راحیل فاروق
محفلین
اردو کا رشتہ اہلِ ایران کے علاوہ باقی سب نے تو فارسی سے منقطع کر دیا ہے مگر تاریخ کے صفحات پر اس کی آنول نال ابھی تک پڑی ہوئی ہے۔ ہماری مراد ان ادبی شذرات سے ہے جن میں اردو اور فارسی ایک دوسری سے ملنے یا شاید جدا ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہماری روایت میں ایسے اشعار کافی مل جائیں گے جن کا کم و بیش نصف حصہ فارسی ہے۔ میرا مطالعہ اس سلسلے میں ناکافی ہے مگر اس خیال سے آغاز کر رہا ہوں کہ سب مجھ جیسے تو نہیں۔
---
ہر کس کہ خیانت کند البتہ بترسد
بےچارۂِ نوریؔ نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے
ملا نوریؔ
ہر کوئی جو خیانت کا مرتکب ہوتا ہے ضرور ڈرتا رہتا ہے۔ نوریؔ بےچارہ نہ ارتکاب کرتا ہے نہ ڈرتا ہے۔ ملا نوریؔ کوئی بہت ہی پرانے درباری شاعر ہیں۔ تاریخ میں غالباً ان کا یہی ایک شعر محفوظ رہ گیا ہے۔ہر کس کہ خیانت کند البتہ بترسد
بےچارۂِ نوریؔ نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے
ملا نوریؔ
---
بےکار مباش کچھ کیا کر
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر
معلوم نہیں یہ شعر کس کا ہے مگر ضرب المثل بن گیا ہے۔ مصرعِ اولیٰ کے پہلے ٹکڑے کا مطلب ہے بےکار نہ رہ۔بےکار مباش کچھ کیا کر
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر
---
فارسی را ٹانگ توڑم تا کہ وا لنگڑی شود
ازراہِ تفنن گھڑے گئے اس مخلوط السان مصرعے میں کہنا یہ مراد ہے کہ فارسی کی ٹانگ توڑ رہا ہوں تاکہ وہ لنگڑی ہو جائے۔ معلوم نہیں کس نے کہا۔فارسی را ٹانگ توڑم تا کہ وا لنگڑی شود
---
زحالِ مسکین مکن تغافل، دُرائے نیناں، بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلش چو عمر کو تہہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکا یک از دل دو چشمِ جادو، بصد فریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چو شمع سوزاں، چو ذرہ حیراں زمہرآں ماہ گشتم آخر
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
بحقِ روزِ وصالِ دلبر کہ داد مارا فریبِ خسرو
سپیت من کے درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
امیر خسروؔ
خسروؔ کی یہ غزل تاریخ کی پہلی "اردو" غزل بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس کا ترجمہ یہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔زحالِ مسکین مکن تغافل، دُرائے نیناں، بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلش چو عمر کو تہہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکا یک از دل دو چشمِ جادو، بصد فریبم ببرد تسکیں
کسے پڑی ہے جو سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چو شمع سوزاں، چو ذرہ حیراں زمہرآں ماہ گشتم آخر
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
بحقِ روزِ وصالِ دلبر کہ داد مارا فریبِ خسرو
سپیت من کے درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
امیر خسروؔ
---
غالبؔ کے اس قسم کے اشعار کے سلسلے میں تفحص ہم نے اس خیال سے نہیں کیا کہ اس پر بعض دوسرے احباب کا حق اب زیادہ ہو گیا ہے۔