ادب کیا ہے؟
اس کا مقصد کیا ہے؟
ہم کیوں اسے پڑھیں؟
یہ کیوں اہم ہے؟
کیا ادب کے لئے زبان جاننا ضروری ہے؟
کیا ادب کی کچھ قسمیں بھی ہوتی ہیں ؟
ہم کن چیزوں کو ادب کہیں گے اور کن کو غیر ادب؟
ادب اور تخلیقیت میں کیا فرق ہے؟
اساتذہ کرام سے خصوصی توجہ کی گذارش ہے ۔۔۔
محترم اصلاحی بھائی
اساتذہ سے خاص توجہ کی گزارش مجھ جیسے استادوں کی جوتیاں سیدھی کرتے پیاس بجھانے والوں کو اس دھاگے میں پابند کر رہی ہے ۔
کہ صرف سنو پڑھو سمجھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں کہ ٹھہرا عادت سے مجبور سدا کا بے صبرا ۔۔
جو دل میں آئے لکھ مارتا ہوں ۔ اس دعا کہ ساتھ " کوئی رہنما مل جائے مجھے منزل تک پہنچا آئے "
۔۔۔۔۔۔۔
زندگی اور ادب براہ راست اک دوسرے منسلک ہیں ۔ زندگی ہو یاکہ ادب ۔۔ دونوں کا مفہوم اپنے معنی میں اک بحر بےکنار ہے جس میں اختلاف رائے کے لاتعداد جزیرے ہیں ۔اور ان کی متفقہ " تعریف " ناممکن ہے ۔ کسی بھی زبان میں جب " ادب " کی بات کی جاتی ہے تو عام طور سے اس سے مراد وہ ادب ہوتا ہے جسے اردو زبان " ادب لطیف یا ادب جمیل " کا عنوان دیتی ہے ۔۔ یہ ادب وجدان کی گہرائی سے ابھرتا ہے ۔ سوچ و فکر و خیال کی راہ چلتے جامعیت خیال کی منزل پر پہنچ صدا کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے ۔ یہ اظہار جو کسی بھی زبان میں " صدا " بن کر سامنے آتا ہے اپنی موزونیت و لطافت کی بنا پر " ادب " کہلاتا ہے ۔۔ ادب کے بنیادی ستون " خیال کی پرواز " اور " زبان پر گرفت " ہیں ۔
خیال " رنگینی ، گہرائی ، نزاکت اور مشاہدے کی قوت " کو ہمراہ لیئے جب کسی بھی زبان میں " ندرت بیان ، حسن ادا ، جدت ، روانی ، قدرت اظہار " سے صدا کی صورت " تحریر و تقریر" میں ڈھلتا ہے تو " ادب " سامنے آتا ہے ۔
" ادب " کیونکر جنم لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یا ادب سے مقصود کیا ہے ۔۔ ؟
سرسری سی نگاہ میں ادب کا کوئی خاص مقصد سامنے نہیں آتا ۔ ادب لطیف و جمیل میں شامل بہت سے ایسے فنون لطیفہ ملتے ہیں جو کسی بھی " مادی " نفع اور مقصد سے بیگانے دکھتے ہیں ۔ اور اسی باعث یہ کہتے ہیں کہ ادب کا مقصد ادیب کی محض اک دماغی سرخوشی اور فکر کی مستی سے لطف اندوز ہوتے اپنے خیال کو دنیا کے سامنے لانا ہے ۔ چاہے یہ دنیا محض اک فرد پر مشتمل ہو ۔ اور دماغی سرخوشی کے حامل فکر کی مستی کو ہمراہ لیئے جب ایسے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے خیال " معانی " سے جگمگا اٹھتے ہیں ۔ انہیں اپنی روح بیدار ہنستی کھیلتی جمالیاتی احساسات پر رقص کرتی نغمے چھیڑتی محسوس ہوتی ہے ۔ وہ نغمے جو کہ " زندگی " کے رنگوں سے سجے ہوتے ہیں ۔۔
اسی لیئے " ادب " کو کسی بھی " تہذیب " کا وہ کلیدی عنصر قرار دیا جاتا ہے جو کہ تہذیب کو ترقی کی راہ پر چلاتے اسے عظمت عطا کرتا ہے ۔۔۔۔۔کسی بھی تہذیبی معاشرے کے وہ فرد جو کہ معاشرے کی اصلاح کے طلبگار ہوتے اس اصلاح کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے " علم ذہانت توانائی " کو یا تو مذہب پر صرف کرتے ہیں یا کہ ان سے ادب کے چراغ روشن کرتے ہیں ۔
کسی بھی " تہذیب " میں ادب کی حیثیت یا تو " مذہب " کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام انسان سما جائیں ۔۔۔۔۔
یا پھر انسانیت کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام مذہب سما جائیں ۔۔
مشرقی اور مغربی تہذیبوں میں جنم لینے والا ادب بہر صورت " مذہب اور انسان " کے درمیان پیدا ہونے والے ان اختلافات پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جو کہ " حقیقت و مجاز " کی تلاش میں ہر انسان کو پیش آتے ہیں ۔۔
ہر تہذیب میں ادب بہت سی اقسام میں تقسیم الگ الگ ناموں سے سامنے آتا ہے ۔۔۔اور اک ہی حقیقت کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے ۔ یہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ چاہے " فحش ادب ہو چاہے مزاحمتی ۔ چاہے تعمیری چاہے تنقیدی ۔
۔ ۔
(استاد محترم آسی بھائی کی تحاریر سے ماخوذ )