بہت شکریہ فرخ بھائی۔ کل جب میں نے پوسٹ کی تھی تب نظر آرہی تھی۔ اور اس بات کے بارے میں میں شمشادبھائی سے بھی کنفرمیشن لی ہے۔ یعنی انہیں بھی تحریر نظر آرہی تھی۔ اور شروع میں فل سٹاپ نامعلوم کیسے لگ گئے تھے
خیر آپ دونوں یعنی صابر اور فرخ بھائی کا بہت شکریہ۔ آپ حضرات بھی اپنی پسند کے اقتباس شامل کریں تو مجھے بھی تھوڑی تقویت ملے گی۔
کسی شاعر نے کسی شہزادے کو مخاطب کرتے ہوئے اس حسین عورت پر ایک شعر پڑھا۔
وہ بے مثل شعر یہ تھا
ایں لعبت بوالعجب چوما ہے پیداست
یا تازہ گلے برسر شاخ رعنا است
کیونکہ یہ شعر اس واقعہ کی تصویر کھینچ رہا تھا اور نہایت اچھے پیرائے میں ادا کیا گیا تھا۔اس لیے شہزادہ اور حاضرین بہت خوش ہوئے۔اور سب اس شاعر کو جی بھر کر داد دینے لگے۔ جب شہزادی نے یہ شعر سنا تو فورا ارادت فہم کو ایک شعر لکھ کر دیا ۔اور اس کو قطعہ بنا دیا۔
نے نے ۔غلط است آفتاب محشر
بر نیزہ برآمد وقیامت برپا است
اس شعر نے قیامت مچادی۔اس شعر کا مفہوم یہ تھا کہ جو پہلے شاعر نے کہا ہے کہ خوبصورت شاخ پ ایک تازہ پھول کھلا ہوا ہے۔ غلط ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آفتاب محشر سوا نیزہ پر بلند ہوگیا ہے،اور قیامت بربپا ہوگئی ہے۔
محمدعلی صائب،ناصر علی سرہندی برہمن اور دوسرے ممتاز شعرا نے شہزادی کو اتنا حسین شعر کہنے پر مبارکباد دی۔ اس وقت دلرس بانو بیگم نے اپنی بچی کے سر پر ایک طشت اشرفیاں تصدق کیں۔ اور شہزادی کی قادر الکلامی کے سب قائل ہوگئے۔