یاسر شاہ
محفلین
"اختلافِ امّت اور صراطِ مستقیم"پر ایک تبصرہ
"اختلافِ امّت اور صراطِ مستقیم" میری ان پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے کہ جس نے میری زندگی میں انقلاب برپا کر دیا -اس کی اثر آفرینی ، تہلکہ انگیزی اور امپیکٹ(impact)کا اندازہ یوں لگائیے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں اس کتاب کو بین (ban) کر دیا گیا اور صاحبِ تصنیف کو شہید کر دیا جا چکا-یہ تبصرہ لکھتے وقت، یہ کتاب کراچی کے بڑے بڑے کتب خانوں میں بھی دستیاب نہیں تھی -الامان الحفیظ -اس عالم اور علم دشمنی کی کوئی حد ہے -
تم نے سچ بولنے کی جرات کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی
لدھیانہ بھارت کا وہ شہر ہے جہاں بڑی نادرِ روزگار ہستیوں نے جنم لیا،جن میں بے باکی اور صاف گوئی بطور ایک امتیازی خصوصیت کے نمایاں رہی ہے-یہ لوگ جس کو درست سمجھتے تھے، اس کا اظہار بےدریغ کرتے تھے -مصلحت اندیشی ان کےاظہاریوں میں کبھی رکاوٹ نہ بنتی -چنانچہ اس وقت میری نگاہِ تخیّل میں چار لوگ ہیں جن کا تعلّق لدھیانہ سے تھا-دو الحادکی طرف مائل اور مذہب بیزار شخصیات اور دو الحاد سے بیزار دیندار ہستیاں ، مگر وہی اظہاریے کی بیباکی چاروں میں قدرِمشترک تھی -پہلی دو شخصیات تھیں ساحر لدھیانوی اور سعادت حسن منٹو کی اور دوسری دو ہستیاں تھیں مفتی رشید احمد لدھیانوی (بانیِ مدرسہ جامعة الرشید)اور مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی-
یہ کتاب اختلافِ امّت اور صراطِ مستقیم مولانا یوسف لدھیانوی کی معرکہ آرا تصنیف ہے -یہ تصنیف کیا ہے'دراصل مفصّل جوابات ہیں ایک سائل کے سوالات کے -ایک ایساسائل جو ان مصرعوں کی مصداق تھا :
نہ کوئی جادۂ منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انھی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھوکر
میں جانتا ہوں مری ہم نفس مگر یوں ہی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
چنانچہ ان کبھی کبھی آنے والے خیالات کو بصورت سوالات و اشکالات مولانا کے سامنے خط کے ذریعے پیش کیا گیا اور مولانا نے ان سب سوالات و اشکالات کا ایک ایک کر کے تشفی بخش جواب اور حل پیش کر دیا - یوں کئی زندگیاں جادۂ منزل اور روشنی کا سراغ پا کر خلاؤں میں بھٹکنے سے بچ گئیں -اور صلے میں حضرت نے کراچی میں دو گولیاں سینے اور گردن پر کھا کر جام شہادت نوش کیا -
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَؕ-قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ(۲۶)بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُكْرَمِیْنَ(۲۷) (سورۂ یس)
ترجمہ :"(شہادت کےبعد) اس سےکہا جائےگا، بہشت میں داخل ہو جاؤ وہ کہے گا، اے کاش! میری قوم جان لیتی کہ میرے پروردگار نے مجھے کیسے بخش دیا اور اپنے معزز بندوں میں سےقرار دیاہے۔"
اس کتاب کی چند جھلکیاں پیش کرتا ہوں :
ایک اورحدیث میں ہے :
"جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا -اس لیے میرے طریقے کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو ! اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو -اور دیکھو ! جو باتیں نئی نئی ایجادکی جائیں گی ان سے احتراز کیجیو -اس لیے کہ ہر وہ چیز (جو دین کے نام پر ) نئی ایجادکی جائے وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے-
ایک جگہ لکھتے ہیں :
"بدعت کے علاوہ آدمی جو گناہ بھی کرتا ہے اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں ایک غلط کام کر رہا ہوں -وہ اس گناہ پر پشیمان ہوتا ہے اور اس سے توبہ کر لیتا ہے -مگر "بدعت " ایسا منحوس گناہ ہے کہ کرنے والا اس کو غلطی سمجھ کر نہیں بلکہ ایک "اچھائی" سمجھ کر کرتا ہے اور شیطان اس گناہ کو اس کی نظر میں ایسا خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے کہ اسے اپنی غلط روی کا کبھی احساس ہی نہ ہو پائے اور وہ مرتے دم تک توبہ سے محروم رہے -یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے گنہگاروں اور پاپیوں کو توبہ کی توفیق ہو جاتی ہے مگر بدعت کے مریض کو کبھی شفا نہیں ہوتی الّا یہ کہ خدائے تعالیٰ کی خاص رحمت اس کی دست گیری کرے اور اس کی برائی اس کے سامنے کھل جائے" -
ایک اور جگہ رقم طرازہیں:
"میں اس تصور کو ساری گمراہیوں کی جڑ سمجھتا ہوں کہ صحابہ کرام تابعینِ عظام، ائمہِ ہدی اور اکابرِ امت نے فلاں مسئلہ صحیح نہیں سمجھا -اور آج کے کچھ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی رائے ان اکابر کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے -نعوذ باللہ"
"اختلافِ امّت اور صراطِ مستقیم" راقم الحروف کی زندگی میں بھی تبدیلی کا باعث بنی - واقعہ یوں ہے کہ احقر کبھی مودودی صاحب کے اسلوبِ نگارش کا قتیل رہا ہے-ان سےبڑھ کرکوئی خیرخواہِ امّت نظر ہی نہیں آتا تھااور کوئی نہ کوئی ان کی کتاب سائڈ ٹیبل پہ دھری ہی رہتی-مولانا لدھیانوی صاحب کی جب مذکورہ تصنیف پڑھی تو ہوش ٹھکانے آئے - لغزشِ قلم بالخصوص جو امہات المومنین اور صحابہ کے باب میں روا رکھی گئی ہے نہایت ناروا اورباعث رنج و صدمہ ہے-اس کا احساس جب ہوا تو مودودی کی ساری کتب جماعتِ اسلامی کو عطیہ کر دیں -
اس کتاب کا ایک اہم پہلو تنقید کا باریک ، نازک اور پیچیدہ کام ہے - بہت سے فرقوں کا باطل ہونا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ،مشکل وہاں پیدا ہوتی ہے جب تنقیدنگار کونہاں معاملات کو عیاں کرنا ہو اور وہ بھی روز روشن کی طرح -ظاہر ہےایک وابستہ آدمی کی بات کسی وابستہ آدمی کے لیے حجت تبھی ہو سکتی ہے جب وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو -تبھی تنقید اس قابل ہوسکتی ہے کہ تقریر و تحریر کا سحر توڑ سکے اور فطری انرشیا(inertia)کی قیدسےآزاد کرا سکے-
کتاب سے اس کے چند نادر نمونے پیش خدمت ہیں :
"چنانچہ موصوف نے اکابر پر تنقید کرنے کو اپنے نیاز مندوں کے لیے جزوِ ایمان ٹھہرا دیا -"دستورِ جماعتِ اسلامی " کی دفع ٣ میں کلمہِ طیب کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"رسولِ خداﷺؒ کے سوا کسی انسان کو معیارِ حق نہ مانے -کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے -کسی کی ذاتی غلامی میں مبتلا نہ ہو -ہر ایک کو خدا کے بتائے ہوئے اسی معیار پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہے اس کو اسی درجے پر رکھے"-
ذہنی غلامی کی اصطلاح مولانا نے تقلید کے معنی میں استعمال فرمائی ہے -یعنی کسی فردیاگروہ کے علم و عمل اور دیانت و تقویٰ پر اس قدر وثوق و اعتماد کر لینا کہ اس کی ہر بات پر طلبِ دلیل کی حاجت نہ رہے -یہ مولانا کے نزدیک ذہنی غلامی ہے ،گویا ان کی جماعت کا کوئی فرد اگر رسولِِ خدا کے سوا کسی جماعت، گروہ یافرد پر اعتماد کر بیٹھا ،اس کے طریقے کو حق سمجھ لیا ،اور اس پرتنقیدکافرض ادا نہ کیاتو مولانا کے نزدیک وہ خدانخواستہ اسلام ہی سےخارج ہے -"
ایک اور جگہ یوں تبصرہ فرماتے ہیں :
"سب سے بڑھ کر تکلیف دہ چیز یہ ہے کہ تیرہ چودہ سو سال کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے مولانا عدالتِ شرعیہ قائم کرتے ہیں -جس کے صدر نشین وہ خود بنتے ہیں -اکابر صحابہ کو اس عدالت میں ملزم کی حیثیت سے لایا جاتا ہے -واقدی و کلبی وغیرہ سے شہادتیں لی جاتی ہیں -صدرِ عدالت خود ہی جج بھی ہے اور خود ہی وکیل استغاثہ بھی -اگر سلف صالحین اکابر صحابہ کی صفائی میں کچھ عرض و معروض کرتے ہیں تو اسے وکیلِ صفائی کے خواہ مخواہ سخن سازی اور غیر معقول تاویلات کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے___اس طرح یکطرفہ کارروائی کے بعد مولانا اپنی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرتے ہیں اور اسے "خلافت و ملوکیت " کے نام سے قوم کی بارگاہ میں پیش کر دیتے ہیں -"
کتاب میں ایک جگہ مودودیت کی نشاندہی یوں کرتے ہیں:
"اس کی ایک مثال امہات المومنین کے حق میں موصوف کا یہ فقرہ ہے:
وہ نبی کریم ﷺؒ کے مقابلے میں کچھ زیادہ جری ہوگئی تھیں اور حضور ﷺؒ سے زبان درازی کرنے لگی تھیں
-(ہفت روزہ ایشیا لاہور مورخہ ١٩ نومبر ١٩٧٦)
مولانا موصوف نے یہ فقرہ ازواج النبی ﷺؒ کے بارے میں فرمایا ہے مگر میں اس کو مضاف سے زیادہ مضاف الیہ کے حق میں سوءِ ادب سمجھتا ہوں -
یہ تو ظاہر ہے کہ مولانا محترم کی اہلیہ محترمہ امہات المومنین سے بڑھ کر مہذب اور شائستہ نہیں نہ وہ خود آنحضرت ﷺؒ سے زیادہ مقدّس ہیں -اب اگر ان کاکوئی عقیدت مند یہ کہہ ڈالے کہ مولانا کی اہلیہ مولانا کے سامنے زبان درازی کرتی ہیں تو مولانا اس فقرے میں اپنی خفّت اور ہتک عزت محسوس فرمائیں گے ،پس جو فقرہ خود مولانا کے حق میں گستاخی تصور کیا جاتا ہے وہ آنحضرتﷺؒ اور امہات المومنین کے حق میں سوئے ادب کیوں نہیں؟"
مولانا کےاس علمی کارنامے پہ علمی تنقید کی اہلیت تو مجھ میں نہیں البتہ ان کی تحریر اور اسلوبِ نگارش میں اعتدال کا رنگ بہت نمایاں ہے جو مجھ ایسے ہر عام قاری کو واضح نظر آتا ہے-سوالات میں چونکہ مختلف مکاتب فکر کے متعلق پوچھا گیا تھا لہٰذافرداً فرداً سب کے متعلق صاف صاف لکھنا تو ذمّے داری تھی سو بخوبی ادا کی گئی مگر جوابات میں کہیں بھی ہلکا سا تاثر یہ نہیں ملتا کہ چونکہ مولانادیوبندی ہیں چنانچہ سائل کو بھی دیوبندی ہو جانا چاہیےبلکہ مولانا نے ابتداجن نکات سےکی ہے وہ اس قدر آفاقی ہیں کہ ہر مسلک کے متلاشیانِ حق کے لیے یکساں مفید اور مشعلِ راہ ہیں -وہ نکات درج ذیل ہیں:
"آپ اور آپ کے رفقاء کی دین سے دلچسپی لائقِ مبارکباد ہے ،مگر میرا مشوره یہ ہے کہ اس دلچسپی کا رخ بحث و مباحثے سے ہٹا کر دین کے سیکھنے سکھانے ،اس کے عملی تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کوڈھالنے اور آنحضرتﷺؒ کے مبارک طریقوں کو اپنی اور دوسروں کی زندگی میں لانے کی طرف پھیرنا چاہیے -اور میرا یہ معروضہ دو وجوہات پر مبنی ہے ،ایک یہ کہ بحث و مباحثے سے انسان کی قوت عمل مفلوج ہو جاتی ہے -مسند احمد،ترمذی،ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں آنحضرتﷺؒکاارشادگرامی ہے :
ترجمہ :جو قوم ہدایت سے ہٹ کر گمراہ ہو جاتی ہے، اسے جھگڑا دے دیاجاتاہے-
پس کسی قوم کا بحث مباحثوں اور جھگڑوں میں الجھ کر رہ جانا ،اس کے حق میں کسی طرح نیک فال قرار نہیں دیا جا سکتا -
دوسری وجہ یہ ہے کہ بحث و مباحثے میں عام طور سے سمجھنے سمجھانے کا جذبہ مغلوب ہوجاتا ہے اور اپنی اپنی بات منوانے کا جذبہ غالب آجاتا ہے -خصوصاً جبکہ آدمی علومِ شرعیہ سے پورے طور پرواقف نہ ہو،وہ حدود شرعیہ کی رعایت کرنے سے قاصر رہتا ہے -بسا اوقات ایسا ہوگا کہ ایک چیز غلط اور ناحق ہوگی ،مگر وہ اسےحق ثابت کرنے کی کوشش کرے گا -بسا اوقات اس بحث و مباحثے میں وہ الله تعالیٰ کے مقبول بندوں کی عیب جوئی کرے گا اور ان پر زبانِ طعن دراز کر کے اپنانامۂ اعمال سیاہ کرے گا -یہ ساری چیزیں مل کر اسے نہ صرف جذبۂ عمل سے محروم کریں گی ،بلکہ اس کی ذہنی ساخت میں قبول حق کی استعداد کم سے کم ہو جائے گی-
اس لیے میرا مخلصانہ مشوره یہ ہے کہ آپ صاحبان میں سے جس کو جس عالمِ دین پر اعتماد ہے اور وہ جس عالم دین کے بارے میں دیانت داری سے یہ سمجھتا ہےکہ یہ خدا ترس ،محقق عالم دین ہے اور محض رضا ئے الہی کی خاطر خدا تعالیٰ کا پیغام اور آنحضرت ﷺؒ کے ارشادات لوگوں تک پہنچاتا ہے ،اس کے ارشاد کے مطابق عمل کرتے ہوئے کام میں لگا رہے اور ان بحث و مباحثوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ذکر و تسبیح ،درود شریف ،تلاوت قرآن مجید اور دیگر خیر کے کاموں سے اپنے اوقات کو معمور رکھے -"
مضمون کا ربط