پر توجہ دے۔ اور رہی بات مونا کی تو یہ بات تو عیاں ہے کہ جو لوگ صرف اپنا سوچتے ہیں وہ حقیقی خوشیوں سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ سچی خوشیاں تو اپنے فرائض اور ارد گرد کے لوگوں کا خیال کر کے ہی حاصل ہوتی ہیں۔
یہ افسانہ لکھنے کی میری پہلی کوشش ہے۔ تمام صاحب علم لوگوں اور سینئرز سے تنقیدی و اصلاحی مدد کی گزارش ہے۔ میں مشکور ہوں گی اگر مجھے میری لکھی گئی نثر کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کیا جائے۔ اس طرح مجھے یقینا اچھا لکھنے کی ترغیب ہو گی۔ شکریہ
وہ اسکول وین سے اتری اور ہمیشہ کی طرح اس نے کام سے واپسی پر سبزی اور گوشت کی خریداری کی۔ پیاز، آلو، مٹر، ٹماٹر اور ہرا مسالہ ساتھ ہی قیمہ اور کباب کے لیے چھوٹی بوٹیاں۔ یہ بھاری تھیلا اٹھا کر وہ دو طویل گلیاں پار کر کے گھر کے دروازے پر پہنچی اور ہانپتے ہوئے گھر کی بیل بجائی۔ دورازہ گھر کی مستقل ملازمہ کے بجائے اس کی شادی شدہ نند نے کھولا۔ اس نے مسکرا کر سلام کیا تو اس کی نند نے حسب معمول بیزاری سے جواب دیا اور بجائے تھیلا اٹھانے یا کم از کم پوچھنے کے دروازہ کھول کر یہ جا وہ جا۔ سارہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور اندر آ کے ساس کو سلام کیا جو سامنے آرام کرسی پر ہی بیٹھی تھیں ماسی رحمتے ان کے پاؤں میں مالش کر رہی تھی۔ سارہ کی ساس تو گویا اس کے انتظار میں ہی تھیں فورا بولیں، " بھئی کم از کم جلدی سے قیمہ چڑھا کر ساتھ ساتھ مٹر پلاؤ بنا لو ساتھ سویاں یا حلوہ، مونا کو آئے دو گھنٹے ہو چکے ہیں بس رحمتے چائے وغیرہ ہی بنا سکی ہے کہ میرے پیروں کی تکلیف آج کچھ بڑھ گئی ہے۔ فٹافٹ کھانا بنا لو بے چاری بھوکی ہو گی۔ اللہ جانے سسرال والوں نے کچھ کھانے دیا بھی یا نہیں۔ اب ہر ایک کی قسمت تو تم جیسی نہیں ہوتی کہ گھر بھر ہم نے تم پر چھوڑ رکھا ہے، سیاہ کرو یا سفید ۔۔ "
"جی امی ابھی بنا دیتی ہوں۔ سب سامان لے آئی ہوں آپ فکر نہ کیجیے۔"، اس نے گھبرا کر جلدی سے بات کاٹی اور کچن کا رخ کیا۔
سارہ کی شادی کو چھ سال بیت گئے تھے۔ تین بچوں کی ماں تھی۔ وہ شادی سے پہلے بھی نوکری کرتی تھی تو ساس کے زور دینے پر اس نے جاری رکھی کہ وہ ایک معقول تنخواہ پاتی تھی اس کے علاوہ اساتذہ کے بچے اس کے اسکول میں مفت تعلیم حاصل کرتے تھے۔ وہ شہر کے ایک مہنگے اسکول میں حساب پڑھاتی تھی۔ دیکھا جائے تو اسے نوکری کی چنداں ضرورت تو نہ تھی کہ اس کے شوہر نوید ایک بینک میں مناسب عہدے پر فائز تھے اور اس کی نوکری کے زیادہ حق میں نہ تھے، مگر ماں کے سمجھانے پر راضی ہو گئے تھے۔ ساس اس سے کم ہی بات کرتی تھیں مگر ماسی کے ہوتے ہوئے بھی سارا دن کاموں میں الجھائے رکھتیں۔ یہ سب بھی گوارہ تھا مگر جب مونا آ جاتی تو اس کی ساس مہمانداری کے ساتھ مونا کے سسرال کو صلاواتیں اور سارہ کو ایک جنت کا مکین ہونے کا بار بار باور کراتی جاتی تھیں۔
اس کی ساس نے کبھی مونا کو کام نہ کرنے دیا کہ ایک عورت کو تو ساری زندگی سسرال میں کام کرنا ہوتا ہے تو اپنے گھر ذرا آرام کر لے۔ سارہ نے شادی سے پہلے میکے میں اپنا گھر تو نہ سنبھالا ہوا تھا مگر شام کی چائے اور روٹیاں بنانا اس کی ذمہ داری اس کی امی نے لگا رکھی تھی۔ اس کے علاوہ ماسی سے کام کرانا اور گھر بھر کے چھوٹے موٹے کام بھی وہ بخوشی کرتی تھی۔ اس کی امی کا کہنا تھا کہ لڑکیوں ہی کو نہیں لڑکوں کو بھی گھر کے کام کرنے کی عادت ہونی چاہیے۔
مونا اس کی اکلوتی اور گھر بھر کی لاڈلی نند تھی۔ اس کی شادی کو پانچ مہینے ہی ہوئے تھے مگر ہر دوسرے تیسرے ہفتے وہ اپنے سسرال سے ہفتہ دس دن کے لیے میکے آ جاتی۔ وجہ کبھی لڑائی تو کبھی امی جی کی یاد ہوتا تھا۔ اس کا آنا ایک قیامت سے کم نہ ہوتا تھا۔ مہمانداری اپنی جگہ، کہ ہر مہمان اپنی قسمت کا کھاتا ہے، اصل مصیبت وہ سسرال کی ظلم کے قصے اوراس کے شوہر کی بے حسی اور بے جا چپ ہوا کرتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ بہو کو اس بھرے پرے گھر کی ملکہ اور عیش کرنے کا احساس دلانا شامل ہوتا تھا۔ اس کی ساس، شوہر اورحتی کہ کبھی کبھار وہ خود بھی اس کے سسرال پر غصہ ہوتی تھی کہ کیسے بےحس لوگ ہیں۔ دیکھنے میں کچھ اور اصل میں کچھ اور۔
کھانا بناتے بناتے ساڑھے چار بج گئے تو سارہ نے جلدی جلدی چار فرض نمٹا کر ٹیبل لگائی۔ گرما گرم آلو قیمہ، مٹر پلاؤ کے ساتھ فرج میں رکھے شامی کباب بھی تل لیے۔ سلاد اور رائتہ بنایا تھا کہ رحمتے بھی روٹیاں بنا کر فارغ ہو گئی تو وہ ساس کو اطلاع دینے ان کے کمرے پہنچی۔ اپنا نام سن کر یکدم اس کے قدم وہیں رک گئے۔ ساس جن کو وہ امی کہا کرتی تھی اس کی نند سے کہہ رہی تھیں" اب اس احمق سارہ کی طرح نہ ہو جانا کہ سر جھاڑ منہ پہاڑ گھر سے باہر دھکے کھاؤ اور نوکروں جیسا حلیہ بنا کر گھومو۔ پتہ نہیں میرے بیٹے کی قسمت کیسے پھوٹ گئی۔ اچھا ہے کہ تم نے اظفر کو قابو میں رکھا ہے۔ ابھی نئی نئی شادی کے دنوں میں اپنی بات منوائی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی سب کو اوقات پر رکھو۔ دیکھنا جلد ہی اپنے الگ گھر میں راج کرو گی۔" اس میں مزید سننے کی تاب نہ تھی۔ واپس کچن میں جا کر رحمتے سے ساس اور نند کو بلانے کا کہا۔ ساس سے طبیعت کی خرابی اور تھوڑا آرام کا کہا اور اپنے کمرے میں آ کر رونے لگی۔
یہ ساری محنت وہ اپنے لیے تو ہرگز نہ کرتی تھی۔ اس کے پاس اپنے لیے وقت ہوتا ہی کب تھا۔ شادی تو ذمہ داریوں کا دوسرا نام ثابت ہوئی تھی۔ اسے اس طرح محنت کرنے پر اعتراض بھی نہ تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ یہ سب وہ اپنے گھرانے کے لیے کر رہی ہے۔ مگر آج اپنے لیے احمق کا خطاب سن کر اس کو سخت ٹھیس لگی تھی۔ اسے اپنے اوپر رحم آنے لگا۔ اس نے سوچا کہ سب سے پہلے تو وہ اپنی بلاضرورت نوکری کو چھوڑے گی اور گھر میں ایک اضافی ماسی کا اضافہ کرے گی تاکہ وہ اس کی ساس کے انٹ شنٹ کام کرے۔ یہ سوچ کر اسے کچھ اچھا لگا اور کچھ عجیب سی الجھن بھی ہوئی۔ بے خیالی میں اس نے کمرے میں موجود ٹی وی آن کیا۔ تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پیش کیا جا رہا تھا۔ " اللہ کسی جان کو اس کی اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ اس نے جو نیکی کمائی اس کے لیے اس کا اجر ہے۔اور اس نے جو گناہ کمایا اس کے لیے اس کا عذاب ہے۔" یہ سننا تھا کہ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ساتھ ہی سکون کا احساس دل میں پیدا ہوا۔ واقعی اللہ نے اس میں اتنی طاقت رکھی تھی کہ آج سے پہلے وہ کبھی خود ترسی کا شکار نہ ہوئی تھی۔
اور پھر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کسی کی غلط بات کا برا نہ منائے گی کہ اس کے رب نے اسے اتنا مضبوط بنایا ہے اور اس گھر سے وابسطہ کیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کے شوہر کو اس سے شکایت نہیں بلکہ وہ اس کے اسطرح کام کرنے پر رشتہ داروں اور احباب میں اسے کھلے دل سے سراہتے ہیں۔ البتہ ساس کی اس بات کو ضرور دل پر لے گی کہ اپنے ظاہری حلیہ پر توجہ دے۔ اور رہی بات مونا کی تو یہ بات تو عیاں ہے کہ جو لوگ صرف اپنا سوچتے ہیں وہ حقیقی خوشیوں سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ سچی خوشیاں تو اپنے فرائض اور ارد گرد کے لوگوں کا خیال کر کے ہی حاصل ہوتی ہیں۔
آخری تدوین: