اخوت یونیورسٹی

الف نظامی

لائبریرین
ایک شخص جس نے عملی طور پر ریاست مدینہ کے خدو خال دکھائے ہیں، اس نیکوکار ہستی کا نام ہے ڈاکٹر امجد ثاقب۔ پہلے انہوں نے مواخات مدینہ کی پیروی کی اور اب اصحاب صفہ کی طرز پر ایک درسگاہ بنا کر عملی نمونہ دکھا دیا کہ ریاست مدینہ کے خدو خیال کیا تھے اور کیا ہوں گے۔ اخوت یونیورسٹی کا ماڈل وہی ہے جو پندرہ سو برس سے عالم ا سلام میں رائج رہا ہے کہ تعلیم کو تجارت یا منفعت کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا ، تعلیم پہلی وحی الہی کی تعمیل ہے۔ اور اس کی ذمے داری معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔ عالم ا سلام نے اس فلسفے پر عمل کیا مگر آج تعلیم کا نصاب بدل چکا ہے اور محض دینی تعلیم سے مسلم امہ دنیا کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایک دنیاوی طرز کی یونیورسٹی قائم کی ہے اس میں کالج لیول کی کلاسیں شروع ہو چکی ہیں اور یہاں پاکستان کے گوشے گوشے کے نادار مگر ہونہار طالب علموں کو فری داخلہ ، فری تعلیم ، فری ہوسٹل کی سہولیات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ یہ مدرسوں اور مسجدوں سے ہٹ کر عام دنیا داری کی شکل کی ایک یونیورسٹی ہے مگر بنیادی فلسفہ وہی ہے کہ تعلیم کے نام پر پیسے نہیں بٹورے جائیں گے بلکہ جیسے اصحاب صفہ کی کفالت معاشرہ کرتا تھا ، آج اخوت یونیورسٹی کے طالب علموں کی کفالت بھی معاشرہ کرے گا اور یقین سے کہا جا سکتا ہے اس طرز کے تعلیمی ادارے پر دنیا کو یہ اعتراض نہیں ہو گا کہ یہاں انتہا پسندی کی تربیت دی جاتی ہے ۔ امید ہے کہ یہاں سے عالی دماغ اسکالر، عالی مرتبہ سائنس دان اور انجینئر اور اعلی پائے کے ڈاکٹر اور ٹیکنالوجسٹ نکل کر معاشرے میں انقلاب برپا کریں گے اوراس انقلاب کا سہرا ڈاکٹر امجد ثاقب کے سر سجے گا۔ دنیا اس ماڈل کو دیکھنے آئے گی اور اس عزم اور خواہش کاا ظہار کرے گی کہ وہ ایسی ہی یونیورسٹیاں اپنے اپنے علاقوں میں بنائیں گے۔ نہیں بنا سکیں گے یا کوئی دقت پیش آئے گی تو ڈاکٹر امجد ثاقب سے راہنمائی حاصل کر لیں گے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
ایک شخص جس نے عملی طور پر ریاست مدینہ کے خدو خال دکھائے ہیں، اس نیکوکار ہستی کا نام ہے ڈاکٹر امجد ثاقب۔ پہلے انہوں نے مواخات مدینہ کی پیروی کی اور اب اصحاب صفہ کی طرز پر ایک درسگاہ بنا کر عملی نمونہ دکھا دیا کہ ریاست مدینہ کے خدو خیال کیا تھے اور کیا ہوں گے۔ اخوت یونیورسٹی کا ماڈل وہی ہے جو پندرہ سو برس سے عالم ا سلام میں رائج رہا ہے کہ تعلیم کو تجارت یا منفعت کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا ، تعلیم پہلی وحی الہی کی تعمیل ہے۔ اور اس کی ذمے داری معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔ عالم ا سلام نے اس فلسفے پر عمل کیا مگر آج تعلیم کا نصاب بدل چکا ہے اور محض دینی تعلیم سے مسلم امہ دنیا کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایک دنیاوی طرز کی یونیورسٹی قائم کی ہے اس میں کالج لیول کی کلاسیں شروع ہو چکی ہیں اور یہاں پاکستان کے گوشے گوشے کے نادار مگر ہونہار طالب علموں کو فری داخلہ ، فری تعلیم ، فری ہوسٹل کی سہولیات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ یہ مدرسوں اور مسجدوں سے ہٹ کر عام دنیا داری کی شکل کی ایک یونیورسٹی ہے مگر بنیادی فلسفہ وہی ہے کہ تعلیم کے نام پر پیسے نہیں بٹورے جائیں گے بلکہ جیسے اصحاب صفہ کی کفالت معاشرہ کرتا تھا ، آج اخوت یونیورسٹی کے طالب علموں کی کفالت بھی معاشرہ کرے گا اور یقین سے کہا جا سکتا ہے اس طرز کے تعلیمی ادارے پر دنیا کو یہ اعتراض نہیں ہو گا کہ یہاں انتہا پسندی کی تربیت دی جاتی ہے ۔ امید ہے کہ یہاں سے عالی دماغ اسکالر، عالی مرتبہ سائنس دان اور انجینئر اور اعلی پائے کے ڈاکٹر اور ٹیکنالوجسٹ نکل کر معاشرے میں انقلاب برپا کریں گے اوراس انقلاب کا سہرا ڈاکٹر امجد ثاقب کے سر سجے گا۔ دنیا اس ماڈل کو دیکھنے آئے گی اور اس عزم اور خواہش کاا ظہار کرے گی کہ وہ ایسی ہی یونیورسٹیاں اپنے اپنے علاقوں میں بنائیں گے۔ نہیں بنا سکیں گے یا کوئی دقت پیش آئے گی تو ڈاکٹر امجد ثاقب سے راہنمائی حاصل کر لیں گے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب عمل پر یقین رکھنے والے انسان ہیں اور میں انہیں ولی اللہ کا درجہ دیتا ہوں۔
 
Top