سید شہزاد ناصر
محفلین
نواب مرزا داغ دہلوی نے جو یہ بات کہی تھی ممکن ہے اسے شاعرانہ تعلّی پر محمول کیاگیاہو:۔ اردوہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغ ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے حقیقت حال اس سے بھی بڑھ کرہے۔ اردوزبان کی
دھوم آج ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دیارغیرمیں بھی سنی اوردیکھی جاسکتی ہے۔ یونیسکوکے اعداد وشمار کے مطابق عالمی زبانوں میں تیسرے نمبرپرہے۔ زبانوں کا وجود قدرت کا عظیم عطیہ ہے۔ سورہ رحمن میں تخلیق انسان کے بعد جس پہلی بڑی نعمت خداوندی کا حوالہ دیاگیاہے وہ اس کے نطق وبیان کی قوت ہے یعنی زبانوں کا ظہوربھی انسانی معاشرے کے ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔
تاریخی لحاظ سے دیکھاجائے تو اردوبرصغیرجنوبی ایشیا کی نوخیزترین زبان ہے۔ جس کا عرصہ وجود پیدائش سے لے کر آج تک زیادہ سے زیادہ آٹھ صدیوں پر محیط ہوگا مگرچونکہ اس کا خمیرہند اسلامی تہذیب سے اٹھاتھا قدرت نے غالباً اسی سبب پہلے تو اس کی معاصر اورپیش روہندآریائی تہذیب کی کوکھ سے جنم لینے والی دیگرزبانوں پر اسے قبولیت عام اوروسعت پذیری میں فوقیت عطا کی اورپھر روح فرسا حالات اور مصائب و مشکلات کی سنگینی کے باوجود اسے وہ پیکرعزم وعزیمت بنادیا کہ آج کوئی دوسری زبان اس کی ہم پلہ نہیں۔
آج وہ ہرمحاذ پر سربلند وسرفرازہے۔ مشرق میں تکناف اورخلیج بنگال سے مغرب میں خلیجی ریاستوں اور ان سے بھی بہت آگے ایٹلانٹک پار اورجنوب میں راس کماری سے بھی نیچے جزائر مالدیپ اور سراندیب سے شمال میں اسکینڈینیویا کے برف زارتک بولی‘ سمجھی‘ لکھی اور پڑھی جانے والی چند عالمی زبانوں میں اردوکابھی شمارہوتاہے۔ تہذیبیں کسی مخصوص سیاسی یامعاشرتی عمل سے نہ راتوں رات جنم لیتی ہیں اورنہ اگلے دن فناہوجاتی ہیں۔ ان کے ارتقاءیا زوال کا عمل تدریجی ہوتاہے۔ کسی قوم کی ہئیت اجتماعی‘ اس کا دین ومذہب‘ معاشرتی اقدار‘ سیاسی شعور‘ اقتصادی پیش رفت اور علوم کی دنیا میں مقام‘ وہ عوامل ہیں جن سے اس قوم کی تہذیب وثقافت کا خمیر اٹھتاہے اور وہ پروان چڑھتی ہے۔
جو زبان کسی جان داراورشان دارتہذیب کی ترجمان ہوگی وہ لازماً خود بھی جاندار اورشاندارہوگی۔ وقتی یا ہنگامی مصائب ومشکلات اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتے جیساکہ وہ نسبتاً کمزورتہذیبوں کی ترجمان زبانوں کا کرتے ہیں۔ اردو جو آج تمام نامساعد حالات کے باوجود اس کرّوفرسے زندہ ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اس غالب تہذیب وتمدن کی نمائندہ ہے جسے ہم برصغیرکی ہنداسلامی تہذیب کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں اورجس کا نقطہ عروج قیام پاکستان ہے۔ اسی حیثیت میں اردوکاوجود پاکستان کے لیے نہ صرف ناگزیرہوجاتاہے بلکہ ملکی اورملی بقاءاورہمارے تہذیبی اورثقافتی ارتقاءاورعروج کے لئے بھی قومی سطح پر اردو کی بالادستی وہ ناقابل تردید حقیقت ہے جسے نظریں چراکر ہم اردوکا نہیں اپنا ہی نقصان کریں گے بلکہ کرتے چلے آرہے ہیں۔
اردوکے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک کالم نگارکی تحریرنظرسے کہاگیاتھا کہ اس کی ”جڑبنیادہی نہیں ”اورنہ “ اپنی کوئی لغت ہے“ ۔ یہ ایک ایسامفروضہ ہے جسے زبانوں کے حوالے سے بنیادی فہم وشعورسے عاری ہونے کی علامت کہاجاسکتاہے۔ دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی علاقائی زبان بھی ”جڑبنیاد“ کے بغیر اوربغیراپنی مخصوص”لغت“ کے پھل پھول نہیں سکتی‘ چہ جائیکہ اردوجیسی عالم گیرزبان۔ اردوکی جڑیں برصغیرکے تمام تہذیبی مراکز میں پیوست ہیں۔ پراکرت‘ برج بھاشا‘ کھڑی بولی‘ بھوجپوری‘ اودھی ‘ پنجابی اورسندھی لہجوں‘ بولیوں اورزبانوں سے اس کا خمیراس طرح اٹھاکہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے برصغیرکی زبان بن گئی۔ اس نے ہرعلاقائی زبان اورمقامی بولیوں سے اکتساب فیض کیا اورپھر انہیں فیضیاب بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی مخصوص علاقے یا خطے تک محدود نہیں رہی۔
یہ وہ اعزاز اور انفرادیت ہے جوبرصغیرکی کسی بھی دوسری زبان کو حاصل نہیں۔ اردو کا نہ کوئی مخصوص علاقہ ہے اور نہ کسی خاص ”لشکرگاہ“ سے اس کا تعلق”لشکری“ تو وہ کل بھی تھی اور آج بھی ہے مگرکسی خاص ”چھاﺅنی“ سے وابستگی کی بناءپر نہیں ‘ بلکہ عوامی لشکرکی روزمرہ بول چال کی زبان ہونے کے ناطے۔ دہلی‘ لکھنو‘ عظیم آباد اور حیدرآبادتاریخ کے کسی موڑ پر وہ تہذیبی مراکز تھے جہاں وہ پھولی پھلی ۔ مگر پھربعد کے ادوارمیں لاہور‘سیالکوٹ‘ پشاور‘ کراچی‘ اسلام آباد‘ کوئٹہ‘ سرگودھا اورفیصل آباد اس کے مراکز بن کر ابھڑے ۔”اردوئے معلیٰ “ سے ”اردوئے محلہ“ تک کا اس کا یہ سفر اس خوبصورتی سے طے ہواکہ سب اپنے پرائے دیکھتے رہ گئے۔ قصروایواں میں بے شک یہ پلی‘ بڑھی‘ جوان ہوئی مگر اس کا حسن جہاں تاب کبھی کسی دہلیز‘ چوکھٹ‘ چوبارے یادربارکا مرہون منت نہیں رہا۔
اسلامی تہذیب وتمدن کا وہ عنصر جس نے اس کی کشت لالہ رنگ کی آبیاری کی وہی اسے آفاقیت کی وہ خلعت عطاکرگیا جس نے اسے عالم گیرزبانوں کی صف اول میں لاکھڑا کیا ہے۔ اردوکی یہی وہ آفاقیت ہے شروع دن سے جو اس کا طرہ امتیاز رہی ہے اورہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح وسط پنجاب میں حضرت بابا فریدالدین مسعودگنج شکر سے لے کر دہلی میں طوطی شکر مقال حضرت امیر خسرو‘دکن میں سید قلی قطب شاہ اورولی احمدولی دکنی ثم گجراتی اور پھربنگال میں نسّاخ اور سندھ میں مرزا قلیچ بیگ وغیر ہم تک کیسی کیسی نمائندہ شخصیات اس کی ترجمان بن کر ابھریں۔
اردوکی سب سے بڑی اورناقابل تسخیر قوت اس کی یہی لامرکزیت‘ علاقائی ماورائیت اوراسلامی آفاقی رنگ ہے۔ کسی زبان کا معاشی پہلوکمزورہوتو وہ تادیر پنپ نہیں سکتی۔ مگر اردوکی سخت جانی دیکھیے کہ اپنی اسی آفاقیت کی بدولت دیار ہند میں تمام معاشی اورسیاسی مشکلات کے باوجود یہ آج بھی وہاں سراٹھائے کھڑی ہے۔ معاشی پہلو سے اس کا مستقبل نہ ہونے کے برابر ہے مگر وہاں کی مقامی ادبی اورسماجی تنظیمات حیرت زدہ ہیں کہ اردو آج بھی وہاں دوسری زبانوں سے بڑھ کر بولی‘ سمجھی اور پڑھی جانے والی زبان ہے۔ اردو میں شائع ہونے والے اخبار‘رسائل ومطبوعات کی تعداد بھی روزافزوں ہے۔
مرحوم شوکت تھانوی نے اپنی”بارخاطر“ میں لتامنگیشکرکو مزاحاً بھارت کی ”بابائے اردو“ کہاتھا کہ اس کے نغموں سے اردو وہاں طول وعرض میں کم ازکم سمجھی تو جارہی ہے ۔مگر”پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ”کے مصداق‘ اردوکے پاسبان تو وہاں اب ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ قبولیت عام کا یہ وہ شرف ہے جو صرف زندہ اور توانا زبانوں کا نصیب رہاہے۔ ایک دوسرا مغالطہ ہندی اوراردوکے دومتوازی زبانوں کی حیثیت سے تقابل کا رہاہے۔
ڈاکٹر انعام الحق کوثر جیسے ثقہ صاحبان نقدونظرہندی کو بطور ایک زبان تسلیم کرنے پر آمادہ نظرآتے ہیں‘ مگر کیا واقعتاً ہندی کوئی اردوسے الگ مستقل بالذات اورجداگانہ زبان ہے؟ جن حضرات کی برصغیر کی تاریخ اور وہاں کے زمینی حقائق پر نظر نہیں وہ یقیناً یہیں کہیں گے۔ آخرش وہ آج کی ایک اہم علاقائی طاقت اور سوا ارب باشندگان کے ملک کی قومی زبان ہے جس میں وہ کسی حدتک اپناکاروبار مملکت بھی چلارہے ہیں۔ حقیقت حال مگرقطعاً مختلف ہے۔ اردوکانام یقیناً زیادہ قدیم نہیں اسے مختلف ادوارمیں مختلف ناموں سے موسوم کیاگیا۔ ہندوستانی ‘ ہندوی‘ اورریختہ سے ہوتی ہوئی یہ اردوتک پہنچی اور پھریہ نام اس کی شناخت بن گیا۔
گزشتہ تین صدیوں میں اسی نام سے اس کا وہ ادب تخلیق ہوا اور اتنے مراکز وجود میں آئے کہ آج اسے دنیا کی ایک ترقی یافتہ ‘بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ جہاں تک ہندی کا تعلق ہے تو اس کا المیہ یہ ہے کہ اصلاً تو وہ بول چال کی اردوزبان ہی ہے مگر اب سے صرف چھ سات دہائی قبل سیاسی جبر اور قومی شناخت کی جستجو نے بھارت کو مجبورکیا کہ اس عام بول چال کی اردو زبان پر دیوناگری کا ملبوس چڑھاکر اور مردہ سنسکرت سے الفاظ وتراکیب کی بیساکھیاں دے کر اسے عرصہ حیات میں کھڑاکردیاجائے۔ بے پناہ سرکاری وسائل کے استعمال اور حکومتی سرپرستی کے باوجود یہی وجہ ہے کہ آریہ ورت‘ یا وادی گنگا سے باہر بحیثیت عوامی زبان اس غریب کی عملداری کہیں نظرنہیں آتی۔
دوتہائی اردو الفاظ وتراکیب اس میں سے خارج کردیجئے اورپھردیکھیے وہ کہاں تک آپ کا ساتھ دیتی ہے۔ جنوبی ہندوتوپہلے ہی ہندی کے نام سے ہمیشہ سیخ پارہاہے اور انگریزی کی بالادستی نے وہاں مقامی زبانوں کے ساتھ ہندی کا ناطقہ بندکررکھاہے اردو کو مگرایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ۔سرکارکی سرپرستی کے بغیر بھی اس کی داخلی توانائی اسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس تمام تر مصنوعی زبان میں قبولیت عام کا عنصر داخل کرنے کے لئے اس میں منشی پریم چند‘ کرشن چند عصمت چغتائی اور میروغالب تک کی تحریریں منتقل کردی گئی ہیں‘ جو درحقیقت اردو کی عظمت کا ہی منہ بولتا ثبوت ہے۔
دیوناگری ملبوس میں میروغالب کتنے ہی نامانوس نظرآئیں مگر وہ رہیں گے تو اردو ہی کے ترجمان۔ ارولکھاریوں کی ایک نسل جو وہاں ڈاکٹرگوپی چند نارنگ‘ گوپال متل اور مجاہد اردوپنڈت آنند نرائن زتشی گلزار دہلوی سمیت بہت سے دوسروں پرمشتمل ہے۔
ایک مسلسل لسانی جہاد میں مصروف ہے۔ گلزارنے اب سے پانچ دہائی قبل جب ہندی اردومقدمہ وہاں پنے عروج پرتھا فخریہ انداز میں للکاراتھا۔ دلی جسے کہتے ہیں وطن ہے میرا اردو جسے کہتے ہیں زباں ہے میری عربی امّ اللغات اورلغت القرآن ہونے کے ناطے اردو کے لیے ہمیشہ لسانی اورفکری غذا مہیا کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی جیساکہ اس سے قبل اس نے عالم اسلام کی دوسری بڑی زبانوں فارسی اورترکی وغیرہ کے لیے کیاتھا۔
روزمرہ کے تعامل میں بہرحال اردوعلاقائی اورعالمی زبانوںکی مصطلحات سے بھی اپنا دامن وسیع کرتی چلی جائے گی۔ عربی کے حوالے سے ایک زندہ معجزہ کی نشاندہی اس موقع پر مناسب رہے گی۔ تاریخ انسانی کی یہ واحد زبان ہے جو بیک وقت قدیم ترین بھی ہے اور جدید ترین بھی۔ قرآن عظیم الشان کے معجزات میں سے یہ بھی ایک معجزہ اور حقیقت ہے کہ عربی زبان کو اس نے جس مقام بلند پرچودہ سوبرس قبل فائزکیاتھا یہ آج بھی اسی شان سے فائز ہے۔
اس کے برعکس اس کی چھوٹی بہن عبرانی اوربہت ہی چھوٹی سنسکرت اپنے اپنے مردہ خانوں میں پڑی ہیں۔ ان کی بوسیدہ ہڈیوں کی کلوننگ سے موجودہ ہبریو اور ہندی کھڑی تو کردی گئی ہیں مگر ان کا وجود کلی طورپر اسرائیل اور بھارت کے سیاسی وجود سے وابستہ ہے۔ وہ گئے تو یہ بھی گئیں۔ یہ صورت حال عربی‘ فارسی‘ اردو‘ انگریزی یا دوسری مشرقی اوریورپی زبانوں کو کسی طوردرپیش نہیں اس لیے کہ وہ سب اپنے پیروں پر کھڑی توانا قدوقامت کی مالک زبانیں ہیں۔ پاکستان میں اردوکا کسی علاقائی زبان سے کسی نوعیت کا کوئی تصادم نہیں۔ علاقائیت پرست اور قومیت نوازعناصر نے کوشش تو ہمیشہ کی ہے مگر اردوکے مزاج میں تصادم کی یہ کیفیت پائی ہی نہیں جاتی۔
علاقائی زبانوں کو اردوبہت کچھ دے سکتی ہے اور دیتی رہی ہے۔ جبکہ خود اس نے ان سب سے کسب فیض میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ محبت اس کے نس نس میں رچی بسی ہے۔ نفرت کے زہرکا وہ شکارتو ہوئی ہے مگر خود اس نے کبھی کسی سے نفرت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے تقسیم کے بعد اس کے نئے نئے مراکز وجود میں آتے چلے گئے اور نئی نئی آوازوں نے اس کے آہنگ کو مزید توانا اور بلند کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شیرافضل جعفری اور جعفر طاہر مرحوم اگر اردو میں جھنگ کے مقامی رنگ کے ترجمان ہیں تو عبدالعزیز خالد فارسی اور عربی روایات کے علمبردار‘ اوریہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہے گا۔
بشکریہ فیس بک
دھوم آج ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دیارغیرمیں بھی سنی اوردیکھی جاسکتی ہے۔ یونیسکوکے اعداد وشمار کے مطابق عالمی زبانوں میں تیسرے نمبرپرہے۔ زبانوں کا وجود قدرت کا عظیم عطیہ ہے۔ سورہ رحمن میں تخلیق انسان کے بعد جس پہلی بڑی نعمت خداوندی کا حوالہ دیاگیاہے وہ اس کے نطق وبیان کی قوت ہے یعنی زبانوں کا ظہوربھی انسانی معاشرے کے ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔
تاریخی لحاظ سے دیکھاجائے تو اردوبرصغیرجنوبی ایشیا کی نوخیزترین زبان ہے۔ جس کا عرصہ وجود پیدائش سے لے کر آج تک زیادہ سے زیادہ آٹھ صدیوں پر محیط ہوگا مگرچونکہ اس کا خمیرہند اسلامی تہذیب سے اٹھاتھا قدرت نے غالباً اسی سبب پہلے تو اس کی معاصر اورپیش روہندآریائی تہذیب کی کوکھ سے جنم لینے والی دیگرزبانوں پر اسے قبولیت عام اوروسعت پذیری میں فوقیت عطا کی اورپھر روح فرسا حالات اور مصائب و مشکلات کی سنگینی کے باوجود اسے وہ پیکرعزم وعزیمت بنادیا کہ آج کوئی دوسری زبان اس کی ہم پلہ نہیں۔
آج وہ ہرمحاذ پر سربلند وسرفرازہے۔ مشرق میں تکناف اورخلیج بنگال سے مغرب میں خلیجی ریاستوں اور ان سے بھی بہت آگے ایٹلانٹک پار اورجنوب میں راس کماری سے بھی نیچے جزائر مالدیپ اور سراندیب سے شمال میں اسکینڈینیویا کے برف زارتک بولی‘ سمجھی‘ لکھی اور پڑھی جانے والی چند عالمی زبانوں میں اردوکابھی شمارہوتاہے۔ تہذیبیں کسی مخصوص سیاسی یامعاشرتی عمل سے نہ راتوں رات جنم لیتی ہیں اورنہ اگلے دن فناہوجاتی ہیں۔ ان کے ارتقاءیا زوال کا عمل تدریجی ہوتاہے۔ کسی قوم کی ہئیت اجتماعی‘ اس کا دین ومذہب‘ معاشرتی اقدار‘ سیاسی شعور‘ اقتصادی پیش رفت اور علوم کی دنیا میں مقام‘ وہ عوامل ہیں جن سے اس قوم کی تہذیب وثقافت کا خمیر اٹھتاہے اور وہ پروان چڑھتی ہے۔
جو زبان کسی جان داراورشان دارتہذیب کی ترجمان ہوگی وہ لازماً خود بھی جاندار اورشاندارہوگی۔ وقتی یا ہنگامی مصائب ومشکلات اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتے جیساکہ وہ نسبتاً کمزورتہذیبوں کی ترجمان زبانوں کا کرتے ہیں۔ اردو جو آج تمام نامساعد حالات کے باوجود اس کرّوفرسے زندہ ہے اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اس غالب تہذیب وتمدن کی نمائندہ ہے جسے ہم برصغیرکی ہنداسلامی تہذیب کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں اورجس کا نقطہ عروج قیام پاکستان ہے۔ اسی حیثیت میں اردوکاوجود پاکستان کے لیے نہ صرف ناگزیرہوجاتاہے بلکہ ملکی اورملی بقاءاورہمارے تہذیبی اورثقافتی ارتقاءاورعروج کے لئے بھی قومی سطح پر اردو کی بالادستی وہ ناقابل تردید حقیقت ہے جسے نظریں چراکر ہم اردوکا نہیں اپنا ہی نقصان کریں گے بلکہ کرتے چلے آرہے ہیں۔
اردوکے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک کالم نگارکی تحریرنظرسے کہاگیاتھا کہ اس کی ”جڑبنیادہی نہیں ”اورنہ “ اپنی کوئی لغت ہے“ ۔ یہ ایک ایسامفروضہ ہے جسے زبانوں کے حوالے سے بنیادی فہم وشعورسے عاری ہونے کی علامت کہاجاسکتاہے۔ دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی علاقائی زبان بھی ”جڑبنیاد“ کے بغیر اوربغیراپنی مخصوص”لغت“ کے پھل پھول نہیں سکتی‘ چہ جائیکہ اردوجیسی عالم گیرزبان۔ اردوکی جڑیں برصغیرکے تمام تہذیبی مراکز میں پیوست ہیں۔ پراکرت‘ برج بھاشا‘ کھڑی بولی‘ بھوجپوری‘ اودھی ‘ پنجابی اورسندھی لہجوں‘ بولیوں اورزبانوں سے اس کا خمیراس طرح اٹھاکہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے برصغیرکی زبان بن گئی۔ اس نے ہرعلاقائی زبان اورمقامی بولیوں سے اکتساب فیض کیا اورپھر انہیں فیضیاب بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی مخصوص علاقے یا خطے تک محدود نہیں رہی۔
یہ وہ اعزاز اور انفرادیت ہے جوبرصغیرکی کسی بھی دوسری زبان کو حاصل نہیں۔ اردو کا نہ کوئی مخصوص علاقہ ہے اور نہ کسی خاص ”لشکرگاہ“ سے اس کا تعلق”لشکری“ تو وہ کل بھی تھی اور آج بھی ہے مگرکسی خاص ”چھاﺅنی“ سے وابستگی کی بناءپر نہیں ‘ بلکہ عوامی لشکرکی روزمرہ بول چال کی زبان ہونے کے ناطے۔ دہلی‘ لکھنو‘ عظیم آباد اور حیدرآبادتاریخ کے کسی موڑ پر وہ تہذیبی مراکز تھے جہاں وہ پھولی پھلی ۔ مگر پھربعد کے ادوارمیں لاہور‘سیالکوٹ‘ پشاور‘ کراچی‘ اسلام آباد‘ کوئٹہ‘ سرگودھا اورفیصل آباد اس کے مراکز بن کر ابھڑے ۔”اردوئے معلیٰ “ سے ”اردوئے محلہ“ تک کا اس کا یہ سفر اس خوبصورتی سے طے ہواکہ سب اپنے پرائے دیکھتے رہ گئے۔ قصروایواں میں بے شک یہ پلی‘ بڑھی‘ جوان ہوئی مگر اس کا حسن جہاں تاب کبھی کسی دہلیز‘ چوکھٹ‘ چوبارے یادربارکا مرہون منت نہیں رہا۔
اسلامی تہذیب وتمدن کا وہ عنصر جس نے اس کی کشت لالہ رنگ کی آبیاری کی وہی اسے آفاقیت کی وہ خلعت عطاکرگیا جس نے اسے عالم گیرزبانوں کی صف اول میں لاکھڑا کیا ہے۔ اردوکی یہی وہ آفاقیت ہے شروع دن سے جو اس کا طرہ امتیاز رہی ہے اورہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح وسط پنجاب میں حضرت بابا فریدالدین مسعودگنج شکر سے لے کر دہلی میں طوطی شکر مقال حضرت امیر خسرو‘دکن میں سید قلی قطب شاہ اورولی احمدولی دکنی ثم گجراتی اور پھربنگال میں نسّاخ اور سندھ میں مرزا قلیچ بیگ وغیر ہم تک کیسی کیسی نمائندہ شخصیات اس کی ترجمان بن کر ابھریں۔
اردوکی سب سے بڑی اورناقابل تسخیر قوت اس کی یہی لامرکزیت‘ علاقائی ماورائیت اوراسلامی آفاقی رنگ ہے۔ کسی زبان کا معاشی پہلوکمزورہوتو وہ تادیر پنپ نہیں سکتی۔ مگر اردوکی سخت جانی دیکھیے کہ اپنی اسی آفاقیت کی بدولت دیار ہند میں تمام معاشی اورسیاسی مشکلات کے باوجود یہ آج بھی وہاں سراٹھائے کھڑی ہے۔ معاشی پہلو سے اس کا مستقبل نہ ہونے کے برابر ہے مگر وہاں کی مقامی ادبی اورسماجی تنظیمات حیرت زدہ ہیں کہ اردو آج بھی وہاں دوسری زبانوں سے بڑھ کر بولی‘ سمجھی اور پڑھی جانے والی زبان ہے۔ اردو میں شائع ہونے والے اخبار‘رسائل ومطبوعات کی تعداد بھی روزافزوں ہے۔
مرحوم شوکت تھانوی نے اپنی”بارخاطر“ میں لتامنگیشکرکو مزاحاً بھارت کی ”بابائے اردو“ کہاتھا کہ اس کے نغموں سے اردو وہاں طول وعرض میں کم ازکم سمجھی تو جارہی ہے ۔مگر”پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ”کے مصداق‘ اردوکے پاسبان تو وہاں اب ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ قبولیت عام کا یہ وہ شرف ہے جو صرف زندہ اور توانا زبانوں کا نصیب رہاہے۔ ایک دوسرا مغالطہ ہندی اوراردوکے دومتوازی زبانوں کی حیثیت سے تقابل کا رہاہے۔
ڈاکٹر انعام الحق کوثر جیسے ثقہ صاحبان نقدونظرہندی کو بطور ایک زبان تسلیم کرنے پر آمادہ نظرآتے ہیں‘ مگر کیا واقعتاً ہندی کوئی اردوسے الگ مستقل بالذات اورجداگانہ زبان ہے؟ جن حضرات کی برصغیر کی تاریخ اور وہاں کے زمینی حقائق پر نظر نہیں وہ یقیناً یہیں کہیں گے۔ آخرش وہ آج کی ایک اہم علاقائی طاقت اور سوا ارب باشندگان کے ملک کی قومی زبان ہے جس میں وہ کسی حدتک اپناکاروبار مملکت بھی چلارہے ہیں۔ حقیقت حال مگرقطعاً مختلف ہے۔ اردوکانام یقیناً زیادہ قدیم نہیں اسے مختلف ادوارمیں مختلف ناموں سے موسوم کیاگیا۔ ہندوستانی ‘ ہندوی‘ اورریختہ سے ہوتی ہوئی یہ اردوتک پہنچی اور پھریہ نام اس کی شناخت بن گیا۔
گزشتہ تین صدیوں میں اسی نام سے اس کا وہ ادب تخلیق ہوا اور اتنے مراکز وجود میں آئے کہ آج اسے دنیا کی ایک ترقی یافتہ ‘بین الاقوامی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ جہاں تک ہندی کا تعلق ہے تو اس کا المیہ یہ ہے کہ اصلاً تو وہ بول چال کی اردوزبان ہی ہے مگر اب سے صرف چھ سات دہائی قبل سیاسی جبر اور قومی شناخت کی جستجو نے بھارت کو مجبورکیا کہ اس عام بول چال کی اردو زبان پر دیوناگری کا ملبوس چڑھاکر اور مردہ سنسکرت سے الفاظ وتراکیب کی بیساکھیاں دے کر اسے عرصہ حیات میں کھڑاکردیاجائے۔ بے پناہ سرکاری وسائل کے استعمال اور حکومتی سرپرستی کے باوجود یہی وجہ ہے کہ آریہ ورت‘ یا وادی گنگا سے باہر بحیثیت عوامی زبان اس غریب کی عملداری کہیں نظرنہیں آتی۔
دوتہائی اردو الفاظ وتراکیب اس میں سے خارج کردیجئے اورپھردیکھیے وہ کہاں تک آپ کا ساتھ دیتی ہے۔ جنوبی ہندوتوپہلے ہی ہندی کے نام سے ہمیشہ سیخ پارہاہے اور انگریزی کی بالادستی نے وہاں مقامی زبانوں کے ساتھ ہندی کا ناطقہ بندکررکھاہے اردو کو مگرایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ۔سرکارکی سرپرستی کے بغیر بھی اس کی داخلی توانائی اسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس تمام تر مصنوعی زبان میں قبولیت عام کا عنصر داخل کرنے کے لئے اس میں منشی پریم چند‘ کرشن چند عصمت چغتائی اور میروغالب تک کی تحریریں منتقل کردی گئی ہیں‘ جو درحقیقت اردو کی عظمت کا ہی منہ بولتا ثبوت ہے۔
دیوناگری ملبوس میں میروغالب کتنے ہی نامانوس نظرآئیں مگر وہ رہیں گے تو اردو ہی کے ترجمان۔ ارولکھاریوں کی ایک نسل جو وہاں ڈاکٹرگوپی چند نارنگ‘ گوپال متل اور مجاہد اردوپنڈت آنند نرائن زتشی گلزار دہلوی سمیت بہت سے دوسروں پرمشتمل ہے۔
ایک مسلسل لسانی جہاد میں مصروف ہے۔ گلزارنے اب سے پانچ دہائی قبل جب ہندی اردومقدمہ وہاں پنے عروج پرتھا فخریہ انداز میں للکاراتھا۔ دلی جسے کہتے ہیں وطن ہے میرا اردو جسے کہتے ہیں زباں ہے میری عربی امّ اللغات اورلغت القرآن ہونے کے ناطے اردو کے لیے ہمیشہ لسانی اورفکری غذا مہیا کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی جیساکہ اس سے قبل اس نے عالم اسلام کی دوسری بڑی زبانوں فارسی اورترکی وغیرہ کے لیے کیاتھا۔
روزمرہ کے تعامل میں بہرحال اردوعلاقائی اورعالمی زبانوںکی مصطلحات سے بھی اپنا دامن وسیع کرتی چلی جائے گی۔ عربی کے حوالے سے ایک زندہ معجزہ کی نشاندہی اس موقع پر مناسب رہے گی۔ تاریخ انسانی کی یہ واحد زبان ہے جو بیک وقت قدیم ترین بھی ہے اور جدید ترین بھی۔ قرآن عظیم الشان کے معجزات میں سے یہ بھی ایک معجزہ اور حقیقت ہے کہ عربی زبان کو اس نے جس مقام بلند پرچودہ سوبرس قبل فائزکیاتھا یہ آج بھی اسی شان سے فائز ہے۔
اس کے برعکس اس کی چھوٹی بہن عبرانی اوربہت ہی چھوٹی سنسکرت اپنے اپنے مردہ خانوں میں پڑی ہیں۔ ان کی بوسیدہ ہڈیوں کی کلوننگ سے موجودہ ہبریو اور ہندی کھڑی تو کردی گئی ہیں مگر ان کا وجود کلی طورپر اسرائیل اور بھارت کے سیاسی وجود سے وابستہ ہے۔ وہ گئے تو یہ بھی گئیں۔ یہ صورت حال عربی‘ فارسی‘ اردو‘ انگریزی یا دوسری مشرقی اوریورپی زبانوں کو کسی طوردرپیش نہیں اس لیے کہ وہ سب اپنے پیروں پر کھڑی توانا قدوقامت کی مالک زبانیں ہیں۔ پاکستان میں اردوکا کسی علاقائی زبان سے کسی نوعیت کا کوئی تصادم نہیں۔ علاقائیت پرست اور قومیت نوازعناصر نے کوشش تو ہمیشہ کی ہے مگر اردوکے مزاج میں تصادم کی یہ کیفیت پائی ہی نہیں جاتی۔
علاقائی زبانوں کو اردوبہت کچھ دے سکتی ہے اور دیتی رہی ہے۔ جبکہ خود اس نے ان سب سے کسب فیض میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ محبت اس کے نس نس میں رچی بسی ہے۔ نفرت کے زہرکا وہ شکارتو ہوئی ہے مگر خود اس نے کبھی کسی سے نفرت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے تقسیم کے بعد اس کے نئے نئے مراکز وجود میں آتے چلے گئے اور نئی نئی آوازوں نے اس کے آہنگ کو مزید توانا اور بلند کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شیرافضل جعفری اور جعفر طاہر مرحوم اگر اردو میں جھنگ کے مقامی رنگ کے ترجمان ہیں تو عبدالعزیز خالد فارسی اور عربی روایات کے علمبردار‘ اوریہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہے گا۔
بشکریہ فیس بک