صفحہ نمبر 141 سے صفحہ نمبر 145
--------
صفحہ 141
-------
جا پہنچا۔ وھاں ایک پہاڑ نظر آیا۔ اُس کو دھولاگر کہتے ھیں۔ اُس کے گرد میوے دار درخت بہت سے دیکھنے میں آئے اور وھاں کے باشندوں سے یہ معلوم ھوا کہ یہاں کے پرندوں کا بادشاہ ھُدھُد ہے۔
میں نے اپنے جی میں یہ ارادہ کیا کہ اگر اُس سے ملاقات ھو جاوے تو کیا خوب اتفاق ھو۔ میں اسی سوچ بچار میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں اُس کے بھی دس بارہ نوکر وھاں آ نکلے۔ مجھ سے اور اُن سے جو گفت گو درمیان آئی سو قابل اظہار کے نہیں۔
قاز نے کہا "تم شوق سے بے خوف و خطرے جو دیکھا اور سنا ھے سو کہو، اُس کا کچھ مضائقہ نہیں۔ مثل ھے کہ "نقل کفر کفر نہ باشد۔" جب بگلے کی خاطر جمع ھوئی، ادب سے بیٹھ کر کہنے لگا کہ اے خداوند! آتے ھی اُس کے نوکروں نے مجھ سے پوچھا " تو کون ھے اور یہاں کیوں آیا ھے؟" میں نے کہا " قاز بادشاہ کے خاص نوکروں میں سے ھوں اور بہ طریق سیر کے ادھر آ نکلا ھوں۔ اب اپنے ملک کو چلا جاؤں گا۔"
پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ تم کون ھو؟ بولے کہ ھم ھُدھُد بادشاہ کے نوکر ھیں، جو اس وقت میں ویسا بادشاہ کوئی نہیں۔ میں نے کہا کہ اتنی بڑائی اور فخر کرنا کیا ضرور ھے۔ خدا کی قدرت معمور ھے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ تم سچ کہو کہ اپنے اور ھمارے بادشاہ میں کس کو بڑا جانتے ھو اور دونوں کے ملکوں میں سے کس کا ملک زیادہ آباد ھے؟ میں نے جواب دیا کہ اے نادانو! کیا پوچھتے ھو " کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگا تیلی۔"
"چہ نسبت خاک را با عالم پاک"
کرن پور ھمارا وہ شہر ھے کہ بہتوں پر فضیلت رکھتا ھے اور ھمارے بادشاہ کا ثانی آج تک نہ کوئی ھوا ھے نہ ھو گا۔ پس
-------
صفحہ 142
-------
اب بہتر یہ ھے کہ اس جنگل اور پہاڑ میں رہ کر کیا کرو گے؟ ھمارے بادشاہ کے یہاں چلو۔ اور تمھارے بادشاہ کی وھی مثل ھے کہ "جہاں روکھ نہیں تہاں ارنڈھی رُوکھ ھے۔" اگر ھمارے ملک میں کبھی تم آؤ اور اُس کی بڑائی اور آبادی اور بادشاہ کے عدل و انصاف کو دیکھو تو دنگ رہ جاؤ اور بہت محظوظ ھو۔ پس اب بہتر یہ ھے کہ اس جنگل اور پہاڑ کو چھوڑو اور ھمارے بادشاہ کے یہاں چلو۔
اس گفت گو کےسنتے ھی وے چیں ابرو ھوئے اور رشک کی آگ میں جلنے لگے اور عداوت پر کمر باندھی؛ جیسا کہ داناؤں نے کہا ھے کہ سانپ کے منھ میں شربت اور احمقوں کو نصیحت کڑوی لگتی ھے۔ اور ان باتوں سے مجھے کمال پشیمانی حاصل ھوئی، جیسا کہ بعضے پرند جانور ایک بندر کو نصیحت کر کے پشیمان ھوئے۔ قاز نے کہا " اسے بیان کرو، وہ کیوں کر ھے؟" وہ بولا:
نقل ایک بندر اور پرندوں کی
کسی پہاڑتلی میں ایک نالے پر بڑا سا درخت پاکڑ کا تھا۔ اُس کی ٹہنیوں پر بھانت بھانت کے جانور گھونسلے بنا کر رھا کرتے تھے۔ ایک دن ھر چہار طرف گھٹا اُمڈی اور بجلی چمکنے لگی اور مینھ جھماجھم برسنے لگا۔ جاڑے کا ایّام تھا، سردی سے دانت پر دانت لگے باجنے۔ اتنے میں ایک بندر کانپتا ھوا اُس درخت کے نیچے آیا۔ اُن جانوروں نے اُس کی یہ حالت دیکھ اپنے دل میں ترس کھا کر کہا کہ اے بندر! دیکھ تو ھم کیا ایک مُشت پر ھیں۔ اس جُثّے پر کس کس محنت و مشقت سے ایک ایک تنکا گھاس کا چن لاتے ھیں اور اپنے گھونسلے بناتے ھیں؛ تب برسات کےموسم میں
-------
صفحہ 143
-------
فراغت سے اپنے بچوں کو لے کر سکھ سے رھتے ھیں۔ اور حق تعالیٰ نے تجھ کو ایسا جانور قوی بنایا ھے اور ھاتھ پاؤں دیے ھیں، تجھ سے اتنا کام نہیں ھو سکتا کہ اپنے واسطے کوئی جگہ ایسی بنا رکھے کہ بارش میں پانی کی بوچھار سے اور ھوا کے جھٹکے اور جاڑے کے صدمے سے محفوظ رھے؟ بندر نے جب یہ سنا، درخت کی بلندی پر نظر کی اور کہا " سبحان اللہ تم سکھ سے رھو اور ھم دکھ میں۔" جب مینھ کھلا، بندر نے اُس درخت پر چڑھ کر جتنے کھوندھے اُن کے تھے، سب اُجاڑ ڈالے اور بچے نیچے گرا دیے۔
اے بادشاہ! بے وقوف کو بات بتانی اپنے اوپر اذیت اٹھانی ھے۔ میں نے اُن کے بھلے کو نصیحت کی تھی، وے سمجھے کہ ھمارے بادشاہ کی اھانت کرتا ھے؛ چاھتے تھے کہ مجھ کو پکڑ کر ماریں، میں اپنی عقل کے زور اور خداوند کے اقبال سے بچ نکلا تھا، لیکن اتنی بات جو میرے منھ سے نکل گئی کہ ھمارا بادشاہ کہتا ھے "ھُدھُد کو کس نے بادشاہ کیا؟" یہ بات سن کر وہ غصے ھوئے اور لات مکی کرنے لگے۔ میں نے بھی اپنی جواں مردی سے دو چار کو ٹھونکا۔
قاز نے کہا " اے نادان! عقل مند کو ھر ایک کام میں تحمل کرنا بہتر ھے۔ جیسا کہ شرم و حیا عورت کا زیور ھے، ویسا ھی تحمل مرد کی آرائش ھے۔" بگلا بولا " خداوند! جب جورو اور خصم باھم لڑتے ھیں، نہ عورت شرم کرتی ھے، نہ مرد تحمل۔" قاز نے کہا " اے بگلے! دانا وہ ھے کہ سمجھ کر کسی کام میں ھاتھ ڈالے اور جو کوئی اکیلا ھو کر زور آوروں کے ساتھ لڑتا ھے، فضیحت اور رسوا ھوتا ھے۔ اگر تو اپنی زبان نہ کھولتا تو اتنی خفّت نہ اٹھاتا جیسا کہ اپنی بے عقلی سے اُس گدھے نے مار کھائی اور رسوا ھوا۔" بگلے نے پوچھا کہ اُس کا قصہ کیوں کر
-------
صفحہ 144
-------
ھے؟ قاز کہنے لگا:
نقل پارس ناتھ دھوبی اور اُس کے گدھے اور ھرن کی
" میں نے سنا ھے ، دیباپور شہر میں ایک پارس ناتھ دھوبی تھا۔ قضا کار اُس کے گدھے کی پیٹھ پر یونہیں ایک زخم سا نمود ھوا۔ کوّوں نے چونچیں ایسی ماریں کہ گدھا نپٹ مجروح ھو گیا؛ یہاں تک کہ کھانا پینا ایسا چھٹ گیا اور نہایت دبلا ھو گیا۔ دھوبی نے دیکھا کہ دو تین روز جو اور اس کی پیٹھ کھلی رھتی ھے تو کوّے اسے مار ڈالیں گے۔ دھوبن سے کہا " کوئی کپڑا ھو تو دے، اس کے گھاؤ کو چھپاؤں۔" وہ بولی کہ شیر کا چھالا مدت سے ھمارے گھر میں یونہیں پڑا ھے، کہو تو نکال دوں، اُسے اس کی کمر پر ڈال دو۔ دھوبی نے خوش ھو کر گدھے کی پیٹھ پر گھاؤ کی حفاظت کے لیے باندھ دیا؛ وونہیں اُس کی شکل شیر کی سی دکھائی دینے لگی۔ تب وہ گدھا گھر سے نکل کر کھیتوں میں چرچگ کر کھانے لگا۔
لوگوں نے جب اُس کی شیر کی سی صورت دیکھی، جانا کہ یہ شیر ھے۔ گھر چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ گدھے نے جو کسانوں کے کھیتوں کو رکھوالوں سے سُونا پایا تو چند روز خوب سا کھا کر موٹ تازہ ھوا۔
اتفاقاً ایک روز کسی کھیت میں ایک ھرن چرتا تھا۔ اُس نے جانا کہ یہ شیر ھے، وہ بھاگنے لگا۔ گدھے نے اس سے کہا " تو ڈر مت، میں شیر نہیں ھوں۔ ارادہ میرا یہ ھے کہ تجھ سے دوستی کروں۔" ھرن نے دریافت کیا کہ واقعی یہ شیر نہیں گدھا ھے۔ خیر دونوں میں دوستی ھوئی۔ ایک ھی جگہ شب و روز رھنے لگے۔ فراغت سے بے روک ٹوک لوگوں کی کھیتیاں کھایا کریں، کھلے بندوں جہاں چاھیں سیر کیا کریں۔
-------
صفحہ 145
-------
قضا کر ایک دن کہیں چرتے چرتے وے دونوں ایسے کھیت میں جا نکلے کہ وہ نہایت تروتازہ اور سبز ھو رھا تھا اور ایک کسان بھی اُس کی رکھوالی کے واسطے وھاں بیٹھا تھا۔ اُس نے اُس گدھے کو شیر کی شباھت میں دیکھا تو اُس نے جانا کہ یہ باگھ ھے۔ اُس کے ڈر سے کھیت کے پیغار میں جا چھپا۔ یے دونوں خاطر جمع سے اُس کھیت میں چرنے لگے۔ یکایک گدھا وھاں خوش ھو کر رینگنے لگا۔ ھرن نے یہ مکروہ آواز اُ س کی سن کر اپنا چرنا چھوڑ کے اُدھر کان رکھا۔ گدھے نے پوچھا" یار! تو کس واسطے چرنا چھوڑ کر چپکا کھڑا رھا؟ " اُس نے جواب دیا کہ تم میرے احوال کو کیا پوچھتے ھو، اپنے کام میں لگے رھو۔ گدھے نے اپنے سر کی قسم دی کہ بھائی! سچ کہو، مجھ سے کون سی حرکت بے جا ھوئی کہ وہ تمھاری پریشانی کا موجب ھوئی؟
ھرن بولا " اے یار! تیری خوش الحانی نے میرے دل کو ُمرنڈا کر ڈالا۔ ایک عشق کی سی حالت میری آنکھوں کے آگے پھر گئی۔ کیا ھی تو اُس وقت خوش الحانی سے گایا کہ تیر عشق کا میرے جگر میں ترازو ھو گیا۔ گدھا بولا کہ بھائی! مجھے اب تک مطلق معلوم نہ تھا کہ تمھیں بھی علم موسیقی سے کمال بہرہ ھے، نہیں تو میں تمھیں اکثر سنایا کرتا۔ خیر جو ھوا سو ھوا آئندہ ایسا نہ ھو گا۔ میں تمھیں ھر وقت سنایا کروں گا۔ سنتے ھو یار! میں دنیا میں بہت پھرا ھوں پر اپنے اس علم کا گاھک کسی کو میں نے نہ پایا جو اُس کو اپنا ھنر دکھاؤں۔ پھر ھرن قسم دے کر پوچھنے لگا کہ سچ بتا تیرا اُستاد کون ھے؟ گدھے نے کہا کہ میں اوائل میں اکثر ایک ندی کے کنارے جایا کرتا تھا۔ وھاں بہت سے مینڈک راگ کے چرچے میں رھا کرتے تھے۔ میں نے
-----------------------------
صفحہ نمبر 141 سے صفحہ نمبر 145
----------------------------