احوال ِغریباں ہے کہ سوزِ رواں ہے

اصلاح


  • Total voters
    2

ابن رضا

لائبریرین
تازہ غزل برائے اصلاح حاضرِ خدمت ہے

احوال ِغریباں ہے یا سوزِ رواں ہے
صد حیف کہ خون ارزاں اور آب گراں ہے

جائے تو کہاں جائے نادارِ زمانہ
یاں پیشِ نظر سب کے اب سُود و زِیاں ہے

نایا ب ہوئے جب سے ایثار و محبت
ہر آنکھ میں آنسو ہیں ہر لب پہ فُغاں ہے

مفقود تھی پہلے ہی کردار کی عظمت
گفتار کا غازی بھی اب شعلہ فِشاں ہے

کیوں بھول گئے ہم وہ الفاظ سنہری
وہ بابِ اخوّت جو قرآں میں بیاں ہے



ٹیگ: اساتذہ کرام و برادران
مفعول مفاعیلن مفعول فَعولن یا مفاعیل
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
بحر تو واقعی بڑی منفرد اختیار کی ہے ابن رضا بھاءی۔جیسا کہ اسامہ بھاءی صاحب نے فرمایا۔کچھ گزارشات بطور تبصرہ پیش ہیں۔
آب کا استعمال اردو مین بطور نامکمل ترکیب تک روا سمجھا جاتا ہے۔مثلاۛ ۔آبِ رواں۔ فقرے کی صورت میں مجرد استعمال بہت عجیب لگتا ہے۔اسی طور سے فارسی الفاظ محل کے حساب سے برتے جاءیں۔مثلاً از قبل وغیرہ بھی فقرے کی شکل میں لہجے کو متاثر کر رہاہے۔۔۔کہیں کہیں لہجہ کچھ غیر واضح بھی ہے اور توجہ مرکوز نہیں کر پارہا مثلاً مسءول عمر ۔۔۔
نادار زمانہ کے لیے مفرد صیغہ زیادہ موزوں ہوگا۔۔۔
لیکن مجموعی طور پر بحر کا تجربہ اچھا ہے۔یہ سب ذاتی راءے ہے۔
 
میرے خیال میں اس سے ملتا جلتا مشہور وزن اس کے آخر میں ایک سبب خفیف کے اضافے کے ساتھ یہ ہے:
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
یارب! دل مسلم کو
وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے
جو روح کو تڑپا دے
ارکان ممکن ہے یوں ہوں یا یوں ہوں: مفعول فعولن مفعولات مفاعیلن
 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا بھائی اس بحر کی کوئی اور(مشہور) غزل (یا نظم) اگر مہیا ہو تو عنایت کریں ۔خواہ کسی شاعر کی بھی ہو ۔
بڑا مشکل کام سونپ دیا ہے آپ نے۔ کوشش کرتا ہوں شاید مل جائے ۔ ویسے ایک اور بہتر حل ہے کہ اس کو دوبارہ اس وزن پر پیش کرتا ہوں
مفعول مَفاعیل مَفاعیل فَعولن
کیا خیال ہے؟:)
 

الف عین

لائبریرین
خوب بحر ہے، ویسے میں نے اس کی تقطیع اس طرح کی
مفعول مفاعیلن مفعول فعولن یا مفاعیل

احوال ِغریباں ہے کہ سوزِ رواں ہے
صد حیف کہ خون ارزاں اور آب گراں ہے
÷÷پہلے مصرع میں کہ بر وزن کے اچھا نہیں لگتا، یاں ’یا‘ کہنے میں کیا قباحت ہے؟

جائے تو کہاں جائے نادارِ زمانہ
کہ پیشِ نظر سب کے اب سُود و زِیاں ہے
÷÷یہاں بھی وہی ’کہ‘ بر وزن ’کے‘

مرتے ہیں یہاں پل پل، افلاس کے مارے
مسئول عُمَر ہے؟ تو بولے وہ کہاں ہے؟
۔۔واضح نہیں ہو سکا، روانی بھی مار لھا رہی ہے ‘تو بولے وہ‘ میں،

نایا ب ہوئے جب سے ایثار و محبت
ہر آنکھ میں آنسو ہیں ہر لب پہ فُغاں ہے
÷÷درست

مفقود تھی پہلے ہی کردار کی عظمت
گفتار کا غازی بھی اب شعلہ فِشاں ہے
۔۔ درست

ہم بھول کیوں بیٹھے ہیں وہ حرف سنہری
وہ بابِ اخوّت جو قرآں میں بیاں ہے
÷÷پہلے مصرع میں کیوں‘ محض ’کُ‘ تقطیع ہو رہا ہے جو نا گوار لگتا ہے۔ اور پھر ایک ہی حرف؟
 
بڑا مشکل کام سونپ دیا ہے آپ نے۔ کوشش کرتا ہوں شاید مل جائے ۔ ویسے ایک اور بہتر حل ہے کہ اس کو دوبارہ اس وزن پر پیش کرتا ہوں
مفعول مَفاعیل مَفاعیل فَعولن
کیا خیال ہے؟:)
نہیں، رہنے دیں، اب تو اصلاح بھی ہوچکی ہے اور مانوس بھی لگنے لگا ہے۔ :)
 
درست افاعیل وہی ہیں جو استاد محترم الف عین نے بتائے۔

یہ وزن یہاں سے آیا:

مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولن
مفعولُ مفاعیل مفاعیلُ فعولن

اان دونوں اوزان کا خلط بھی جائز ہے۔
اس میں ایک سبب خفیف بڑھا دیں تو بنے گا:

مفعولُ مفاعیل مفاعیل مفاعیلن
جس سے یہ وزن بھی بنتا ہے جیسا اوپر بتایا گیا:
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن

اور اس میں ایک سبب خفیف کم کیا جائے تو بنتا ہے:
مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعل

یہ رباعی کا بنیادی وزن ہے۔

ان میں ہر ایک وزن سے سولہ 16 اوزان بنتے ہیں۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
درست افاعیل وہی ہیں جو استاد محترم الف عین نے بتائے۔

یہ وزن یہاں سے آیا:

مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعولن
مفعولُ مفاعیل مفاعیلُ فعولن

اان دونوں اوزان کا خلط بھی جائز ہے۔
اس میں ایک سبب خفیف بڑھا دیں تو بنے گا:

مفعولُ مفاعیل مفاعیل مفاعیلن
جس سے یہ وزن بھی بنتا ہے جیسا اوپر بتایا گیا:
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن

اور اس میں ایک سبب خفیف کم کیا جائے تو بنتا ہے:
مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعل

یہ رباعی کا بنیادی وزن ہے۔

ان میں ہر ایک وزن سے سولہ 16 اوزان بنتے ہیں۔ :)

شکریہ شیخ صاحب اگر مذکور افاعیل درست ہیں تو پھر جو تقطیع عروض ڈاٹ کام کر رہا ہے وہ غیر حقیقی ہے تو سید ذیشان صاحب کو رپورٹ کرنا چاہیےیہ مسئلہ؟؟
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فَعولن مفعولاتُ فَعولن
http://www.aruuz.com/Create/Output/21383#
 
آخری تدوین:
Top