پچھلے دنوں گلزار صاحب کی ایک غزل پڑھی ریختہ پر -ان کا شمار بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے مگر ان کی اس غزل میں میرے نزدیک ایطائے جلی در آیا ہے جس کی وجہ سے سوائے مطلع کے پوری غزل میں قافیہ قائم نہ ہوسکا -غزل کچھ یوں ہے :
دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی
جیسے احساں اتارتا ہے کوئی
دل میں کچھ یوں سنبھالتا ہوں غم
جیسے زیور سنبھالتا ہے کوئی
آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی
پیڑ پر پک گیا ہے پھل شاید
پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی
دیر سے گونجتے ہیں سناٹے
جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی
گلزار
اور میں نے ایک مرتبہ فارسی غلط یا صحیح کچھ یوں بگھاری تھی :
چہ چیز است آورد چہ چیز است آمد
غزل غزل نباشد چوں قافیہ ندارد
تفصیل اس قضیے کی ہے کہ غزل میں الفاظ :گزارتا ،اتارتا،سنبھالتا ،جانتا ،اچھالتا ،پکارتا بطور قوافی باندھے گئے ہیں اور مجھےاس سے اختلاف ہے - میں یہی کہتا ہوں کہ گزارتا ،اتارتا قوافی ہیں -آگے اگر سنوارتا ،مارتا ،ہارتا وغیرہ جیسے الفاظ ہوتے تو قوافی کی فہرست ٹھیک ہوتی مگر فی الحال نہیں -میرے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ غزل کی ردیف ہے <ہے کوئی>اور ردیف کہتے ہیں غزل میں ہر شعر کے آخر میں ہوبہو آنے والے الفاظ لہٰذا سمجھنے کے لیے ردیف کی تعریف کی رو سے <تا> کو بھی ردیف میں داخل سمجھیں یعنی ردیف ہو گئی <تا ہے کوئی > اب بقایا قوافی کچھ یوں ہو گئے :گزار ،اتار،سنبھال ،جان ،اچھال ،پکار-اب بتائیے کیا یہ قوافی ہیں ظاہر ہے سوائے گزار ،اتار ،پکار کے نہیں-
ثابت ہواکہ غزل میں ایطائے جلی کا عیب ہے-