یوسف-2
محفلین
اردشیر کاؤس جی ۔۔۔ ایک شاندار۔۔ہنگامہ خیز زندگی گزارنے کے بعد ہفتے کی شب اُسی کراچی میں آسود�ۂ خاک ہوئے جہاں انہوں نے اپریل 1926ء میں ایک جہازراں مرچنٹ کے گھر جنم لیاتھا۔۔۔ شیخی کی حد تک اپنے مسلک سے مغلوب ایک دوسرے کا خون بہانے والے کراچی کے موجودہ باسیوں کو شاید علم نہ ہو کہ اس شہر کو بنانے ۔۔ اور سنوارنے میں قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے ابتدائی برسوں میں ہندوؤں اور پارسیوں نے کتنا بڑا کردار ادا کیا۔ کراچی میں آج کے بیشتر مشہور ہسپتال اور تعلیمی ادارے اور پُر شکوہ عمارتیں اور تفریح گاہیں انہی کی تعمیر کردہ ہیں۔تیزی سے معدوم ہوتی ہوئی پارسی قوم کی ایک بڑی تعداد ممبئی کے بعد کراچی میں صدیوں سے رہائش پذیر تھی۔۔ سارے کے سارے ہی پڑھے لکھے ۔۔ مہذب ۔۔ متمدن۔۔ اور اپنی کمیونٹی کی مذہبی ۔۔سماجی اور معاشرتی سرگرمیوں میں گم۔۔ قیام پاکستان کے بعد ایسے پارسیوں کی تعداد انگلیوں ہی میں گنی جاسکتی ہے کہ جنہیں شہرت اور مقبولیت کا چسکا ہو۔۔ اردشیر کاؤس جی کو خبروں میں رہنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔۔۔ اور اس کے لئے بڑے بڑوں سے کراچی کی بازاری زبان میں ’’پنگا‘‘ لینا اُن کا دلچسپ مشغلہ تھا۔۔ گزشتہ تین دہائی سے اردشیر کی شہرت اپنی جہازراں کمپنی نہیں بلکہ ’’کالم نویسی‘‘ ۔۔ اور فلاحی کاموں کے سبب تھی۔ پہلے ذکر کالم نویسی کا ہوجائے۔۔ کسی محفل میں برسوں پہلے اردشیر سے کسی نے سوال کیا ۔۔۔ ’’یہ آپ کالم نویسی میں کیسے آگئے؟‘‘۔۔۔ ’’یہ سالا‘‘۔۔۔ معاف کیجئے میرے نزدیک ادب اور صحافت میں یہ لفظ متروک ہے۔۔۔ مگر اردشیر اس ’’سالے‘‘ لفظ کو اپنی تحریروں بلکہ ٹی وی انٹرویوز میں اس کثرت سے استعمال کرتے تھے کہ یہ ایک ’’محاورہ‘‘ بن گیا۔جس کا نہ پڑھنے والا برا مانتا ۔۔ نہ سننے والا۔۔ اردشیر کہا کرتے تھے کہ ’’یہ سالا۔۔ اس نے مجھے کالم نویس بنا دیا۔۔جب اُس نے مجھے جیل میں ڈالا تو میں سیاست میں تو اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔۔ تومیں نے سوچا ۔۔صرف قلم ہی سے میں اُس سے لڑ سکتا ہوں‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو کہ جو اپنی نوجوانی میں اردشیر کے یار باش ہوتے تھے۔۔۔ ایک دوسرے کے دشمنی کی حد تک مخالف کیوں اور کیسے بنے۔۔۔ اس بارے میں متضاد قصّے مشہور ہیں۔۔۔ بھٹو صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد اردشیر کو 1973ء میں پاکستان ٹورِزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا چیئرمین لگایاتھا۔۔ صدر اور وزیر اعظم کے عہدۂ جلیلہ پر بیٹھنے کے بعد بھی اردشیر کیلئے ۔۔ بھٹو صاحب کے گھروں کے دروازے کھُلے ہوتے تھے۔مگر اردشیر کی سب سے بڑی کمزوری اُن کی بڑ بولی زبان تھی۔شام کو نجی محفلوں میں یہ اور بھی سرپٹ دوڑتی ۔۔۔ بھٹو صاحب کے طرز حکمرانی پر یوں تو اور بھی تنقید کرتے مگر اردشیر کی تنقید میں گالی کا تڑکا لگا ہوتاتھا۔۔۔ اسی دوران بھٹو صاحب نے ساری صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا جس میں اردشیر کی جہازراں کمپنی بھی آگئی۔۔۔ جن صنعتکاروں اور تاجروں نے اس کی مزاحمت کی۔۔۔ انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ اردشیر کا ؤس جی بھی ان میں شامل تھے جنہیں 72دن کراچی سنٹرل جیل میں رکھا گیا ۔۔۔ عیش و عشرت میں پلے۔۔ اُس پر اپنی خاندانی وجاہت سے مغلوب اردشیر کاؤس جی ساری زندگی جیل کے 72دن نہیں بھولے ۔۔۔ اور پھر جب بے نظیر بھٹو کے پہلے دور اقتدار قریب انہوں نے انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں کالم لکھنا شروع کیا تو پھر اگلے 22برسوں میں شاید ہی کوئی ایسا کالم ہو جس میں پیپلز پارٹی اور اُس سے زیادہ بھٹو خاندان کا ؤس جی کے کالم کا ہدف نہ بنتا ہو۔۔ مہینہ اور سال تو یاد نہیں۔۔۔ بہر حال اُن دنوں بھٹو خاندان شدید ابتلاء میں تھا۔بھٹوصاحب کو پھانسی ہوچکی تھی۔۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹولاڑکانہ میں نظر بند تھیں اور دونوں بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو جلاوطن۔۔۔ کراچی پریس کلب میں معراج محمد خان کی قومی محاذآزادی کی عید ملن پارٹی کا جلسہ تھا۔۔ اردشیر کاؤس جی مہمان خصوصی تھے۔۔ حسبِ روایت اور عادت اردشیر نے سارے سیاستدانوں کو اپنی مخصوص دلچسپ ’اردُو۔۔گجراتی۔۔انگریزی‘ میں گُندھی زبان میں لتاڑنا شروع کردیا۔۔۔ !
’’سالا سب چور ہے۔۔۔ کیامیاں ۔۔۔ کیا بی بی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اردشیر نے سامعین سے پوچھا۔’’میں ٹھیک بولا نا؟ اگر میں غلط ہوں تو اِدھر سٹیج پر آکر بولو۔۔‘‘ اردشیر نے چیلنج کیا۔ اب وہ ہمارے بھی سرشاری کے دن تھے اور پھر ان دنوں ضیاء الحق کی قید کا ٹنے کے بعد بے روزگاری بھی جھیل رہے تھے ۔۔ اس لیے چھلانگیں مارتے سٹیج پر چڑھ گئے ۔۔ جہاں تک یادآرہاہے۔۔ میں نے ذرا سخت بلکہ بھونڈے لہجے میں تقریر جھاڑی تھی کہ۔۔’’آج بھٹو سے زیادہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں مظالم ہورہے ہیں۔۔حتیٰ کہ صحافیوں کو کوڑوں جیسی بہیمانہ سزائیں تک دی جارہی ہیں۔مگر اردشیر آپ کا قلم ’سالا‘ کبھی ضیاء الحق پر نہیں چلتا۔۔۔‘‘ میری تقریر کے دوران اردشیر ہنستے رہے۔۔۔ بعد کے دنوں میں اکثر پارٹیوں میں ملاقاتیں ہوتیں۔۔۔ جہاں اردشیر اپنے مخصوص لمبے چوغے میں راجہ اِندر بنے چُسکیاں لے رہے ہوتے تھے۔ اور خواتین و حضرات یقیناًخواتین زیادہ اردشیر کی گالیوں اور لطیفوں سے محظوظ ہورہی ہوتی تھیں۔۔۔ یہ لیجئے ۔اردشیر کی زندگی کے ایک بہت بڑے اور دلکش پہلو کو تو میں بھول ہی گیا۔ غالباً 1983ء کی بات ہوگی۔۔ میں پریس کلب کا سکرٹری تھا۔۔ ایک دن میرے آفس سکرٹری نے بتا یا کہ اردشیر 5 ہزار کا چیک پریس کلب کے لئے چھوڑ گئے ہیں ۔ پریس کلب کو اُن دنوں آزادئ صحافت کی سزا مل رہی تھی۔ہرطرح کی گرانٹ اور چندہ بند تھا۔ 5ہزار اس زمانے میں بڑی رقم تھی۔بعد میں معلوم ہوا کہ بے شمار اداروں کو ہر ماہ اردشیر کے ادارے سے باقاعدگی سے ڈونیشن ملتے ہیں بلکہ سینکڑوں طلبہ کو بھی ہر ماہ تعلیمی وظیفہ ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے کے سارے مسلمان طلبہ ہی ہوں گے۔ کراچی میں تجاوزات کے حوالے سے بھی اردشیر کی جنگ مسلسل جاری رہی تھی۔ سینکڑوں ناجائز بلڈنگیں اردشیر نے گروائیں ۔۔۔ہزاروں کو اپنا دشمن بنایا۔۔ اردشیر نے سال بھر پہلے کالم نویسی سے رخصت لے لی تھی۔ پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود اردشیر شام کی محفلوں میں نظر آتے تھے۔مگر اُن کی کاٹ دار زبان کو چُپ لگ گئی تھی۔ ہفتے کی شب خبر آئی کہ زبان کے ساتھ اردشیر کی آنکھیں بھی خاموش ہوگئی ہیں۔۔۔
(مجاہد بریلوی کا کالم، مطبوعہ نئی بات 27 نومبر 2012ء )
’’سالا سب چور ہے۔۔۔ کیامیاں ۔۔۔ کیا بی بی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اردشیر نے سامعین سے پوچھا۔’’میں ٹھیک بولا نا؟ اگر میں غلط ہوں تو اِدھر سٹیج پر آکر بولو۔۔‘‘ اردشیر نے چیلنج کیا۔ اب وہ ہمارے بھی سرشاری کے دن تھے اور پھر ان دنوں ضیاء الحق کی قید کا ٹنے کے بعد بے روزگاری بھی جھیل رہے تھے ۔۔ اس لیے چھلانگیں مارتے سٹیج پر چڑھ گئے ۔۔ جہاں تک یادآرہاہے۔۔ میں نے ذرا سخت بلکہ بھونڈے لہجے میں تقریر جھاڑی تھی کہ۔۔’’آج بھٹو سے زیادہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں مظالم ہورہے ہیں۔۔حتیٰ کہ صحافیوں کو کوڑوں جیسی بہیمانہ سزائیں تک دی جارہی ہیں۔مگر اردشیر آپ کا قلم ’سالا‘ کبھی ضیاء الحق پر نہیں چلتا۔۔۔‘‘ میری تقریر کے دوران اردشیر ہنستے رہے۔۔۔ بعد کے دنوں میں اکثر پارٹیوں میں ملاقاتیں ہوتیں۔۔۔ جہاں اردشیر اپنے مخصوص لمبے چوغے میں راجہ اِندر بنے چُسکیاں لے رہے ہوتے تھے۔ اور خواتین و حضرات یقیناًخواتین زیادہ اردشیر کی گالیوں اور لطیفوں سے محظوظ ہورہی ہوتی تھیں۔۔۔ یہ لیجئے ۔اردشیر کی زندگی کے ایک بہت بڑے اور دلکش پہلو کو تو میں بھول ہی گیا۔ غالباً 1983ء کی بات ہوگی۔۔ میں پریس کلب کا سکرٹری تھا۔۔ ایک دن میرے آفس سکرٹری نے بتا یا کہ اردشیر 5 ہزار کا چیک پریس کلب کے لئے چھوڑ گئے ہیں ۔ پریس کلب کو اُن دنوں آزادئ صحافت کی سزا مل رہی تھی۔ہرطرح کی گرانٹ اور چندہ بند تھا۔ 5ہزار اس زمانے میں بڑی رقم تھی۔بعد میں معلوم ہوا کہ بے شمار اداروں کو ہر ماہ اردشیر کے ادارے سے باقاعدگی سے ڈونیشن ملتے ہیں بلکہ سینکڑوں طلبہ کو بھی ہر ماہ تعلیمی وظیفہ ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے کے سارے مسلمان طلبہ ہی ہوں گے۔ کراچی میں تجاوزات کے حوالے سے بھی اردشیر کی جنگ مسلسل جاری رہی تھی۔ سینکڑوں ناجائز بلڈنگیں اردشیر نے گروائیں ۔۔۔ہزاروں کو اپنا دشمن بنایا۔۔ اردشیر نے سال بھر پہلے کالم نویسی سے رخصت لے لی تھی۔ پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود اردشیر شام کی محفلوں میں نظر آتے تھے۔مگر اُن کی کاٹ دار زبان کو چُپ لگ گئی تھی۔ ہفتے کی شب خبر آئی کہ زبان کے ساتھ اردشیر کی آنکھیں بھی خاموش ہوگئی ہیں۔۔۔
(مجاہد بریلوی کا کالم، مطبوعہ نئی بات 27 نومبر 2012ء )