فر حان
محفلین
سندھ کے سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو پیر کو صوبائی اسمبلی کے احاطے میں جوتے مارے گئے اور لعنتیں اور مغلطات دی گئیں۔
جوتا برداروں میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی تھیں جو ٹی وی چینلز کی لائیو کوریج کے دوران ہاتھوں میں جوتیاں اٹھائے بے صبری سے ارباب غلام رحیم کی راہ تکتی نظر آئیں۔
اس سے پہلے سنیچر کو بھی اسمبلی پہنچنے پر مشتعل لوگوں نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی تھی اور کھینچا تانی میں ان کی قمیض پھٹ گئی اور انہوں نے سپیکر کے چیمبر میں گھس کر اپنی جان بچائی۔پیپلز پارٹی کے راہنماؤں نے اس واقعہ کو عوامی ردعمل قرار دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ارباب غلام رحیم نے حکومت میں رہ کر آخر ایسا کیا کیا کہ لوگوں کا غصہ ہے کہ کم ہونے میں نہیں آرہا؟
پچھلے ساڑھے تین سال کے اخبارات پر نظر دوڑائی جائے تو ارباب غلام رحیم کے ایسے کئی متنازع بیانات اور اقدامات ملیں گے جنہیں ان کی وجۂ شہرت قرار دیا جا سکتا ہے۔
مثلاً پچھلے سال اٹھارہ اکتوبر کو جب پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر کراچی میں شاہراہ فیصل پر ان کی استقبالیہ ریلی میں بم دھماکوں میں ڈیڑھ سو لوگ مارے گئے اور پانچ سو کے قریب شدید زخمی ہوئے تو یہ ارباب غلام رحیم ہی تھے جنہوں نے اس واقعہ کے کچھ دن بعد یہ بیان دیا تھا ’بینظیر بھٹو کی آمد نحوست تھی اور اسی وجہ سے بم حملے میں اتنے لوگ مارے گئے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’خودکش حملہ پیسے دے کر نہیں کرایا جاسکتا بلکہ یہ جذبے کے تحت کیا جاتا ہے‘۔ اسی طرح گزشتہ سال کے اوائل میں انہوں نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ ’بے نظیر بھٹو کبھی واپس نہیں آئیں گی اور ان کی آخری آرام گاہ بھی باہر ہی بنے گی‘۔
سنہ 2004 میں جب آصف زرداری رہا ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتی۔ ’ورنہ اگر سندھ حکومت چاہتی تو آصف علی زرداری کو بکری کی چوری کا مقدمہ قائم کر کے جیل میں رکھا جا سکتا تھا‘۔
نو مارچ 2007 کو جب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو غیر فعال بنایا گیا تو ارباب غلام رحیم وہ پہلے حکومتی عہدیدار تھے جنہوں نے صدر پرویز مشرف کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس کے خلاف گواہی دیں گے۔
کراچی میں بارہ مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات میں چالیس سے زیادہ لوگ مارے گئے تو انہوں نے بیان دیا کہ ان واقعات کی تحقیقات نہیں ہوں گی کیونکہ ’اگر تحقیقات میں چلے جائیں گے تو اس سے امن و امان خراب ہوگا، کوئی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوگا اور اس کو سیاسی مسئلہ بنایا جائے گا‘۔
جب سندھ ہائی کورٹ نے بارہ مئی کے واقعات کا ازخود نوٹس لیا تو ارباب غلام رحیم نے کہا: ’عدالت اگر پارٹی نہ بنی تو حکومت اس سے تعاون کرے گی، اگر پارٹی بنی تو پھر ہمارے افسر (عدالت میں) نہیں جائیں گے‘۔ ان کا کہنا تھا ’آج کل عدالتیں ہر چیز کا خود نوٹس لے رہی ہیں۔ ٹرانسفر اور پوسٹنگ اور زمینوں کے معاملات میں بھی عدالتیں مداخلت کر رہی ہیں۔‘
ستمبر 2007 میں بعض وکلاء کی ضمانت پر رہائی کا حکم دینے پر جب سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد کے خلاف، ہائی کورٹ کے اطراف الزامات پر مبنی بینرز آویزاں کیے گئے اور وال چاکنگ کی گئی تو ارباب غلام رحیم نے ایک پریس کانفرنس میں اسے عوامی ردعمل قرار دیا۔ ان کے اس بیان پر عدالت نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔
قاف کی قیادت نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس دوران یہ خبرگرم تھی کہ ارباب غلام رحیم کی وزارت اعلی بھی خطرے میں ہے۔ لیکن انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے چاہا انہیں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔‘
سنہ 2006 میں ارباب غلام رحیم اور ان کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے مابین انتظامی اختیارات اور دیگر معاملات پر جب شدید اختلافات سامنے آئے تو وزیر اعظم شوکت عزیز نے ذاتی طور پر مداخلت کر کے اختلافات ختم کرائے۔ لیکن چند ماہ بعد ہی ایم کیو ایم نے دوبارہ ان کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا اور اپنے وزراء اور مشیران سے استعفے وصول کر کے بظاہر حکومت سے علیحدگی کی تیاری کرلی تو صدر پرویز مشرف نے مداخلت کی اور فریقین کو مصالحت کے لیے اسلام آباد بلایا۔
اسلام آباد روانگی سے قبل ارباب غلام رحیم نے ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر یہ بیان دیا کہ ’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘۔
ان کے اس بیان پر ایم کیو ایم نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اپنی مذاکراتی ٹیم کو واپس کراچی بلا لیا۔ اگرچہ بعد میں صدر پرویز مشرف نے مداخلت کرکے معاملے کو رفع دفع کرادیا۔ ارباب رحیم کے خلاف ان کے دور حکومت میں سب سے زیادہ احتجاج کی وجہ ان کے سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں بنیں۔ سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان نے یہ الزام لگاتے ہوئے احتجاج کیا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی، رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے جھوٹے مقدمات میں پھنسا رہے ہیں تو ارباب غلام رحیم نے اسمبلی کے فلور پر یہ بیان دیا تھا کہ ’میں نے پولیس والوں سے کہا ہے کہ وہ گڑبڑ کرنے والوں کی اچھی طرح ٹھکائی کریں‘۔
ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں بائیں بازو کے سینیئر سیاسی کارکن ساٹھ سالہ جام ساقی کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں مقدمہ بنایا گیا۔ ان کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی تھی جب وہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے کمیشن کے ارکان اور صحافیوں پر مشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ ارباب غلام رحیم کے آبائی گاؤں کھیت لاری میں ایک ہندو خاتون کے اغواء اور زیادتی کے ایک واقعہ کی تحقیقات کے بعد واپس حیدرآباد لوٹے تھے۔ انسانی حقوق کمیشن نے الزام لگایا تھا کہ اس واقعہ میں ارباب غلام رحیم کے بعض قریبی لوگ ملوث تھے۔
سنہ 2005 میں جب بجٹ سیشن کے دوران پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی زاہد بھرگڑی نے منہ پر پٹی باندھ کر احتجاج کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ضلع دادو میں پہلے سے درج دہشتگردی کے ایک مقدمے میں نامزد کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے اس کے خلاف سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے تو دو ہفتے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔
ارباب غلام رحیم نے وزیر اعلی کی حیثیت سے سندھ میں ایک ایسا قانون بھی منظور کرانے کی کوشش کی جس کے تحت جرگہ سسٹم کو فاٹا کی طرز پر متوازی عدلیہ کے طور پر قانونی حیثیت دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے بعد گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے اس آرڈیننس کے مسودے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے یہ قانون منظور نہیں ہوسکا۔ ارباب غلام رحیم یہ قانون اس وقت لانا چاہ رہے تھے جب سندھ ہائی کورٹ پہلے ہی جرگہ سسٹم کو غیرقانونی قرار دے کر اسے ختم کرنے کا حکم دے چکی تھی۔
جوتا برداروں میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی تھیں جو ٹی وی چینلز کی لائیو کوریج کے دوران ہاتھوں میں جوتیاں اٹھائے بے صبری سے ارباب غلام رحیم کی راہ تکتی نظر آئیں۔
اس سے پہلے سنیچر کو بھی اسمبلی پہنچنے پر مشتعل لوگوں نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی تھی اور کھینچا تانی میں ان کی قمیض پھٹ گئی اور انہوں نے سپیکر کے چیمبر میں گھس کر اپنی جان بچائی۔پیپلز پارٹی کے راہنماؤں نے اس واقعہ کو عوامی ردعمل قرار دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ارباب غلام رحیم نے حکومت میں رہ کر آخر ایسا کیا کیا کہ لوگوں کا غصہ ہے کہ کم ہونے میں نہیں آرہا؟
پچھلے ساڑھے تین سال کے اخبارات پر نظر دوڑائی جائے تو ارباب غلام رحیم کے ایسے کئی متنازع بیانات اور اقدامات ملیں گے جنہیں ان کی وجۂ شہرت قرار دیا جا سکتا ہے۔
مثلاً پچھلے سال اٹھارہ اکتوبر کو جب پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر کراچی میں شاہراہ فیصل پر ان کی استقبالیہ ریلی میں بم دھماکوں میں ڈیڑھ سو لوگ مارے گئے اور پانچ سو کے قریب شدید زخمی ہوئے تو یہ ارباب غلام رحیم ہی تھے جنہوں نے اس واقعہ کے کچھ دن بعد یہ بیان دیا تھا ’بینظیر بھٹو کی آمد نحوست تھی اور اسی وجہ سے بم حملے میں اتنے لوگ مارے گئے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’خودکش حملہ پیسے دے کر نہیں کرایا جاسکتا بلکہ یہ جذبے کے تحت کیا جاتا ہے‘۔ اسی طرح گزشتہ سال کے اوائل میں انہوں نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ ’بے نظیر بھٹو کبھی واپس نہیں آئیں گی اور ان کی آخری آرام گاہ بھی باہر ہی بنے گی‘۔
سنہ 2004 میں جب آصف زرداری رہا ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتی۔ ’ورنہ اگر سندھ حکومت چاہتی تو آصف علی زرداری کو بکری کی چوری کا مقدمہ قائم کر کے جیل میں رکھا جا سکتا تھا‘۔
نو مارچ 2007 کو جب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو غیر فعال بنایا گیا تو ارباب غلام رحیم وہ پہلے حکومتی عہدیدار تھے جنہوں نے صدر پرویز مشرف کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس کے خلاف گواہی دیں گے۔
کراچی میں بارہ مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات میں چالیس سے زیادہ لوگ مارے گئے تو انہوں نے بیان دیا کہ ان واقعات کی تحقیقات نہیں ہوں گی کیونکہ ’اگر تحقیقات میں چلے جائیں گے تو اس سے امن و امان خراب ہوگا، کوئی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوگا اور اس کو سیاسی مسئلہ بنایا جائے گا‘۔
جب سندھ ہائی کورٹ نے بارہ مئی کے واقعات کا ازخود نوٹس لیا تو ارباب غلام رحیم نے کہا: ’عدالت اگر پارٹی نہ بنی تو حکومت اس سے تعاون کرے گی، اگر پارٹی بنی تو پھر ہمارے افسر (عدالت میں) نہیں جائیں گے‘۔ ان کا کہنا تھا ’آج کل عدالتیں ہر چیز کا خود نوٹس لے رہی ہیں۔ ٹرانسفر اور پوسٹنگ اور زمینوں کے معاملات میں بھی عدالتیں مداخلت کر رہی ہیں۔‘
ستمبر 2007 میں بعض وکلاء کی ضمانت پر رہائی کا حکم دینے پر جب سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد کے خلاف، ہائی کورٹ کے اطراف الزامات پر مبنی بینرز آویزاں کیے گئے اور وال چاکنگ کی گئی تو ارباب غلام رحیم نے ایک پریس کانفرنس میں اسے عوامی ردعمل قرار دیا۔ ان کے اس بیان پر عدالت نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔
قاف کی قیادت نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس دوران یہ خبرگرم تھی کہ ارباب غلام رحیم کی وزارت اعلی بھی خطرے میں ہے۔ لیکن انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف نے چاہا انہیں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔‘
سنہ 2006 میں ارباب غلام رحیم اور ان کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے مابین انتظامی اختیارات اور دیگر معاملات پر جب شدید اختلافات سامنے آئے تو وزیر اعظم شوکت عزیز نے ذاتی طور پر مداخلت کر کے اختلافات ختم کرائے۔ لیکن چند ماہ بعد ہی ایم کیو ایم نے دوبارہ ان کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا اور اپنے وزراء اور مشیران سے استعفے وصول کر کے بظاہر حکومت سے علیحدگی کی تیاری کرلی تو صدر پرویز مشرف نے مداخلت کی اور فریقین کو مصالحت کے لیے اسلام آباد بلایا۔
اسلام آباد روانگی سے قبل ارباب غلام رحیم نے ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر یہ بیان دیا کہ ’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘۔
ان کے اس بیان پر ایم کیو ایم نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اپنی مذاکراتی ٹیم کو واپس کراچی بلا لیا۔ اگرچہ بعد میں صدر پرویز مشرف نے مداخلت کرکے معاملے کو رفع دفع کرادیا۔ ارباب رحیم کے خلاف ان کے دور حکومت میں سب سے زیادہ احتجاج کی وجہ ان کے سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں بنیں۔ سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان نے یہ الزام لگاتے ہوئے احتجاج کیا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی، رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے جھوٹے مقدمات میں پھنسا رہے ہیں تو ارباب غلام رحیم نے اسمبلی کے فلور پر یہ بیان دیا تھا کہ ’میں نے پولیس والوں سے کہا ہے کہ وہ گڑبڑ کرنے والوں کی اچھی طرح ٹھکائی کریں‘۔
ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں بائیں بازو کے سینیئر سیاسی کارکن ساٹھ سالہ جام ساقی کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں مقدمہ بنایا گیا۔ ان کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی تھی جب وہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے کمیشن کے ارکان اور صحافیوں پر مشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم کے ساتھ ارباب غلام رحیم کے آبائی گاؤں کھیت لاری میں ایک ہندو خاتون کے اغواء اور زیادتی کے ایک واقعہ کی تحقیقات کے بعد واپس حیدرآباد لوٹے تھے۔ انسانی حقوق کمیشن نے الزام لگایا تھا کہ اس واقعہ میں ارباب غلام رحیم کے بعض قریبی لوگ ملوث تھے۔
سنہ 2005 میں جب بجٹ سیشن کے دوران پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی زاہد بھرگڑی نے منہ پر پٹی باندھ کر احتجاج کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ضلع دادو میں پہلے سے درج دہشتگردی کے ایک مقدمے میں نامزد کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے اس کے خلاف سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے تو دو ہفتے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔
ارباب غلام رحیم نے وزیر اعلی کی حیثیت سے سندھ میں ایک ایسا قانون بھی منظور کرانے کی کوشش کی جس کے تحت جرگہ سسٹم کو فاٹا کی طرز پر متوازی عدلیہ کے طور پر قانونی حیثیت دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے بعد گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے اس آرڈیننس کے مسودے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے یہ قانون منظور نہیں ہوسکا۔ ارباب غلام رحیم یہ قانون اس وقت لانا چاہ رہے تھے جب سندھ ہائی کورٹ پہلے ہی جرگہ سسٹم کو غیرقانونی قرار دے کر اسے ختم کرنے کا حکم دے چکی تھی۔