اردومیں لفظ "یوم " کی جمع کس طرح کی جائے۔

Ryan Khan

محفلین
السلام علیکم۔۔!
ایک عدالتی فیصلہ میں دوجگہوں پر لفظ "یوم" کو دیکھا۔۔
ایک جگہ لکھاتھا۔۔۔۔"اندرتیس یوم مقررہ فیس جمع کریں"۔۔۔۔
دوسری جگہ یوں لکھاتھا۔۔۔"تاایام عدت وہ نا ن نفقہ کی حقدارہ ہے"۔۔۔۔
اب میں سوچ رہاہوں۔۔کہ اگرلفظ "یوم " واحد ہے۔۔۔توپھرتیس یوم کیوں لکھاگیاہے۔۔۔جبکہ دوسری جگہ
اردومیں اسکی جمع ایام بھی لکھاہواہے۔۔۔
براہ کرم۔۔۔اردوادب کے استاتذہ سے راہنمائی کی درخواست ہے۔۔
 

arifkarim

معطل
السلام علیکم۔۔!
ایک عدالتی فیصلہ میں دوجگہوں پر لفظ "یوم" کو دیکھا۔۔
ایک جگہ لکھاتھا۔۔۔۔"اندرتیس یوم مقررہ فیس جمع کریں"۔۔۔۔
دوسری جگہ یوں لکھاتھا۔۔۔"تاایام عدت وہ نا ن نفقہ کی حقدارہ ہے"۔۔۔۔
اب میں سوچ رہاہوں۔۔کہ اگرلفظ "یوم " واحد ہے۔۔۔توپھرتیس یوم کیوں لکھاگیاہے۔۔۔جبکہ دوسری جگہ
اردومیں اسکی جمع ایام بھی لکھاہواہے۔۔۔
براہ کرم۔۔۔اردوادب کے استاتذہ سے راہنمائی کی درخواست ہے۔۔

یوم عبرانی زبان کا لفظ ہے اور عربی میں بھی اسے یوم ہی پڑھا جاتا ہے۔ "اندرتیس یوم مقررہ فیس جمع کریں" کو غالباً "تیس دن کے اندر مقررہ فیس جمع کریں" سے لیا گیاہے۔ یہ ٹائپو ہو سکتا ہے کیونکہ صحیح جمع تو ایام اور دنوں ہی ہے۔
 
میرا خیال ہے جب گنتی بتائی ہے تو واحد کا صیغہ استعمال کیا ہے اور جب تخمینہ بتایا ہے تو جمع کا۔
صحیح بھی یہی لگتا ہے۔
 
عربی کا معلم سے ایک اقتباس
’’ اعراب، تعریف و تنکیر اور تذکیر و تانیث میں صفت اپنے موصوف کے مطابق ہوتی ہے، (گویا) وحدت، تثنیہ و جمع میں بھی صفت کو اپنے موصوف کے موافق ہونا چاہیے۔

لیکن جبکہ موصوف غیر عاقل کی جمع ہو ( خواہ مذکر ہو خواہ مونث) تو صفت عموماً واحد مونث ہوتی ہے، اگرچہ بعض اوقات جمع بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ ایام معدودہ ( گنے ہوئے دن) بھی کہا جاتا ہے اور ایام معدودات بھی۔
 

Ryan Khan

محفلین
شکریہ۔۔۔دوستو!۔۔۔۔آپ نے کافی حد تک تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کی ہے۔۔۔لیکن اصل بات ابھی تک واضح نہیں ہوئی۔۔۔
معاملہ یہ ہےکہ اردوادب میں دیگرزبانوں کے الفاظ کی واحد جمع کے لئے کیااصول مقررہیں۔۔۔۔مثلاً دودن۔۔اکثرلوگ دویوم بھی لکھتے ہیں۔۔۔
حالانکہ عربی قاعدے کے مطابق۔۔۔دویوم کو یومین کہاجاتاہے۔۔۔۔اوردوکے ساتھ یوم کالفظ استعمال کرنابھی قاعدے کے خلاف ہے۔۔۔کیونکہ یوم واحد ہے۔۔
کیااس سلسلے میں دوایام درست ہے؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
شکریہ۔۔۔دوستو!۔۔۔۔آپ نے کافی حد تک تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کی ہے۔۔۔لیکن اصل بات ابھی تک واضح نہیں ہوئی۔۔۔
معاملہ یہ ہےکہ اردوادب میں دیگرزبانوں کے الفاظ کی واحد جمع کے لئے کیااصول مقررہیں۔۔۔۔مثلاً دودن۔۔اکثرلوگ دویوم بھی لکھتے ہیں۔۔۔
حالانکہ عربی قاعدے کے مطابق۔۔۔دویوم کو یومین کہاجاتاہے۔۔۔۔اوردوکے ساتھ یوم کالفظ استعمال کرنابھی قاعدے کے خلاف ہے۔۔۔کیونکہ یوم واحد ہے۔۔
کیااس سلسلے میں دوایام درست ہے؟
چونکہ زبانِ اُردو میں تثنیہ سرے سے ہے ہی نہیں، محض واحد (یعنی ایک)اور جمع(یعنی ایک سے زائد) ہی کے فارمیٹ ہیں اور تثنیہ ظاہر کرنے کے لیے اسم سے پہلے دو لکھ کر یا بول کر کام چلا لیا جاتا ہے۔ اِس لیے یومین اردو میں مستعمل نہیں ہے، البتہ، والِدَین، قِبلَتین،عیدَین اور کعبتین جیسے تثنیہ کے بہت سے صیغہ مستعمل ہیں جسے استثنائی صورت کہا جاسکتا ہے، کوئی مسلمہ اصول یا قاعدہ نہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
"اندرتیس یوم مقررہ فیس جمع کریں"
"تاایام عدت وہ نا ن نفقہ کی حقدارہ ہے"
یہ فارسی و عربی زدہ عدالتی یا سرکاری زبان ہے جس کا درست اردو ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ یوں بھی اسے لکھنے والا کوئی ادیب تو ہے نہیں، ایسی اغلاط تو تقریباً ہر سرکاری تحریر میں ملتی ہیں اور وہ بھی وافر مقدار میں۔ :)
 
السلام علیکم۔۔!
ایک عدالتی فیصلہ میں دوجگہوں پر لفظ "یوم" کو دیکھا۔۔
ایک جگہ لکھاتھا۔۔۔۔"اندرتیس یوم مقررہ فیس جمع کریں"۔۔۔۔
دوسری جگہ یوں لکھاتھا۔۔۔"تاایام عدت وہ نا ن نفقہ کی حقدارہ ہے"۔۔۔۔
اب میں سوچ رہاہوں۔۔کہ اگرلفظ "یوم " واحد ہے۔۔۔توپھرتیس یوم کیوں لکھاگیاہے۔۔۔جبکہ دوسری جگہ
اردومیں اسکی جمع ایام بھی لکھاہواہے۔۔۔
براہ کرم۔۔۔اردوادب کے استاتذہ سے راہنمائی کی درخواست ہے۔۔

یہ فارسی و عربی زدہ عدالتی یا سرکاری زبان ہے جس کا درست اردو ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ یوں بھی اسے لکھنے والا کوئی ادیب تو ہے نہیں، ایسی اغلاط تو تقریباً ہر سرکاری تحریر میں ملتی ہیں اور وہ بھی وافر مقدار میں۔ :)

عدالتی زبان میں قواعد کو کوئی نہیں دیکھتا، وہاں صرف یہ دیکھتے ہیں کہ "بات سمجھ میں آ گئی ہے نا؟ چلو ٹھیک ہے! نہیں آئی؟ پھر تو اور بھی ٹھیک ہے!" مرزا غالب کے حوالے سے معروف واقعہ ہے، وہی انگریز مجسٹریٹ والا: "میاں جاؤ کسی گھسیارے سے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں"۔ دفتری زبان کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے، فاتح صاحب نے ٹھیک کہا ہے۔
 
آخری تدوین:

Ryan Khan

محفلین
عدالتی زبان میں قواعد کو کوئی نہیں دیکھتا، وہاں صرف یہ دیکھتے ہیں کہ "بات سمجھ میں آ گئی ہے نا؟ چلو ٹھیک ہے! نہیں آئی؟ پھر تو اور بھی ٹھیک ہے!" مرزا غالب کے حوالے سے معروف واقعہ ہے، وہی انگریز مجسٹریٹ والا: "میں جاؤ کسی گھسیارے سے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں"۔ دفتری زبان کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے، فاتح صاحب نے ٹھیک کہا ہے۔

شکریہ محمدیعقوب آسی ۔۔بھائی۔۔۔
ماشاء اللہ۔۔مجھے کافی تسلی ہوئی ،،،آپ سب نے بہت عمدہ اندازمیں تبصرہ کیاہے۔۔۔۔
 
عربی فارسی اسماء کی واحد جمع کو اردو میں ویسی سختی سے لاتے بھی نہیں جیسے وہ ان زبانوں میں ہیں۔
"میرے پاس ایک قلم ہے (واحد)، اس کے پاس چار قلم ہیں (جمع)"۔ یہاں نہ تو ہم نے اقلام لکھا اور نہ قلمہا؛ اور جملہ بھی ہمارا درست ہے۔ اردو میں اسماء و افعال کی وحدت و جمع و تثنیہ، تانیث و تذکیر کا عملی اطلاق زبان کی اصل (عربی اور فارسی) کے مکمل طور پر تابع ہونا لازم نہیں ہے۔ یہاں ہم اردو کے روزمرہ اور محاورہ کو دیکھیں گے۔
 
چونکہ زبانِ اُردو میں تثنیہ سرے سے ہے ہی نہیں، محض واحد (یعنی ایک)اور جمع(یعنی ایک سے زائد) ہی کے فارمیٹ ہیں اور تثنیہ ظاہر کرنے کے لیے اسم سے پہلے دو لکھ کر یا بول کر کام چلا لیا جاتا ہے۔ اِس لیے یومین اردو میں مستعمل نہیں ہے، البتہ، والِدَین، قِبلَتین،عیدَین اور کعبتین جیسے تثنیہ کے بہت سے صیغہ مستعمل ہیں جسے استثنائی صورت کہا جاسکتا ہے، کوئی مسلمہ اصول یا قاعدہ نہیں۔

آپ کی اجازت سے، آپ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ:
یہ جو آپ نے تثنیہ کی چاروں مثالیں دی ہیں، ان کا رواج ہماری ملی ثقافت کا مظہر ہے۔ اور ہم ان سے اتنے مانوس ہیں کہ "والدین" لکھا ہو تو کوئی بھی "والدِین" نہیں پڑھتا، سب "والدَین" پڑھتے ہیں، یعنی اعراب کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ماسوائے علمی مباحث کے جیسے آپ نے بجا طور پر اس کا اہتمام کیا ہے۔

مزید بھی ہیں جیسے فریقَین ہے، بحرَین ہے، متساوی الساقَین ہے، حسنَین ہے، طرفَین ہے، وسطَین ہے؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔
 
آخری تدوین:

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
عدالتی زبان میں قواعد کو کوئی نہیں دیکھتا، وہاں صرف یہ دیکھتے ہیں کہ "بات سمجھ میں آ گئی ہے نا؟ چلو ٹھیک ہے! نہیں آئی؟ پھر تو اور بھی ٹھیک ہے!" مرزا غالب کے حوالے سے معروف واقعہ ہے، وہی انگریز مجسٹریٹ والا: "میاں جاؤ کسی گھسیارے سے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں"۔ دفتری زبان کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے، فاتح صاحب نے ٹھیک کہا ہے۔
آپ کی بات سے سو فی صدی متفق ہوں۔ بے شک عدالتی زبان میں املا اور قواعد کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ ہمارے یہاں گجرات، انڈیا کی عدالتوں میں ساری کاروائی بزبان گجراتی ہوتی ہے۔ چونکہ صدیوں تک ہماری عدالتوں کی زبان فارسی رہی لہٰذا آج بھی عدالتو ں میں فارسی اصطلاحات کثرت سے مستعمل ہیں، مثلاََ:
وکیل، اصیل، درخواست، عرضی، مقدمہ، فرد، فرد نویس،سزا، ۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ سینکڑوں الفاظ ۔ لیکن یہاں بھی گجراتی میں ماتراؤں کا قطعی خیال نہیں رکھا جاتا۔
 
Top