B صحافتی انجمنیں
اخبارات کے آغاز کے ساتھ ہی ان کی آزادی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی گئی۔ صحافت کی بیباکی اور جرأت اظہار سے حکومت برطانیہ اور آزادی کے بعد جمہوری حکومتوں کی جانب سے صحافت مختلف طرح کے دباؤ کا شکار رہی۔ سنسر شپ اور دیگر قوانین کے ذریعہ آزادی صحافت کو متاثر کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں اسی بناء پر اخبارات کے ایڈیٹرس اور صحافیوں نے متحد اور منظم ہوکر اپنی انجمنیں قائم کیں۔ اور موثر نمائندگیوں کے ذریعہ صحافت کی آزادی اور اس کے وقار اور اعتبار کو برقراررکھا۔ نیوز پرنٹ، اشتہارات اور دیگر مراعات کے حصول کے لئے ان انجمنوں کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ ایسے کئی معاون صحافتی ادارے بھی قائم ہوئے جنہوں نے اخباری مواد کے حصول میں اخبارات کی اعانت کی خاص طور پران اداروں سے چھوٹے اور متوسط درجہ کے اخبارات کو زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔ ان اداروں نے اخبارات کے معیار کوبلند کرنے اور ان کی تعداداشاعت میں اضافہ کے لئے راست یا براہ راست طورپر گراں قدر تعاون کیا۔
صحافی انجمنوں کے قیام کی ضرورت۔ پس منظر
سب سے پہلے1823 میں حکومت کی صحافت دشمن پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ حکومت نے اس وقت یہ پابندی عائد کی تھی کہ کوئی بھی فرد لائسنس حاصل کئے بغیر اخبار شرو نہیں کرسکتا اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کودستخط شدہ احتجاجی محضر روانہ کئے گئے۔
1857 میں ہندوستانی اخبارات نے ملکہ برطانیہ کوایک مشترکہ درخواست روانہ کی تھی جس میں اس بات کی شکایت کی گئی تھی کہ حکومت ہندوستانی اخبارات کے ساتھ امتیازی سلوک برتتی ہے اور مختلف طریقوں سے صحافت کی آزادی پرروک ٹوک لگایا جارہا ہے۔ اس طرح صحافتی انجمنوں کی تشکیل کے راستے ہموار ہوتے رہے۔
1889 میں بنگالی روزنامہ امرت بازار پتریکا میں ایک اہم سرکاری دستاویز کی اشاعت سے ناراض ہوکر حکومت نے سرکاری رازوں سے متعلق ایکٹ بنایا جس کے تحت اہم خفیہ سرکاری معلومات کی اخبارات میں اشاعت پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ حکومت کے خلاف باغیانہ تحریروں کے سلسلے میں بال گنگادھر تلک پر مقدمے چلائے گئے اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ حکومت کی اس پالیسی کے خلاف اخبارات نے محسوس کیا کہ ایک متحدہ اور منظم انجمن تشکیل دی جانی چاہئیے جو حکومت کی اخبار دشمن پالیسی کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائے بلکہ آزادی صحافت کا تحفظ کرے اور صحافیوں کے حقوق کی ترجمانی کرے۔چنانچہ ہندوستان کی پہلی صحافتی انجمن 1891 میں نیٹیو پریس اسوسی ایشن Native Press Association کے نام سے قائم ہوئی۔ لارڈ اپن کے زمانے میں ایک قانون بنا جس کے ذریعہ اخبارات پر مکمل کنٹرول رکھنے کی کوششیں کی گئیں ۔ اس پس منظر میں کئی اخبارات کے ایڈیٹروں اورصحافیوں نے مل کر طے کیا کہ ایک طاقتور اور منظم تنظیم قائم کی جانی چاہئیے جو سرکاری قوانین کے خلاف جدوجہد کرے۔ چنانچہ 1915 میں پریس اسوسی ایشن آف انڈیا کی تشکیل عمل میں آئی۔ اس زمانے میں ساڑھے تین سو سے زائد اخبارات پرمختلف الزامات عائد کرتے ہوئے جرمانے لگائے گئے۔ پریس ایکٹ ایک سخت قانون تھا جس کے خلاف پریس اسوسی ایشن آف انڈیا نے حکام سے نمائندگی کی۔1921 میں سپرو کمیٹی کا اعلان ہوا تو اخبارات کواپنے مسائل اور صحافتی قوانین کی پابندی کے خلاف پرزور احتجاج کا موقع ملا۔
دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی اخبارات پربے پناہ مظالم ڈھائے گئے اور صحافت کی آزادی کوسلب کرنے کے اقدامات کئے گئے ۔ اخبارات پرسنسرشپ عائد کردی گئی اور کئی طرح کی تحدیدات کے ذریعہ انہیں ہراساں کیا جاتا رہا۔کئی اخبارات کے صحافیوں کوہراساں کیاگیا اور انہیں سزائیں دی گئیں ۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ ایسی نمائندہ اور طاقتور صحافی تنظیمیں قائم کی جائیں جو ان مظالم کو متحدہ طورپر روک سکیں اور صحافیوں کوان کے حقوق دلواسکیں۔ ملک کے کئی حصوں میں صحافتی انجمنیں ریاستی اور بعض ضلعی سطحوں پرسرگرم عمل رہیں۔ ان انجمنوں کی تشکیل سے یہ فائدہ ہوا کہ متحدہ طورپر اخبارات کے مسائل کی حکام سے نمائندگی کی گئی اور بعض مسائل کوحل کرنے میں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ چھوٹے اخبارات کو ان صحافتی انجمنوں سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔
1۔انڈین اینڈ ایسٹرن نیوز پیپرسوسائٹی
اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر موثر نمائندگی کے لیے ایک نمائندہ انجمن کا قیام عمل میں آیا جو انڈین ایسٹرن نیوز پیپر سوسائٹی Indian and Eastern News Paper Societyکے نام سے موسوم تھی۔
1939 میں یہ سوسائٹی قائم کی گئی جو اخبارات کے مالکان اور پبلشرز کی نمائندہ تنظیم تھی۔ جس کے ارکان میں ہندوستان کے علاوہ کئی ایشیائی اخبارات بھی شامل تھے۔ سوسائٹی کا اہم مقصد اخبارات کے مالکان اور پبلشرز کے تمام مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ ایسے تمام اقدامات کے خلاف سوسائٹی احتجاج کرتی ہے جو اخبار کی اشاعت میں رکاوٹ پیدا کرے اور صحافت کی آزادی پرکاری ضرب لگائے۔ اسمبلیوں‘ مقامی ‘سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی جانب سے جب کبھی اخبارات کے مفادات کے خلاف کوئی بھی فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ مقتدر انجمن اس کے خلاف اپنی موثر آواز بلند کرتی ہے اور مسائل کے حل کے لئے امکانات تلاش کرتی ہے ۔ اس سوسائٹی کا ایک اور مقصد اخبارات کی اشاعت کے بارے میں تمام ضروری تفصیلات اور تازہ معلومات جمع کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات کے دفاتر سے عملی اشتراک وتعاون کرنا ہے۔ سوسائٹی کی جانب سے اخبارات کے مسائل اور مشکلات کا جائزہ لینے کے لئے سمینار اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں ان مسائل ومشکلا کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے حل کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔
2۔ آل انڈیا نیوز پیپر ایڈیٹرس کانفرنس
ہندوستانی اخبارات کے ایڈیٹروں کی انجمن آل انڈیا نیوز پیپرایڈیٹرس کانفرنس1940 میں قائم ہوئی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے بعد کادور اخبارات کے لئے بڑا ہی صبر آزما تھا۔ حکومت برطانیہ نے اخبارات پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کردی تھیں جس سے اخبارات کے ایڈیٹرس نت نئے مسائل سے دوچار ہوگئے اور اخبارات کی باقاعدہ اشاعت میں رکاوٹیں پیدا ہونے لگیں ۔ ان حالات کو محسوس کرتے ہوئے ایڈیٹرس کی نمائندہ انجمن بنائی گئی۔ اس انجمن کا نام’’ آل انڈیا نیوز پیپرز ایڈیٹرس کانفرنس‘ رکھاگیا۔
3۔انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹس
انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹس صحافیوں کی اولین اور نمایاں ٹریڈ یونین ہے جس کا عین مقصد اخبارات میں مستقل طور پر کام کرنے والے اخبار نویسوں کے جملہ حقوق کاتحفظ کرنا ہے۔ ہندوستان صحافت کے معیار کو بلند کرنا اور صحافیوں کی حیثیت اور اہمیت کو تسلیم کروانا فیڈریشن کا اہم نصب العین ہے۔ فیڈریشن کی جانب سے اخبار نویسیوں کو قانونی مشورے دیئے جاتے ہیں اور اس سلسلہ میں قانونی مشاورتی بیورو بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہ انجمن 1950ء وجود میں آئی اور 1951 ء میں اس کا دستور اتفاق رائے کے ساتھ منظور کیا گیا ہندوستان کی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں کارکرد اخبار نویسوں کی انجمنیں اس فیڈریشن سے ملحق ہیں۔یہ ایک ایسی وفاقی انجمن ہے جس کے اراکین کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ ہے ۔ فیڈریشن کی نمائندگی اور مسلسل کوششوں کی وجہ سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اخبار نویسوں کے مفادات سے متعلق کئی قوانین منظور ہوئے صحافیوں کی ملازمتوں کو بہتر بنانے، نتخواہوں میں اضافے، تعطیلات طبی سہولتیوں اور معاملات کو بہتربنانے میں فیڈریشن نے نمایاں رول انجام دیا ہے۔ فیڈریشن کی جانب سے ایک ماہنامہ ورکنگ جرنلسٹس شائع ہوتا ہے۔ جس میں ملک بھر کی صحافتی انجمنوں کی سرگرمیاں اور اخبار نویسوں کی دلچسپی پر مشتمل خبریں رپورٹس اور مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ انڈیشن فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹس کا سالانہ اجلاس ملک کے مختلف شہروں میں منعقد ہوتا ہے۔ آندھراپردیش ورکنگ جرنلسٹس اسوسی ایشن کا اسی انجمن سے الحاق ہے۔
4۔انڈین لینگویجیس نیوز پیپرس اسوسی ایشن
ہندوستانی زبانوں کے اخبارات نے سماجی بیداریا ور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں تاریخ ساز رول ادا کیا ہے۔ ہندوستانی زبانوں کے اخبارات، انگریزی اخبارات سے آگے رہے ہیں۔
ملیالم منورما، امرت بازار پتریکا، ایناڈو، سیاست ، منصف، انقلاب اور آزاد ہند ایسے مشہور اخبارات ہیں جنہوںنے مسائل کی ترجمانی کی اور قومی شعور کی تعمیر و تشکیل میں حصہ لیا۔ 14!جون 1941ء کو انڈین لنگویجیس نیوز پیپرس اسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسو سی ایشن نے چھوٹے اور متوسط زمرہ کے اخبارات سے نہ صرف تعاون کرتی ہے بلکہ ان کے مسائل کو حل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرتی ہے۔
اسوسی ایشن کے ترجمان کی حیثیت سے 1952 ء میں ایک ماہانہ جریدہ ’’نیوز بلیٹن‘‘ کاآغاز ہوا جس میں اخبارنویس سے متعلق ضروری معلومات، سرکار کے مختلف اعلاناات اور چھوٹے اخبارات کی رہنمائی کے سلسلہ میں مواد شائع کیاجاتا ہے۔ یہ جریدہ صرف اسوسی ایشن کے اراکین کے لیے تھا۔ رتی لال سیٹھ اس جریدہ کے پہلے مدیر تھے۔ اسوسی ایشن نے 1946 ء میں ایک کواپریٹیو سوساٹی قائم کی تھی جس کا مقصد امداد باہمی کے اصولوں پر لسانی اخبارات کی مدد کرنا تھا اسو سی ایشن نے ہندوستانی اخبارات کے مقام اور اعتبار کو بلند کرنے میں نمایاں حصہ لیااور آج بھی اس کی خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔
5۔انڈین فیڈریشن آف اسمال اینڈ میڈیم نیوز پیپرس
ہندوستان کے چھوٹے اور درمیانی اخبارات کے مسائل کی نوعیت بڑے اخبارات کے مسائل سے بڑی حد تک جدا گانہ ہے۔ ان اخبارات کی تعداد اشاعت محدود ہے اور ا ن کے وسائل بھی بڑے اخبارات کے مقابلہ میں کم ہیں۔ فیڈریشن کا دفتر دہلی میں ہے۔
6۔آل انڈیا اردو اسمال نیوز پیپرس ایڈیٹرس کونسل
اردو زبان کے چھوٹے اخبارات کے لیے ملک کی کئی ریاستوں میں انجمنیں قائم ہیں جن کامقصد ان اخبارات کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ ہندوستان بھر کے اردو اخبارات کے لیے ایک پلیٹ فارم کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی چنانچہ دہلی میں آل انڈیا اردو اسمال نیوز پیپرس ایڈیٹرس کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا اس صحافتی انجمن کے بانی اور روح رواں رضی ابدایونی تھے۔
7۔AFP
وولف Wolf اور ہاؤس دنیا کی قدیم ترین نیوز ایجنسیاں ہیں۔ وولف تو ختم ہوچکی ہے مگر ہاوس کا نام تبدیل کرکے ایجنسی فرانس پریس AFP رکھا گیا جو کافی مشہور ہے۔ یہ ایجنسی 1835ء میں قائم ہوئی تھی۔
8۔رائٹر (Reuter)
رائٹر (Reuter) جرمنی کی خبر رساں ایجنسی ہے جس کا 1850 ء میں قیام عمل میں آیا۔
9۔بھارت نیوز:
حیدرآباد کی مشہور اردونیوز ایجنسی ہے یہ حیدرآباد کے اہم خبریں ،واقعات، حادثات کو اخبارات کو ارسال کرتا ہے۔ نیلے رنگ کے باریک کاغذ پر کاربن رکھ کر لکھا ہوا مواد اگرچیکہ کے نہایت واضح نہیں ہوتا لیکن اخباری زبان میںہونے کی وجہ سے اخبارات میں کام کرنے والے افراد اسے پڑھ لیتے ہیں ۔ شہر کی خبریں عوام کی بہت پسند کی ہوتی ہیں کیوںکہ ان سے راست ان کا تعلق ہوتا ہے، انٹرنیشنل خبروں سے ان کا راست تعلق نہیں ہوتا۔
10۔اسوسی ایٹیڈ نیوز سروس:
حیدرآباد کی خبروں کے لیے اسوسی ایٹیڈ نیوز سرویس اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ یہ بھی حیدرآباد کی ایک اردو نیوز سروس ہے۔ اس سے بھی بڑے چھوٹے اخبارات حاصل کرتے ہیں ۔
11۔دکن نیوز :
یہ اردو نیوز سرویس بھارت نیوز کی طرح مقامی خبریں بھیجتی ہیں۔ اس نیوز ایجنسی سے حیدرآباد میں وقوع پذیر ہونے والے اہم واقعات کا یہ نیوز ایجنسی کوریج کرتی ہے۔
12۔اسٹیٹ سماچار:
اسٹیٹ سماچار حیدرآباد کی قدیم اردو نیوز سرویس ہے ۔ اہم شخصیات کے دورے ، اہم واقعات، کھیل کود، حادثات ، اور دیگر خبریں باریک کاغذ پر کاربن رکھ ہاتھ سے لکھے ہوئے خبریں اخباری زبان میں اخبار کے لیے روانہ کی جاتی ہے جسے صرف اخباری عملہ ہی آسانی سے پڑھ سکتا ہے۔
13۔ اے ٹو زیڈ نیوز سرویس :
حال ہی میں ایک نیوز سرویس شروع ہوئی ہے جس کا نام اے ٹو زیڈ نیوز سرویس ہے۔ یہ سرویس بھی حیدرآباد کے نیوز روانہ کرتی ہے۔
14۔یونائٹیڈ نیوز سرویس (U.N.I)
یونائٹیڈ نیوز سرویس مشہور نیو ایجنسی ہے ۔ ہندوستان میںاس ایجنسی نے بیرونی ایجنسیوں سے اشتراک کرلیا ہے۔ اس بناء پر ہمیں مختلف اخبارات کے مقامی اور بین الاقوامی خبروں میں ڈیٹ لائن میں (یو این آئی) لکھا نظر آتا ہے۔ یو این آئی کے ذریعہ سیاسی، تجارتی، کھیل کود، معاشیات، سیاسیات، مقامی، سائنسی، ٹکنالوجی، قانونی، تہذیبی، وغیرہ خبریں اور فیچرس ارسال کئے جاتے ہیں۔
یو این آئی کی ابتداء مارچ 1961 ء میں ہوئی۔ اس کی اردو سرویس کی شروعات 1992 ء میں ہوئی۔ تب سے مختلف اخبارات اس کی اردو سرویس سے مستفید ہورہے ہیں۔ اردو میں بنی بنائیں خبریں مختصر فیس میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اخبارات ان خبروں کو حاصل کرکے کم وقت میں ایڈیٹنگ کرکے استعمال کرسکتے ہیں جب کہ انگریزی خبروں کا ترجمہ میں اس سے زیادہ وقت درکار ہے۔
14۔پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI)
پریس ٹرسٹ آف انڈیا ہندی اور انگریزی میں خبریں ارسال کرتا ہے۔ اس کی ابتدائی شکل برٹش اسوسی اٹیڈ پریس ہے ۔اس کی ‘ کے سی رائے نے 1910 ء میں بنادرکھی۔ 1945 ء میں اسوسی ائٹیڈ پریس رجسٹرڈ ہوا۔ 1949ء کو یکم فروری سے پی ٹی آئی کی نیوز سرویس شروع ہوئی۔ آزادی کے بعد 1947 ء کو مدارس میں اس کا صدر دفتر قائم ہوا۔پی ٹی آئی کی 1953 ء میں Reutersسے آزاد ہوکر انفرادی سرویس شروع ہوئی۔ فروری1986ء میں پی ٹی آئی ۔ٹی وی شروع کیا گیا۔ 1999 ء پی ٹی کی تاریخ کااہم سال کے کیوں کہ اس سال اس نے اپنے 50سالہ تقاریب منائی اور اسی سال اس کا انٹرنیٹ ایڈیشن شائع ہوا۔ 2003ء سے فوٹو ڈیلوری سرویس شروع ہوئی۔ مختصر سی فیس دے کر کوئی بھی اخبار اس کا رکن بن سکتا ہے۔
15۔پرسار بھارتی
پرسار بھارتی حکومت ہند کا ادارہ ہے۔ آل انڈیا ریڈو اور دور درشن کے اس کے نیوز سرویس اور خود مختار ادارے ہیں۔ اس کے تحت مختلف نیوز ایجنسیاں کام کرتے ہیں۔ پریس کونسل آف انڈیاPCI،1966 ء میں وجود میں آئی ۔ اس کے ممبر بنے کے لیے فیس ہے اس فیس کی ادائی کے بعد کوئی بھی اخبار اس کا ممبر بن سکتا ہے۔ ویسے جتنے بھی نیوز سرویس ہے وہ کاپی رائٹس رہتے ہیں اور مختلف فیس دے کر ان کی ممبر شپ حاصل کی جاسکتی ہے اس کے بعد میں ان سے اجازت ملتی ہے اور نیوز شائع کرسکتے ہیں۔ ان سے چراکر شائع کرناجرم ہے۔ تمام نیوز ایجنسیوں کا طریقہ کار الگ الگ ہوتا ہے۔یہاں مثال کے طور پر ایک پریس کونسل آف انڈیا کا فیس چارٹ دیاجاتا ہے۔
پی سی آئی نے A,B,C,D,Eوغیرہ معیار بنائے ہیں یہاں پر دو کی تفصیل یہ ہے کہ رجسٹرڈ نیوز پیپرس جن کی تعداد اشاعت 1,50,000 سے زائد ہے۔
سالانہ فیس
Rs.7,500/-
ہر روزنامہ کے لیے
سالانہ فیس
4,500/-
ہفت روزہ ! سہ روزہ
سالانہ فیس
3,500/-
پندرہ روزہ! ماہنامہ
سالانہ فیس
2,500/-
دیگر جرائد کے لیے
رجسٹرڈ نیوز پیپرس جن کی تعداد اشاعت 50,000 سے ایک لاکھ تعداد اشاعت کے لیے فیس ۔
سالانہ فیس
Rs.3,750/-
ہر روزنامہ کے لیے
سالانہ فیس
2,250/-
ہفت روزہ ! سہ روزہ
سالانہ فیس
1,500/-
پندرہ روزہ! ماہنامہ
سالانہ فیس
1,125/-
دیگر جرائد کے لیے
16۔پریس انفارمیشن بیورو PIB
پریس انفارمیشن بیورو مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کا ایک موثر ترسیلی مرکز ہے جو حکومت ہند کی مرکزی خبر رساں ایجنسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پریس انفارمیشن بیورو کا مقصد اخبارات ، جرائد کے ذریعہ حکومت کی پالیسیوں ، پروگراموں اور سرگرمیوں سے عوام کو واقف کروانا ہے۔ پریس انفارمیشن بیورو اپنے ٹیلی پرنٹرنٹ ورک، فیاک اور ایئر بیاگ کے ذریعہ ہندوستان بھر کے اخبارات کو خبریں فراہم کرتا ہے۔ ملک کا کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو پی آئی بی کی طرح اتنی بڑی تعداد میںموجودہ اخبارات کو خبریں فیچر فراہم کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے تقریباً30 ہزار اخبارات کو ہر روز پی آئی بی کے خبر نامے وصول ہوتے ہیں اخبارات کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو بھی پی آئی بی کی سہولت میسر ہے۔
17۔اخباری فیچرس کی فراہمی کے ادارے
عالمی سطح پر اخبارات کے لیے چیرس فراہم کرنے والے کئی ادارے ہیں جوتازہ سیاسی واقعات، اقتصادی صورت حال ، سماجی موضوعات ، سائنسی ترقی اور دیگر نئے موضوعات پر فیچرس تیار کرکے اخبارات کو روانہ کرتے ہیں۔ اس نوعیت کے عالمی اداروں نے ہندوستانی اخبارات کی سہولت کیلئے اپنی شاخین یہاں قائم کی ہیں۔ ان میں انفا کافی مشہور ہے۔
18۔ انفا
انڈیا نیوز فیچر الائینس نام کا یہ ادارہ ہندوستان میں خبریں اور فیچر مضامین کی فراہمی کا ایک مستند اور مقبول ادارہ ماناجاتا ہے۔ یہ ادارہ 1959 ء میں قائم ہوا ہے۔ مشہور انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر درگا داس کی کوششوں سے اسے قائم کیا گیا وہ امریکی سنڈیکیٹ اداروں کے طرز پر ایک بہترین نیوز فیچر سرویس ہندوستان میں قائم کرناچاہتے تھے جو کم اخراجات پر اخباری مواد اور فیچر، مضامین ہندوستانی اخبارات کو فراہم کرے اس ادارے نے کئی ماہرین، مبصرین، صحافیوں، کام نویس، کارٹونسٹ، پریس فوٹو گرافرس اور خصوصی نامہ نگاروں کی خدمات حاصل کی۔ ابتداء میں اس ادارے کو اخبارات نے اہمیت نہیں دی لیکن بعد میں اس کی افادیت اور اہمیت کا احساس ہوا اور اس ادارے کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ انفا کی جانب ہر سال انفا پریس اینڈ اڈورٹائزنگ ایئر بک (Infa Press and Advertising Year Book) کے نام سے ایک حوالہ جاتی کتاب شائع ہوتی ہے۔
19۔کنگ فیچرس سنڈیکیٹ
عالمی شہرت یافتہ نیوز فیچرس ارسال کرنے والا ادارہ ہے ۔ مکی ماوز، ڈونالڈ ڈک اور کئی مقبول ترین، کامیک پٹیاں عالمی شہرت یافتہ کارٹونسٹ تیار کرچکے ہیں۔ یہ اسی ادارہ کی دین ہے۔
20۔پریس ایشیاء انٹرنیشنل
ہندوستان میں خبریں اور فیچرس کی فراہمی کے سلسلے میں پریس ایشیاء انٹرنیشنل ایک مقبول ترین سنڈیکیٹ ادارہ ہے جس نے صحافت کی دنیا میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ پریس ایشیاء انٹرنیشنل 1970ء میں قائم کیا گیا ۔
21۔کارٹوگرافک نیوز سرویس
کارٹو گرافی سے مراد نقشہ نویسی، نقشہ بنانے والے کو کارٹو گرافر نقشہ نگار یا رسام کہاجاتا ہے۔ یہ ادارہ 1958 ء میں دہلی میں قائم کیا گیا تھا۔
22۔فوٹوڈویژن اورریاستی محکمہ اطلاعات کی فوٹو سرویس :
فوٹو ڈویژن ، مرکزی محکمہ اطلاعات کے تحت ہے جو اخبارات کو اہم سیاسی واقعات ، پریس کانفرنسوں اوردیگر قومی وبین الاقوامی نوعیت کی تقاریب ، کافرنسوں اور جلسوں کی تصاویر فراہم کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں پریس انفارمیشن بیورو کی خدمات حاصل کی جاتی ہے۔
23۔ صرف مطالعہ کے نیوز سرویس
مندرجہ بالا تصویر انٹر نیٹ ایکسپلورر کی ہے جس میں مختلف ایڈریس کے ذریعہ نیوز پڑھ سکتے ہیں۔
انٹر نیٹ پر ایسے نیوز سرویسیس بھی موجود ہیں جو نیوز کو ایجنسیوں کی طرح پیسوں سے نہیں دیتے بلکہ مفت مطالعہ کے دیتے ہیں ۔ یہاں سے نوز کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ ان کی تفصیل اس طرح ہے۔
24۔ سرچ انجن
انٹرنیٹ چند بہت بڑے اور مشہور سرچ انجن کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔ سرچ انجن دراصل ہزاروں ،لاکھوں ویب سائٹوں میں سے مطلوبہ ویب سائٹ یا مواد حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ نیوز کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
جیسے
Yahoonews
GoogleNews
Siffy
MSN
Ridiff وغیرہ
25۔ ٹی وی چیانلس
چند بڑے ٹی وی چیانلس بھی تازہ خبروں کی اشاعت کرتے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ٹی وی پر اپ ڈیٹ مواد ہوتا رہتا ہے۔ یہاں سے بھی تازہ خبروں کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے۔
اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
bbcnews
cnn
ddnews
aajtak
ndtv
starnews وغیرہ وغیرہ