آ پ ذرا غور سے اس کو پڑھ لیں از راہ کرم
ربط پھر بات ہو گی
دخل در معقولات کے لئے معذرت چاہتا ہوں لیکن ربط سے چند سوالات ذہن میں آئے
1۔ جاپان نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اپنے افراد کو امریکہ یا دیگر ممالک بھیج کر غیر ملکی زبان میں تعلیم دلائی، اس کے بعد ان کی ترقی کا عمل شروع ہوا
2۔ امریکہ ہو یا برطانیہ، وہاں کی اعلٰی یونیورسٹیوں میں پوری دنیا سے سٹوڈنٹ آن کر غیر ملکی زبان میں تعلیم پاتے ہیں اور پھر ان کی ایک معقول تعداد اسی معاشرے کی ترقی کے لئے وہیں رہ جاتی ہے
3۔ بچپن سے حدیث سنتے آ رہے ہیں کہ علم حاصل کرو، چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، یعنی تحصیل علم کے لئے زبان و مکان کی قید بھی نہیں
4۔ اگر دینی علم کا منبع قرآن و حدیث کو مان لیتے ہیں تو پھر توہ بھی تو عربی میں ہیں؟ ہماری مادری زبان میں تو نہیں۔ پھر بھی ہمیں نماز وغیرہ عربی میں ہی پڑھنی ہوتی ہے
5۔ اوریا مقبول جان نے خود تعلیم اپنی مادری زبان سے ہٹ کر حاصل کی ہے، اس سے ان کی ترقی پر کوئی فرق نہیں پڑا