جاسم محمد
محفلین
اردو تاریخ نگاری میں جذبات کی آمیزش
22/06/2019 ڈاکٹر ساجد علی
ایک دن شعبہ فلسفہ میں اسلامیات میں پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم تشریف لائے۔ وہ مجھ سے مدد کے خواہاں تھے۔ انھوں نے اپنا تحریر کردہ خاکہ دکھایا جس کا سرآغاز کچھ یوں تھا: مغرب کی حیا باختہ، اخلاق سوز تہذیب۔ ان سے عرض کیا یہ پی ایچ ڈی کے مقالے کی زبان نہیں ہے۔ یہ تو طعن و تضحیک ہے۔ تحقیقی مقالے کی زبان کا انداز معروضی اور علمی ہوتا ہے نیز اسے جذبات سے پاک ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا وہ اسلامیات کے اساتذہ کے علاوہ اور بھی شعبہ ہائے علم کے اساتذہ سے بھی مل چکے ہیں لیکن کسی نے ان کو یہ بات نہیں بتائی۔
زبان ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے لیکن زبان کا استعمال کئی سطحوں پر کیا جاتا ہے۔ کبھی ہم اسے حقائق کے بیان کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کبھی ان پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ مکروہ حقیقتوں کو خوبصورت الفاظ کے جامے میں چھپایا جاتا ہے۔ ایک ہی بات کو کئی مختلف طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ پنجابی کا ایک اکھان تحسین و تحقیر کےاس عمل کا بہت عمدہ اظہار ہے: اپنا پت لما ہووے تے سرو جیہا، دوجے دا پت لما ہووے تے ڈھانگا ۔ یعنی اپنے بیٹے کے لمبے قد کی تحسین کرتے ہوئے اسے سرو قد کہا جاتا ہے۔ دوسرے کے بیٹے کے لمبے قد کو بانس سے تشبیہ دے کر اس کی تحقیر کی جاتی ہے۔
زبان کا غلط استعمال راست فکری کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ہم حقائق کو جاننے اور تلاش کرنے کے بجائے نسلی، قبائلی، قومی، مذہبی، مسلکی تعصبات کو زبان دینے والے پیرائہ اظہار کے اسیر ہو جاتے ہیں۔
اردو نثر میں جب مذہب، تاریخ اسلام اور مغرب کے متعلق خامہ فرسائی کی جاتی ہے تو اکثر و بیشتر جذبات کا دھارا بہہ نکلتا ہے۔ معروضی اور تجزیاتی انداز بیان کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں ہم نے بہت سے ہیرو تراش رکھے ہیں۔ جب ان کے متعلق بات کرنا ہو تو جوش ایمانی سے سرشار ہو کر ایسا انداز بیان اختیار کرتے ہیں جو جذبات کے شیرے میں لتھڑا ہوتا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت اکثر اوقات اصل مصنف کی عبارتوں میں کبھی کتربیونت کرتے ہیں اور کبھی اس کے انداز تحریر کو یکسر الٹ دیتے ہیں۔
ابن خلدون مسلم تاریخ نویسی کی روایت کا ایک بہت معتبر نام ہے۔ اس کا مقدمہ تو مشہور عالم ہے ہی لیکن اس کی تاریخ بھی معرکے کی چیز ہے۔ اس کا انداز بیان جذبات سے عاری اور بہت حد تک معروضی ہے۔ مذہبی جوش و جذبہ اس کے ہاں بہت کم نظر آتا ہے۔ بہت روکھے پھیکے انداز میں واقعات کو بیان کرتا جاتا ہے اور عام طور پر غیر ضروری تفصیلات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس کی ایک اور خصوصیت ہیرو سازی سے گریز ہے۔ وہ ملوک و سلاطین کے واقعات، فتوحات، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو بغیر کسی تحیسن و تنقید کے بیان کرتا چلا جاتا ہے۔
اس کی تاریخ کا مکمل ترجمہ نفیس اکیڈمی نے شائع کیا تھا۔ مترجم حکیم احمد حسین الہٰ آبادی ہیں۔ حکیم صاحب نے اتنی بڑی کتاب کا ترجمہ کرکے یقیناً ایک معرکے کا کام کیا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ابن خلدون کے بیان سادہ سے ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ چنانچہ فتح اندلس کے بیان کا ترجمہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
“فتح اندلس کی کیفیت علامہ مورخ نے جس پیرایہ اور طرز سے تحریر کی ہے ۔۔۔ میرے نزدیک یہ واقفیت کے لیے بہت کافی ہے۔ علامہ مورخ نے فتح اندلس کے کسی اہم واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جس کے لکھنے کی زحمت مترجم کا قلم گوارا کرتا مگر چونکہ آج کل لوگوں میں ناول بینی کا مذاق حد سے زیادہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے جب تک کسی واقعہ کو گھٹا بڑھا کر نہ لکھو انھیں لطف نہیں آتا۔ وہ نہیں سمجھتے کہ تاریخ کو چلبلے جملوں اور پھڑکتے ہوئے فقروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” (جلد پنجم، ص 230)
اس کے بعد مترجم نے مذاق حاضر کی تسکین کی خاطر رنگین بیانی سے کام لیتے ہوئے چند صفحات تحریر فرمائے ہیں۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ انھوں نے اپنی بات کو اصل مصنف کے کلام سے خلط ملط نہیں کیا۔ لیکن افسوس ہوتا ہے جب مترجم صاحب بغیر وضاحت کیے اپنی طرف سے متن میں جملوں کا اضافہ کر دیتے ہیں یا انداز بیان میں ایسی تراکیب استعمال کرتے ہیں جو اصل مصنف کے سادہ بیان کو جذبات سے مملو کر دیتی ہیں۔ اس کی چند مثالیں بیان کرنا چاہوں گا۔
ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں ہشام بن عبدالملک کے دور کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے: “105 ہجری میں مسلم بن سعید والی خراسان بقصد جنگ ترک نہر عبور کرکے ان کے بلاد پر جا پہنچا۔ دو ایک لڑائیاں لڑیں لیکن کوئی شہر فتح نہ ہوا اور وہ بے نیل مرام واپس ہوا۔ ترکوں نے تعاقب کیا اور نہر کے قریب مسلم سے جا بھڑے۔ مسلم نہایت تیزی سے مع اپنے ساتھیوں کے نہر عبور کر گیا اور ترک خاک چاٹ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔”
کیا کمال دکھایا ہے ترجمے میں۔ مسلم لشکر کی پسپائی کو فرار کہنے کے بجائے یہ کہا جا رہا ہے کہ ترک خاک چاٹ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے بیان کا ترجمہ کرتے ہوئے فاضل مترجم شدت جذبات سے اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں کہ اپنی طرف سے عبارتوں کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ ابن خلدون جہاد کا لفظ بہت کم لیکن لفظ غزوہ کا بہت استعمال کرتا ہے۔ سیاق کلام سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اس لفظ کو کسی مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ عام جنگ ہی مراد لیتا ہے۔ مثلاً سلطان محمود جب غوریوں کے علاقے پر حملہ کرتا ہے تو وہ اسے بھی غزوہ ہی لکھتا ہے حالانکہ غوری مسلمان تھے۔ لیکن اردو ترجمے میں ہندوستان پر ہر حملہ جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لشکر کو کہیں لشکر اسلام کر دیا جاتا ہے تو کہیں دلیران اسلام کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ محمود کی سواری مرکب ہمایونی قرار پاتی ہے اور اس کے لشکرکے بیان کے لیے فوج ظفر موج، لشکر ظفر پیکر جیسی تحسینی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں جن کا اصل متن میں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔
سلطان محمود کے ملتان پر حملے کے بیان کا ترجمہ اس انداز میں کیا گیا ہے: پھر محمود کو غزنی پہنچ کر یہ خبر لگی کہ گورنر ملتان ابو الفتوح بے دین ہو گیا ہے اور اپنے صوبے کے رہنے والوں کو بے دینی اور لامذہبی کی تعلیم دیتا ہے۔ “محمود کو اس کی تاب کہاں تھی کہ بے دینی کا نام سنتا اور خاموش رہ جاتا۔” لشکر آراستہ کرکے جہاد کی غرض سے ملتان پر چڑھائی کر دی۔ ( حصہ ششم۔ ص 677) واوین میں لکھا گیا جملہ اصل عبارت میں کہیں موجود نہیں۔
اس کے بعد کشمیر پر حملے کا بیان دیکھیے:”409 ہجری میں جہاد کی غرض سے ہندوستان پر چڑھائی کی صوبہ پنجاب کے تمام علاقے مقبوضہ میں داخل ہو گئے تھے صرف کشمیر کا حصہ باقی رہ گیا تھا۔ وہاں کی زمین کو مجاہدین اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندے جانے کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ ( حصہ ششم۔ ص 685) اس ترجمے کے آخری جملے کا اصل متن سے کوئی تعلق نہیں۔
ان چند مثالوں کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ہم زبان کے درست استعمال کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ شعر و ادب کی اپنی دنیا ہے لیکن علم کی دنیا میں زبان کا سادہ اور راست استعمال حقائق کو حقائق کے طور پر جاننے میں ممد و مددگار ہوتا ہے۔ غیر جانبدارانہ اور غیر متعصابانہ طور پر حقائق کو جاننے اور سمجھنے کا کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
22/06/2019 ڈاکٹر ساجد علی
ایک دن شعبہ فلسفہ میں اسلامیات میں پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم تشریف لائے۔ وہ مجھ سے مدد کے خواہاں تھے۔ انھوں نے اپنا تحریر کردہ خاکہ دکھایا جس کا سرآغاز کچھ یوں تھا: مغرب کی حیا باختہ، اخلاق سوز تہذیب۔ ان سے عرض کیا یہ پی ایچ ڈی کے مقالے کی زبان نہیں ہے۔ یہ تو طعن و تضحیک ہے۔ تحقیقی مقالے کی زبان کا انداز معروضی اور علمی ہوتا ہے نیز اسے جذبات سے پاک ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا وہ اسلامیات کے اساتذہ کے علاوہ اور بھی شعبہ ہائے علم کے اساتذہ سے بھی مل چکے ہیں لیکن کسی نے ان کو یہ بات نہیں بتائی۔
زبان ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے لیکن زبان کا استعمال کئی سطحوں پر کیا جاتا ہے۔ کبھی ہم اسے حقائق کے بیان کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کبھی ان پر پردہ ڈالنے کے لیے۔ مکروہ حقیقتوں کو خوبصورت الفاظ کے جامے میں چھپایا جاتا ہے۔ ایک ہی بات کو کئی مختلف طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ پنجابی کا ایک اکھان تحسین و تحقیر کےاس عمل کا بہت عمدہ اظہار ہے: اپنا پت لما ہووے تے سرو جیہا، دوجے دا پت لما ہووے تے ڈھانگا ۔ یعنی اپنے بیٹے کے لمبے قد کی تحسین کرتے ہوئے اسے سرو قد کہا جاتا ہے۔ دوسرے کے بیٹے کے لمبے قد کو بانس سے تشبیہ دے کر اس کی تحقیر کی جاتی ہے۔
زبان کا غلط استعمال راست فکری کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ہم حقائق کو جاننے اور تلاش کرنے کے بجائے نسلی، قبائلی، قومی، مذہبی، مسلکی تعصبات کو زبان دینے والے پیرائہ اظہار کے اسیر ہو جاتے ہیں۔
اردو نثر میں جب مذہب، تاریخ اسلام اور مغرب کے متعلق خامہ فرسائی کی جاتی ہے تو اکثر و بیشتر جذبات کا دھارا بہہ نکلتا ہے۔ معروضی اور تجزیاتی انداز بیان کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں ہم نے بہت سے ہیرو تراش رکھے ہیں۔ جب ان کے متعلق بات کرنا ہو تو جوش ایمانی سے سرشار ہو کر ایسا انداز بیان اختیار کرتے ہیں جو جذبات کے شیرے میں لتھڑا ہوتا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت اکثر اوقات اصل مصنف کی عبارتوں میں کبھی کتربیونت کرتے ہیں اور کبھی اس کے انداز تحریر کو یکسر الٹ دیتے ہیں۔
ابن خلدون مسلم تاریخ نویسی کی روایت کا ایک بہت معتبر نام ہے۔ اس کا مقدمہ تو مشہور عالم ہے ہی لیکن اس کی تاریخ بھی معرکے کی چیز ہے۔ اس کا انداز بیان جذبات سے عاری اور بہت حد تک معروضی ہے۔ مذہبی جوش و جذبہ اس کے ہاں بہت کم نظر آتا ہے۔ بہت روکھے پھیکے انداز میں واقعات کو بیان کرتا جاتا ہے اور عام طور پر غیر ضروری تفصیلات کو بیان کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس کی ایک اور خصوصیت ہیرو سازی سے گریز ہے۔ وہ ملوک و سلاطین کے واقعات، فتوحات، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو بغیر کسی تحیسن و تنقید کے بیان کرتا چلا جاتا ہے۔
اس کی تاریخ کا مکمل ترجمہ نفیس اکیڈمی نے شائع کیا تھا۔ مترجم حکیم احمد حسین الہٰ آبادی ہیں۔ حکیم صاحب نے اتنی بڑی کتاب کا ترجمہ کرکے یقیناً ایک معرکے کا کام کیا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ابن خلدون کے بیان سادہ سے ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ چنانچہ فتح اندلس کے بیان کا ترجمہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
“فتح اندلس کی کیفیت علامہ مورخ نے جس پیرایہ اور طرز سے تحریر کی ہے ۔۔۔ میرے نزدیک یہ واقفیت کے لیے بہت کافی ہے۔ علامہ مورخ نے فتح اندلس کے کسی اہم واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جس کے لکھنے کی زحمت مترجم کا قلم گوارا کرتا مگر چونکہ آج کل لوگوں میں ناول بینی کا مذاق حد سے زیادہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے جب تک کسی واقعہ کو گھٹا بڑھا کر نہ لکھو انھیں لطف نہیں آتا۔ وہ نہیں سمجھتے کہ تاریخ کو چلبلے جملوں اور پھڑکتے ہوئے فقروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” (جلد پنجم، ص 230)
اس کے بعد مترجم نے مذاق حاضر کی تسکین کی خاطر رنگین بیانی سے کام لیتے ہوئے چند صفحات تحریر فرمائے ہیں۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ انھوں نے اپنی بات کو اصل مصنف کے کلام سے خلط ملط نہیں کیا۔ لیکن افسوس ہوتا ہے جب مترجم صاحب بغیر وضاحت کیے اپنی طرف سے متن میں جملوں کا اضافہ کر دیتے ہیں یا انداز بیان میں ایسی تراکیب استعمال کرتے ہیں جو اصل مصنف کے سادہ بیان کو جذبات سے مملو کر دیتی ہیں۔ اس کی چند مثالیں بیان کرنا چاہوں گا۔
ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں ہشام بن عبدالملک کے دور کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے: “105 ہجری میں مسلم بن سعید والی خراسان بقصد جنگ ترک نہر عبور کرکے ان کے بلاد پر جا پہنچا۔ دو ایک لڑائیاں لڑیں لیکن کوئی شہر فتح نہ ہوا اور وہ بے نیل مرام واپس ہوا۔ ترکوں نے تعاقب کیا اور نہر کے قریب مسلم سے جا بھڑے۔ مسلم نہایت تیزی سے مع اپنے ساتھیوں کے نہر عبور کر گیا اور ترک خاک چاٹ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔”
کیا کمال دکھایا ہے ترجمے میں۔ مسلم لشکر کی پسپائی کو فرار کہنے کے بجائے یہ کہا جا رہا ہے کہ ترک خاک چاٹ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے بیان کا ترجمہ کرتے ہوئے فاضل مترجم شدت جذبات سے اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں کہ اپنی طرف سے عبارتوں کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ ابن خلدون جہاد کا لفظ بہت کم لیکن لفظ غزوہ کا بہت استعمال کرتا ہے۔ سیاق کلام سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اس لفظ کو کسی مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ عام جنگ ہی مراد لیتا ہے۔ مثلاً سلطان محمود جب غوریوں کے علاقے پر حملہ کرتا ہے تو وہ اسے بھی غزوہ ہی لکھتا ہے حالانکہ غوری مسلمان تھے۔ لیکن اردو ترجمے میں ہندوستان پر ہر حملہ جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لشکر کو کہیں لشکر اسلام کر دیا جاتا ہے تو کہیں دلیران اسلام کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ محمود کی سواری مرکب ہمایونی قرار پاتی ہے اور اس کے لشکرکے بیان کے لیے فوج ظفر موج، لشکر ظفر پیکر جیسی تحسینی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں جن کا اصل متن میں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔
سلطان محمود کے ملتان پر حملے کے بیان کا ترجمہ اس انداز میں کیا گیا ہے: پھر محمود کو غزنی پہنچ کر یہ خبر لگی کہ گورنر ملتان ابو الفتوح بے دین ہو گیا ہے اور اپنے صوبے کے رہنے والوں کو بے دینی اور لامذہبی کی تعلیم دیتا ہے۔ “محمود کو اس کی تاب کہاں تھی کہ بے دینی کا نام سنتا اور خاموش رہ جاتا۔” لشکر آراستہ کرکے جہاد کی غرض سے ملتان پر چڑھائی کر دی۔ ( حصہ ششم۔ ص 677) واوین میں لکھا گیا جملہ اصل عبارت میں کہیں موجود نہیں۔
اس کے بعد کشمیر پر حملے کا بیان دیکھیے:”409 ہجری میں جہاد کی غرض سے ہندوستان پر چڑھائی کی صوبہ پنجاب کے تمام علاقے مقبوضہ میں داخل ہو گئے تھے صرف کشمیر کا حصہ باقی رہ گیا تھا۔ وہاں کی زمین کو مجاہدین اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندے جانے کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ ( حصہ ششم۔ ص 685) اس ترجمے کے آخری جملے کا اصل متن سے کوئی تعلق نہیں۔
ان چند مثالوں کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ہم زبان کے درست استعمال کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ شعر و ادب کی اپنی دنیا ہے لیکن علم کی دنیا میں زبان کا سادہ اور راست استعمال حقائق کو حقائق کے طور پر جاننے میں ممد و مددگار ہوتا ہے۔ غیر جانبدارانہ اور غیر متعصابانہ طور پر حقائق کو جاننے اور سمجھنے کا کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔