یہ یاد رکھیں کہ کسی ایک پارٹی کا اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا۔ کل کے مظلوم آج کے حکمران ہیں تو آج جوتوں کا نشانہ بننے والے کل پھر سے صاحب اختیار بن سکتے ہیں۔ اس وقت ان کے پاس بھی بدلہ لینے کا جواز ہوگا۔ اگر یہ شیطانی چکر یونہی چلتا رہا تو عوام بیچاری آٹے کے تھیلے کے انتظار میں لمبی ہوتی قطاروں میں لگتے رہیں گے اور سیاسی پارٹیاں پرانے بدلے چکانے میں مصروف رہیں گی۔
انتخابات سے قبل مشرف نے مغربی ممالک کے دورے کرکے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کے عوام جمہوریت کے قابل نہیں ہیں اور وہاں استحکام کے لیے فوج کا اقتدار میں رہنا ضروری ہے۔ مشرف شاید مغربی ممالک کو یہ بات سمجھانے میں ناکام رہا لیکن انتخابات کے بعد ہم اپنے طرز عمل سے اس کی بات کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔