آصف اثر
معطل
محترم اے خان کے تعارف میں مریم افتخار صاحبہ کی جانب سے پختون عوام میں مذکر اور مؤنث کی کنفیوژن کے پیچھے مضمر راز کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایکسپریس پر شائع میرا ایک تجزیاتی مضمون پیشِ خدمت ہے۔ امید ہے پسند آئے گا۔
کہتے ہیں کہ ایک بار عوامی نیشنل پارٹی کے قائد خان عبدالولی خان سے کسی صحافی نے اصلاح کی غرض سے کہا کہ جناب آپ نے اپنی تقریر میں ”قوم“ کو مذکر استعمال کیا ہے حالاں کہ یہ مؤنث ہے۔ خان صاحب نے یہ کہہ کر محفل زعفرانِ زار بنادی کہ بھئی آپ کی قوم مؤنث ہوگی، ”ہمارا“ قوم تو مذکر ہے۔
کراچی میں بچپن گزارنے ہی کا فائدہ تھا کہ جب دوبارہ کراچی آنا ہوا تو اردو بول تو سکتے تھے لیکن لہجے میں بہتری کے آثار نہیں تھے؛ جو خوش قسمتی سے رواں لہجے میں اردو بولنے والے دوستوں کے ذریعے جلد ہی قابلِ قبول حد تک پہنچ گئی لیکن مؤنث و مذکر کا مسئلہ شمال اور جنوب کی طرح ایک پشتون کےلیے مسئلہ ہی رہا۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ زیادہ وقت غیر نصابی مطالعہ کرتے ہوئے جب عارضی طور پر تدریس سے بھی وابستگی ہوئی تو وقتاً فوقتاً مذکر و مؤنث کا مسئلہ مزید الجھن کا سبب بننا شروع ہوا۔ جب مذکورہ بالا واقعہ نظروں سے گزرا تو خیال آیا کہ کیوں نہ اسے ذرا مزید دیکھا جائے کہ آیا کہیں پوری دال ہی کالی ہو… اور پھر وہی ہوا جس کا گمان تھا!
بہت تعجب ہوا کہ جو لفظ اردو میں مؤنث ہے وہ پشتو میں مذکر، اور جو اردو میں مذکر ہے وہ پشتو میں مؤنث۔ خوف لاحق ہوا کہیں یہ مسئلہ بھی ”دولسانی“ تنازعہ نہ بن جائے! لیکن زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ بھینس، دونوں جانب بھینس ہی رہے گی!
مذکر مؤنث کا یہ دلچسپ سیاق و سباق کچھ الفاظ میں تغیر کا شکار ہوا ہے لیکن وہاں قصور دونوں میں سے کسی ایک کا ہے جب کہ اردو میں پشتو/عربی کی طرح تذکیر و تانیث کے واضح حدود متعین نہیں۔ ہاں! چند الفاظ میں پشتو بھی ”بغاوت“ پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔
پشتو میں مؤنث کے قوانین بہت سادہ ہیں جن پر آخر میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ روشنی اس لیے ڈالی ہے کہ اگر خدانخواستہ آپ کے ہاں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہو تو اس کا بروقت سدباب ہوسکے۔
خیر، جب خیال کے عیار اور فکر کے جاسوس چار جانب دوڑانے شروع کیے تو سب سے پہلے نماز اور مسجد کے الفاظ ذہن میں وارد ہوئے۔ کیوں کہ جس طرح ”پٹھان جانے، رمضان جانے“ کی کہانی ہے، اسی طرح پشتون اور نماز و مسجد بھی گویا لازم ملزوم ہیں۔ اگرچہ عالمگیریت کے نام پر جو دھماچوکڑی مچی ہے، اس سے یہ نقصان ضرور ہو رہا ہے کہ ”زلمیوں“ کی نئی نسل خاص کر ”تعلیم“ یافتگان میں یہ رجحان شکستگی کا شکار ہے۔
جب دونوں زبانوں کے الفاظ کی فہرست مرتب کرنا شروع کی تو بات واضح ہوتی گئی۔ مثلاً مسجد کو (جو اردو میں مؤنث ہے) پشتو میں جُمات (مذکر) کہتے ہیں۔ نماز (مؤنث) جسے پشتو میں مونز کہتے ہیں، مذکر ہے۔ اردو میں ’’روزہ‘‘ مذکر اور پشتو میں ’’روژہ‘‘ مؤنث ہے۔
اردو کتاب مؤنث، پشتو ”کتاب“ مذکر؛ گاڑی مؤنث، پشتو کا ’’گاڈے‘‘ مذکر؛ سڑک اُردو میں مؤنث اور پشتو میں مذکر۔
پانی، جس کے بغیر کوئی ذی رُوح زندہ نہیں رِہ سکتا، پشتو میں مؤنث ہے۔ سب سے دلچسپ اور پشتون شعراء کے ذوقِ جمال کا آئینہ دار ”چاند“ حقیقت کے عین مطابق پشتو میں ”مؤنث“ ہے؛ اور حسن و جمال چونکہ حقوقِ نِسواں کی اور مردانگی مَردوں کی صفتِ لاینکف ہے لہذا آج کے بعد اردو شعراء ”چاند“ کو معشوقہ کےلیے بطور استعارا ہرگز استعمال نہ کریں!
تفنن برطرف! اسی طرح موت اپنے نام اور کام کے بالکل برعکس اردو میں مؤنث جبکہ پشتو میں کماحقہٗ ”مردِ میداں “ کی طرح سامنے سینہ تھان کر ’’کھڑا‘‘ ہے… اور تو اور، بندوق و توپ اردو میں ” بلائیں“ ہیں لیکن پشتو میں اپنی حقیقت کی مناسبت سے کسی عفریت جِن سے کم نہیں۔ اور ہاں! ایک تاریخی تبدیلی پر بھی جاتے جاتے نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ پاکستانی ”عوام“ جو مذکر سے مؤنث یا اجتماعیت کے میدان سے ہانک کر تانیث کے کمرے میں پابندِ سلاسل کی جاچکی ہے، وہ ”اولس“ سے کچھ سبق سیکھے اور عالمی استعماری نظام کے کوتوالوں کے سامنے سینہ سپر ہوسکے۔
فہرست طویل اور تفصیل طویل تر ہے۔ لہذا اسی پر اکتفا کرکے باقی آپ کی رائے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ درج بالا قاعدہ لاگو کرتے وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر ایک لفظ پشتو یا اردو میں مؤنث کے قانون پر پورا اُترنے کے بعد بھی یکسانیت رکھے تو وہ اس اصول سے مستثنیٰ ہوگا۔
اختتام پر پشتو میں مؤنث کا ایک سادہ قاعدہ بیان کرنا برمحل رہے گا: پشتو میں مؤنث کا قانون یہ ہے کہ جس لفظ کے آخر میں ”ئی“ یا ”ہ“ آجائے تو وہ مؤنث ہوگا، باقی مذکر، ماسوائے چند ایک سماعی الفاظ کے۔ جب کہ انگریزی کے اکثر الفاظ اردو میں مؤنث اور پشتو میں مذکر بن جاتے ہیں۔
یہ مضمون صرف معلومات کی غرض سے لکھا گیا ہے۔ لہذا کسی بھی قسم کی لسانی بحث کو قوم پرستی پر محمول نہ کیا جائے۔
کہتے ہیں کہ ایک بار عوامی نیشنل پارٹی کے قائد خان عبدالولی خان سے کسی صحافی نے اصلاح کی غرض سے کہا کہ جناب آپ نے اپنی تقریر میں ”قوم“ کو مذکر استعمال کیا ہے حالاں کہ یہ مؤنث ہے۔ خان صاحب نے یہ کہہ کر محفل زعفرانِ زار بنادی کہ بھئی آپ کی قوم مؤنث ہوگی، ”ہمارا“ قوم تو مذکر ہے۔
کراچی میں بچپن گزارنے ہی کا فائدہ تھا کہ جب دوبارہ کراچی آنا ہوا تو اردو بول تو سکتے تھے لیکن لہجے میں بہتری کے آثار نہیں تھے؛ جو خوش قسمتی سے رواں لہجے میں اردو بولنے والے دوستوں کے ذریعے جلد ہی قابلِ قبول حد تک پہنچ گئی لیکن مؤنث و مذکر کا مسئلہ شمال اور جنوب کی طرح ایک پشتون کےلیے مسئلہ ہی رہا۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ زیادہ وقت غیر نصابی مطالعہ کرتے ہوئے جب عارضی طور پر تدریس سے بھی وابستگی ہوئی تو وقتاً فوقتاً مذکر و مؤنث کا مسئلہ مزید الجھن کا سبب بننا شروع ہوا۔ جب مذکورہ بالا واقعہ نظروں سے گزرا تو خیال آیا کہ کیوں نہ اسے ذرا مزید دیکھا جائے کہ آیا کہیں پوری دال ہی کالی ہو… اور پھر وہی ہوا جس کا گمان تھا!
بہت تعجب ہوا کہ جو لفظ اردو میں مؤنث ہے وہ پشتو میں مذکر، اور جو اردو میں مذکر ہے وہ پشتو میں مؤنث۔ خوف لاحق ہوا کہیں یہ مسئلہ بھی ”دولسانی“ تنازعہ نہ بن جائے! لیکن زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ بھینس، دونوں جانب بھینس ہی رہے گی!
مذکر مؤنث کا یہ دلچسپ سیاق و سباق کچھ الفاظ میں تغیر کا شکار ہوا ہے لیکن وہاں قصور دونوں میں سے کسی ایک کا ہے جب کہ اردو میں پشتو/عربی کی طرح تذکیر و تانیث کے واضح حدود متعین نہیں۔ ہاں! چند الفاظ میں پشتو بھی ”بغاوت“ پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔
پشتو میں مؤنث کے قوانین بہت سادہ ہیں جن پر آخر میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ روشنی اس لیے ڈالی ہے کہ اگر خدانخواستہ آپ کے ہاں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہو تو اس کا بروقت سدباب ہوسکے۔
خیر، جب خیال کے عیار اور فکر کے جاسوس چار جانب دوڑانے شروع کیے تو سب سے پہلے نماز اور مسجد کے الفاظ ذہن میں وارد ہوئے۔ کیوں کہ جس طرح ”پٹھان جانے، رمضان جانے“ کی کہانی ہے، اسی طرح پشتون اور نماز و مسجد بھی گویا لازم ملزوم ہیں۔ اگرچہ عالمگیریت کے نام پر جو دھماچوکڑی مچی ہے، اس سے یہ نقصان ضرور ہو رہا ہے کہ ”زلمیوں“ کی نئی نسل خاص کر ”تعلیم“ یافتگان میں یہ رجحان شکستگی کا شکار ہے۔
جب دونوں زبانوں کے الفاظ کی فہرست مرتب کرنا شروع کی تو بات واضح ہوتی گئی۔ مثلاً مسجد کو (جو اردو میں مؤنث ہے) پشتو میں جُمات (مذکر) کہتے ہیں۔ نماز (مؤنث) جسے پشتو میں مونز کہتے ہیں، مذکر ہے۔ اردو میں ’’روزہ‘‘ مذکر اور پشتو میں ’’روژہ‘‘ مؤنث ہے۔
اردو کتاب مؤنث، پشتو ”کتاب“ مذکر؛ گاڑی مؤنث، پشتو کا ’’گاڈے‘‘ مذکر؛ سڑک اُردو میں مؤنث اور پشتو میں مذکر۔
پانی، جس کے بغیر کوئی ذی رُوح زندہ نہیں رِہ سکتا، پشتو میں مؤنث ہے۔ سب سے دلچسپ اور پشتون شعراء کے ذوقِ جمال کا آئینہ دار ”چاند“ حقیقت کے عین مطابق پشتو میں ”مؤنث“ ہے؛ اور حسن و جمال چونکہ حقوقِ نِسواں کی اور مردانگی مَردوں کی صفتِ لاینکف ہے لہذا آج کے بعد اردو شعراء ”چاند“ کو معشوقہ کےلیے بطور استعارا ہرگز استعمال نہ کریں!
تفنن برطرف! اسی طرح موت اپنے نام اور کام کے بالکل برعکس اردو میں مؤنث جبکہ پشتو میں کماحقہٗ ”مردِ میداں “ کی طرح سامنے سینہ تھان کر ’’کھڑا‘‘ ہے… اور تو اور، بندوق و توپ اردو میں ” بلائیں“ ہیں لیکن پشتو میں اپنی حقیقت کی مناسبت سے کسی عفریت جِن سے کم نہیں۔ اور ہاں! ایک تاریخی تبدیلی پر بھی جاتے جاتے نظر ڈال لیتے ہیں تاکہ پاکستانی ”عوام“ جو مذکر سے مؤنث یا اجتماعیت کے میدان سے ہانک کر تانیث کے کمرے میں پابندِ سلاسل کی جاچکی ہے، وہ ”اولس“ سے کچھ سبق سیکھے اور عالمی استعماری نظام کے کوتوالوں کے سامنے سینہ سپر ہوسکے۔
فہرست طویل اور تفصیل طویل تر ہے۔ لہذا اسی پر اکتفا کرکے باقی آپ کی رائے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ درج بالا قاعدہ لاگو کرتے وقت یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر ایک لفظ پشتو یا اردو میں مؤنث کے قانون پر پورا اُترنے کے بعد بھی یکسانیت رکھے تو وہ اس اصول سے مستثنیٰ ہوگا۔
اختتام پر پشتو میں مؤنث کا ایک سادہ قاعدہ بیان کرنا برمحل رہے گا: پشتو میں مؤنث کا قانون یہ ہے کہ جس لفظ کے آخر میں ”ئی“ یا ”ہ“ آجائے تو وہ مؤنث ہوگا، باقی مذکر، ماسوائے چند ایک سماعی الفاظ کے۔ جب کہ انگریزی کے اکثر الفاظ اردو میں مؤنث اور پشتو میں مذکر بن جاتے ہیں۔
یہ مضمون صرف معلومات کی غرض سے لکھا گیا ہے۔ لہذا کسی بھی قسم کی لسانی بحث کو قوم پرستی پر محمول نہ کیا جائے۔
آخری تدوین: