ادبی رسائل، رئیس فاطمہ، ڈیلی ایکسپریس

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: ڈیلی ایکسپریس 20 ستمبر 2011

1101335795-2.gif
 

تعمیر

محفلین
پاکستانی ادبی رسائل و جرائد سے متعلق یہ معلومات اہل ہند کیلئے نہایت مسرورکن اور قابل قدر ہیں۔ ویسے یہ شکایت اردو دنیا میں عام ہے کہ مدیران رسائل ذاتی تعلقات اور علاقائی تفریق کو سامنے رکھ کر جریدہ ترتیب دیتے ہیں۔ ایسا طرز عمل ہندوستان کے کچھ رسائل میں بھی دیکھا گیا ہے۔ اس موضوع پر ان دنوں فیس بک پر بھی اہل دانش و ادب دوست قارئین کی گفتگو جاری ہے۔

خالص ادبی رسائل کو انٹرنیٹ پر اردو یونیکوڈ میں پیش کرنے کی شروعات نامور ادیب و صحافی (مرحوم) ساجد رشید نے اپنے پرچے "نیا ورق" کے ذریعے شروع کی تھی۔ مگر افسوس کہ حال ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
سہ ماہی "اثبات" ایک معنوں میں ہندوستان سے ایسا پہلا اردو رسالہ ہے جس کی یونیکوڈ ویب سائیٹ پر سابقہ تمام شمارہ جات کو شامل کیا جارہا ہے تاکہ لفظ/فقرہ کی تلاش ممکن ہو ، ہر مصنف کی تمام تخلیقات کا ریکارڈ دیکھا جائے پسند کی تحریر کا مطالعہ بھی کیا جا سکے اور قاری کو ہر تحریر پر تبصرہ کرنے کی سہولت بھی مل سکے۔

تمنا ہے کہ پاکستان کے اہم ادبی رسائل بھی یونیکوڈ اردو میں منظر عام پر آئیں تو ڈاک کی مشکلات اور دیگر مسائل کا خاتمہ ہو کر ادب سرحدوں سے باہر نکلے گا اور سرچ انجنز کے ذریعے عالمی ادب کے قارئین تک بآسانی پہنچے گا اور جو کہ اردو شعر و ادب کا حق بھی ہے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
وارث بھائی
میرے پاس نیا ورق کے کل نو شمارے ہیں، 22 تک سلسلہ چلا پھر رک گیا، اجمل کمال کے دفتر سے تمام کے تمام خریدے تھے، اب وہاں بھی ناپید ہیں
کیا نیا ورق کے گزشتہ شمارے انٹرنیٹ پر موجود ہیں ?
براہ کرم لنک دیجیے
شعر و سخن کی ویب سائٹ پر دکن کے سب رس کے کچھ شمارے پی ڈی ایف کی شکل میں موجود ہیں
الحمرا کا تازہ شمارہ بہت خوب ہے، اس میں کل تین خودنوشتیں قسط وار شائع ہورہی ہیں
 

Rashid Ashraf

محفلین
محترم جمیل یوسف کی آب بیتی لاہور کے جریدے الحمراء میں قسط وار شائع ہورہی ہے، الحمراء کے تازہ شمارے میں اس کی 38 ویں قسط شائع ہوئی ہے۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:

نصرت چوہدری جس کے انتقال پر ملال کو اب تقریبا دو برس گزر چکے ہیں، پرویز بزمی کا بچپن کا کلاس فیلو تھا۔ دونوں نے شاعری اسکول کے زمانے میں شروع کی تھی۔ نصرت بڑا بانکا، البیلا اور سجیلا شاعر تھا، وہ ایک درویش صفت، رند مشرب اور گوشہ نشین شاعر تھا۔ جس مشاعرے میں اپنا کلام سناتا، مشاعرہ لوٹ لیتا، سامعین ہمہ تن گوش ہوجاتے۔ میں نے اسے ایک مشاعرے میں پہلی مرتبہ سنا اور اس کا یہ شعر ذہن میں نقش ہوگیا، اب تک کہ پچاس سال (2011) گزر چکے ہیں، اس کا نقش دھندلا نہیں پڑا:

مجھے کچھ فیصلے لکھنے ہیں اس میں
کتاب گردش ایام لاؤ

نصرت کا یہ شعر میں نے ڈاکٹر خورشید رضوی سے کئی بار سنا ہے:

دیا جلنے لگا ہے اس دریچے کی طرف دیکھو
مری منزل یہی ہے، کارواں ٹھہرایا جائے

نصرت چودھری کی یاد تازہ کرنے کی غرض سے اس کے چند اشعار یہاں لکھنے کو جی چاہ رہا ہے:

لفظوں کے بیچتا ہوں پیالے خرید لو
شب کا سفر ہے کچھ تو اجالے خرید لو
مجھ سے امیر شہر کا ہوگا نہ احترام
میری زبان کے واسطے تالے خرید لو

----------------------------

اخگر سرحدی سرگودہا کے ایک بزرگ کہنہ مشق شاعر تھے۔ وہ انجمن ترقی اردو سرگودہا کے بانی اور صدر تھے۔ اپنی منڈلی شہر میں ایک جگہ الگ جما رکھی تھی، ان کا ایک شعر مجھے یاد رہ گیا ہے:

قدم لینے ہوائے دشت و ویرانہ نہیں اٹھی
کسی سے زحمت توقیر دیوانہ نہیں اٹھی
-------------------

ایک زمانہ تھا کہ سرگودھا کے شاعر سید الطاف مشہدی کی شہرت کا ڈنکا پورے برصغیر کی ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بج رہا تھا۔ کوئی شماعرہ ان کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جس طرح جوش کو شاعر انقلاب اور اختر شیرانی کو شاعر رومان کہا جاتا تھا اسی طرح الطاف مشہدی کے ساتھ شاعر شباب کا خطاب سج گیا تھا۔ الطاف مشہدی کی شہرت و مقبولیت کا یہ زمانہ 1945 سے شروع ہو کر لگ بھگ 1965 اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ جب میں 1972 میں سرگودہا پہنچا تو لوگ ان کے نام اور کلام کو طاق نسیاں پر رکھ چکے تھے، کبھی کبھی اہل ذوق کی زبان سے ان کا وہ قطعہ سننے کو مل جاتا تھا جس کا آخری مصرعہ ہے:

پتہ بھی نہیں ہلتا بغیر اس کی رضا کے

ان دنوں وہ حیات تھے لیکن خرابی صحت کی بنا پر صاحب فراش تھے، میں نے ان سے ملنے کی کوشش کی مگر پتہ چلا کہ ان سے ملاقات مشکل ہے۔ بدقسمتی سے وہ بھی عدم کی طرح بادہ نوش ہی نہیں بلکہ بسیار نوش تھے۔ سرگودہا میں شراب کی دکان کا ٹھیکہ انہی کے پاس تھا۔ پیہم اور روز کی مے نوشی نے ان کی صحت کو تباہ کردیا تھا اور اب عدم کی طرح ان کے بھی شب و روز ان کے اہل خانہ کی کڑی نگرانی میں بسر ہورہے تھے۔ وہ کسی شاعر کو ان سے نہیں ملنے دیتے تھے۔ ایک شام کیا ہوا کہ نیاز صوفی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یار چلو! آج الطاف مشہدی کے یہاں مشاعرہ ہے۔
میں نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہوا
صوفی نے جواب دیا: اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن یہی اطلاع ملی ہے کہ آج ان کے گھر مشاعرہ ہورہا ہے
اتنے میں صوفی فقیر محمد بھی آگئے اور یہی خبر لائے۔
ہم تینوں الطاف مشہدی کے گھر روانہ ہوئے۔ ان کے گھر کے باہر کھلی جگہ پر ایک بڑا سا خیمہ نصب تھا، کچھ دیر میں مشاعرہ شروع ہوگیا مگر الطاف مشہدی نظر نہ آئے۔ معلوم ہوا کہ ان کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ گھر سے باہر آکر مشاعرے میں بیٹھیں۔ وہ اپنی چارپائی پر لیٹے لیٹے ہی دریچے سے مشاعرے کا نظارہ کرتے رہیں گے۔ ان کے داماد نے بتایا کہ سید الطاف مشہدی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ ان کے سامنے آخری مرتبہ ایک بار مشاعرے کی بساط بچھائی جائے اور وہ اپنی آنکھوں سے مشاعرہ ہوتے دیکھیں۔
مشاعرے کے بعد ہم ان کو سلام کرنے اور ان کا دیدار کرنے ان کے کمرے میں گئے۔ ایک بھاری بھرکم شخصیت بستر پر دراز تھی۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو تھے۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
روایت ہے کہ مشہور خفاش قدرت و نقاش فطرت میاں ایم اسلم علامہ اقبال سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بیان کررہے تھے

"" ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ کالے کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اودی اودی مرغیاں اپنے چمپئی چمپئی دڑبوں کی طرف محو خوام تھیں۔ شام کاذب جیسے دوشیزہ کا راتب ہونے والی تھی۔ لاہور کی گلیوں میں جوان جوان بیوائیں یتیمانہ چہل قدمی کررہی تھیں، غرض یہ کہ میں ان کے حرماں نصیب گلابی گلابی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور شہابی شہابی ۔ ۔ ۔ ۔ سے نگاہیں بچاتا اور ان کی اور اپنی تقدیر پر کڑھتا علامہ کے دولت کدے تک پہنچا جو میرے تینوں غریب خانوں کے مقابلے میں خاک نہیں تھا۔ اور صحیح معنوں میں غریب خانے کا اطلاق ایسے ہی مکانوں پر ہونا چاہیے۔ دیکھا کہ حضور علامہ، مغربی دیوار کی طرف منہ کیے، کمرے کے بیچوں بیچ اپنی کھری چارپائی پر لیٹے اپنا اسلامی تہمد پہنے ہوئے، قوم کی فکر میں پیچواں گڑگڑا رہے ہیں۔ ہر کش پر سُلفے کی لاٹ چلم سے نکل کر فضاؤں میں بٹی ہوئی رسی کی طرح روشندان سے نکل کر عربستان کی طرف چلی جاتی ہے۔ میں ادھر چٹائی پر پہروں کنگارو کی طرح اکڑوں بیٹھا رہا۔ وہ ادھر کسی مسیحا کی طرح حقے کی نے ہونٹوں میں دبائے لیٹے رہے۔ گاہے گاہے اس ناطق زمانہ کے سامنے وہ بے جان بولتا رہا۔ ناگہاں علامہ مجھ سے مخاطب ہوئے

میاں کچھ لکھتے لکھاتے ہو ?
ان کی پاٹ دار، پروقار آواز، سبحان اللہ۔ یوں محسوس ہوا کہ کوئی مومن شاہیں کسی مردود نو مسلم پر جھپٹ کر پلٹ گیا۔ میں گھگیاتے ہوئے ہکلایا کہ کیا میرا مقدور کہ آپ کے سامنے زباں کھولوں
فرمایا کھولو کھولو کہ اللہ نے دہن صرف کھانے پینے اور ڈکار لینے کے لیے نہیں بنایا
میری کیا مجال کہ حکم عدولی کرتا۔ تابڑ توڑ دو نظمیں داغ دیں کہ اس زمانے میں صرف نظمیں لکھتا تھا۔ علامہ یکایک مراقبے میں چلے گئے۔ عرصہ بعد لوٹے تو اتنا کہا:
میاں نثر کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتے

بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، میں نے نظم نہیں چھوئی اور دما دم ناولوں کے انبار لگاتا چلا گیا۔
""
لاہور کہ کبھی عالم میں انتخاب ہوا کرتا تھا، وہاں کے شاعر و صورت گر افسانہ نویس نہایت صبر سے میاں ایم اسلم کی لن ترانیاں سہتے رہے کہ ان کے پیٹ انواع اقسام کی نعمتوں سے اور کان 444 صفحات کے ناول سے بھرے ہوئے تھے مگر اس سے پہلے کہ یہ زاغ مسلم بن اسلم اپنے نئے ناول کا پلاٹ سناتا، ایک نابغہ روزگار بولا:

میاں صاحب! کاش آپ علامہ کو نثر کے بھی دو صفحے سنا آتے۔
تس پر یہ بساط الٹی اور محفل درہم برہم ہوئی!
 
Top