محمد علم اللہ
محفلین
استاد محترم اور نایاب بھیا نے تو آسان پیرایہ میں بتا ہی دیا تھا ۔۔۔
سرچ کے دورن مجھے یہ مضمون ملا تو سوچا وہ بھی یہاں شیر کر دوں ۔۔۔۔
تاکہ موضوع سے متعلق مواد ایک جگہ جمع ہو جائے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب کیا ہے؟
ڈاکٹر جمیل جالبی
یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ’’ادب‘‘ کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ ’’زندگی‘‘ کیا ہے تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جواب بھی آپ دیں گے وہ جامع نہیں ہو گا، اس میں صرف وہ زاویہ ہو گا جس سے خود آپ نے زندگی کو دیکھا ہے یا دیکھ رہے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دوسرا بھی اس سے اتفاق کرے یا آپ کے جواب سے مطمئن ہو جائے۔ یہ سوال بھی کہ ادب کیا ہے، اسی نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ادب بھی ’’زندگی‘‘ کے اظہار کا نام ہے۔ ادب چونکہ لفظوں کی ترتیب و تنظیم سے وجود میں آتا ہے اور ان لفظوں میں جذبہ و فکر بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبے، احساس یا فکر و خیال کے اظہار کو ادب کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی تعریف ہے جس میں کم و بیش ہر وہ بات جس سے کسی جذبے، احساس یا فکر کا اظہار ہوتا ہے اور جو منہ یا قلم سے نکلے، ادب کہلائے گی۔ لیکن میری طرح یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہر وہ بات جو منہ سے نکلتی ہے یا ہر وہ بات جو قلم سے ادا ہوتی ہے، ادب نہیں ہے۔ عام طور پر اخبار کے کالم یا اداریئے ادب نہیں کہلاتے حالانکہ ان میں الفاظ بھی ہوتے ہیں اور اثر و تاثیر کی قوت بھی ہوتی ہے۔ ہم سب خط لکھتے ہیں لیکن ہمارے خطوط ادب کے ذیل میں نہیں آتے لیکن اس کے برخلاف غالب کے خطوط ادب کے ذیل میں آتے ہیں۔ غالب اور دوسرے خطوط کے فرق کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسی تحریر کو ادب کہا جا سکتا ہے جس میں الفاظ اس ترتیب و تنظیم سے استعمال کیے گئے ہوں کہ پڑھنے والا اس تحریر سے لطف اندوز ہو اور اس کے معنی سے مسرت حاصل کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب لفظ و معنی اس طور پر گھل مل گئے ہوں کہ ان میں ’’رس‘‘ پیدا ہو گیا ہو۔ یہی رس کسی تحریر کو ادب بناتا ہے۔ اس مسرت کا تعلق ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس احساس سے ہو گا جس کا ہمیں ادراک ہوا ہے۔ یہ وہ تحریر ہو گی جس نے ہمارے شعور اور ہمارے تجربوں کے خزانے میں اضافہ کیا ہے اور اَن دیکھے تجربات سے اس طرح مانوس کر دیا ہے کہ وہ تجربے ہمارے اپنے تجربے بن گئے ہیں۔ یہ وہ تحریر ہو گی جس کا اثر وقتی اثر کا حامل نہیں ہو گا بلکہ اس میں اَبدیت ہو گی اور جو زمان و مکان سے آزاد ہو کر آفاقیت کی حامل ہو گی۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے مثنوی مولانا روم، دیوانِ حافظؔ ، کلامِ غالبؔ ، اشعارِ میر، تخلیقاتِ شیکسپئر اور مکالماتِ افلاطون ہمیں آج بھی متاثر کرتے ہیں اور ہمارے تجربات و شعور میں، احساس مسرت کے ساتھ اضافہ کرتے ہیں۔ جس تحریر میں بیک وقت یہ سب خصوصیات موجود ہوں گی وہ تحریر ادب کہلائے گی اور جتنی زیادہ یہ خصوصیات ہوں گی وہ تحریر اسی اعتبار سے عظیم ادب کے ذیل میں آئے گی۔
ادب کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ادب زندگی میں کسی چیز کا ’’بدل‘‘ نہیں ہے اور اگر اس کی حیثیت کسی اور چیز کے بدل کی ہے تو پھر وہ ادب نہیں ہے۔ ادب ایسا اظہار ہے جو زندگی کا شعور و ادراک حاصل کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ادب میں انسان کے تخیلی تجربے کو ابھارنے کی ایسی زبردست قوت ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اس تجربے کا ادراک کر لیتا ہے۔ ادب میں متحرک کرنے اور ہماری روح میں موجود خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ادب کے ذریعے ہم زندگی کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ یہ ادب کا خاص منصب ہے۔ ادیب ایک ایسا انسان ہے جس میں ادراک کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اس کے اظہار کی قوت بھی۔ اس کے ادراک و اظہار میں اتنی داخلی و خارجی وسعت اور تہ داری ہوتی ہے کہ ادب انفرادی و ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہوتا ہے۔ جتنا بڑا ادیب ہو گا اس کے تجربے کا تنوع، اس کا شعور و ادراک اور اس کا اظہار اتنا ہی بڑا اور آفاقی ہو گا۔
ادب کے ذریعے جیسا کہ میں نے کہا ہے، ہم دوسروں کے تجربوں میں شریک ہو جاتے ہیں اسی لیے ادب کی سطح پر ہم اپنی ذات سے بلند ہو جاتے ہیں۔ ادب عمل ادراک کی غیر معمولی قوت کے ذریعے ہماری عام ہستی کو بیدار کر کے شعور کی ایسی سطح پر لے آتا ہے جو اس کے بغیر خفتہ رہتی۔ اگر ادیب نہ ہوتا اور سعدیؔ ، میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ ، حافظؔ ، شیکسپیئر، گوئٹے، دانتے وغیرہ نہ ہوتے تو انسان آج بھی معصوم بچے کی طرح ہوتا۔ ادب کے ذریعے ہی ہم بلوغت کے درجے پر آئے ہیں۔ زندگی بسر کرتے ہوئے ہم پر بہت سے جذبے گزرتے ہیں، بہت سے ادھورے معنی ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں، نامعلوم احساس سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے، ہم میں بغاوت کا میلان پیدا ہوتا ہے لیکن یہ سب ہمارے لیے گونگے اور بے نام ہوتے ہیں۔ اور یونہی گزر جاتے ہیں لیکن جب ان سے ہمارا واسطہ ناول، افسانے، شاعری، ڈرامے یا مضمون میں لفظوں کی حسین، پُر رس اور جاندار ترتیب و تنظیم کے ساتھ پڑتا ہے تو ہم ان کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں اور یہ جذبے، یہ احساس، یہ میلان، یہ تجربے ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح ہم زندگی میں نئے معنی تلاش کر لیتے ہیں۔
ادب زندگی میں نئے معنی تلاش کرنے کا نام ہے اور اسی لیے ادب زندگی کے شعور کا نام ہے۔ اسی شعور کے ذریعے ہم بدلتے ہیں۔ ہم وہ نہیں رہتے جو اس وقت ہیں اور اسی سے ہمارے اندر قوت عمل پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کے ایسے تجربے جن سے ہمیں کبھی واسطہ نہیں پڑا، ادب کے ذریعے براہِ راست ہمارے تجربے بن جاتے ہیں اور ہمیں اور ہمارے اندازِ فکر کو بدل دیتے ہیں۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ادب کے ذریعے ہم دوسروں کے تجربوں میں اس طور پر شریک ہو جاتے ہیں کہ وہ ہمارے تجربے بن جاتے ہیں تو شاید یہ بات آپ کو پراسرار معلوم ہو لیکن اسے ایک انتہائی مثال سے یوں سمجھیے کہ اپنی محبوبہ کو رقابت یا حسدکی شدت کے زیر اثر قتل کرنے کا تجربہ ہمارے لیے حاصل کرنا آسان نہیں ہے لیکن شیکسپیئر کے اوتھیلو کے ساتھ شریک ہو کر یہ تجربہ ہمارا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح لیڈی میکبتھ کا تجربہ میرا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ فاؤسٹ کو پڑھ کر گوئٹے کے اور اینا کرینا، پڑھ کر ٹالسٹائی کے تجربات میرے تجربات بن جاتے ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی اور گلستان و بوستان کے تجربے میرے اپنے تجربات بن جاتے ہیں۔ ادب کا یہی کام ہے۔
اب آپ یہاں یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آخر کیا ان تجربات کا ادراک کیے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناًگزار سکتے ہیں لیکن یہ زندگی حیوانی سطح پر بسر ہو گی اگر ہم زندگی کو صرف اپنے تجربات تک محدود کر لیں تو زندگی اندھا کنواں بن کر رہ جائے اور عین ممکن ہے کہ ہمارے تجربات کوئی خطرناک صورت اختیار کر لیں اور ہمارے اندر ایک ایسا عدم توازن پیدا ہو جائے جو زندگی کو آگے بڑھانے کے بجائے اسے مثبت راستے سے ہٹا دے۔ ادب کے ذریعے جب دوسروں کے بے شمار چھوٹے بڑے تجربے ہمارے شعور و ادراک کا حصہ بنتے ہیں تو نہ صرف ہمارا تزکیہ (کیتھارس) ہو جاتا ہے بلکہ اس سے زندگی کا توازن بھی درست رہتا ہے۔ عام تجربہ گونگا ہوتا ہے۔ ادیب اسے زبان دے کر نہ صرف ہمیں اس کا ادراک کرا دیتا ہے بلکہ ہمارے باطن کو بھی روشن کر دیتا ہے۔
ہم نے اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ یہ بات حقیقت نہیں محض شاعری یا افسانہ ہے۔ کہنے والا جب یہ بات کہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ شاعری اور افسانہ دراصل جھوٹ ہوتے ہیں لیکن انہیں اگر تجربے کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس ’’بظاہر‘‘ جھوٹ میں انسانی تجربے کی وہ سچائی چُھپی ہوتی ہے جو ہمیں نیا شعور عطا کرتی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ادب ایسا جھوٹ ہے جو ہمیں سچائی کا نیا شعور عطا کرتا ہے اوراسی لیے اب تک انسان اورانسانی معاشرہ زندہ و باقی ہے۔ ہمیں ہوا کی طرح ادب کی ضرورت بھی ہمیشہ باقی رہے گی۔ ادب آزادی کی روح کا اظہار ہے۔ ادب سچائی کی تلاش کا مؤثر ذریعہ ہے لفظ چونکہ ہر دوسرے میڈیم سے زیادہ طاقتور چیز ہے اسی لیے ادب دوسرے فنونِ لطیفہ سے زیادہ مؤثر چیز ہے۔
آج کی جدید زندگی میں سائنس پر غیر معمولی زور ہے۔ سائنس نے اشیا کو تو ہمارے شعور میں داخل کر دیا ہے لیکن فکر و احساس کو زندگی سے نکال باہر کیا ہے اور اسی وجہ سے اس وقت ساری دنیا ایک ہولناک عدم توازن کا شکار ہے۔ زندگی ساری ترقیوں اور حیرت ناک ایجادات و انکشافات کے باوجود معنویت و توازن سے عاری ہو گئی ہے۔ اسی لیے ساری دنیا اس وقت ایک ایسے نظام خیال اور تصورِ حقیقت کی تلاش میں ہے جس سے انسان اپنے وجود کو بامعنی بنا سکے۔ یہ کام ادب کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ ادب ایک طرف ہمیں مسرت بہم پہنچاتا ہے، احساس جمال سے لطف اندوز کرتا ہے دوسروں کے تجربات سے ہمارا تزکیہ (کیتھارس) کرتا ہے اور دوسری طرف لفظوں کی جمالیاتی ترتیب سے احساس، جذبے یا خیال کو غیر ضروری عناصر سے پاک کر کے اس طور پر سامنے لاتا ہے کہ ہم بھی اسے پڑھتے ہوئے غیر معمولی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ادب جن دنیاؤں میں ہمیں لے جاتا ہے وہ حقیقی دنیا سے زیادہ حقیقی ہوتی ہیں۔ پروست نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہماری اصل زندگی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ اسے ہمارے سامنے لے آئے اور اس طرح ہمیں خود ہم سے واقف کرا دے۔ غالبؔ ، سرسید، حالیؔ اور اقبالؔ نے اپنی تحریروں سے ہمیں خود ہم سے واقف کرا کر اس طور پر بدلا ہے کہ ہم نے گویا نیا جنم لیا ہے۔ ادب یہی کام کرتا ہے اور یہی اس کا منصب ہے۔
اس ساری بحث کو سامنے رکھ کر جب ہم خود سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر ہمیں یہ سوال کہ ادب کیا ہے پوچھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی تو ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس چور سے آمنا سامنا ہوتا ہے جو ہمیں سائنس کے زیرِ اثر، ادب میں خالص افادیت کی تلاش پر اکسا رہا ہے۔ یہ سوال ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری چُھپی ہوئی خواہش اب یہ ہے کہ ادب بھی آج وہی کام کرے جو ایئر کنڈیشنر کرتا ہے جو پانی کو ٹھنڈا کر کے ریفریجریٹر کرتا ہے یا جو ہمارے بھجیا کپڑوں کی شکنیں، سلوٹیں دور کر کے استری کرتی ہے اور چونکہ ادب ہماری اس خواہش کو پورا نہیں کرتا اس لیے کہ یہ اس کا منصب نہیں ہے تو ہم زندگی میں ادب کی بنیادی اہمیت سے منکر ہو جاتے ہیں۔ ادب کا کام تو زندگی میں معنی تلاش کرنا ہے اور ان کا رشتہ ماضی سے قائم کر کے مستقبل سے جوڑ دینا ہے۔ ادب کا حوالہ تو خود زندگی ہے اور وہ اسے ہی آگے بڑھاتا ہے۔ ادب تو انسانی تجربے کے مکمل علم و آگاہی کا نام ہے اور یہ علم و آگاوہ غیر معمولی مرتب و منظم صلاحیت ہے جس کے اظہار کی صلاحیت صرف با شعور و دردمند انسان کے پاس ہے۔ وہ انسان جو نہ صرف اس کے اظہار پر قدرت رکھتا ہے بلکہ جس کا اظہار سچا بھی ہے اور حسین بھی، مکمل بھی ہے اور مؤثر و مثبت بھی۔ اس لیے ادب تنقیدِ حیات ہے اور زندگی کے گہرے پانیوں میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کا نام ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’چشمِ بیدار‘‘ لاہور۔ مئی ۲۰۰۹ء)
ماخوز از:اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی
سرچ کے دورن مجھے یہ مضمون ملا تو سوچا وہ بھی یہاں شیر کر دوں ۔۔۔۔
تاکہ موضوع سے متعلق مواد ایک جگہ جمع ہو جائے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب کیا ہے؟
ڈاکٹر جمیل جالبی
یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ’’ادب‘‘ کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ ’’زندگی‘‘ کیا ہے تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جواب بھی آپ دیں گے وہ جامع نہیں ہو گا، اس میں صرف وہ زاویہ ہو گا جس سے خود آپ نے زندگی کو دیکھا ہے یا دیکھ رہے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دوسرا بھی اس سے اتفاق کرے یا آپ کے جواب سے مطمئن ہو جائے۔ یہ سوال بھی کہ ادب کیا ہے، اسی نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ادب بھی ’’زندگی‘‘ کے اظہار کا نام ہے۔ ادب چونکہ لفظوں کی ترتیب و تنظیم سے وجود میں آتا ہے اور ان لفظوں میں جذبہ و فکر بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبے، احساس یا فکر و خیال کے اظہار کو ادب کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی تعریف ہے جس میں کم و بیش ہر وہ بات جس سے کسی جذبے، احساس یا فکر کا اظہار ہوتا ہے اور جو منہ یا قلم سے نکلے، ادب کہلائے گی۔ لیکن میری طرح یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہر وہ بات جو منہ سے نکلتی ہے یا ہر وہ بات جو قلم سے ادا ہوتی ہے، ادب نہیں ہے۔ عام طور پر اخبار کے کالم یا اداریئے ادب نہیں کہلاتے حالانکہ ان میں الفاظ بھی ہوتے ہیں اور اثر و تاثیر کی قوت بھی ہوتی ہے۔ ہم سب خط لکھتے ہیں لیکن ہمارے خطوط ادب کے ذیل میں نہیں آتے لیکن اس کے برخلاف غالب کے خطوط ادب کے ذیل میں آتے ہیں۔ غالب اور دوسرے خطوط کے فرق کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسی تحریر کو ادب کہا جا سکتا ہے جس میں الفاظ اس ترتیب و تنظیم سے استعمال کیے گئے ہوں کہ پڑھنے والا اس تحریر سے لطف اندوز ہو اور اس کے معنی سے مسرت حاصل کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب لفظ و معنی اس طور پر گھل مل گئے ہوں کہ ان میں ’’رس‘‘ پیدا ہو گیا ہو۔ یہی رس کسی تحریر کو ادب بناتا ہے۔ اس مسرت کا تعلق ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس احساس سے ہو گا جس کا ہمیں ادراک ہوا ہے۔ یہ وہ تحریر ہو گی جس نے ہمارے شعور اور ہمارے تجربوں کے خزانے میں اضافہ کیا ہے اور اَن دیکھے تجربات سے اس طرح مانوس کر دیا ہے کہ وہ تجربے ہمارے اپنے تجربے بن گئے ہیں۔ یہ وہ تحریر ہو گی جس کا اثر وقتی اثر کا حامل نہیں ہو گا بلکہ اس میں اَبدیت ہو گی اور جو زمان و مکان سے آزاد ہو کر آفاقیت کی حامل ہو گی۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے مثنوی مولانا روم، دیوانِ حافظؔ ، کلامِ غالبؔ ، اشعارِ میر، تخلیقاتِ شیکسپئر اور مکالماتِ افلاطون ہمیں آج بھی متاثر کرتے ہیں اور ہمارے تجربات و شعور میں، احساس مسرت کے ساتھ اضافہ کرتے ہیں۔ جس تحریر میں بیک وقت یہ سب خصوصیات موجود ہوں گی وہ تحریر ادب کہلائے گی اور جتنی زیادہ یہ خصوصیات ہوں گی وہ تحریر اسی اعتبار سے عظیم ادب کے ذیل میں آئے گی۔
ادب کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ادب زندگی میں کسی چیز کا ’’بدل‘‘ نہیں ہے اور اگر اس کی حیثیت کسی اور چیز کے بدل کی ہے تو پھر وہ ادب نہیں ہے۔ ادب ایسا اظہار ہے جو زندگی کا شعور و ادراک حاصل کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ادب میں انسان کے تخیلی تجربے کو ابھارنے کی ایسی زبردست قوت ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اس تجربے کا ادراک کر لیتا ہے۔ ادب میں متحرک کرنے اور ہماری روح میں موجود خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ادب کے ذریعے ہم زندگی کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ یہ ادب کا خاص منصب ہے۔ ادیب ایک ایسا انسان ہے جس میں ادراک کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اس کے اظہار کی قوت بھی۔ اس کے ادراک و اظہار میں اتنی داخلی و خارجی وسعت اور تہ داری ہوتی ہے کہ ادب انفرادی و ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہوتا ہے۔ جتنا بڑا ادیب ہو گا اس کے تجربے کا تنوع، اس کا شعور و ادراک اور اس کا اظہار اتنا ہی بڑا اور آفاقی ہو گا۔
ادب کے ذریعے جیسا کہ میں نے کہا ہے، ہم دوسروں کے تجربوں میں شریک ہو جاتے ہیں اسی لیے ادب کی سطح پر ہم اپنی ذات سے بلند ہو جاتے ہیں۔ ادب عمل ادراک کی غیر معمولی قوت کے ذریعے ہماری عام ہستی کو بیدار کر کے شعور کی ایسی سطح پر لے آتا ہے جو اس کے بغیر خفتہ رہتی۔ اگر ادیب نہ ہوتا اور سعدیؔ ، میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ ، حافظؔ ، شیکسپیئر، گوئٹے، دانتے وغیرہ نہ ہوتے تو انسان آج بھی معصوم بچے کی طرح ہوتا۔ ادب کے ذریعے ہی ہم بلوغت کے درجے پر آئے ہیں۔ زندگی بسر کرتے ہوئے ہم پر بہت سے جذبے گزرتے ہیں، بہت سے ادھورے معنی ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں، نامعلوم احساس سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے، ہم میں بغاوت کا میلان پیدا ہوتا ہے لیکن یہ سب ہمارے لیے گونگے اور بے نام ہوتے ہیں۔ اور یونہی گزر جاتے ہیں لیکن جب ان سے ہمارا واسطہ ناول، افسانے، شاعری، ڈرامے یا مضمون میں لفظوں کی حسین، پُر رس اور جاندار ترتیب و تنظیم کے ساتھ پڑتا ہے تو ہم ان کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں اور یہ جذبے، یہ احساس، یہ میلان، یہ تجربے ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح ہم زندگی میں نئے معنی تلاش کر لیتے ہیں۔
ادب زندگی میں نئے معنی تلاش کرنے کا نام ہے اور اسی لیے ادب زندگی کے شعور کا نام ہے۔ اسی شعور کے ذریعے ہم بدلتے ہیں۔ ہم وہ نہیں رہتے جو اس وقت ہیں اور اسی سے ہمارے اندر قوت عمل پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کے ایسے تجربے جن سے ہمیں کبھی واسطہ نہیں پڑا، ادب کے ذریعے براہِ راست ہمارے تجربے بن جاتے ہیں اور ہمیں اور ہمارے اندازِ فکر کو بدل دیتے ہیں۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ادب کے ذریعے ہم دوسروں کے تجربوں میں اس طور پر شریک ہو جاتے ہیں کہ وہ ہمارے تجربے بن جاتے ہیں تو شاید یہ بات آپ کو پراسرار معلوم ہو لیکن اسے ایک انتہائی مثال سے یوں سمجھیے کہ اپنی محبوبہ کو رقابت یا حسدکی شدت کے زیر اثر قتل کرنے کا تجربہ ہمارے لیے حاصل کرنا آسان نہیں ہے لیکن شیکسپیئر کے اوتھیلو کے ساتھ شریک ہو کر یہ تجربہ ہمارا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح لیڈی میکبتھ کا تجربہ میرا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ فاؤسٹ کو پڑھ کر گوئٹے کے اور اینا کرینا، پڑھ کر ٹالسٹائی کے تجربات میرے تجربات بن جاتے ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی اور گلستان و بوستان کے تجربے میرے اپنے تجربات بن جاتے ہیں۔ ادب کا یہی کام ہے۔
اب آپ یہاں یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آخر کیا ان تجربات کا ادراک کیے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناًگزار سکتے ہیں لیکن یہ زندگی حیوانی سطح پر بسر ہو گی اگر ہم زندگی کو صرف اپنے تجربات تک محدود کر لیں تو زندگی اندھا کنواں بن کر رہ جائے اور عین ممکن ہے کہ ہمارے تجربات کوئی خطرناک صورت اختیار کر لیں اور ہمارے اندر ایک ایسا عدم توازن پیدا ہو جائے جو زندگی کو آگے بڑھانے کے بجائے اسے مثبت راستے سے ہٹا دے۔ ادب کے ذریعے جب دوسروں کے بے شمار چھوٹے بڑے تجربے ہمارے شعور و ادراک کا حصہ بنتے ہیں تو نہ صرف ہمارا تزکیہ (کیتھارس) ہو جاتا ہے بلکہ اس سے زندگی کا توازن بھی درست رہتا ہے۔ عام تجربہ گونگا ہوتا ہے۔ ادیب اسے زبان دے کر نہ صرف ہمیں اس کا ادراک کرا دیتا ہے بلکہ ہمارے باطن کو بھی روشن کر دیتا ہے۔
ہم نے اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ یہ بات حقیقت نہیں محض شاعری یا افسانہ ہے۔ کہنے والا جب یہ بات کہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ شاعری اور افسانہ دراصل جھوٹ ہوتے ہیں لیکن انہیں اگر تجربے کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس ’’بظاہر‘‘ جھوٹ میں انسانی تجربے کی وہ سچائی چُھپی ہوتی ہے جو ہمیں نیا شعور عطا کرتی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ادب ایسا جھوٹ ہے جو ہمیں سچائی کا نیا شعور عطا کرتا ہے اوراسی لیے اب تک انسان اورانسانی معاشرہ زندہ و باقی ہے۔ ہمیں ہوا کی طرح ادب کی ضرورت بھی ہمیشہ باقی رہے گی۔ ادب آزادی کی روح کا اظہار ہے۔ ادب سچائی کی تلاش کا مؤثر ذریعہ ہے لفظ چونکہ ہر دوسرے میڈیم سے زیادہ طاقتور چیز ہے اسی لیے ادب دوسرے فنونِ لطیفہ سے زیادہ مؤثر چیز ہے۔
آج کی جدید زندگی میں سائنس پر غیر معمولی زور ہے۔ سائنس نے اشیا کو تو ہمارے شعور میں داخل کر دیا ہے لیکن فکر و احساس کو زندگی سے نکال باہر کیا ہے اور اسی وجہ سے اس وقت ساری دنیا ایک ہولناک عدم توازن کا شکار ہے۔ زندگی ساری ترقیوں اور حیرت ناک ایجادات و انکشافات کے باوجود معنویت و توازن سے عاری ہو گئی ہے۔ اسی لیے ساری دنیا اس وقت ایک ایسے نظام خیال اور تصورِ حقیقت کی تلاش میں ہے جس سے انسان اپنے وجود کو بامعنی بنا سکے۔ یہ کام ادب کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ ادب ایک طرف ہمیں مسرت بہم پہنچاتا ہے، احساس جمال سے لطف اندوز کرتا ہے دوسروں کے تجربات سے ہمارا تزکیہ (کیتھارس) کرتا ہے اور دوسری طرف لفظوں کی جمالیاتی ترتیب سے احساس، جذبے یا خیال کو غیر ضروری عناصر سے پاک کر کے اس طور پر سامنے لاتا ہے کہ ہم بھی اسے پڑھتے ہوئے غیر معمولی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ادب جن دنیاؤں میں ہمیں لے جاتا ہے وہ حقیقی دنیا سے زیادہ حقیقی ہوتی ہیں۔ پروست نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہماری اصل زندگی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ اسے ہمارے سامنے لے آئے اور اس طرح ہمیں خود ہم سے واقف کرا دے۔ غالبؔ ، سرسید، حالیؔ اور اقبالؔ نے اپنی تحریروں سے ہمیں خود ہم سے واقف کرا کر اس طور پر بدلا ہے کہ ہم نے گویا نیا جنم لیا ہے۔ ادب یہی کام کرتا ہے اور یہی اس کا منصب ہے۔
اس ساری بحث کو سامنے رکھ کر جب ہم خود سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر ہمیں یہ سوال کہ ادب کیا ہے پوچھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی تو ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس چور سے آمنا سامنا ہوتا ہے جو ہمیں سائنس کے زیرِ اثر، ادب میں خالص افادیت کی تلاش پر اکسا رہا ہے۔ یہ سوال ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری چُھپی ہوئی خواہش اب یہ ہے کہ ادب بھی آج وہی کام کرے جو ایئر کنڈیشنر کرتا ہے جو پانی کو ٹھنڈا کر کے ریفریجریٹر کرتا ہے یا جو ہمارے بھجیا کپڑوں کی شکنیں، سلوٹیں دور کر کے استری کرتی ہے اور چونکہ ادب ہماری اس خواہش کو پورا نہیں کرتا اس لیے کہ یہ اس کا منصب نہیں ہے تو ہم زندگی میں ادب کی بنیادی اہمیت سے منکر ہو جاتے ہیں۔ ادب کا کام تو زندگی میں معنی تلاش کرنا ہے اور ان کا رشتہ ماضی سے قائم کر کے مستقبل سے جوڑ دینا ہے۔ ادب کا حوالہ تو خود زندگی ہے اور وہ اسے ہی آگے بڑھاتا ہے۔ ادب تو انسانی تجربے کے مکمل علم و آگاہی کا نام ہے اور یہ علم و آگاوہ غیر معمولی مرتب و منظم صلاحیت ہے جس کے اظہار کی صلاحیت صرف با شعور و دردمند انسان کے پاس ہے۔ وہ انسان جو نہ صرف اس کے اظہار پر قدرت رکھتا ہے بلکہ جس کا اظہار سچا بھی ہے اور حسین بھی، مکمل بھی ہے اور مؤثر و مثبت بھی۔ اس لیے ادب تنقیدِ حیات ہے اور زندگی کے گہرے پانیوں میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کا نام ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’چشمِ بیدار‘‘ لاہور۔ مئی ۲۰۰۹ء)
ماخوز از:اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی
آخری تدوین: