محمد یعقوب آسی
محفلین
عمومی تلاش میں کوئی ایسا زمرہ دکھائی نہیں دیا۔ کوئی ایسا زمرہ یا لڑی اگر ہے اور میں اس کو نہیں پا سکا تو براہِ کرم اس کی نشان دہی فرما دیجئے۔ اور اگر نہیں ہے تو شروع کر دیجئے۔ یہ یقیناً ایک مفید اور مثبت اقدام ہو گا۔
ماضی کے واقعات کو پسِ پشت رکھتے ہوئے کسی بھی تنازعے میں الجھنے سے گریز کیا جائے گا اور اراکین کے ذاتی معاملات پر دیارِ ادب ٹیکسلا میں بحث نہیں کی جائے گا
بہت شکریہ، میں وہی فہرست دیکھ رہا ہوں۔
آمین ۔ کوشش تو یہی ہے! جو اللہ کو منظور۔اک اچھی خبر
اللہ کرے یہ دیار ادب حقیقت میں ادب کا دیار بنے ۔۔۔ آمین
دیارِ ادب ٹیکسلا ۔۔۔ تنقیدی اور شعری اجلاس
سوموار ۲۴؍ مارچ ۲۰۱۴ء
صدرِ محفل: رانا سعید دوشی، ناظمِ اجلاس: شہزاد عادلؔ ، غزل برائے تنقید: رئیس عباس
دیگر شرکائے محفل: اظہر محمود، عارف خیامؔ ، طارق بصیرؔ ، وحید ناشاد (صدرِ حلقہ)، پروفیسر نذیر انجمؔ ، اور محمد یعقوب آسی (صاحبِ خانہ)۔
ناظمِ اجلاس شہزاد عادلؔ نے گزشتہ اجلاس (۱۰؍ مارچ ۲۰۱۴ء) کی رپورٹ پیش کی جسے روداد نگاری کی عمدہ مثال قرار دیا گیا۔ ناظمِ اجلاس نے احباب کا خیر مقدم کرتے ہوئے شدید بارش کے باوجود اتنے دوستوں کے بہم ہو جانے کے جذبے کو سراہا اور یاد دلایا کہ گزشتہ اجلاس کی شام بھی موسم کچھ ایسا ہی تھا۔ بعد ازاں نوجوان صاحبِ طرز شاعر رئیس عباس کو اپنی غزل بحث کے لئے پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ غزل ملاحظہ ہو:
ہوا، یہ شامِ فسردہ، دِیا قیامت ہے
تمہاری یاد کا روغن جدا قیامت ہے
عجب کہانی ہے وحشت رسیدہ لوگوں کی
کوئی پکارے تو کہتے ہیں کیا قیامت ہے
وہ اب تقاضائے بیعت نہیں کرے گا کبھی
اسے خبر ہے مرا حرفِ لا قیامت ہے
یہی سبب ہے کہ پھر مبتلا نہیں ہوا دل
یہ عشق پہلا ہو یا دوسرا قیامت ہے
مجھ ایسے ہجر نشینوں کو چین یوں ہے نہ یوں
صبا ہو یا تری بوئے قبا قیامت ہے
صدرِ اجلاس نے حاضرین کو غزل پر بات کرنے کی دعوت دی۔ محمد یعقوب آسیؔ نے اپنے ابتدائی تاثرات میں غزل کو سراہا اور اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ رئیس عباس نے ایک غیر معمولی ردیف لا کر اس کے ساتھ انصاف بھی کیا ہے۔ یعقوب آسیؔ نے مطلع میں علامت نگاری اور رعایات کے استعمال کو شاعر کی چابک دستی گردانا۔ اور غزل میں لائی گئی تراکیب ’’وحشت رسیدہ‘‘ اور ’’ہجر نشینوں‘‘ کو خاص طور پر سراہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعر میں الف، واو، یاے گرانے کی اجازت سے قطع نظر ’’تقاضائے بیعت‘‘ میں ضاد کے بعد کے الف کا گرانا محلِ نظر ہے۔ دوسرا شعر بہت وسیع پیش منظر کا حامل ہے۔ یعقوب آسیؔ نے آخری شعر میں فنی پختگی کو سراہا اور کہا کہ یہ ’’استادوں والا شعر ہے‘‘۔ صدرِ اجلاس رانا سعید دوشی نے کہا کہ اس انداز کی ردیف نکیل ڈال دیا کرتی ہے، تاہم اس غزل میں شاعر نے مشکل ردیف کو نبھایا۔ یعقوب آسیؔ نے کہا کہ فاضل شاعر نے کھلے قافیے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ صدرِ محفل نے ان سے اتفاق کیا۔
عارف خیام راؤ نے کہا کہ یعقوب آسیؔ نے مختصر مگر جامع گفتگو کر دی اور مزید کچھ کہنے کو کم ہی رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا: رئیس عباس اپنا ایک اسلوب بنا رہے ہیں ۔ مصیبت کے معانی میں قیامت کا لفظ لانا بہت اچھا لگا۔ ہجر کی کیفیت کی حامل اس غزل کی فضا ایک سی ہے، اور اچھی لگتی ہے۔ ’’مراحرفِ لا قیامت ہے‘‘ اس پر ایک سوال کے جواب میں محمد یعقوب آسیؔ نے کہا: کربلا ہماری شاعری میں بہت مضبوط حوالہ ہے۔ اس شعر میں بھی بات اٹھتی وہیں سے ہے تاہم وہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ دورِ حاضر پر بھی منطبق ہو جاتی ہے۔ رانا سعید دوشی نے اتفاق کیا اور کہا کہ شاعر نے الفاظ کو استعاراتی سطح پر لا کر ان کے مفاہیم کو وسعت دی ہے جو شاعر کی فنی پختگی اور وبستگی کا مظہر ہے۔
شہزاد عادل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا : رئیس عباس کی غزلوں کا ترتیب وار مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ہاں اپنا ایک اسلوب تشکیل پا رہا ہے۔ اس عمر میں مختصر سے شعری سفرکے ساتھ یہ امر بہت خوش کن ہے۔ انہوں نے غزل کی معنوی وسعت پر یعقوب آسیؔ سے اتفاق کیا۔ عارف راؤ کے ایک سوال کے جواب میں یعقوب آسیؔ نے کہا: سامنے کے معانی تو تعلقِ خاطر کے حوالے سے ہیں۔ اس شعر میں کوئی گہرا فلسفہ ہے بھی تو میں اس کو نہیں پا سکا۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا: عشق ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے اور اس کے مناظرات بہت ہیں، اس پر بات کرنے کو تو ایک الگ نشست درکار ہے، اس غزل کے تناظر میں اپنی بات کر چکا ہوں۔ صدرِ محفل نے کہا : اس شعر میں پہلا اور دوسرا عشق سے عشق مجازی اور عشق حقیقی مراد ہیں۔
طارق بصیر نے غزل پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ صرف دوسرے شعر میں ردیف کسی کیفیت کے ساتھ آئی ہے، باقی اشعار میں معنوی سطح پر بالکل درست ہے تاہم ایسی کیفیت والی بات نہیں ہے۔ عبدالباسط چنگیز سے ایک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: جب آسیؔ صاحب گفتگو کر لیتے ہیں تو ہمارے پاس کہنے کو کم ہی بچتا ہے۔ مطلع میں لفظ روغن کابہت خوبصورت استعمال دیکھا ہے۔اور رئیس عباس یہاں تلازمے بھی بہت خوب لائے ہیں۔ طارق بصیرؔ نے اختر شاد کا یہ شعر پڑھا:
جسم تھا شاداب لیکن شہرِ جاں جلتا رہا
درد کا روغن درونِ استخواں جلتا رہا
انہوں نے کہا فارسی سے لگاؤ میں رئیس عباس اختر شاد سے آگے ہے۔وحشت رسیدہ اور ہجر نشینوں بہت خوبصورت تراکیب ہیں۔ بیعت کے حوالے سے طارق بصیر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ شعر کو محدود نہ کیا جائے۔ ’’تقاضائے بیعت‘‘ کی ساخت اور ادائیگی پر انہوں نے یعقوب آسیؔ سے اتفاق کیا۔دوسرا عشق ہے؛ اس شعر میں عشق قیامت اور مبتلا کی مثلث شاعر نے بہت خوبصورت بنائی ہے۔ یہ اس کی شعوری کوشش ہے۔ انہوں نے اس شعر کو اقبال کے تناظر میں دیکھا اور کہا کہ رئیس نے اس شعر میں عشق سے جان ہی چھڑا لی ہے۔ انہوں نے کہا: رئیس عباس کے یہ سارے شعر بہت خوبصورت ہیں اور ہم ان سے ایسے ہی اشعار کی توقع بھی کرتے ہیں۔رئیس عباس اور دلاور علی آزر ہمارے دوستوں میں بہت عمدہ اضافہ ہیں۔یہ محنت کرتے ہیں اور انہوں نے بہت جلد خود کو منوایا ہے۔ میں صاحبِ غزل کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
صدرِ حلقہ جناب وحید ناشادؔ نے اپنی مختصر سی گفتگو میں کہا: مجھے یہ غزل بہت پسند آئی، دوستوں کی بات بھی اچھی لگی اور غزل مزید اچھی لگی کہ ہر ناقد اس میں نئی معنویت دیکھتا ہے۔ شہزاد عادل کے اس سوال کے جواب میں کہ اس غزل کی بحر ’’فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن‘‘ میں آخری سبب خفیف سے پہلے سبب ثقیل یا سبب ثقیل دونوں جائز ہیں تاہم اس سے غزل کے حسن و قبح پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے؛ محمد یعقوب آسیؔ نے کہا: یہ دونوں جائز ہیں اور بہت مستعمل ہیں، اس فرق سے شعر کی جمالیات پر کوئی اثر نہیں پڑتا، نہ مثبت نہ منفی؛ اور یہ مصرعے اپنے آپ آتے ہیں۔ اس اجازت کے پیچھے بھی ایک نفسیاتی عنصر ہے، شاعر کو بسا اوقات اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ فِعلن اور فَعِلن کو مقابل لے آیا ہے۔
صدرِ محفل رانا سعید دوشی نے اپنے صدارتی خطبے میں رئیس عباس کو ایک کامیاب اور خوبصورت غزل پیش کرنے پر مبار باد دی۔ رئیس کا رجحان کلاسیک اور فارسی روایت کی طرف ہے اور فن غالب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دوسروں کا اثر لیتے ہیں تاہم بہت زیادہ اثر نہیں لینا چاہئے۔رئیس کو غزل پر کورے کاغذ کی طرح اپنا نام لکھنا چاہئے۔تاہم غزل میں شاعری کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس غزل میں شاعری موجود ہے لیکن میں رئیس سے اس سے زیادہ کی توقع کرتا ہوں۔
صاحبِ غزل رئیس عباس نے احباب کا شکریہ ادا کیا۔ ناظمِ اجلاس شہزاد عادل نے شعری نشست کا آغازکیا اور اپنے اشعار سنائے۔ دیگر شعرائے کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں: اظہر محمود، رئیس عباس، عارف خیام راؤ، طارق بصیر، وحید ناشاد، محمد یعقوب آسیؔ اور صدرِ اجلاس رانا سعید دوشی۔ شعری نشست سمیت پورے اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ پہلے ہی انٹرنیٹ پر مہیا کر دی گئی ہے۔
اجلاس کے باضابطہ اختتام سے پہلے صاحبِ خانہ محمد یعقوب آسیؔ نے احباب کو بتایا کہ اللہ کریم نے ان کو ایک اور پوتی سے نوازا ہے جس کا نام صبیحہ رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: دوست جانتے ہیں کہ گزشتہ مہینے کے دوران میں اپنے ادبی اثاثے کا بیش تر حصہ آٹھ کتابوں کے انٹرنیٹ ایڈیشنز کی صورت میں پیش کر چکا ہوں، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ یہ بات ریکارڈ پر آ جائے۔ صاحبِ خانہ نے دوستوں کو یاد دلایا کہ گزشتہ دنوں ہمارے ساتھی راکب راجا سسر وفات پا گئے۔ اس پر مرحوم کے لئے مغفرت کی دعا کی گئی اور راکب راجا اور لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا گیا۔ اور اعلان کیا گیا کہ آئندہ اجلاس سوموار ۱۴؍ اپریل ۲۰۱۴ء کو ہوگا؛ شہزاد عادلؔ اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کریں گے اور بعد میں احباب سے شعر سنے جائیں گے۔
روداد نگار: محمد یعقوب آسیؔ معتمد نشریات
دیارِ ادب ٹیکسلا کی تنظیمِ نو
روداد نگار: شہزاد عادل
یہاں دو تبدیلیاں نوٹ فرما لیجئے:
1۔ اجلاس کا مقام: میکینیکل انجینئرنگ بلاک، انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا
2۔ اجلاس کے دن: ہر ہفتے (سنیچر) کی شام (بعد از نمازِ مغرب)
دیار ادب ٹیکسلا