اختلاف کیسے کریں؟

عرفان سعید

محفلین
خواہ مخواہ کا اختلاف
قرۃ العین فاطمہ
دنیا اختلافات سے بھری پڑی ہے۔ ہر کسی کو اختلاف ہوتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو شدید۔ اختلافات کئی طرح کے ہوتے ہیں کچھ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، کچھ سرکاری، قومی اور بین الاقوامی سطح کے، کچھ اختلافات خوامخواہ کے ہوتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ایک مشہور اینکر پرسن نے اپنے شاگردوں کو کامیابی کا جو پہلا اصول سکھایا وہ یہی تھا ”خومخواہ کا اختلاف“ ۔ فرمانے لگے بیٹا کامیابی اسی میں ہے کہ ایک اچھے خاصے لاجیکل پوائنٹ پر جب کوئی اختلاف نہ کر سکو تو بھی اس پر تنقید کرو۔ ہار نہ مانو مجھے اختلاف ہے کہہ کر اگلی بات پر آ جا۔ ایک کونے سے کسی دانشمند نے کہا یہ کیسا اختلاف ہے۔ میں نے تنقید کا حق استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اسے خوامخواہ کا اختلاف کہتے ہیں۔

آواز سامعین تک محدود رہی۔ پہنچ جاتی تو یقیناً استاد محترم اس سے بھی خوامخواہ اختلاف کر کے مجھے خوامخواہ سزا کے طور پر کھڑا رکھتے ۔۔۔ ویسے اختلاف سے بھاگنا نہیں چاہیے اسے ضرور کرنا چاہیے لیکن خوامخواہ نہیں کرنا چاہیے۔ اختلافات زندگی کا حُسن ہوتے ہیں۔ یہ اتنے حُسین ہوتے ہیں کہ یکسر کسی کی زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ اس کی سوچ اور فکر کو ایک نئی راہ پر ڈال کر اس کے لیے کامیابی کے راستے کھول دیتے ہیں۔ یہ اتنے پاور فُل ہوتے ہیں کہ بعض اوقات مجموعی زندگیوں میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی لے آتے ہیں۔ سرکار نے فرمایا میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے۔ تنقید اختلاف کا حصہ ہے، تنقید ذہنی افق کو وسیع کرتی ہے۔ تنقید علمی تحفہ ہے۔ تنقید اور اختلاف سے انسان خود کو دریافت کر سکتا ہے۔ تنقید سے ایک گفتگو کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں اور انسان کے اندر تخلیقی سوچ کو پیدا کرتی ہے۔ تنقید اور اختلاف کو اگر تحمل سے برداشت کیا جائے تو خود اعتمادی کی دولت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

مشاورت کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا کہ جب مشورہ کیا جاتا ہے تو اس میں بہت سے لوگ اختلاف بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں کسی اچھے نتیجہ پر بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اختلاف کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہم تذلیل کو بھی اختلاف رائے کا نام دے دیتے ہیں۔ ہم سر عام بے عزتی کر کے کہتے ہیں یہ تنقید ہے۔ اختلاف رائے تو نعمت ہے اور تنقید ایک علمی تحفہ ہے۔ لیکن مجموعی طور پر ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اختلاف ہماری زندگیوں میں کیسے تبدیلی لا سکتا ہے۔ اختلاف کیسے کیا جائے۔ تنقید کو کیوں کر برداشت کیا جائے۔ تنقید اور تذلیل میں کیا فرق ہے ۔ اس لیے کہ یہ تمام چیزیں ہماری تربیت اور معیار کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں تخلیق میں جمود ہے اس لیے کہ علمی موضوعات ہوں یا دوسرے معاملات ہم اس پر اختلاف رائے کرتے ہیں اور پھر کرتے ہی چلے جاتے جس کا مقصد دوسرے کو زچ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تعمیری اختلاف کا حُسن یہ ہے کہ اس کا انجام کسی ایک نقطے پر اتفاق پر ہوتا ہے۔

اگر اتفاق نہیں بھی ہوتا تو وہ سوچ کے کئی نئے اُفق سامنے لے کر آتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اول تو تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ خود اختلاف کے حق کو انجوائے کیا جاتا ہے لیکن دوسرے کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔ ہمارے ہاں ایک اور طریقہ بھی رائج ہے۔ ہم اختلاف کر کے پھر اس کو دوسرے پر مسلط بھی کرنے لگتے ہیں۔

اختلافات نظریات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مقلدانہ ذہنیت بھی ہے۔ جو جس نقطے پر کھڑا ہے وہ اس پر ڈٹ جاتا ہے۔ عموماً شخصیت پرستی بھی اس کی وجہ ہے۔ اکثر دوست احباب کے درمیان کسی موضوع پر اختلاف ہو جاتا ہے۔ وہ اس اختلاف کو شخصیات سے منسوب کر اس کے تمام دوسرے پہلوں پر سوچ کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔ لیکن ایک صاحب علم کے لیے سب سے اہم چیز تبادلہ خیال ہوتی ہے، تنقید ایک موضوع ہوتا ہے یہ دو شخصیات کے درمیان صرف ڈسکشن ہی تو ہے۔ جب شخصیات کے اثر اور اپنے مخصوص نظریات سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو انسان کتنا آزاد ہے۔ وہ آزادانہ غور و فکر کر سکتا ہے۔ اور اس فکر سے ترقی کے تمام راستے کھلتے ہیں۔ یہ آزادانہ فکر تنقید مانگتی ہے۔ یہ چاہتی ہے اس کے ساتھ ہر کوئی اختلاف کرے۔ اور پھر یہ سوچ ایک رہنما سوچ بن جاتی ہے۔ بصورت دیگر انسان وہی سوچتا ہے جو اس پر مسلط ایک شخصیت سوچتی ہے اور وہ تمام عمر وہی سوچتا چلا جاتا ہے۔ وہ کسی دلیل اور اختلاف کو نہیں مانتا۔ اس کی بنیاد پروہ خوامخواہ کے اختلافات سے نہ صرف اپنا وقت برباد کرتا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ تنقید اور اختلاف کو ایک اصول کی نظر سے دیکھنا چاہیے نہ کہ اس کو ذاتی سمجھا جائے یا شخصی۔ تنقید کا موضوع اتنا دلچسپ ہے کہ اسے نصاب کا حصہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ جو لوگ تنقید برداشت نہیں کرتے وہ اپنے اندر چھپی صلاحیتیوں سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتے۔ تنقید اجتہاد کے راستوں کو بھی کھولتی ہے۔ جہاں اجتہاد رُک جاتا ہے وہاں ترقی رُک جاتی ہے۔ لیکن اس کے لیے تنقید کا تنقید ہونا ضروری ہے نہ کہ تنقیص۔ تنقید علمی اور منظقی تجزیہ ہے جبکہ تنقیص جسے خوامخواہ کا اختلاف بھی کہا جا سکتا ہے، کا سارا انحصار عیب جوئی اور الزامات تراشی اور دوسرے کی تذلیل پر ہوتا ہے جس کا حاصل باہمی بغض و عناد اور منافرت ہے جس سے معاشرے میں فتنہ و فساد اور انارکی کا راستہ کھلتا ہے۔ ہماری تربیت جو خوامخواہ اختلافات پر مبنی اس کو آنے والی نسلوں میں منتقل نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام سکھانے کی ضرورت ہے۔ اختلاف کے لیے بلند کی جانے والی آواز دلیل ہو نہ کہ گالی۔

تنقید کو مسکرا کر ویلکم کرنے سے ہمارے اندر برداشت کے رویوں کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اختلافات کے ساتھ دوسروں کو قبول کرنا سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سب ممکن ہے جب ہم اپنے اپنے خول سے باہر نکلیں گے۔ یہ خول مخصوص نظریات اور شخصیات کا خول ہے جو ہم پر قابض ہو چکا ہے۔ اس کے بعد جو اختلافات اٹھیں گے وہ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ورنہ خوامخواہ کی تنقید اور اختلافات تخریب کو جنم دیتے رہیں گے۔

 

عرفان سعید

محفلین
تنقید اور آدابِ تنقید
طالب محسن​

ہمارے ہاں،علمی مذاکرے کے لیے ،فضا ساز گار نہیں ہے۔ علمی تنقید و تجزیہ،اختلاف کے بجائے،بالعموم، مخالفت پر محمول کیا جاتا ہے۔بطور خاص،وہ لوگ،جو کسی خاص فکر کے داعی ہوتے ہیں اور اسی حوالے سے،معاشرے میں ان کی ایک شناخت ہوتی ہے،ان کی طرف سے، اکثر و بیش تر، صحیح رویہ سامنے نہیں آتا۔وہ جو کچھ بھی کسی نقد واعتراض کے سلسلے میں،لکھتے یا کہتے ہیں،وہ محض ایک جوابی کارروائی ہوتی ہے۔ اسے،کسی طرح بھی ،علمی تنقید نہیں کہا جا سکتا،اس لیے کہ علمی تنقید کے کچھ مسلمہ اصول ہیں اور اس طرح کی تحریروں یا تقریروں میں یہ اصول کم ہی ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔ جسے ہم علمی تنقید کا اصل الاصول قرار دے سکتے ہیں،وہ بھی اس سلسلے میں دیے گئے جوابات میں پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ہونا تویہ چاہیے کہ مخاطب کے نقطۂ نظر کی اصل و فرع کومتعین کرنے کے بعد،پہلے اصل اور بعد میں فروع کو زیر بحث لایا جائے، اس لیے کہ ہر علمی نقطۂ نظر کسی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، لہٰذا، اگر بنیادی غلطی کی نشان دہی نہیں کی جائے گی تو فروع پر چلائے گئے تیشے کوئی حقیقی نتیجہ پیدا نہیں کر سکیں گے۔اور دوسری طرف اصل و بنیاد کو نظر انداز کر کے محض اجزا کو زیر بحث لانے سے یہ تاثر ہوتا ہے کہ جواب دیتے وقت اصل حقیقت سے گریز کر کے محض الجھاؤ پیدا کرنا مقصود ہے۔چنانچہ قارئین،بسا اوقات،یہ رائے قائم کر لیتے ہیں کہ تنقید کرنے والے کے پاس پیش آنے والے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔درآں حالیکہ، دین کا ایک عالم جس کی قرآن و سنت پر نظر ہواور اس نے دوسرے اہل علم سے فیض صحبت بھی پایا ہو،وہ جو نقطۂ نظر بھی اختیار کرتا ہے،اس کے بارے میں یہی سمجھنا چاہیے کہ اس کی بنیاد کسی خواہش پر نہیں، بلکہ قرآن و سنت پر ہوتی ہے۔اس وجہ سے، اس کی رائے کو قبول یارد کرنے میں عجلت یا جذباتیت سے گریز لازم ہے۔اگرچہ صاحب علم،جس درجے کا بھی ہو،ضروری نہیں کہ اپنی ہر تحقیقی کاوش میں صحیح نتیجہ ہی اخذ کرے۔ اور یہ ایک ایسی واقعی حقیقت ہے کہ علمی دنیا سے متعلق کوئی بھی شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔

ایک اور اہم حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ بسا اوقات، کسی رائے میں غلطی بہت دور بنیاد میں واقع ہوتی ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں تنقید، بالعموم، غیر حقیقی محسوس ہوتی ہے اور آدمی کو باور نہیں آتا کہ''محکم بنیادوں'' پر قائم کسی کا فکری نظام ایسا غلط بھی ہو سکتا ہے۔

دعوت کا کام کرنے والوں کو جاننا چاہیے کہ اپنے عقیدے یا عمل میں غلطی مان لینا، اس دارالامتحان کی ایک بڑی آزمایش ہے۔ لیکن، اس میں بھی شبہ نہیں کہ ہر بڑی آزمایش کی طرح اس میں بھی پورا اترنے والے کے لیے بڑا اجر ہے۔ چنانچہ، تنقید کے جواب میں ایک ہی رویہ ایسا ہے، جو روز آخر میزان کو بھاری کرے گا اور وہ یہ ہے کہ اپنی رائے میں غلطی کا امکان مان کر تنقید کو دیکھا جائے اور دل میں بھی یہی خیال رہے کہ ہو سکتا ہے، تنقید کسی حق کو دریافت کر لینے میں مدد گار ثابت ہو۔ ہر صاحب حق کے لیے یہی ایک راستہ جو اسے، بہرحال، اختیار کرنا چاہیے۔ دوسری طرف تنقید کرنے والے کا اصل محرک بھی دین کے لیے خیر خواہی اور فرد سے ہمدردی پر مبنی ہونا چاہیے اور اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کی تنقید بھی غلط ہو سکتی ہے، اس لیے اس کے پیش نظر ہمیشہ احقاق حق ہو اور اس کی غرض دوسرے کو، ہر حال میں، غلط ثابت کرنا نہ ہو۔

یہ ایک عالم گیر سچائی ہے کہ آخری کامیابی حق ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ، اگر حق سے گریز کی جائے گی تو آدمی کامیابی سے یقیناًمحروم ہی رہے گا، خواہ یہ حق کسی ایسے آدمی کے پاس ہو جو ہمارے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے اور خواہ ہماری آرا برسوں کی سوچ بچار کا نتیجہ ہی کیوں نہ ہوں

ربط
 

عرفان سعید

محفلین
تنقید
منظور الحسن
کسی مضمون پر تنقید اصلاً ایک مثبت عمل ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں علم و دانش کے نئے دریچے کھلتے ہیں۔اگر کوئی بات مصنف کے سہو یا سوء فہم کے نتیجے میں غلط طور پر بیان ہو گئی ہوتو اس کا امکان ہوتا ہے کہ وہ تنقید کی روشنی میں اپنی تالیف پر نظر ثانی کرے گا۔ چنانچہ یہ بات بالکل بجا ہے کہ تنقید وہ زینہ ہے جس پر علم اپنے ارتقا کی منزلیں طے کرتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ علمی ارتقا کی خدمت کا فریضہ صرف اور صرف وہی تنقید انجام دیتی ہے جس میں مصنف کا نقطۂ نظر تعصب سے بالاتر ہو کر پوری دیانت داری سے سمجھا گیا ہو اور بے کم و کاست بیان کیا گیا ہو،جس میں مصنف کے محرکات طے کر کے انھیں ہدف تنقید بنانے کے بجاے اس کے استدلال کے نکات کو متعین کرکے ان پر تنقید کی گئی ہو، جس میں ضمنیات کو نمایاں کرکے ان پرمباحث لکھنے کے بجاے اساسات کو بنیاد بنا کر ان پر بحث کی گئی ہو اورجس میں الزام تراشی، دروغ گوئی اور دشنام طرازی کے بجاے سنجیدہ اور شایستہ اسلوب بیان میں اپنی بات سمجھائی گئی ہو۔ اگر کوئی تنقید ان معیارات پر پوری نہیں اترتی تو صاف واضح ہے کہ وہ علم کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔علم کی دنیا میں اس کی حیثیت محض رطب و یابس کی ہوتی ہے اور اصحاب علم و دانش اس سے اعتنا برتنے کو بھی غیر علمی رویے پر محمول کرتے ہیں۔

ربط
 

عرفان سعید

محفلین
تنقیدی شعور
خورشید ندیم

فکر و نظر کی دنیا میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔یہ غو رو فکر کا مسلسل عمل ہے جو کسی سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔اس سے جہاں روایت پر نئی نسل کا ایمان پختہ ہوتا ہے، وہاں اسے یہ موقع ملتا ہے کہ نئے دریافت شدہ حقائق کو بھی اپنے افکار کا حصہ بناتے رہیں۔تاہم سوچ بچار کایہ عمل اسی وقت نتیجہ خیزہوتا اور مثبت ارتقا کو یقینی بناتا ہے جب یہ تنقیدی شعور سے بہرہ مند ہو۔

تنقیدی شعور فکری ارتقا کو ایک نظم کا پابند بناتا ہے۔اس کے آداب متعین کرتا ہے۔وہ کسی سیاق و سباق کو پیش نظر رکھتا ہے۔ ناقد کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس پہلو پر تنقید کر رہا ہے۔سماج بھی تنقید کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔لوگوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ کسی موقف کو پرکھ سکیں۔ان پر اس کے مثبت پہلو واضح ہوں اور ساتھ منفی بھی۔یوں یہ تنقید ایک مثبت عمل بنتی اور معاشرے کو فکری سرمایے سے مالا مال کردیتی ہے۔اس سے مکالمے کا کلچرپیدا ہوتا ہے۔مناظرے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، جو تلاش حق سے زیادہ برتری کی منفی نفسیات کوفروغ دیتا ہے۔

یہ تنقیدی شعور دو امور کے تابع ہے: فکری پختگی اورعلمی دیانت۔علم پختہ نہ ہو تو زیرِ تنقید موقف کی درست تفہیم نہیں ہوتی۔ناقد تنقید کو سیاق و سباق کا پابند نہیں رکھ سکتا۔اس طرح تنقید کے نام پر رطب و یابس کا ایک مجموعہ وجود میں آتا ہے۔ اس سے فکری پراگندگی تو پیدا ہو سکتی ہے، نظری ارتقا نہیں۔دیانت نہ ہو تو تنقید کے نام پر بہت سی ایسی باتیں زیر تنقید فکر یا شخصیت سے منسوب کر دی جاتی ہیں جو اس کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہوتیں۔ بایں ہمہ،ادھوری بات بتائی جاتی ہے اور دوسری باتوں کو چھپایا جاتا ہے۔

تنقیدی شعور اگر پختہ اور آداب کا پابند ہو تو کس طرح فکری ارتقا کا سامان کرتا ہے، مسلمانوں کی علمی روایت اس کی ایک اچھی مثال ہے۔مسلمانوں کے علمی ذخیرے میں بہت سی روایات ''احادیث پیغمبر'' کے عنوان سے شامل ہیں جوصریحاً قرآن مجید اور عقل سلیم کے خلاف ہیں۔اسی ذخیرے میں اُن اہل علم کی تحقیق بھی موجود ہے جنھوں نے دلائل کے ساتھ بتایا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی روایات کاانتساب ثابت نہیں۔اس کے باوجود ایسی روایات کو پذیرائی ملتی اور وہ مسلسل بیان ہو تی رہتی ہیں۔مثلاً امام غزالی کی ''احیاء علوم الدین'' ہے۔ اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر مسلمانوں کا تمام تر علمی سرمایہ دریا برد ہوجائے اور یہ کتاب محفوظ رہ جائے تو بھی اطمینان رکھنا چاہیے کہ کچھ ضائع نہیں ہوا۔یہ کتاب بے بنیاد روایات سے مملو ہے۔اس پرامام ابن تیمیہ کی تنقید موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ ابن جوزی نے ''الاحیاء'' کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں ان روایات کی کم زوری کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود امام غزالی کے سند سے ایسی روایات مسلسل بیان ہو رہی ہیں۔

جدید ذہن کا آدمی جب ایسی روایات کو پڑھتا ہے تو اس کے خانۂ دل میں تشکیک کی کھڑکی کھل جاتی ہے۔اہل علم تواس حقیقت کو پا لیتے ہیں کہ چند روایات کے مشتبہ ہونے سے یہ حقیقت متاثر نہیں ہوتی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دین کا مستقل ماخذ ہے جس کی بنیاد چند راویوں کی سند پر نہیں۔اس کی اساس امت کے تواتر پر ہے۔مزید یہ کہ محدثین کی غیر معمولی محنت اورعرق ریزی نے سنگ ریزوں اور جواہر کو اس طرح الگ کر دیا ہے کہ کوئی کم زور بات دین میں جگہ نہیں بنا سکتی۔سب لوگ، مگر رسوخ فی العلم نہیں رکھتے۔چونکہ یہ روایات اس کے باوجود مسلسل بیان ہوتی ہیں،اس لیے تشکیک کی کھڑکی بند نہیں ہوتی۔جب کچھ لوگ اس تنقیدی پہلوکو نظر انداز کرتے ہیں تو وہ چند کم زور روایات کو بنیاد بنا کر سنت کا بطور ماخذ دین انکار کر دیتے ہیں۔

بیسویں صدی میں اس نقطۂ نظرکو ایک حد تک پذیرائی ملی۔پاکستان میں غلام احمد پرویزصاحب نے اسے بہت شد ومد کے ساتھ پیش کیا۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور بعض دوسرے اہل علم نے اس نقطۂ نظر پر نقد کیا۔یہ بحث اس تنقیدی شعور کی بہت اچھی مثال ہے جو معاشرے کے مثبت فکری ارتقا کو یقینی بناتی ہے۔پرویز صاحب کی کتب موجود ہیں۔مولانا مودوی کی ''سنت کی آئینی حیثیت'' بھی ہمارے علمی ذخیرے کا حصہ ہے۔حال ہی میں محترم شکیل عثمانی صاحب نے ''جناب غلام احمد پرویز کی فکر کا علمی جائزہ'' کے عنوان سے بعض نادر اوراہم تحریروں کا مجموعہ شائع کر دیا ہے۔اس سارے کام نے ہماری علمی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں فکری پختگی ہے اور بڑی حد تک علمی دیانت بھی۔میں ان کتابوں کا ذکر نہیں کر رہا جو مناظرانہ اسلوب میں لکھی گئیں۔اب دین کا ایک طالب علم دونوں اطراف کا موقف جان سکتا ہے اور مو ضوع زیر بحث کی اچھی طرح تنقیح ہو جاتی ہے۔

غزل اور جواب آں غزل کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، مگر تنقیدی شعور کے بغیر۔اس سرمایے میں کم تنقید ایسی ہے جو علمی پختگی اور فکری دیانت کا مظہر ہو۔ اس کی ایک مثال استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی پر بعض ہم عصروں کی 'جاری' تنقید ہے۔جاوید صاحب نے کچھ عرصہ پہلے امریکا کا سفر کیا۔اس دوران میں ایک لیکچر کے اختتام پرلوگوں کے سوالات کے جواب دیے۔ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان معاشروں میں مذہبی انتہا پسندی کے اسباب کیا ہیں؟ انھوں نے یہ اسباب گنوائے اور ساتھ ہی ان کا حل پیش کیا تھا۔ان میں ایک حل یہ تھا کہ مسلم طلبا و طالبات کو بارہ سال کی وسیع البنیاد تعلیم دی جائے۔اس کے بعد وہ تخصص کے درجے میں جائیں۔اس مرحلے میں وہ چاہیں تو ڈاکٹر بنیں اور چاہیں تو عالم دین۔

جاوید صاحب نے اس سوال کے جواب میں جو نتائج فکر پیش کیے، اس کے دلائل انھوں نے تفصیل کے ساتھ اپنے بارہ خطبات میں بیان کیے جو امریکا کے شہرڈیلس میں دیے گئے۔ انھوں نے پہلے پانچ خطبات میں وہ دلائل بیان کیے جن کی بنیاد پر موجودہ مذہبی فکر کے بارے میں یہ راے قائم کی گئی۔اس کے بعد سات خطبات میں یہ بتایا کہ وہ اس انتہاپسندی کا جو حل تجویز کر رہے ہیں،اُس کے دلائل کیا ہیں۔یہ خطبات یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ان نتائج فکر پر تنقید ہو سکتی ہے۔اس کا صحیح طریقہ، مگر یہ ہے کہ پہلے ان دلائل کو رد کیا جائے جن کی بنیاد پر یہ نتائج مرتب کیے گئے ہیں۔اسی طرح اگر مجوزہ حل کی غلطی کو واضح کرنا مطلوب ہے تو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ ان دلائل کو مخاطب بنایا جائے جن پر ان کی اساس رکھی گئی ہے۔

اگر تنقید کے لیے اس طریقے کو اختیار کیا جاتا تو مسلم سماج کا فکری سفر آگے بڑھتا۔پڑھنے والے کے سامنے دونوں اطراف کے دلائل ہوتے اور یوں اسے راے قائم کرنے میں مدد ملتی۔اس میں مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی بھلا ہوتا۔اب اس کا اہتما م نہیں۔مثال کے طور پر جاوید صاحب اس سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ مسلم معاشرے میں انتہا پسندی کیسے پیدا ہوئی؟ اس پر تنقید یہ ہو رہی ہے کہ انھوں نے امریکا کی دہشت گردی کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا انھیں جاپان کی دہشت گردی یاد نہیں؟اسی طرح جب وہ بارہ سال کی وسیع البنیاد تعلیم کا ذکر کرتے ہیں تو اس پر تنقید کرتے وقت کہیں یہ ذکر نہیں کہ اس تعلیم سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا یہ وہی بات ہے جو 'یونیورسل تعلیم' کے ذیل میں بیان ہو تی ہے؟ کیا ناقد یہ جانتے ہیں کہ کیسے جاوید صاحب اس میں قرآن مجیدکی تعلیم کو شامل کرتے ہیں؟

اس وقت اس تنقید کا تفصیلی جائزہ لینا مقصود نہیں۔صرف یہ واضح کرنا ہے کہ تنقید کا کام کیسے ایک تعمیری سرگرمی بن سکتا ہے اور مسلم سماج کے مثبت ارتقا میں معاون ہو سکتا ہے۔اگر تنقید کے بنیادی عوامل پیش نظر نہ رہیں تو ایک مفید کام بھی نہ صرف افادیت سے محروم ہو جاتا ہے، بلکہ فکری پراگندگی کا باعث بنتا ہے۔

ربط
 

عرفان سعید

محفلین
اختلاف کا رویہ
عقیل احمد​

ہمارے ہاں اختلاف در اختلاف کی ایک ایسی ریت قائم ہو گئی ہے جو فی الحال ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے، کوئی کسی کی علمی تحقیق کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ جو بات پہلے سے چلی آ رہی ہے، جس سے لوگوں کے جذبات اور عقیدت وابستہ ہے جو ان کی شناخت بن گئی ہے ۔ اگرچہ ان کے نظریات و افکار کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں یہ لوگ اُس پر کوئی تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے کہ جس آدمی نے اپنی علمی تحقیق پر اتنی محنتکی اور اس کے بعد اپنا نقطۂ نظر بیان کیا، ہو سکتا ہے وہ صیحح ہو آپ اس کے ساتھ دلیل سے بات کریں اس کے ساتھ مکالمہ کریں وہ آپ پر آپ کی غلطی واضح کرے گا اور آپ اُس پر اُس کی غلطی واضح کریں گے۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے جس نے آپ کے نقطۂ نظر کے خلاف بات کر دی تو سمجھیں کہ اُس آدمی کے لیے اس ملک میں رہنا مشکل ہو جائے گا ہر جگہ اس کے خلاف جلسے جلوس نکالے جائیں گے،اس کے قتل کے فتوی ٰجاری کیے جائیں گے۔

اگر اختلاف کرنے والے ذرا سا غور کر لیں تو یہ بات ان کی سمجھ میں آ جائے گی کہ کسی معاملے یا مسئلہ میں اختلاف کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ جب انسان ہونے کے ناطے دو آدمیوں کے چہرے، احساسات، رجحانات و عادات یکساں نہیں تو بھلا دو آدمیوں کی تحقیق اور نقطۂ نظر ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے۔ صحابۂ کرام تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں پروان چڑھے تھے لیکن بہت سارے مسائل میں ان کے درمیان اختلاف رائے موجود تھا۔ ایک طرح سے یہ نظریاتی اختلاف ایک رحمت ہے کیونکہ اس سے علم میں ترقی ہوتی ہے اور انسانی فکر ابتدائی تحقیق سے نکل کر نئی نئی منازل طے کرتی ہے۔ لیکن اس میں اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ اختلاف کرنے والوں میں خلوص ہو اور نظریاتی اختلاف ذاتی مخالفت اور عناد کی شکل اختیار نہ کرے۔ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کا احترام کیا جائے اور محض دیانت داری سے اختلاف کیا جائے۔ مفاد پرستی اور ہوائے نفس کو راہ نہ دی جائے۔ اگر ہم کسی کے نقطۂ نظر سے اختلاف رکھتے ہیں تو اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنا مؤقف علمی اسلوب میں اپنے جرائد اور گفتگو کے پروگراموں میں بیان کریں تاکہ لوگوں کو ان کے اختلاف کی نوعیت اور ان کے دلائل سمجھنے میں آسانی ہو اور اہلِ مذہب کے بارے میں کسی کو کوئی منفی بات کہنے کا موقع نہ ملے۔ بعض اوقات ہم اپنے رویوں سے اور شاید انجانے میں اپنے مذہب کے لیے جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔

ربط
 

عرفان سعید

محفلین
اختلاف رائے کی صورت میں ہمارا رویہ
محمد مبشر نذیر
ہم لوگ اختلاف رائے کے آداب سے بالکل ہی نا واقف ہیں۔ بالخصوص کسی دینی اختلاف کے وقت ہمارا پہلا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ ہم مخالف کی نیت کے بارے میں فوری شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شخص کوئی گمراہی پھیلانے کے لئے یا کوئی فتنہ پیدا کرنے کے لئے یہ نقطہ نظر پیش کر رہا ہے۔ بعض لوگ تو اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر دوسرے کے نقطہ نظر پر مثبت انداز میں تنقید کرنے کی بجائے اس کی ذات کو نشانہ بنا لیتے ہیں اور اسے ہر طریقے سے ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ جس مسلک میں ہم پیدا ہو گئے ، بس وہی حق ہے اور جو اس کے خلاف نقطہ نظر پیش کر رہا ہے وہ باطل اور گمراہ ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ان لوگوں کا کیا قصور ہے جو ہم سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کے گھر پیدا ہوگئے اور اپنے ہی نقطہ نظر کو درست سمجھتے ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذہب و مسلک پر نظر ثانی کرتے ہوئے حق کی تلاش کیوں نہ کی تو ہمیں بھی اپنے آبائی مسلک و عقیدے پر بھی ایک حق کے سچے متلاشی کی حیثیت سے نظر ثانی کر لینا چاہئے۔
ہمارا رویہ بالعموم یہ ہوتا ہے کہ اگر مخالف مسلک کا کوئی شخص تحقیق پر آمادہ ہو اور اس کے لئے ہمارے مسلک کو سمجھنا چاہے تو ہم اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں لیکن اگر ہمارے مسلک سے تعلق رکھنے والا کوئی طالب علم دوسرے مسلک کی کتابوں کا مطالعہ بھی شروع کردے تو ہم ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ مخالف مسلک کی کوئی کتاب پڑھنا یا ان کے کسی عالم کی بات سننا ہی ہمارے نزدیک گمراہی ہے۔ ابتدا ہی سے ہمارے ذہنوں میں یہ داخل کیا جاتا ہے کہ فلاں مشرک ہے ، فلاں بدعتی ہے یا فلاں گستاخ رسول ہے۔ اس کی کوئی بات سننایا اس کی کتاب پڑھنا ناجائز ہے کیونکہ اس سے گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک تو دوسرے مسلک کے کسی شخص کو سلام کرنے یا اس سے مصافحہ کرنے سے ہی نکاح فاسد ہو جاتا ہے۔
ہمارا دین عدل و انصاف کا علم بردار ہے اور اسی کا حکم دیتا ہے۔ کیا دنیا کی کوئی عدالت بھی کسی ملزم کی بات سنے بغیر اسے مجرم قرار دے کر سزا سناتی ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے عام مسلمان عدل و انصاف کے علم بردار کہلانے کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلک کے لوگوں کی بات سنے بغیر ان کے متعلق کفر، شرک، بدعت اور گستاخی رسول کا فتویٰ جاری کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ مخالف مسلک کے کسی شخص کو قتل کر دینا کوئی گناہ ہی سمجھا نہیں جاتا۔ ایسا کرنے میں کسی مسلک کی تخصیص نہیں بلکہ سب ہی مسالک کے لوگوں میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ اس بات کو سب ہی بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ عدل و انصاف کا خون کرنے میں مصروف ہیں۔
اختلاف رائے تو بہت معمولی سی بات ہے۔ ذرا غور کیجئے تو قومی دشمنی کے معاملے میں بھی قرآن مجید نے ہماری کیا رہنمائی فرمائی ہے: وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدہ 5:8) ’’ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
کسی اختلاف رائے کی صورت میں اگر ہم دوسرے کے نقطہ نظر پر تنقید کریں تو اس میں کچھ آداب کا بجا لانا عدل و انصاف اور علم و عقل کے مسلمات کی رو سے انتہائی ضروری ہے۔ منظور الحسن صاحب نے ان آداب کو اس طرح پیش کیا ہے۔
• جس شخص پر تنقید کی جارہی ہو اس کا نقطہ نظر پوری دیانت داری سے سمجھا جائے۔
• اگر اسے کہیں بیان کرنا مقصود ہو تو بے کم و کاست (یعنی بغیر کسی کمی یا اضافے کے) بیان کیا جائے۔
• جس دائرے میں تنقید کی جارہی ہے، اپنی بات اسی دائرے تک محدود رکھی جائے۔
• اگر کوئی الزام یا مقدمہ قائم کیا جائے تو وہ ہر لحاظ سے ثابت اور موکد ہو۔
• مخاطب کی نیت پر حملہ نہ کیا جائے ، بلکہ استدلال تک محدود رہا جائے۔
• بات کو اتفاق سے اختلاف کی طرف لے جایا جائے نہ کہ اختلاف سے اتفاق کی طرف۔
• پیش نظر ابطال نہیں بلکہ اصلاح ہو۔
• اسلوب بیان شائستہ ہو۔
اگر غور کیا جائے تو شاذ ہی ہماری کوئی تنقید اس معیار پر پورا اترتی ہو۔

ربط
 

عرفان سعید

محفلین
سوشل میڈیا اور سیاسی اختلاف
اکرم ثاقب
سماجی رابطے کی ویب سائٹس آج کل سماج کی تخریب کا کام کر رہی ہیں۔ شدت پسندی اور بد اخلاقی ان پر عام ہے۔ جو سائٹ دیکھیں اسی پر ہمیں گالم گلوچ اور دشنام طرازی کی بھرمار نظر آتی ہے۔ ہر کوئی عقل کل بنا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی اور نظریاتی مخالفت برداشت کرنے کا حوصلہ ہی عدم ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے نام جب اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی بڑائی زمیں پر آ رہتی ہے۔ چینلز پر بیٹھ کر درس دینے والے بزعم خود دانشور جب کبھی عیاں ہوتے ہیں تو ان کی ساری دانشوری کی پول کھل جاتی ہے۔ کوئی کسی ویڈیو میں دوسروں کو گالیاں دیتا نظر آتا ہے اور کوئی محض آواز کا جادو جگا رہا ہوتا ہے۔ کچھ تو ساری حدیں ہی عبور کر جاتے ہیں اور ماں بہن کی گندی گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔

یہ ہائیڈ پارک جیسی صورت حال ہے کہ جو چاہے دوسرے کی پگڑی اچھال لے اور اسے کوئی کچھ بھی نہ کہے۔ ہم نے، آپ نے اور سب نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ یہ کام سیاسی کارکنوں نے شروع کیا۔ یہ نام نہاد سوشل میڈیا ٹیمیں جو تمام سیاسی پارٹیوں نے بنا رکھی ہیں ان کو جیسے درس ہی یہی دیا گیا ہے کہ دوسروں کو گالیاں دو اور چپ کروا دو۔ ان ٹیموں کے سربراہ ہی گھٹیا اور گندہ مواد سوشل میڈیا پر بھیجتے ہیں اور پھر ان کے باقی ارکان اس کو شئیر کرتے جاتے ہیں اور یوں یہ گند پورے ملک میں کیا پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ آزادی اظہار کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ ہمسائے کے دروازے پہ کھڑے ہو کر اسے گالیاں دینا شروع کر دیں ۔

آزادی اظہار یا آزادی رائے کے بھی کچھ آداب ہیں ۔ کچھ تقاضے ہیں ۔ اگر آپ کسی کو اپنا ہم نو ابنانا چاہتے ہیں تو اسے گالیاں دے کر اس کی شخصیت کی کمزوریاں بیان کر کے اور اسے نیچا دکھا کر کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دوسرے تک اپنی بات پہنچانے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ ہر معاشرے میں اس کے کچھ اصول و ضوابط طے ہیں ۔ مگر ہمارے معاشرے میں گالیوں سے لطف اندوز ہونا اور دوسروں کو لطف اندوز کرنا ہی سب سے بڑا اصول رہ گیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو رکھ رکھاؤ تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ باپ، بیٹا، بہن اور بھائی کے درمیان جو ایک جائز حد تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔ اور ہر کوئی خود کو عظیم اور ارفع ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے مگر اس حق کے ساتھ ساتھ کچھ ذمہ داری بھی ہے ۔ جب ہماری لکھی ہوئی گالی اور گندی زبان دوسرا پڑھتا ہے تو اس سے ہماری شخصیت اس پر عیاں ہو جاتی ہے۔ اگر ہم خود کو اچھا کہلوانا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی اچھائی کا مان بھی رکھنا ہو گا۔ اگر ہم اپنی عزت چاہتے ہیں تو ہمیں دوسرے کی عزت کرنا ہو گی۔ سیاسی اختلاف ہے تو کیا ہوا؟ کیا مخالف سیاستدان کسی اور ملک کا ہے؟ کیا مخالف ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہے؟ سماجی میل جول کی ویب سائٹ کو سماجی میل جول کے لئے ہی رہنے دیں انہیں دشمنی کے لئے ہرگز استعمال نہ کریں۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور اسی میں ہماری عزت بھی ہے۔

ربط
 

الف نظامی

لائبریرین
کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اپنا نکتہ نظر انتہائی آسان انداز میں بیان کر دیا جائے اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب دے کر خاموشی اختیار کر لی جائے۔ اگر کسی نے تسلیم کرنا ہے تو مان لے گا وگرنہ پریشان ہونے یا اس پر اپنا نکتہ نظر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ صوفی وہ ہے جس میں کمال درجے کی تبرید(ٹھنڈک ، سرد مزاجی ، کول نیس) ہو اور بحث کرتے ہوئے گلے کی رگیں نہ پھولیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اختلاف کے آداب:
اختلاف کو تلاشِ حق اور اتفاقِ امت کا ذریعہ بنائیں
اختلاف برائے اختلاف نہ ہو بلکہ اختلاف برائے اصلاح ہو
اختلاف کی بنیاد قرآن و سنت پر ہو
اگر اپنے موقف کے برعکس کوئی دلیل مل جائے تو پیچھے ہٹ جائیں
ہمیشہ اپنے موقف میں لچک رکھیں اور خندہ پیشانی سے دوسرے کا موقف سنیں
حتی الوسع اختلاف رائے سے اجتناب کریں
اپنی اصل طاقت بھائی چارہ اور اخوت کو بنائیں
اختلاف کا مقصد کسی کی دل آزاری ، عیب جوئی ، شخصیت کی تنقیص نہ ہو
( ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی تقریر "سوشل میڈیا کا یثرب مدینہ کیسے بنایا جائے" سے اخذ کیا گیا )
 

سیما علی

لائبریرین
آختلاف برائے اختلاف سے بچنا بے حد ضروری ہے کیونکہ بگاڑ کا باعث ہے۔۔
تنقید برائے اصلاح کو رواج دینا ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔۔
تنقید برائے اصلاح سے معاشرے کا حلیہ سنور سکتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ بے جا تنقید سے پرہیز کریں اور اگر تنقید کریں بھی تو تنقید برائے اصلاح کریں تاکہ معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو سکے اور ہمارا معاشرہ ایک بہترین، پرامن اور اسلامی معاشرہ بن سکے۔
 
Top