فرخ منظور

لائبریرین
بشکریہ راشد اشرف

ناہید اختر نے مشفق خواجہ سے ذکر کیا کہ :
احمد فراز اور پروین شاکر کی شاعری کے مطالعے سے ان کے اندر بھی شاعری کا شوق پیدا ہوا ۔
خواجہ صاحب نے جواب دیا :
بڑی خوشی کی بات ہے کہ احمد فراز اور پروین شاکر کی شاعری کا کوئی مثبت نتیجہ نکلا ۔ ورنہ اکثر لوگ ان دونوں کے کلام سے متاثر ہو کر شاعری ترک کر دیتے ہیں ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
دہلی میں پیروڈی شاعری کا مشاعرہ تھا ۔ جب گلزار زتشی کا نام صدارت کے لیے پیش کیا گیا تو وہ انکسار سے بولے :
حضور ! میں صدارت کا اہل کہاں ہوں ؟
اس پر کنور مہندر سنگھ نے فرمایا :
مطمئن رہیں ، آپ بھی صدر کی پیروڈی ہی ہیں ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بزرگ ناول نگار ، ایم اسلم علامہ اقبال سے اپنی ارادات اور ان سے وابستہ یادوں کو تازہ کررہے تھے ، انھوں نے حاضرین کو بتایا :
”ایک دن علامہ خوش گوارموڈ میں تھے ، حقے کی نلی ان کے ہاتھ میں تھی مولانا گرامی بھی موجود تھے ، دونوں باری باری کش لگاتے اور علم وفضل کے موتی رولتے تھے ،یکایک گرامی صاحب نے میری جانب توجہ کی اور کہا :” اسلم !کوئی شعر سناﺅ۔“
میں نے تازہ کہاہوا شعر سنایا ، مولانا گرامی نے تعریف کی لیکن علامہ خاموش رہے ، میں نے دوبارہ شعر پڑھا اور علامہ کا رد عمل دیکھنے کے لےے ان کی جانب دیکھا ، علامہ نلی نے حقے کی لبوں سے الگ کی اور کہنے لگے :
”اسلم !نثر لکھا کرو ....“سو حاضرین وہ دن اور آج کا دن ، میں علامہ کی نصیحت پر عمل پیرا ہوں نثر لکھتا ہوں اور شعر کو ہاتھ نہیں لگاتا ۔
پچھلی صفوں سے کسی نے سوال کیا :” علامہ نے آپ کی نثر دیکھی تھی ؟“
 

فرخ منظور

لائبریرین
مشہور محقق اور عالم مولانا محمود شیرانی حیدرآباد دکن گئے ، ایک تقریب میں ایک صاحب نے ان سے کہا :
”شیرانی صاحب ! آ پ کی ایک نظم مجھے بہت پسند ہے ۔“
” کونسی نظم بھائی !.... “ مولانا نے استفسار کیا ۔
” وہی جس کا مصرعہ ہے ۔
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہورہاہوں
مولانا نے ٹھنڈی سانس بھری اور بولے ، یہ نظم میری نہیں ، میرے نالائق ، بیٹے اختر شیرانی کی ہے ، وہ تو محض بدنام ہو رہا ہے ، میں اس کی کرتوت سے رسوا ہو رہا ہوں ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
راجندر سنگھ بیدی کی باتیں بہت دلجسپ اور بے ساختہ ہوتی تھیں۔ ایک بار دہلی کی ایک محفل میں بشیر بدر کو کلام سنانے کے لیے بلایا گیا تو بیدی صاحب نے جو میرے برابر بیٹھے تھے ۔ اچانک میرے کان میں کہا ۔

" یار ! ہم نے دربدر ، ملک بدر اور شہر بدر تو سنا تھا یہ بشیر بدر کیا ہوتا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک دفعہ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھا کہ : میں ناکام شاعر ہوں ۔
اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا :
جون صاحب ! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔ یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ، ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
غلام جیلانی اصغر نے خدا سے ہیرا پھیری کی کوشش نہیں کی۔ بڑے صاف، سلیس اور سادہ لفظوں میں بے تکلفی سے خداسے کچھ یوں دعامانگی:

مولا!مجھ میں گناہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ مجھے یہ
صلاحیت عطاکر، پھر گناہ کرنے کی توفیق دے اور اس کے بعد
میرے گناہ کو معاف بھی کردے۔بے شک توغفورالرحیم ہے
 

پردیسی

محفلین
بہت خوب انتخاب برادر
اور پھر اوپر سے آپ نے اپنی تصویر بھی شرارتی سی چسپاں کی ہوئی ہے:) اچھی اور خوبصورت تصویر ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ منظور بھائی عرصہ ہوا، آپ نے پھر ادھر کا رُخ ہی نہیں کیا۔

یہ تو راشد اشرف بھائی کے فیس بک سے چیزیں چوری کی تھیں۔ میں ابھی تک مشفق خواجہ کو نہیں پڑھ سکا۔ ایک دوست نے کتب دی بھی تھیں لیکن مصروفیت کی وجہ سے بغیر مطالعہ کیے ہی واپس دے آیا۔ سو جیسے ہی مشفق خواجہ کی کتب دوبارہ ہاتھ آتی ہیں تو اس میں کچھ اضافہ ضرور کروں گا۔
 
"مجاز کی شوخیاں "
کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے۔ محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سن رہے تھے کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں ان کا شیر خوار بچہ زور زور سے رونے لگا۔مجاز نے اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا: بھئی!
یہ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟
 
"جوش کا جوش "

ہاشم رضا زیدی صاحب پاکستان کے ایک معروف بیوروکریٹ تھے ایک مرتبہ جوش ان سے کسی کام کے سلسلے میں ملاقات کو گئے سیکرٹری نے کہا صاحب میٹنگ میں ہیں
جوش صاحب نے ایک چٹ لی اور لکھا
ہاشم رضا میں "شمر" ہے سارا چھپا ہوا
زیدی میں چاروں حرف ہیں شامل یزید کے
یہ پرچی دی اور چلے آئے
 
جوش ملیح آبادی ایک بار گرمی کے موسم میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ملاقات کی غرض سے ان کی کوٹھی پر پہنچے وھاں ملاقاتیوں کا ایک جم غفیر پہلے سے موجود تھا کافی دیر تک انتظار کے بعد بھی ملاقات کیلئے باری نہ آئی تو انھوں نے اکتا کر ایک چٹ پر یہ شعر لکھ کر چپراسی کے ہاتھ مولانا کی خدمت میں بھجوا دیا
نامناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا
مولانا نے یہ شعر پڑھا تو زیرلب مسکرائے اور فی الفور جوش صاحب کو اندر طلب کر لیا
 
"فنکار کی قدر و منزلت- پطرس بخاری کی نظر میں"
ذوالفقار علی بخاری (برادر محترم سید احمد شاہ بخاری پطرس ) ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل تھے ,
بخاری صاحب جیسا حاضر دماغ اور اعلیٰ پایہ کا بذلہ سنج مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ لطیفہ گوئی، پھبتی، شوخی، شرارت ان کی شخصیت کا اٹوٹ حصہ تھے۔
ایک روز بخاری صاحب کو اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات نے فون کیا اور کہا کہ ایک بڑے عالم دین نے شکایت کی ہے کہ جس کار میں صبح سویرے انہیں درس قرآن کے پروگرام کے لیے لیا جاتا ہے، اس گاڑی میں سارنگی نواز بندوخان بھی بیٹھے ہوتے ہیں۔ بخاری صاحب کو آرٹسٹوں اور فنکاروں سے جس قدر محبت اور لگائو تھا، اس کے پیش نظر یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دل پر یہ اعتراض سن کر کیا گزری ہوگی۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، صرف یہ کہا کہ میں دیکھتا ہوں۔ چار چھ دن بعد پھر وزارت کے سیکرٹری نے دریافت کیا کہ آپ نے اس سلسلے میں کیا کیا؟
بخاری صاحب نے فی الفور جواب دیا ’’میں نے معافی مانگ لی ہے۔‘‘ لیکن مولانا تو کل مجھ سے پھر شکایت کررہے تھے؟ انہوں نے بتایا۔ ’’جی …لیکن میں نے تو استاد بندوخان سے معافی مانگی ہے ‘‘سیکرٹری یہ بات سن کر زناٹے میں آگیا۔
تب بخاری صاحب نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ جناب عالی اس ملک میں بندو خان کے پائے کا سارنگی نواز کوئی دوسرا نہیں، ان کی جس قدر ومنزل کی جائے ، کم ہے۔
مولانا کے ہم پلہ تو اور بھی مل سکتے ہیں۔‘‘

(آغا ناصر کی کتاب ’’گمشدہ لوگ‘‘ سے ماخوذ)
 
Top