راحیل فاروق
محفلین
شاعری کی تعریف کے سلسلے میں جو فسادات ناقدین و ناظرین کے ہاں برپا رہے ہیں ان سے ادب کے قارئین واقف ہیں۔ دور کی کوڑیاں بھی کم نہیں لائی گئیں اور گھر کے کھوٹے سکے بھی بہت چلائے گئے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان بحثوں کے شیوع اور منہاج پر بہت زیادہ اثر گزشتہ کچھ عرصے سے تنقیدِ مغرب کا رہا ہے۔ یہ اندازِ نظر شاید کبھی بھی کسی ادبی و فنی مسئلے کے حل میں کوئی قابلِ قدر کردار نہیں ادا کر سکتا۔
اہلِ مغرب کی طرزِ فکر کا خاصہ، جہاں تک میں سمجھا ہوں، یہ ہے کہ وہ مظاہر کے تحلیلی و تجزیاتی مطالعے کے شائق ہیں اور کلیاتی نقطۂِ نظر کو عموماً گھاس نہیں ڈالتے۔ اس کا نتیجہ ان کے ہاں سائنس اور فلسفے کے فروغ کی صورت میں نکلا ہے۔ دوسری جانب اہلِ مشرق کے ہاں زیادہ تر کلیاتی روش نے بار پایا ہے جس کے شاہکار مذاہب اور فنونِ لطیفہ ہیں۔ فنون کے مطالعے کے لیے میرے خیال میں یہی نقطۂِ نگاہ سود مند ہے۔
اگر اپنی نظر کو ہم شعر اور نثر کی گنجلک تفہیمات سے ہٹا کر ادب کے وسیع تر منظر نامے پر دوڑائیں تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ادب کی سادہ ترین تعریف کیا ہو سکتی ہے؟ میں دوسری آرا کے حوالوں کے چکر میں پڑے بغیر اپنی رائے پیش کر دیتا ہوں۔ میرے خیال میں ادب وہ فن ہے جس میں بنیادی طور پر لکھے ہوئے الفاظ کے ذریعے عام طور پر جذبات کو انگیخت کر کے متاثر کیا جاتا ہے۔ یہ انگیخت خود جذبات کی ترجمانی کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ شاعری اور نثر اسی کی دو شاخیں ہیں۔ لہٰذا یہ طے ہو گیا جو چیز ادب کے دائرے سے خارج ہے وہ شعر بھی نہیں اور نثر بھی نہیں۔ شعر یا نثر کا فیصلہ اسی فن پارے کی بابت صادر کیا جائے گا جو ادب کی ذیل میں آتا ہو۔
زیادہ دقت سے کام لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعر یا نثر کی حیثیت صرف انھی فن پاروں کو حاصل ہو سکتی ہے جو:
مناسب ہے کہ ان تینوں شقوں کی بھی تھوڑی تفصیل بیان کر دی جائے۔ ادب ہمیشہ صرف الفاظ پر مشتمل نہیں ہوتا۔ گیت کی مثال لیجیے۔ اس میں الفاظ بھی ہوتے ہیں اور ان میں ہیجان انگیزی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ مگر جب اس میں موسیقی بھی داخل ہوتی ہے تو یہ صرف ادب نہیں رہتا بلکہ دونوں کے بین بین معلق ہو جاتا ہے۔ لہٰذا گیت کو ہم خالص ترین ادب نہیں قرار دے سکتے۔ یہی مثال ڈراما کی ہے۔ عمل اور مکالمے کے دخل سے ڈراما بھی ادب کی خالص ترین شکل سے کسی قدر دور جا پڑتا ہے۔
دوسرا معاملہ یہ ہے کہ جذباتِ انسانی کو غیرادبی تحریریں بھی متاثر کرتی ہیں۔ فلسفہ، حکمت اور سائنس کی تحقیقات بھی جو لکھی ہوئی حالت میں ہمارے سامنے پیش کی جائیں ہماری طبیعتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مگر ادب کے لیے ضروری ہے کہ وہ جذبات میں فوری تلاطم بھی پیدا کرے اور دیر پا اثرات بھی مرتب کرے۔ غیر ادبی تحریریں ان دونوں معیارات پر عموماً اکٹھی پورا نہیں اتر سکتیں۔
تیسری جانب، تناظر کا قصہ یہ ہے کہ ذاتی، زمانی یا مکانی معاملات کا تحریری بیان بھی فرد کے جذبات کو متلاطم کر دیتا ہے۔ مگر گالی لکھ کر دی جائے تو وہ ادب نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ وہ اس شخص کی ذات سے مخصوص ہے جو ہدفِ دشنام ہے۔ بعینہٖ اسی طرح خبریں بھی ایک مخصوص زمانی و مکانی تناظر رکھتی ہیں جس کے باعث وہ ہر کسی کے جذبات کو تحریک نہیں دے سکتیں۔ یہی معاملہ تاریخ وغیرہ کا بھی ہے۔ ادب ان کے برعکس وہ افادہ رکھتا ہے جسے عرفِ عام میں آفاقیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ان تینوں شرائط کے قریب ترین پہنچنے والی تحریریں بہترین ادب کہلائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ڈراما جیسی کوئی صنف ایک پہلو سے تو کسی قدر مار کھا جائے مگر دوسری دو شرائط کو اس سلیقے سے پورا کرے کہ تمام شقوں پر پوری اترنے والی تحریروں سے بھی ممتاز ہو جائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شرائط میرے خیال میں لازماً یہی ہیں گو کہ ان کی تعمیل میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ یہ کمی بیشی ادب کی حیثیت متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
اب رہا شعر اور نثر کا معاملہ تو وہ یہاں آ کر بہت صاف ہو جاتا ہے۔ شعر وہ ادب ہے جو موزوں اور مقفیٰ ہو جبکہ نثر کے لیے وزن اور قافیے کی شرط نہیں۔ اس محاکمے میں بھی اسی نامیاتی طرزِ نگاہ کی ضرور ہے جس سے ہم کسی تحریر کے اچھا یا برا ادب ہونے کا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ یعنی کچھ جگہوں پر، مثلاً مرصع عبارتوں کے ضمن میں، شاید ہم یہ نہ کہہ پائیں کہ فلاں ادب پارہ نظم ہے اور فلاں نثر۔ اس کی بجائے ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ فلاں تحریر اچھا شعر ہے اور فلاں اچھی نثر۔ طے شدہ اصناف کی بات البتہ دوسری ہے۔ یعنی غزل، مسدس، مثنوی، داستان وغیرہ کی نسبت شبہ کی گنجائش بہت کم ہے۔ یہ بہرحال لازم ہے کہ ان اصناف میں شمار ہونے کے لیے وہ تحریر ادب ہونے کی شرائط پر ضرور پوری اترتی ہو۔ ادب پہلا قرینہ ہے!
اہلِ مغرب کی طرزِ فکر کا خاصہ، جہاں تک میں سمجھا ہوں، یہ ہے کہ وہ مظاہر کے تحلیلی و تجزیاتی مطالعے کے شائق ہیں اور کلیاتی نقطۂِ نظر کو عموماً گھاس نہیں ڈالتے۔ اس کا نتیجہ ان کے ہاں سائنس اور فلسفے کے فروغ کی صورت میں نکلا ہے۔ دوسری جانب اہلِ مشرق کے ہاں زیادہ تر کلیاتی روش نے بار پایا ہے جس کے شاہکار مذاہب اور فنونِ لطیفہ ہیں۔ فنون کے مطالعے کے لیے میرے خیال میں یہی نقطۂِ نگاہ سود مند ہے۔
اگر اپنی نظر کو ہم شعر اور نثر کی گنجلک تفہیمات سے ہٹا کر ادب کے وسیع تر منظر نامے پر دوڑائیں تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ادب کی سادہ ترین تعریف کیا ہو سکتی ہے؟ میں دوسری آرا کے حوالوں کے چکر میں پڑے بغیر اپنی رائے پیش کر دیتا ہوں۔ میرے خیال میں ادب وہ فن ہے جس میں بنیادی طور پر لکھے ہوئے الفاظ کے ذریعے عام طور پر جذبات کو انگیخت کر کے متاثر کیا جاتا ہے۔ یہ انگیخت خود جذبات کی ترجمانی کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ شاعری اور نثر اسی کی دو شاخیں ہیں۔ لہٰذا یہ طے ہو گیا جو چیز ادب کے دائرے سے خارج ہے وہ شعر بھی نہیں اور نثر بھی نہیں۔ شعر یا نثر کا فیصلہ اسی فن پارے کی بابت صادر کیا جائے گا جو ادب کی ذیل میں آتا ہو۔
زیادہ دقت سے کام لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعر یا نثر کی حیثیت صرف انھی فن پاروں کو حاصل ہو سکتی ہے جو:
- الفاظ پر مشتمل ہوں۔
- انسانی جذبات کو ابھار کر متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
- کسی خاص تناظر سے مخصوص نہ ہوں بلکہ عمومی جذباتی افادہ رکھتے ہوں۔
مناسب ہے کہ ان تینوں شقوں کی بھی تھوڑی تفصیل بیان کر دی جائے۔ ادب ہمیشہ صرف الفاظ پر مشتمل نہیں ہوتا۔ گیت کی مثال لیجیے۔ اس میں الفاظ بھی ہوتے ہیں اور ان میں ہیجان انگیزی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ مگر جب اس میں موسیقی بھی داخل ہوتی ہے تو یہ صرف ادب نہیں رہتا بلکہ دونوں کے بین بین معلق ہو جاتا ہے۔ لہٰذا گیت کو ہم خالص ترین ادب نہیں قرار دے سکتے۔ یہی مثال ڈراما کی ہے۔ عمل اور مکالمے کے دخل سے ڈراما بھی ادب کی خالص ترین شکل سے کسی قدر دور جا پڑتا ہے۔
دوسرا معاملہ یہ ہے کہ جذباتِ انسانی کو غیرادبی تحریریں بھی متاثر کرتی ہیں۔ فلسفہ، حکمت اور سائنس کی تحقیقات بھی جو لکھی ہوئی حالت میں ہمارے سامنے پیش کی جائیں ہماری طبیعتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مگر ادب کے لیے ضروری ہے کہ وہ جذبات میں فوری تلاطم بھی پیدا کرے اور دیر پا اثرات بھی مرتب کرے۔ غیر ادبی تحریریں ان دونوں معیارات پر عموماً اکٹھی پورا نہیں اتر سکتیں۔
تیسری جانب، تناظر کا قصہ یہ ہے کہ ذاتی، زمانی یا مکانی معاملات کا تحریری بیان بھی فرد کے جذبات کو متلاطم کر دیتا ہے۔ مگر گالی لکھ کر دی جائے تو وہ ادب نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ وہ اس شخص کی ذات سے مخصوص ہے جو ہدفِ دشنام ہے۔ بعینہٖ اسی طرح خبریں بھی ایک مخصوص زمانی و مکانی تناظر رکھتی ہیں جس کے باعث وہ ہر کسی کے جذبات کو تحریک نہیں دے سکتیں۔ یہی معاملہ تاریخ وغیرہ کا بھی ہے۔ ادب ان کے برعکس وہ افادہ رکھتا ہے جسے عرفِ عام میں آفاقیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ان تینوں شرائط کے قریب ترین پہنچنے والی تحریریں بہترین ادب کہلائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ڈراما جیسی کوئی صنف ایک پہلو سے تو کسی قدر مار کھا جائے مگر دوسری دو شرائط کو اس سلیقے سے پورا کرے کہ تمام شقوں پر پوری اترنے والی تحریروں سے بھی ممتاز ہو جائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شرائط میرے خیال میں لازماً یہی ہیں گو کہ ان کی تعمیل میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ یہ کمی بیشی ادب کی حیثیت متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
اب رہا شعر اور نثر کا معاملہ تو وہ یہاں آ کر بہت صاف ہو جاتا ہے۔ شعر وہ ادب ہے جو موزوں اور مقفیٰ ہو جبکہ نثر کے لیے وزن اور قافیے کی شرط نہیں۔ اس محاکمے میں بھی اسی نامیاتی طرزِ نگاہ کی ضرور ہے جس سے ہم کسی تحریر کے اچھا یا برا ادب ہونے کا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ یعنی کچھ جگہوں پر، مثلاً مرصع عبارتوں کے ضمن میں، شاید ہم یہ نہ کہہ پائیں کہ فلاں ادب پارہ نظم ہے اور فلاں نثر۔ اس کی بجائے ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ فلاں تحریر اچھا شعر ہے اور فلاں اچھی نثر۔ طے شدہ اصناف کی بات البتہ دوسری ہے۔ یعنی غزل، مسدس، مثنوی، داستان وغیرہ کی نسبت شبہ کی گنجائش بہت کم ہے۔ یہ بہرحال لازم ہے کہ ان اصناف میں شمار ہونے کے لیے وہ تحریر ادب ہونے کی شرائط پر ضرور پوری اترتی ہو۔ ادب پہلا قرینہ ہے!
آخری تدوین: