گرو جی
محفلین
آپ لوگوںنے بہت سی شادیاں دیکھیں ہوں گی اور آپ کے بہت سے تجربات بھی ہوئے ہوںگے، مگر میںایک ایسی شادی کا احوال یہاںبیاںکروں گا جو کہ شاید آپ نے نہ کبھی سنا ہوا گا اور نہ کبھی دیکھا ہوگا۔
تو حضرات یہ شادی تھی میرے عزیز دوست کی جو کہ دسمبر 2007 میں وقوع پذیر ہوئی۔
قصہ کچھ ہوںکہ دوست نے شادی پر مدعو کیا اور مین برق زرق لباس زیبِ تن کر کے اس کی بارات پر چلا گیا اپنے ایک اور مشترکہ دوست کے ساتھ اپنی گاڑی میں۔
تو جناب جب ہم وہاں پہنچے تو لوگ دلہے کے ساتھ ساتھ علاقے میں چل رہے تھے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے بارات والے دن کہ دوست یار ناچتے گاتے جاتے ہیں۔
خیر ہم پیچے کی طرف کھڑے ہو کے محوِ نظارا تھے اور اپنے دوست کو تلاش کر رہے تھے جو کہ بارات کے درمیان ہونا چاہیے تھا مگر نظر نہیںآیا۔
ہم پریشان ہونے ہی والے تھے کہ یا خدایا کہ دولہا کہاں گیا کہ ہمیں پیچھے سے آواز آئی۔ مڑ کر دیکھا تو دولہا ایک کونے میں اکیلا کھڑا ہوا نظر آیا حیراں و پریشاں سا، نزدیک آ کہ معاجرا پوچھا تو کہنے لگا کہ یہ لوگ آگے ناچ رہے ہیں اور جو دولہے کے ساتھی تھے وہ پیسے لوٹنے میںلگے ہوئے تھے۔
خیر ہم دولہے کے ساتھ چل رہے تھے کہ اچانک دولہے کی نظر میری پوشاک پر پڑ گئی اور اس نے غصے میں کہا کہ شادی میری ہے اور دولہا تو بنا ہوا ہے۔ اب مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ بھائی نارمل سے کپڑوں میں ہی نکل پڑیں گے شادی کرنے اور میں دوست کی شادی ہونے کے ناطے شیروانی پہن لوںگا۔
خیر اب بارات آگے آگے ہم پیچھے۔ دولہے کا بھائی جامِ انگور پی کر آیا ہوا تھا اور جہاں اس کا دل کر رہا تھا فائر کر رہا تھا اور دو تیںبار تو لوگوں نے زمیں پر لیٹ کر جان بچائی ورنہ شادی کے بجائے میت کا سماں ہوجانا تھا۔ خیر ہم دوست کے بھائی پر غصہ ہو رہے تھے کہ ہماری ںظر دوست کے ماموں پر پڑی جو کہ اس کے بھائی سے بھی زیادہ مدہوش تھے۔ دوست کا بھائی تو پھر بھی سن رہا تھا مگر ماموںتو میں ہوں اپنی َدھن میںمگن والی صورتحال میں گھوم برابر جھوم رہے تھے۔ اب دولہن کا گھر وہاں سے کچھ فاصلے پر تھا مگر ان کے ماموں اور بھائی کی پینے کی وجہ سے ہم ایک گھنٹہ گھومتے رہے کیوں کہ ان کو راستہ َسجھائی نہیںدے رہا تھا اور کسی میں ہمت نہیںتھی کہ انہیںصحیح راستہ سمجھائے۔ خیر وہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ دولہا کے والد صاحب نہ جانے کہاںسے وارد ہو گئے اور انہوں نے اپنی نگرانی میں دولہن کے گھر پہنچایا ورنہ ہم تو سمجھ گئے کہ رات سڑکوں پر بسر ہوگی۔
خیر اب اللہ اللہ کر کے دولہن کے گھر پہنچے تو وہاں بھی فاہرنگ شروع ہو گئی اور ہم تو پریشاں ہو گے کہ یا خدایا کہیں جنگ کے میدان میں تو نہیں آ گئے۔ یہاں سے دولہا کا بھائی اور ماموں فائرنگ کر رہے تھے اور وہاںسے دولہن کے رشتے دار وہ تو شکر تھا کہ ہوائی فائرنگ تھی اسٹیریٹ فائرنگ نہیںتھی ورنہ لاشوں کے انبار لگ جاتے۔
اچھا جی اب دولہا کو دولہن والے گھر لے گئے کیوں کہ گلی میں انتظام نہیںتھا۔ اب دولہا کا بھائی بھی باہر اور اس کے والد صاحب بھی باہر۔ اب ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب نکاح ہوا اور کب چھوہارےتقسیم ہوئے، ویسے میرے اندازے کے مطابق چھوہارے نہیں تھے کیوںکہ دولہے کا باپ برات میں نظر نہیںآیا اور دولہے کا بھائی ہوش میںنہیںتھا۔
اب رات کے گیارہ بج رہے تھے اور کھانے کا کچھ پتہ نہیں تھا اور دولہے کے شہ بالے بھی باہر بلکے ٹینٹ کے بلکل سامنے کھڑے ہوئے تھے کھانے کے شروع ہونے کے انتظار میں۔ خدا خدا کر کے "کھانے کھا لیں" کی صدا آئی اور احباب نے اس صدا کو غیبی ندا سمجھا اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھتے کہ کیاارشاد ہوا ہے، ٹینٹ بند۔
ہم پریشان کہ کیا ہوگیا تو معلوم ہوا کہ ہاؤس فل، اب 10 سیکنڈ میں 100 بندے کیسے داخل ہو گئےکھانے کے پنڈال میں بشمول دولہے کے بھائی، ماموں اور ابو سمیت۔
ہمیں تو سمجھ نہیں آیا اور آپ لوگوںکے بھی سمجھ نہیںآئے گی۔ اب بارہ بجے لوگ وہاں سے گڑتے پڑتے باہر نکلے، کھانا کھانے کہے بعد تو کچھ ہی افراد بچ گئے تھے اب دس منٹ کے بعد پنڈال میں صرف وہی اشخاص رہ گئے تھے جو اس دس میٹر کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکے تھے یعنی طعام تک نہیںپہنچ سکے تھے۔
خیر اب دوبارہ آواز نہیںلگائی گئی کہ کھانا تناول فرما لیں اور یہاں ہماری آنتیں ساری قرآنی آیات پڑھ رہیں تھیں کہ کہیں سے اچانک دولہے میاں کے ابو نظر آئے اور انھوں نے ازراہِ تکلف پوچھ لیا کہ بیٹا کھانا کھایا کہ نہیں اور ہم تو گویا مسیحا مل گیا والی بات کے مصداق فوراً اگل گئے کہ نہیں انکل نہیںکھایا ابھی تک، تو انھوں نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتےہوئے ہمیں کھانے کے پنڈال میںپہنچا کر کہ خود فرشتے کی طرح غائب ہو گئے۔
اب ہم پریشاں کھڑے ہوئے تھے کہ کوئی صاحب آئے اور اںہوں نے ہمیں کھانا دیا اور ہم نے اللہ کا شکر ادا کرتےہوئے کھانا کھایا۔ اب کھانا کس طرح کھایا اور کس صورتحال میں کھایا یہ بذاتِ خود ایک کہانی ہے۔
خیر اب رات کے 12:30 ہو رہے تھے کہ دوست کا فون آیا اور بجائے یہ پوچھنے کے کھانا کھایا کہ نہیںحکم کے انداز میں کہنے لگا کہ میرے والدیںکو گھر چھوڑ آؤ تو پھر جب ہم نے اس کی فون پر ہی آؤ بھگت تو فوراً منت سماجت پر اتر آیا کہ شادی والے دن تو نہ ذلیل کرو،
توحضرات ہم نے بھی ترس کھا کر ہامی بڑھ لی۔ اب ان کے ابو کو چھوڑنے گئے مین روڈ تک تو ان کے ابو نے اپنے بیٹے کووہ صلواتیں سنائیں، کہ منح کیا تھا ابھی شادی مت کرے اور وکالت میں کیریر بنائے۔
یا خدایا یہ کیسے لوگ ہیں نا باپ کو خوشی نا بھائی کو پرواء اور والدہ اپنے چکروں میں مگن، جب ان سے گھر جانے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ تھک گیا ہوں اور یہ سالا ابھی دو گھنٹے سے پہلے نہیں آئے گا اور والدہ کا خیال تھا کہ وہ گھر جا کہ کمرے کی آرائش کریں گی جو کہ صبح تک پھر خراب ہو جائے گی۔
خیر انہیںبس تک چھوڑا اور وہ پریشان ہو گئے کہ بس خالی خولی تھی جب کہ ان کے اندازے کے مطابق بس میں جگہ نہیںہونی چاہیے تھی احباب کی وجہ سے، اب انھیں کیا پتہ کے لوگ کھانا کھا کہ چڑیوںکی طرح اڑ گئے تھے۔
خیر اب پھر دوست کا فون آیا کہ یار پلیز تم میرے ساتھ جانا، تو ہم بھی رک گئے اب ہمیںکیا معلوم تھا کہ کس عذاب میںپھسنے جا رئے ہیں۔ خیر دولہن کے گھر پہنچے تو پتہ لگا کہ دوست کہ شہ بالے بھاگ گئے کھانا کھا کہ اور ان کو فون کر کے بلایا گیا ہے تا کہ بقایا رسومات (شادی والی رسومات ہیں ناکہ میت والی (انجام پذیر ہو سکیں
۔ اللہ اللہ کر کے کوئی رات کے دو بجے دولہن کی رخصتی ہونے لگی اور دو عرصہ ہم نے کیسے گزارا یہ اللہ ہی جانتا ہے کیوں کہ دوست کا بھائی ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گیا اور میری کسی بات پر ہسنا شروع ہوا تو ہمیں اس کو چپ کرانا عذاب ہو گیا کیوں کہ عرقِ انگور پینے کہ بعد آپ کسی کے قابو میںنہیںآتے۔
خیر آخر کار وہ وقت آ پہنچا کہ جب دولہں کی رخصتی ہونی تھی اب گاڑی کو دولہں کے گھر کے سامنے کھڑا کیا اور دولہں کو بٹھایا اور دولہا بیٹھنے ہی لگا تھا کہ گاڑی کے چاروںدروازے بند اور دولہا زمیں پر دھڑام ، پتہ چلا کہ دولہں بمعہ گھر والوں کے گاڑی میں بیٹھ گئی اور اب گاڑی میں جگہ نہیں رہی ۔ ہے نا انوکھی بات۔ اب کیا کریں تو دولہں نے مشورہ دیا کہ دوستوں کی گاڑی میں آ جائیں تو دولھا بمعہ ماموں اور خالہ جو ہمارے اندازے کے مطابق دولہں کی گاڑی میں ہونے چاہیے تھے میری گاڑی میں دولہے کے گھر پہنجے
اب یہ تھا بارات کا احوال ۔ ولیمہ کا احوال انشااللہ کل سناؤں گا۔
شکریہ اتنی لمبی تحریر پڑھنے کا
تو حضرات یہ شادی تھی میرے عزیز دوست کی جو کہ دسمبر 2007 میں وقوع پذیر ہوئی۔
قصہ کچھ ہوںکہ دوست نے شادی پر مدعو کیا اور مین برق زرق لباس زیبِ تن کر کے اس کی بارات پر چلا گیا اپنے ایک اور مشترکہ دوست کے ساتھ اپنی گاڑی میں۔
تو جناب جب ہم وہاں پہنچے تو لوگ دلہے کے ساتھ ساتھ علاقے میں چل رہے تھے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے بارات والے دن کہ دوست یار ناچتے گاتے جاتے ہیں۔
خیر ہم پیچے کی طرف کھڑے ہو کے محوِ نظارا تھے اور اپنے دوست کو تلاش کر رہے تھے جو کہ بارات کے درمیان ہونا چاہیے تھا مگر نظر نہیںآیا۔
ہم پریشان ہونے ہی والے تھے کہ یا خدایا کہ دولہا کہاں گیا کہ ہمیں پیچھے سے آواز آئی۔ مڑ کر دیکھا تو دولہا ایک کونے میں اکیلا کھڑا ہوا نظر آیا حیراں و پریشاں سا، نزدیک آ کہ معاجرا پوچھا تو کہنے لگا کہ یہ لوگ آگے ناچ رہے ہیں اور جو دولہے کے ساتھی تھے وہ پیسے لوٹنے میںلگے ہوئے تھے۔
خیر ہم دولہے کے ساتھ چل رہے تھے کہ اچانک دولہے کی نظر میری پوشاک پر پڑ گئی اور اس نے غصے میں کہا کہ شادی میری ہے اور دولہا تو بنا ہوا ہے۔ اب مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ بھائی نارمل سے کپڑوں میں ہی نکل پڑیں گے شادی کرنے اور میں دوست کی شادی ہونے کے ناطے شیروانی پہن لوںگا۔
خیر اب بارات آگے آگے ہم پیچھے۔ دولہے کا بھائی جامِ انگور پی کر آیا ہوا تھا اور جہاں اس کا دل کر رہا تھا فائر کر رہا تھا اور دو تیںبار تو لوگوں نے زمیں پر لیٹ کر جان بچائی ورنہ شادی کے بجائے میت کا سماں ہوجانا تھا۔ خیر ہم دوست کے بھائی پر غصہ ہو رہے تھے کہ ہماری ںظر دوست کے ماموں پر پڑی جو کہ اس کے بھائی سے بھی زیادہ مدہوش تھے۔ دوست کا بھائی تو پھر بھی سن رہا تھا مگر ماموںتو میں ہوں اپنی َدھن میںمگن والی صورتحال میں گھوم برابر جھوم رہے تھے۔ اب دولہن کا گھر وہاں سے کچھ فاصلے پر تھا مگر ان کے ماموں اور بھائی کی پینے کی وجہ سے ہم ایک گھنٹہ گھومتے رہے کیوں کہ ان کو راستہ َسجھائی نہیںدے رہا تھا اور کسی میں ہمت نہیںتھی کہ انہیںصحیح راستہ سمجھائے۔ خیر وہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ دولہا کے والد صاحب نہ جانے کہاںسے وارد ہو گئے اور انہوں نے اپنی نگرانی میں دولہن کے گھر پہنچایا ورنہ ہم تو سمجھ گئے کہ رات سڑکوں پر بسر ہوگی۔
خیر اب اللہ اللہ کر کے دولہن کے گھر پہنچے تو وہاں بھی فاہرنگ شروع ہو گئی اور ہم تو پریشاں ہو گے کہ یا خدایا کہیں جنگ کے میدان میں تو نہیں آ گئے۔ یہاں سے دولہا کا بھائی اور ماموں فائرنگ کر رہے تھے اور وہاںسے دولہن کے رشتے دار وہ تو شکر تھا کہ ہوائی فائرنگ تھی اسٹیریٹ فائرنگ نہیںتھی ورنہ لاشوں کے انبار لگ جاتے۔
اچھا جی اب دولہا کو دولہن والے گھر لے گئے کیوں کہ گلی میں انتظام نہیںتھا۔ اب دولہا کا بھائی بھی باہر اور اس کے والد صاحب بھی باہر۔ اب ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب نکاح ہوا اور کب چھوہارےتقسیم ہوئے، ویسے میرے اندازے کے مطابق چھوہارے نہیں تھے کیوںکہ دولہے کا باپ برات میں نظر نہیںآیا اور دولہے کا بھائی ہوش میںنہیںتھا۔
اب رات کے گیارہ بج رہے تھے اور کھانے کا کچھ پتہ نہیں تھا اور دولہے کے شہ بالے بھی باہر بلکے ٹینٹ کے بلکل سامنے کھڑے ہوئے تھے کھانے کے شروع ہونے کے انتظار میں۔ خدا خدا کر کے "کھانے کھا لیں" کی صدا آئی اور احباب نے اس صدا کو غیبی ندا سمجھا اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھتے کہ کیاارشاد ہوا ہے، ٹینٹ بند۔
ہم پریشان کہ کیا ہوگیا تو معلوم ہوا کہ ہاؤس فل، اب 10 سیکنڈ میں 100 بندے کیسے داخل ہو گئےکھانے کے پنڈال میں بشمول دولہے کے بھائی، ماموں اور ابو سمیت۔
ہمیں تو سمجھ نہیں آیا اور آپ لوگوںکے بھی سمجھ نہیںآئے گی۔ اب بارہ بجے لوگ وہاں سے گڑتے پڑتے باہر نکلے، کھانا کھانے کہے بعد تو کچھ ہی افراد بچ گئے تھے اب دس منٹ کے بعد پنڈال میں صرف وہی اشخاص رہ گئے تھے جو اس دس میٹر کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکے تھے یعنی طعام تک نہیںپہنچ سکے تھے۔
خیر اب دوبارہ آواز نہیںلگائی گئی کہ کھانا تناول فرما لیں اور یہاں ہماری آنتیں ساری قرآنی آیات پڑھ رہیں تھیں کہ کہیں سے اچانک دولہے میاں کے ابو نظر آئے اور انھوں نے ازراہِ تکلف پوچھ لیا کہ بیٹا کھانا کھایا کہ نہیں اور ہم تو گویا مسیحا مل گیا والی بات کے مصداق فوراً اگل گئے کہ نہیں انکل نہیںکھایا ابھی تک، تو انھوں نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتےہوئے ہمیں کھانے کے پنڈال میںپہنچا کر کہ خود فرشتے کی طرح غائب ہو گئے۔
اب ہم پریشاں کھڑے ہوئے تھے کہ کوئی صاحب آئے اور اںہوں نے ہمیں کھانا دیا اور ہم نے اللہ کا شکر ادا کرتےہوئے کھانا کھایا۔ اب کھانا کس طرح کھایا اور کس صورتحال میں کھایا یہ بذاتِ خود ایک کہانی ہے۔
خیر اب رات کے 12:30 ہو رہے تھے کہ دوست کا فون آیا اور بجائے یہ پوچھنے کے کھانا کھایا کہ نہیںحکم کے انداز میں کہنے لگا کہ میرے والدیںکو گھر چھوڑ آؤ تو پھر جب ہم نے اس کی فون پر ہی آؤ بھگت تو فوراً منت سماجت پر اتر آیا کہ شادی والے دن تو نہ ذلیل کرو،
توحضرات ہم نے بھی ترس کھا کر ہامی بڑھ لی۔ اب ان کے ابو کو چھوڑنے گئے مین روڈ تک تو ان کے ابو نے اپنے بیٹے کووہ صلواتیں سنائیں، کہ منح کیا تھا ابھی شادی مت کرے اور وکالت میں کیریر بنائے۔
یا خدایا یہ کیسے لوگ ہیں نا باپ کو خوشی نا بھائی کو پرواء اور والدہ اپنے چکروں میں مگن، جب ان سے گھر جانے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ تھک گیا ہوں اور یہ سالا ابھی دو گھنٹے سے پہلے نہیں آئے گا اور والدہ کا خیال تھا کہ وہ گھر جا کہ کمرے کی آرائش کریں گی جو کہ صبح تک پھر خراب ہو جائے گی۔
خیر انہیںبس تک چھوڑا اور وہ پریشان ہو گئے کہ بس خالی خولی تھی جب کہ ان کے اندازے کے مطابق بس میں جگہ نہیںہونی چاہیے تھی احباب کی وجہ سے، اب انھیں کیا پتہ کے لوگ کھانا کھا کہ چڑیوںکی طرح اڑ گئے تھے۔
خیر اب پھر دوست کا فون آیا کہ یار پلیز تم میرے ساتھ جانا، تو ہم بھی رک گئے اب ہمیںکیا معلوم تھا کہ کس عذاب میںپھسنے جا رئے ہیں۔ خیر دولہن کے گھر پہنچے تو پتہ لگا کہ دوست کہ شہ بالے بھاگ گئے کھانا کھا کہ اور ان کو فون کر کے بلایا گیا ہے تا کہ بقایا رسومات (شادی والی رسومات ہیں ناکہ میت والی (انجام پذیر ہو سکیں
۔ اللہ اللہ کر کے کوئی رات کے دو بجے دولہن کی رخصتی ہونے لگی اور دو عرصہ ہم نے کیسے گزارا یہ اللہ ہی جانتا ہے کیوں کہ دوست کا بھائی ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گیا اور میری کسی بات پر ہسنا شروع ہوا تو ہمیں اس کو چپ کرانا عذاب ہو گیا کیوں کہ عرقِ انگور پینے کہ بعد آپ کسی کے قابو میںنہیںآتے۔
خیر آخر کار وہ وقت آ پہنچا کہ جب دولہں کی رخصتی ہونی تھی اب گاڑی کو دولہں کے گھر کے سامنے کھڑا کیا اور دولہں کو بٹھایا اور دولہا بیٹھنے ہی لگا تھا کہ گاڑی کے چاروںدروازے بند اور دولہا زمیں پر دھڑام ، پتہ چلا کہ دولہں بمعہ گھر والوں کے گاڑی میں بیٹھ گئی اور اب گاڑی میں جگہ نہیں رہی ۔ ہے نا انوکھی بات۔ اب کیا کریں تو دولہں نے مشورہ دیا کہ دوستوں کی گاڑی میں آ جائیں تو دولھا بمعہ ماموں اور خالہ جو ہمارے اندازے کے مطابق دولہں کی گاڑی میں ہونے چاہیے تھے میری گاڑی میں دولہے کے گھر پہنجے
اب یہ تھا بارات کا احوال ۔ ولیمہ کا احوال انشااللہ کل سناؤں گا۔
شکریہ اتنی لمبی تحریر پڑھنے کا