محمد وارث
لائبریرین
سناٹے کی سائیں سائیں تو استعمال ہوتا ہے۔ مور کی آواز کو شاید "چنگھاڑ" نہیں کہتے اور کوئی دوسرا لفظ میرے علم میں نہیں ہے
سناٹے کی سائیں سائیں تو استعمال ہوتا ہے۔ مور کی آواز کو شاید "چنگھاڑ" نہیں کہتے اور کوئی دوسرا لفظ میرے علم میں نہیں ہے
سناٹے کی سائیں سائیں تو استعمال ہوتا ہے۔
سناٹا بھائیں بھائیں کرتا ہے۔سناٹے سے زیادہ ہوا کی سائیں سائیں ہوتی ہے۔ استعمال تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن محاورہ میرے خیال میں ہوا کے ساتھ مخصوص ہے۔
سناٹے سے زیادہ ہوا کی سائیں سائیں ہوتی ہے۔ استعمال تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن محاورہ میرے خیال میں ہوا کے ساتھ مخصوص ہے۔
مور کا تو مجھے بھی نہیں معلوم ، شاید اس کی بھی پپیہے کی طرح ’پی پی‘ ہوتی ہو۔
سناٹا بھائیں بھائیں کرتا ہے۔
آپ کو اجازت ہے...ہوا اور سنّاٹے دونوں کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے؟
سنّاٹے کی سائیں سائیں۔۔
کیا یہ درست ہے؟
سناٹے کی سائیں سائیں تو استعمال ہوتا ہے۔
سناٹے سے زیادہ ہوا کی سائیں سائیں ہوتی ہے۔ استعمال تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن محاورہ میرے خیال میں ہوا کے ساتھ مخصوص ہے۔
ہو سکتا ہے کہ سائیں سائیں موقع محل کے مطابق استعمال ہوتا ہو۔ناصر کاظمی کا ایک خوبصورت شعر ہے
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
سناٹا بھائیں بھائیں کرتا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ ابن سعید بھائی کی جس بات کو احباب نے مزاح سمجھا، بالکل درست تھی۔ الف عین صاحب کی رائے بھی اسی کے موافق ہے۔ہوا اور سنّاٹے دونوں کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے؟
بیوی کی رڑک...بیوی کی بڑھک نہیں ہوتی، بیوی کی رڑک ہوتی ہے۔ پنجابی قافیے کے لیے معذرت لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجا فرمایا آپ نے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ ناصر کاظمی ایک اچھا شاعر ہےہمارا خیال ہے کہ ابن سعید بھائی کی جس بات کو احباب نے مزاح سمجھا، بالکل درست تھی۔ الف عین صاحب کی رائے بھی اسی کے موافق ہے۔
وارث بھائی نے ناصرؔ کا جو شعر نقل کیا ہے وہ ایک استثنائی مثال ہے۔ بلکہ پورے طور پر استثنائی بھی نہیں۔ ہواؤں کی سرسراہٹ سنائی دینے سے خاموشی کا جو تاثر ابھرتا ہے غالباً اس کی ترجمانی شاعر کا مقصود تھی جو بہت حد ہو گئی۔
سناٹے، ویرانی یا خالی پن کے احساس کو اردو میں بھائیں بھائیں کرنا ہی کہا جاتا ہے۔ سائیں سائیں کی صوتیات اس لفظ کے معانی میں سرسراہٹ کا عنصر شامل ہونے کی کافی دلیل ہے۔
رَڑَک یا رِڑَک اس چبھن کو ہم کہتے ہیں جو مسلسل رہتی ہے۔ مثلا اگر کسی کانٹے کا کوئی حصہ ٹوٹ کر پاؤں یا ہتھیلی میں رہ جائے اور مسلسل ہلکی ہلکی چبھن رہے تو اُسے کہتے ہیں۔ یہ اوصاف تو سارے بیوی والے ہیں رڑک نہ جانے اسے کیوں کہتے ہیں۔بیوی کی رڑک...
یا بیوی لڑھک؟؟؟
لسی رڑکنے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟رَڑَک یا رِڑَک اس چبھن کو ہم کہتے ہیں جو مسلسل رہتی ہے۔ مثلا اگر کسی کانٹے کا کوئی حصہ ٹوٹ کر پاؤں یا ہتھیلی میں رہ جائے اور مسلسل ہلکی ہلکی چبھن رہے تو اُسے کہتے ہیں۔ یہ اوصاف تو سارے بیوی والے ہیں رڑک نہ جانے اسے کیوں کہتے ہیں۔
جی ہاں یہ بھی ہے، اللہ ہی جانے کیا نسبت ہے ان میں۔لسی رڑکنے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
صرف آخری یعنی رڑک پنجابی کا ہے باقی سب اردو کے ہیں۔کیا یہ سب الفاظ اردو کے ہیں یا پنجابی میں بھی مستعمل ہیں؟
غالباً صوتی اثرجی ہاں یہ بھی ہے، اللہ ہی جانے کیا نسبت ہے ان میں۔
بہترین اور معلوماتی انتخاب ۔اردو الفاظ کا درست استعمال
*آغا شورش کاشمیری مرحوم*
جانوروں کے بچہ کو ہم بچہ ہی کہتےہیں
مثلاً سانپ کا بچہ ،
الو کا بچہ،
بلی کا بچہ،
*لیکن اردو میں*
ان کے لئے جدا جدا لفظ
ہیں ۔ مثلاً :
بکری کا بچہ : میمنا
بھیڑ کا بچہ : برّہ
ہاتھی کا بچہ : پاٹھا
الوّ کا بچہ : پٹھا
بلی کا بچہ : بلونگڑہ
بچھیرا : گھوڑی کا بچہ
کٹڑا : بھینس کا بچہ
چوزا : مرغی کا بچہ
برنوٹا : ہرن کا بچہ
سنپولا : سانپ کا بچہ
گھٹیا : سور کا بچہ
اسی طرح بعض جانداروں اور غیر
جانداروں کی بھیڑ کے لئے
خاص الفاظ مقرر ہیں ۔جو اسم جمع کی حیثیت رکھتے ہیں ؛
مثلاً :
طلباء کی جماعت،
پرندوں کا غول،
بھیڑوں کا گلہ،
بکریوں کا ریوڑ،
گووں کا چونا ،
مکھیوں کا جھلڑ،
تاروں کا جھرمٹ یا جھومڑ ،
آدمیوں کی بھیڑ ،
جہازوں کا بیڑا ،
ہرنوں کی ڈار،
کبوتروں کی ٹکڑی،
بانسوں کا جنگل ،
درختوں کا جھنڈ،
اناروں کا کنج ،
بدمعاشوں کی ٹولی ،
سواروں کا دستہ،
انگور کا گچھا،
کیلوں کی گہل ،
ریشم کا لچھا،
مزدوروں کا جتھا،
فوج کا پرّا،
روٹیوں کی تھپی،
لکڑیوں کا گٹھا،
کاغذوں کی گڈی،
خطوں کا طومار،
بالوں کا گُچھا،
پانوں کی ڈھولی،
کلابتوں کی کنجی ۔
*اردو کی عظمت کا اندازہ اس سےکیجئے کہ ہر جانور کی صوت کے لئے علیحدہ لفظ ہے،*
مثلا :
شیر دھاڑتا ہے ،
ہاتھی چنگھارتا ہے ،
گھوڑا ہنہناتا ہے ،
گدھا ہیچوں ہیچوں کرتا ہے ،
کتا بھونکتا ہے ،
بلی میاؤں کرتی ہے،
گائے رانبھتی ہے ،
سانڈ ڈکارتا ہے ،
بکری ممیاتی ہے ،
کوئل کوکتی ہے ،
چڑیا چوں چوں کرتی ہے ،
کوا کائیں کائیں کرتاہے ،
کبوتر غٹر غوں کرتا ہے ،
مکھی بھنبھناتی ہے ،
مرغی ککڑاتی ہے،
الو ہوکتا ہے ،
مور چنگھارتا ہے ،
طوطا رٹ لگاتا ہے ،
مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کرتا ہے ،
پرندے چہچہاتے ہیں ،
اونٹ بغبغاتا ہے،
سانپ پھونکارتا ہے ،
گلہری چٹ چٹاتی ہے ،
مینڈک ٹرّاتا ہے ،
جھینگر جھنگارتا ہے ،
بندر گھگھیاتا ہے ،
*کئی چیزوں کی آوازوں کے لئے مختلف الفاظ ہیں*
مثلا
بادل کی گرج،
بجلی کی کڑک ، ہوا کی سنسناہٹ ،
توپ کی دنادن ،
صراحی کی گٹ گٹ ،
گھوڑےکی ٹاپ ،
روپیوں کی کھنک ،
ریل کی گھڑ گھڑ،
گویوں کی تا تا ری ری،
طبلے کی تھاپ،
طنبورے کی آس،
گھڑی کی ٹک ٹک،
چھکڑے کی چوں، اور
چکی کی گھُمر۔
*ان اشیاء کی خصوصیت کے لئے ان
الفاظ پر غور کیجیے* :
موتی کی آب ،
کندن کی دمک،
ہیرےکی ڈلک ،
چاندنی کی چمک ،
گھنگھرو کی چھُن چھُن
،دھوپ کا تڑاقا ۔
بو کی بھبک ،
عطر کی لپٹ ،
پھول کی مہک ۔
*مسکن کے متعلق مختلف الفاظ*
جیسے
بارات کا محل ،
بیگموںکا حرم ،
رانیوں کا انواس،
پولیس کی بارک ،
رشی کا آشرم ،
صوفی کا حجرہ ،
فقیر کا تکیہ یا کٹیا ،
بھلے مانس کا گھر ،
غریب کا جھونپڑا ،
بھڑوں کا چھتا ،
لومڑی کی بھٹ ،
پرندوںکاگھونسلہ ،
چوہے کا بل ،
سانپ کی بانبی ،
فوج کی چھاونی،
مویشی کا کھڑک ،
گھوڑے کا تھان
_شورش کاشمیری کی کتاب
“فن خطابت“ سے انتخاب
پنجابی والا رِڑکن میں شاید ر پر زیر ہوتا ہے۔غالباً صوتی اثر
جیسے الف نون میں ننھا جب ننھا بدمعاش بنتا ہے تو لسی والے کے پاس جا کر کہتا ہے کہ "کیا پرُڑ پرُڑ کر رہے ہو."
رُڑکنا بھی اسی آواز سے نکلا ہو گا.