نبیل
تکنیکی معاون
اگرچہ یہ موضوع اردو نامہ فورم میں پوسٹ کیا جا سکتا تھا لیکن اردو کی سرپرستی کے نام پر کی جانے والی کارگزاریوں کو دیکھ کر اسے سیاست فورم میں ہی پوسٹ کر رہا ہوں۔
ماخذ: ایوانِ صدر اور اکیڈمی ادبیات کی مصروفیات... آن دا ریکارڈ …جبار مرزا
پاکستان کے موجودہ عالی مرتبت آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین تو تھے ہی سابقہ عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف جاتے جاتے ”صوفی‘ کا پورٹ فولیو، بھی انہیں دے گئے ہیں، درداں دی ماری جندڑی تو تھی ہی علیل کہ مہربانوں نے صدارت کا قلمدان بھی پکڑا دیا اب ایک آدمی کیا کیا کرے، کہاں کہاں جائے، ملکوں ملکوں تو گھوم چکا، کیا کچھ نہیں دیکھا، کہاں کہاں نہیں پہنچا۔ ایک جمہوری اور آزاد ملک کا صدر کس قدر مجبور ہے عام آدمی کو یہ احساس کہاں، حیرت تو ان لوگوں پر ہے جو عالی مرتبت کی حساس طبیعت کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے۔ گزشتہ دنوں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین فخرزمان نے بیس بیس لاکھ روپے کے کیش انعامات ان کتابوں پر دیئے تھے جن کتابوں کے لکھنے والوں نے انسانی بھلائی اور سماجی معاشی خدمات انجام دی ہوں یا جمہوریت کی آب یاری کی ہو اس کسوٹی پر پورا اترنے والوں میں قابل ذکر نام محترمہ بے نظیر بھٹو کا اور سویڈن کے PETERCURMAN ہیں، پیٹرکورمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی وابستگی چونکہ، نوبل پرائز کمیٹی سے ہے۔
چیئرمین ادبیات فخرزمان کی خواہش ہے کہ جب پاکستان کی حکومت ادب کے نوبل پرائز کے لئے ان کی نامزدگی کرے تو سویڈن میں موجود PETERCURMAN انہیں اگر نوبل پرائز نہ بھی دلا سکیں تو کم ازکم CONSIDER تو کریں۔ سچی بات ہے فخرزمان کو بین الاقوامی ایوارڈ ملنے پر مجھے خوشی ہو گی کیونکہ نام تو پاکستان ہی کا ہو گا ناں، البتہ وہ بیس لاکھ روپے سویڈن بھجوانا اس لئے اچھا نہیں لگا کہ یہ پاکستانی اہل قلم کا روپیہ ہے، اسے کسی ایک شخص یا پارٹی کی تشہیری مہم پر خرچ نہیں ہوناچاہئے۔
پاکستان کے کتنے ہی قلمکار کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، حبیب جالب کی بیوہ کافی عرصے سے بیمار ہیں، کراچی کورنگی کے ممتاز محقق اور بزرگ قلمکار جناب نور احمد میرٹھی جو کئی انعام یافتہ کتابوں کے مصنف ہیں، اکیڈمی وعدے کے باوجود ان کی ماہانہ پنشن مقرر نہ کرسکی جس کے لئے مخصوص رقم ہرسال اکیڈمی کو ملتی ہے، جہلم میں قیام پذیر جناب یعقوب شاہ حیدری جنہوں نے ساری عمر علم و نور بانٹا درجنوں کتابیں لکھیں، آج کل پیرانہ سالی کے باعث نہ صرف ان کا، چلنا پھرنا محال ہے بلکہ بینائی بھی کافی حد تک ساتھ چھوڑ گئی ہے، اکیڈمی ادبیات نے گزشتہ دنوں یہ کہہ کر صرف پانچ ہزار روپے کا ایک چیک انہیں بھجوایا کہ اکیڈمی کے پاس فنڈز نہیں ہیں جبکہ اسی دوران اکیڈمی آف لیٹرز نے لاکھوں روپیہ ایسے قلم کاروں کی کتابوں پر بھی نقد انعام دے ڈالا، جنہوں نے جیل میں قید کے دوران کتابیں لکھی تھیں۔
اس انعام کے مستحق قرار پانے والوں میں بھی قابل ذکر نام، ذوالفقار علی بھٹو اور موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب یوسف رضا گیلانی کے ہی ہیں قید تو عالی مرتبت آصف علی زرداری بھی رہے ہیں لیکن ان کی آٹھ سالہ قید کا زیادہ حصہ اسلام آباد کے ہاسپٹل کمپلیکس کے VIPرومز میں گزرا ہے، چارکمرے ہروقت ان کے استعمال میں ہوتے تھے اگر جیل میں رہے ہوتے تو آج ایک دوکتابوں کے مصنف ہوتے، بہرطور قیدی مصنفین کا انعام گیلانی صاحب نے تو بنفس نفیس وصول کر لیا۔
لیکن مسئلہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی کتابوں پر دیئے گئے انعامات کا تھا، جس کے لئے بڑا غورخوض ہوا، کافی ردو قد اور فکر کے بعد فیصلہ ہوا کہ بھٹو خاندان کا وارث تو ایوان صدر میں بیٹھا انسانیت کی خدمت کررہا ہے، لہٰذا وہ چیک عالی مرتبت آصف علی زرداری کو پہنچا دیئے گئے کتنا مجبور کرتے ہیں لوگ!! بہرطور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اہل قلم کے روپے کو ریوڑیاں سمجھ کے آپس میں بانٹا جا رہا ہے۔، جتنے منہ اتنی باتیں مجھے تو اس قسم کی باتیں کہنی ہی نہیں آتیں، مجھے تو اکیڈمی ادبیات کی 14سے 16مارچ والی وہ تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس یاد آ رہی ہے جس کا موضوع تھا ”صوفی ازم اور امن“ اس پر ایک کروڑ بانوے لاکھ روپے خرچ اٹھے دنیا کے تقریباً بیس ملکوں کے صوفی قلمکاروں نے شرکت کی تھی، راولپنڈی اسلام آباد کی برائے نام نمائندگی تھی لاہوریئے اس لئے نہ آئے کہ انہیں کہا گیا تھا کہ کرایہ لگا کر آجاؤ، دوہزار روپے ہم دے دیں گے، کوئٹہ اور کراچی والوں کے لئے مونگ پھلی کے برابر تعاون کی پیشکش کی گئی تھی، البتہ بھارت، امریکہ، کینیڈا اور یورپ والوں کے لئے اسلام آباد کے پانچ تاروں والے ہوٹلوں میں قیام و طعام آنے جانے کاسارا ہوائی خرچ اور روزمرہ DISTURBANCE الاؤنس اکیڈمی ادبیات کے ذمے تھا۔
صدر آصف علی زرداری نے مہمان صوفیوں سے کہا تھا کہ ”میں موت کے پھندے سے صدارت تک پہنچا ہوں، موت سے نہیں ڈرتا بلکہ ایوان صدر میں بیٹھا موت کا انتظار کر رہا ہوں“ ۔
بہرطور میں نے اس تین روزہ کانفرنس کے پہلے روز کا پہلا اور تیسرے دن کے آخری سیشن کی سعادت ہی حاصل کی، کانفرنس کا الوادعی آئیٹم پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں ”صوفی میوزک“ تھا جس میں عابدہ پروین اور نصرت فتح علی کے گائے ہوئے صوفیانہ کلام پر پانچ نوجوان لڑکیوں نے اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ ایسا ایسا صوفیانہ رقص کیا کہ وہاں پر موجود برطانیہ اور امریکہ کے بڑے بڑے صوفی تھرّا کے رہ گئے۔
میرے ایک دوست اگر میرے کندھے پر ہاتھ نہ رکھتے تو ہو سکتا ہے وجد میں آکر میں بھی اسٹیج کے صوفیوں میں جاملتا، بہرطور صوفیانہ رقص و سرور کے بعد اکیڈمی آف لیٹر کے چیئرمین فخرزمان نے اسٹیج پر آکر بڑے جذباتی اور جلالی انداز میں کہا کہ ”کدھر گیا، تھیوکریٹ کہاں ہے مُلّا، اسے بتاؤ کہ ہم انتہاپسند نہیں، لبرل ہیں، یہ ہے پاکستان“ اس پر امریکی صوفی نے کہا yes,yes، یقینا امریکہ اسی قسم کے پاکستان کا آرزومند ہے جس کے لئے ایوان صدر اور اکیڈمی ادبیات رات دن مصروف ہیں!!
ماخذ: ایوانِ صدر اور اکیڈمی ادبیات کی مصروفیات... آن دا ریکارڈ …جبار مرزا
پاکستان کے موجودہ عالی مرتبت آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین تو تھے ہی سابقہ عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف جاتے جاتے ”صوفی‘ کا پورٹ فولیو، بھی انہیں دے گئے ہیں، درداں دی ماری جندڑی تو تھی ہی علیل کہ مہربانوں نے صدارت کا قلمدان بھی پکڑا دیا اب ایک آدمی کیا کیا کرے، کہاں کہاں جائے، ملکوں ملکوں تو گھوم چکا، کیا کچھ نہیں دیکھا، کہاں کہاں نہیں پہنچا۔ ایک جمہوری اور آزاد ملک کا صدر کس قدر مجبور ہے عام آدمی کو یہ احساس کہاں، حیرت تو ان لوگوں پر ہے جو عالی مرتبت کی حساس طبیعت کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے۔ گزشتہ دنوں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین فخرزمان نے بیس بیس لاکھ روپے کے کیش انعامات ان کتابوں پر دیئے تھے جن کتابوں کے لکھنے والوں نے انسانی بھلائی اور سماجی معاشی خدمات انجام دی ہوں یا جمہوریت کی آب یاری کی ہو اس کسوٹی پر پورا اترنے والوں میں قابل ذکر نام محترمہ بے نظیر بھٹو کا اور سویڈن کے PETERCURMAN ہیں، پیٹرکورمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی وابستگی چونکہ، نوبل پرائز کمیٹی سے ہے۔
چیئرمین ادبیات فخرزمان کی خواہش ہے کہ جب پاکستان کی حکومت ادب کے نوبل پرائز کے لئے ان کی نامزدگی کرے تو سویڈن میں موجود PETERCURMAN انہیں اگر نوبل پرائز نہ بھی دلا سکیں تو کم ازکم CONSIDER تو کریں۔ سچی بات ہے فخرزمان کو بین الاقوامی ایوارڈ ملنے پر مجھے خوشی ہو گی کیونکہ نام تو پاکستان ہی کا ہو گا ناں، البتہ وہ بیس لاکھ روپے سویڈن بھجوانا اس لئے اچھا نہیں لگا کہ یہ پاکستانی اہل قلم کا روپیہ ہے، اسے کسی ایک شخص یا پارٹی کی تشہیری مہم پر خرچ نہیں ہوناچاہئے۔
پاکستان کے کتنے ہی قلمکار کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، حبیب جالب کی بیوہ کافی عرصے سے بیمار ہیں، کراچی کورنگی کے ممتاز محقق اور بزرگ قلمکار جناب نور احمد میرٹھی جو کئی انعام یافتہ کتابوں کے مصنف ہیں، اکیڈمی وعدے کے باوجود ان کی ماہانہ پنشن مقرر نہ کرسکی جس کے لئے مخصوص رقم ہرسال اکیڈمی کو ملتی ہے، جہلم میں قیام پذیر جناب یعقوب شاہ حیدری جنہوں نے ساری عمر علم و نور بانٹا درجنوں کتابیں لکھیں، آج کل پیرانہ سالی کے باعث نہ صرف ان کا، چلنا پھرنا محال ہے بلکہ بینائی بھی کافی حد تک ساتھ چھوڑ گئی ہے، اکیڈمی ادبیات نے گزشتہ دنوں یہ کہہ کر صرف پانچ ہزار روپے کا ایک چیک انہیں بھجوایا کہ اکیڈمی کے پاس فنڈز نہیں ہیں جبکہ اسی دوران اکیڈمی آف لیٹرز نے لاکھوں روپیہ ایسے قلم کاروں کی کتابوں پر بھی نقد انعام دے ڈالا، جنہوں نے جیل میں قید کے دوران کتابیں لکھی تھیں۔
اس انعام کے مستحق قرار پانے والوں میں بھی قابل ذکر نام، ذوالفقار علی بھٹو اور موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب یوسف رضا گیلانی کے ہی ہیں قید تو عالی مرتبت آصف علی زرداری بھی رہے ہیں لیکن ان کی آٹھ سالہ قید کا زیادہ حصہ اسلام آباد کے ہاسپٹل کمپلیکس کے VIPرومز میں گزرا ہے، چارکمرے ہروقت ان کے استعمال میں ہوتے تھے اگر جیل میں رہے ہوتے تو آج ایک دوکتابوں کے مصنف ہوتے، بہرطور قیدی مصنفین کا انعام گیلانی صاحب نے تو بنفس نفیس وصول کر لیا۔
لیکن مسئلہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی کتابوں پر دیئے گئے انعامات کا تھا، جس کے لئے بڑا غورخوض ہوا، کافی ردو قد اور فکر کے بعد فیصلہ ہوا کہ بھٹو خاندان کا وارث تو ایوان صدر میں بیٹھا انسانیت کی خدمت کررہا ہے، لہٰذا وہ چیک عالی مرتبت آصف علی زرداری کو پہنچا دیئے گئے کتنا مجبور کرتے ہیں لوگ!! بہرطور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اہل قلم کے روپے کو ریوڑیاں سمجھ کے آپس میں بانٹا جا رہا ہے۔، جتنے منہ اتنی باتیں مجھے تو اس قسم کی باتیں کہنی ہی نہیں آتیں، مجھے تو اکیڈمی ادبیات کی 14سے 16مارچ والی وہ تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس یاد آ رہی ہے جس کا موضوع تھا ”صوفی ازم اور امن“ اس پر ایک کروڑ بانوے لاکھ روپے خرچ اٹھے دنیا کے تقریباً بیس ملکوں کے صوفی قلمکاروں نے شرکت کی تھی، راولپنڈی اسلام آباد کی برائے نام نمائندگی تھی لاہوریئے اس لئے نہ آئے کہ انہیں کہا گیا تھا کہ کرایہ لگا کر آجاؤ، دوہزار روپے ہم دے دیں گے، کوئٹہ اور کراچی والوں کے لئے مونگ پھلی کے برابر تعاون کی پیشکش کی گئی تھی، البتہ بھارت، امریکہ، کینیڈا اور یورپ والوں کے لئے اسلام آباد کے پانچ تاروں والے ہوٹلوں میں قیام و طعام آنے جانے کاسارا ہوائی خرچ اور روزمرہ DISTURBANCE الاؤنس اکیڈمی ادبیات کے ذمے تھا۔
صدر آصف علی زرداری نے مہمان صوفیوں سے کہا تھا کہ ”میں موت کے پھندے سے صدارت تک پہنچا ہوں، موت سے نہیں ڈرتا بلکہ ایوان صدر میں بیٹھا موت کا انتظار کر رہا ہوں“ ۔
بہرطور میں نے اس تین روزہ کانفرنس کے پہلے روز کا پہلا اور تیسرے دن کے آخری سیشن کی سعادت ہی حاصل کی، کانفرنس کا الوادعی آئیٹم پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں ”صوفی میوزک“ تھا جس میں عابدہ پروین اور نصرت فتح علی کے گائے ہوئے صوفیانہ کلام پر پانچ نوجوان لڑکیوں نے اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ ایسا ایسا صوفیانہ رقص کیا کہ وہاں پر موجود برطانیہ اور امریکہ کے بڑے بڑے صوفی تھرّا کے رہ گئے۔
میرے ایک دوست اگر میرے کندھے پر ہاتھ نہ رکھتے تو ہو سکتا ہے وجد میں آکر میں بھی اسٹیج کے صوفیوں میں جاملتا، بہرطور صوفیانہ رقص و سرور کے بعد اکیڈمی آف لیٹر کے چیئرمین فخرزمان نے اسٹیج پر آکر بڑے جذباتی اور جلالی انداز میں کہا کہ ”کدھر گیا، تھیوکریٹ کہاں ہے مُلّا، اسے بتاؤ کہ ہم انتہاپسند نہیں، لبرل ہیں، یہ ہے پاکستان“ اس پر امریکی صوفی نے کہا yes,yes، یقینا امریکہ اسی قسم کے پاکستان کا آرزومند ہے جس کے لئے ایوان صدر اور اکیڈمی ادبیات رات دن مصروف ہیں!!