اردو ادب کا عطر، نکتہ آفرینی سطر سطر

فہد اشرف

محفلین
جہاں تک میراحافظہ کام کررہاہے شایدیہ واقعہ "خاکم بدہن "یا "چراغ تلے "میں تحریرہے.جو یوسفی صاحب کی تصانیف ہیں میں سےہیں.
مکمل طور پر اس لیے نہیں بتا سکتا کہ میں اب اپنے گھر سے دور ہوں اور ان کتابوں سے بھی اس لیے ان دونوں کتابوں کو آپ کو خود دیکھنا ہوگا ۔
تو یہ اقتباس آپ کو زبانی یاد تھا؟
 
خط کی کئی قسمیں ہیں۔ سیدھے خط کو خطِ مستقیم کہتے ہیں۔ چونکہ یہ بالکل سیدھا ہوتا ہے اس لئے سیدھے آدمی کی طرح نقصان اٹھاتا ہے۔ تقدیر کے لکھے خط کو خطِ تقدیر کہتے ہیں، جسے فرشتوں نے سیاہی سے لکھا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا مٹانا مشکل ہوتا ہے۔ جس خط میں ڈاکٹر صاحب نسخے لکھتے ہیں اور جو کسی سے پڑھے نہیں جاتے اسے خطِ شکستہ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل لوگ بیماریوں سے زیادہ نہیں مرتے بلکہ غلط دوائیوں سے مرتے ہیں۔
خط کی دو قسمیں اور بھی ہیں مثلاً حسینوں کے خطوط......... یہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حسینائیں اپنے چاہنے والوں کے نام لکھتی ہیں، جن میں دنیا کے اُس پار جانے کا ذکر ہوتا ہے جہاں ظالم سماج دو محبت کرنے والوں تک نہ پہنچ سکے۔
دوسرے ’’حسینوں کے خطوط‘‘ یعنی نقش و نگار جن کی بدنمائی چھپانے کے لئے ہر سال کروڑوں روپے کی کریمیں، لوشن، پاؤڈر اور پرفیومز وغیرہ استعمال کرلئے جاتے ہیں۔
(ابنِ انشاء کے مضمون ’’ابتدائی حساب‘‘ سے اقتباس)
 
کل شاعرِ بے بدل محسن نقوی کی برسی تھی۔ لیکن ایسے لوگ مرتے کب ہیں؟ ناصر کاظمی کے پائے کے شاعر، جن کا کلام بین الاقوامی سرحد عبور کر گیا تھا۔ اوپر سے غلام علی کی گائیکی۔۔۔۔گویا سونے پہ سہاگہ۔۔۔
لیجے غزل کے ساتھ ایک "سراپا غزل" آپ کی نذر
--------------------------------------------------------------------------
یہ دل۔۔۔۔(محسن نقوی)

یہ دل، یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا! آوارگی
اس دشت میں اِک شہر تھا ، وہ کیا ہوا؟ آوارگی

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا! تُو کون ہے؟ اُس نے کہا! آوارگی

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا! آوارگی

یہ درد کی تنہائیاں ، یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اُکتا گئے ، اپنی سُنا! آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی
--------------------------------------------------------------------------
اور اسی حزنیہ شاعر کی امیدوں بھری یہ مہکتی غزل بھی ملاحظہ کریں۔ کیا رنگ و آہنگ ہے۔۔۔سبحان اللہ:

خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا ، جلائے رکھنا ، کمال یہ ہے

کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دُکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے

خیال اپنا ، مزاج اپنا ، پسند اپنی ، کمال کیا ہے؟
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا ، کمال یہ ہے

کسی کی رَہ سے خدا کی خاطر ، اٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی، جھکا کے رکھنا ، کمال یہ ہے

وہ جسکو دیکھے تو دکھ کالشکربھی لڑکھڑائے،شکست کھائے
لبوں پہ اپنے ، وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا ، کمال یہ ہے

ہزارطاقت ہو،سو دلیلیں ہوں پھربھی لہجے میں عاجزی سے
ادب کی لذت، دعا کی خوشبو ، بسا کے رکھنا ، کمال یہ ہے
 
(خوش ذوق قارئین کے لئے)

ہمارے بہت سے فلرٹی دوست، صنف نازک کو تاڑنےاور آوازے کسنے کے فن میں طاق ہیں لیکن کبھی ادھر سے جواب آجائے تو؟
لیجے بھگتئے
------------------------------------------------------------------------

"گھورنا منع ہے"

ہم عورتیں بھی عجیب ہوتی ہیں اگر تیار ہو کر کہیں جائیں اور کوئی گھور رہا ہو تو دل ہی دل میں کہتی ہیں:
"کمینہ۔۔۔ دیکھو تو کیسے گھور رہا ہے۔لگتا ہے کبھی لڑکی نہیں دیکھی۔گھر میں ماں بہن نہیں ہیں اسکے"
اور اگر کوئی نہ دیکھے تو کہتی ہیں:
"کمینہ کہیں کا۔۔۔۔ دیکھا تک نہیں۔اتنی محنت سے تیار ہو کر آئے ہیں"
الغرض مرد حضرات ہمارے نزدیک کمینے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔بلکہ ہم یہیں سے بات کو شروع کرتے ہیں کہ آخر "تاڑو" مرد حضرات ہی کیوں ہیں؟ کیوں انہیں کی نگاہیں بےباک اور نڈر ہیں؟بس یہی سوال ذہن میں کلبلایا تو ہم نے سوچا کہ ایک نئی تاریخ رقم کر دی جائے۔ ۔
اگر مرد حضرات بلا جھجک ۔ ۔ بلا روک ٹوک کسی کو بھی "تاڑ" سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟
ارے چونک گئے؟ کیوں کہ ایک لڑکی ہونے کے ناطے میرا فرض جھکی پلکیں اور شرم سے بوجھل نگاہیں جیسے الفاظ کو عملی "پاجامہ" پہنانا ہے تو پھر میں ایسی باغیانہ باتیں کیسے کر سکتی ہوں؟ ۔ ۔
ہمارے معاشرے میں "تاڑنے" کی "نماز" صرف مرد حضرات پر ہی لاگو ہے۔ ۔ عورتوں کے لیے یہ ایسے ہی حرام ہے جیسے مردوں کیلیے سونا۔ ۔ سونا مطلب گولڈ والا۔ ۔ لیکن مردوں میں جب بپی لہری (سونے (Gold) سے لدا ہوا بھارتی موسیقار) ہو سکتا ہے تو عورتوں میں، میں کیوں نہیں؟
بس اسی سوچ کے تحت ہم نے "انقلابی" بننے کا پکا فیصلہ کر لیا۔ ۔ ویسے بھی ملک میں انقلاب کسی بھی لمحے آ سکتا ہے ایسے میں چند انقلابیوں کا موقع پر موجود ہونا ضروری ہے تاکہ انقلاب کا شاندار استقبال کیا جا سکے۔

اب لو جی انقلابی باجی یعنی خود ہم نے اپنے نیک مقصد کی تکمیل کی خاطر ایک ہوٹل میں کونے والی سیٹ سنبھال کر مورچہ بندی کر لی تاکہ کسی بھی نووارد کو سر تا پاؤں ٹھونک بجا کر تاڑ سکیں۔ ۔
ایک حضرت اندر داخل ہوئے تو ہم نے انکو خوب تاڑنے کے بعد سوچا کہ اب انکا کیا کیا جائے؟ کہ اچانک دورِ جوانی کی اک یاد دماغ میں آ کر لہرائی۔۔۔۔جب سب سہلیاں یونیورسٹی میں گراؤنڈ سے گزر رہی تھیں تو چند انتہائی "شرفاء" ہمیں "ریمارکس" کی بجائے "مارکس" دے رہے تھے۔ ۔
ہماری پہلی سہیلی گزری تو آواز آئی "سات نمبر"۔ ۔ دوسری کو ملے "پانچ نمبر" کیوں کہ اسکا سکارف شاید زیادہ نمبروں کے قابل نہیں تھا۔ ۔
ہماری باری آنے پر ہمیں "ساڑھے سات نمبر" دیے گئے... یہ آدھا اضافی نمبر ہمارے دراز قد کا تھا۔ لیکن انقلابی باجی یعنی ہم چونکہ بچپن سے ہی انقلابی ہیں اسلیے ہرگز چپ چاپ گزر جانے میں عافیت نہ جانی اور انتہائی اعتماد سے پلٹ کر نمبر دینے والے حضرت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی:
"نہیں آٹھ نمبر تو بنتے ہیں ۔.۔ آخر نیا سوٹ پہنا ہے آج" ۔ ۔
اور ان حضرت کی ہماری دیدہ دلیری پر آنکھیں یوں پھٹ گئیں گویا سارے بہادری کے سرٹیفیکیٹ ابن آدم کے نام لگا دیے گئے ہیں اور حوا کی بیٹی کو بس یہی حکم ہے کہ ہر حکم بجا لائے۔ ۔
لیکن خیر آتا ہے ہمیں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا۔ ۔ سو ہر اندر آنے والے حضرت کو ہم نے دل کھول کر فیل کیا۔ ۔ یہ سب ہم نے صرف بدلہ لینے کی غرض سے نہیں کیا بلکہ اس کمینی سی خوشی کو محسوس کرنے کے لیے بھی کیا جسے حاصل کرتے وقت سر پر چھوٹے چھوٹے دو غائبانہ سینگ (شیطان کی طرح) نکل آتے ہیں۔ ۔
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی موصوف پاس کرنے کے قابل ہی نہ تھے ۔ ۔ بس دل میں خیال آیا کہ جب ہمیں کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی پیمانے میں تول سکتا ہے تو ہماری بھی مرضی پاس کریں یا فیل۔ ۔ سو ہم نے دل کی سنی۔ ۔ کچھ حضرات ہمارے تاڑنے سے جزبز ہوئے کچھ ٹھٹکے ۔ ۔ کچھ نے جوابی حملہ کیا جسے ہم نے ہوائی پھونک میں اڑا دیا اور کچھ نے باقاعدہ باعثِ فخر جانا بنت حوا کا انہیں اس قدر اہمیت دینا۔ ۔

میرے سرتاج بھی حیرانی سے ہمیں تاڑتے رہے کہ "بدلے بدلے سے آج میرے سرکار نظر آتے ہیں" لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ۔ ہم نے آج پوری لنکا ڈھانے کا فیصلہ جو کر رکھا تھا۔ ۔
اچانک ہمارے ذہن میں ایک جھماکا ہوا اور یاد آیا۔ ۔ "اوہ ابھی تو خوشی ادھوری ہے۔ خالی تاڑنے سے کیا ہوتا ہے ؟ کچھ کمنٹس پاس کرنا بھی تو بنتا ہے.."
سو اگلے آنے والے موصوف کا سر سے پاؤں تک ایکسرے کر کے ہم بولے
"کتھے چلے ہو سوہنیو ۔ ۔ نویں ٹائی شائی پا کے "
یہ سن کر ہمارے سرتاج ہمیں حیرت سے اور وہ موصوف ہمیں حیرت پلس۔۔۔ مزید حیرت سے تاڑنے لگے۔ ۔ لیکن ہم تو اس بات پر حیران ہیں کہ جو کام مرد حضرات خود دن رات سرانجام دیتے ہیں اس پر انہیں اتنی حیرت کیوں ہے؟
 
قدرت اللہ شہاب کی تصنیف "شہاب نامہ" سے ایک اقتباس !

سکول کا اصلی ہوا ماسٹر منگل سنگھ ہی تھے - اردو پڑھانے میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا - اردو کا سبق وہ ٹھیٹھ پنجابی زبان میں دیا کرتے تھے - اور اشعار کی تشریح کرنے میں ان کا اپنا ہی نرالا انداز تھا- ایک بار غالب کا یہ شعر آیا -

سادگی و پرکاری ، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا

اس شعر کو انہوں نے ہمیں یوں سمجھایا -
"سادگی تے اس نال پرکاری ، بے خودی تے اسدے نال نال ہشیاری - حسن نوں تغافل دے وچ کیا پایا؟ شاعر کہندا اے اس نے حسن توں تغافل دے وچ جرات آزما پایا - لے اینی جئی گل سی- غالب شعر بناندا بناندا مر گیا - میں شعر سمجھاندے سمجھاندے مر جانا اے - تہاڈے کوڑھ مغزاں دے پلے ککھ نیئں پینا - اگے چلو"
 
Top