اردو ترجمہ درکار ہے

تا صورت پیوند جهان بود، علی بود
تا نقش زمین بود و زمان بود، علی بود
شاهی که ولی بود و وصی بود، علی بود
سلطان سخا و کرم و جود،علی بود
هم آدم و هم شیث هم ایوب و هم ادریس
هم یوسف و هم یونس و هم هود، علی بود
هم موسی و هم عیسی و هم خضر و هم الیاس
هم صالح پیغمبر و داوود، علی بود
در ظلمت ظلمات به سرچشمه حیوان
هم مرشد و هم راهبر خضر، علی بود
داود که می ساخت زره با سر انگشت
استاد زره ساز به داود، علی بود
مسجود ملایک که شد آدم ز علی شد
در قبله محمد بد و مقصود، علی بود (آدم چو یکی قبله و معبود، علی بود)
آن عارف سجاد که خاک درش از قدر
بر کنگره عرش بیفزود، علی بود
هم اول و هم آخر و هم ظاهر و باطن
هم عابد و هم معبد و معبود،علی بود
وجهی که بیان کرد خداوند در الحمد
آن وجه بیان کرد و بفرمود،علی بود
عیسی به وجود آمد و فی الحال سخن گفت
آن نطق و فصاحت که در او بود، علی بود
آن لحمک لحمی بشنو تا که بدانی
آن یار که او نفس نبی بود، علی بود
موسی و عصا و ید بیضا و نبوت
در مصر به فرعون که بنمود، علی بود
چندان که در آفاق نظر کردم و دیدم
از روی یقین در همه موجود، علی بود
خاتم که در انگشت سلیمان نبی بود
آن نور خدایی که بر او بود، علی بود
آن شاه سرافراز که اندر شب معراج
با احمد مختار یکی بود،علی بود
سر ّدو جهان پرتوی انوار الهی
از عرش به فرش آمد و بنمود، علی بود
آنجا که جوی شرک نماید به حقیقت
آن عارف و آن عابد و معبود، علی بود
جبریل که آمد زبر خالق یکتا
در پیش محمد شد و مقصود، علی بود
آنجا که دویی شرک بود در ره توحید
میدان که یکی بود که مسجود، علی بود
محمود نبودند مر آنها که ندیدند
کاندر ره دین احمد و محمود، علی بود
آن معنی قرآن که خدا در همه قرآن
کردش صفت عصمت و بستود، علی بود
این کفر نباشد، سخن کفر نه اینست
تا هست علی باشد و تا بود، علی بود
آن قلعه گشایی که در قلعهء خیبر
برکند به یک حمله و بگشود، علی بود
آن شاه سرافراز که اندر ره اسلام
تا کار نشد راست نیاسود، علی بود
آن شیر دلاور که برای طمع نفس
بر خوان جهان پنجه نیالود، علی بود
هارون ولایت ز پس موسی عمران
بالله که علی بود علی بود، علی بود
این یک دو سه بیتی که بگفتم به معما
حقا که مراد من و مقصود، علی بود
سر دو جهان جمله ز پیدا و ز پنهان
شمس الحق تبریز که بنمود، علی بود
 
آخری تدوین:
طویل غزلوں کا ترجمہ ممکن نہیں ہوتا.
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ اگر اس غزل کا ترجمہ کردیا جائے تو انٹرنیٹ بھر میں یہ مولوی رومی سے بہرحال منسوب ہوجائے گی اور ان کی شخصیت کو متنازعہ بنادے گی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
رومی کا شعری رنگ کبھی اتنا غلو آمیز نہیں ہوسکتا۔
اگر چہ شعری انداز سے میں زیادہ ایکسپلسٹ نتیجہ نکالنے کا قائل نہیں ۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر اس غزل کا ترجمہ کردیا جائے تو انٹرنیٹ بھر میں یہ مولوی رومی سے بہرحال منسوب ہوجائے گی
جی، یہی بہتر ہے۔ کیونکہ پاکستان کا ادبی ماحول کچھ ایسا ہے کہ اگر کسی بھی رطب و یابس کو کسی صوفی سے منسوب کر دیا جائے تو وہ یہاں مردُم کے لیے وحیِ مُنزَل کی مانند مُقدّس ہو جاتی ہے۔ کتنی ہی ایسی ساختَگی و الحاقی فارسی غزلیں پاکستان میں رائج اور مشہور ہیں، حالانکہ اُن فارسی غزلوں کی ادبی حیثیت برگِ کاہ سے بھی کمتر ہے۔
 
یہ کلام شاہ شمس تبریز کا ہے ۔ اور ترجمہ کار کا ادبی فریضہ ہے کہ وہ ترجمہ کرے اس کا شاعر یا لکھاری کے نظریات سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں۔
 
یہ کلام شاہ شمس تبریز کا ہے ۔ اور ترجمہ کار کا ادبی فریضہ ہے کہ وہ ترجمہ کرے اس کا شاعر یا لکھاری کے نظریات سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں۔
مولوی رومی والے شمس تبریزی نے کوئی شعر کہہ نہیں رکھا۔ اور ہم اس غلوآمیز شعر کا ترجمہ اسی لئے نہیں کر رہے کہ یہ برِصغیر کی بےانتہا عقیدت‌پسند عوام میں آ کر پھر رومی سے منسوب ہوجائے گی اور پھر لوگ اپنے غلوآمیز عقائد کے دفاع میں انہی غلط طور پر منسوب اقوال و اشعار سے استناد کر کے اپنے عقائد کو بنیاد فراہم کریں گے۔ اقبالِ لاہوری سے بھی غلط اشعار منسوب کر کے لوگوں نے اپنے بےبنیاد باوروں کے لئے استناد کیا ہے۔ فلہٰذا ہم محبانِ رومی اور محبانِ فارسی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی الحاقی اور بےسند شاعری سے شاعرانِ بزرگ کے دامن کو داغ‌دار نہ کیا جائے۔ ازیں‌رو ہماری معذرت قبول کیجیے
 
رومی کا شعری رنگ کبھی اتنا غلو آمیز نہیں ہوسکتا۔
اس کی کچھ وضاحت کر سکتے ہیں؟ اوپر دی گئی غزل مولانا کے اسلوبِ نگارش سے دور ہے، ادبی اور لسانی لحاظ سے بھی کمزور ہے لیکن غلو تو شاعری کا حسن ہے۔

مولانا کے ہی مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے:

فرعون بدان سختی با آن همه بدبختی
نک موسی عمران شد تا باد چنین بادا
آن گرگ بدان زشتی با جهل و فرامشتی
نک یوسف کنعان شد تا باد چنین بادا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مبالغہ ، اغراق اور غلو ، ان میں حدیں آپ نے اپنے ذہن کی وسعت اور فہم سے مطابقت رکھ سکتی ہیں ۔ لیکن مجھے تو یہ "رنگ" رومی رنگ سے موافق نہیں لگ رہا ۔
مبالغے کو شعری حسن کہنے سے تو مجھے بھی البتہ اتفاق ہے ۔
 
اس کی کچھ وضاحت کر سکتے ہیں؟ اوپر دی گئی غزل مولانا کے اسلوبِ نگارش سے دور ہے، ادبی اور لسانی لحاظ سے بھی کمزور ہے لیکن غلو تو شاعری کا حسن ہے۔

مولانا کے ہی مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے:

فرعون بدان سختی با آن همه بدبختی
نک موسی عمران شد تا باد چنین بادا
آن گرگ بدان زشتی با جهل و فرامشتی
نک یوسف کنعان شد تا باد چنین بادا

کہیں دیکھا تھا کہ مولانا نے یہ غزل اس وقت کہی جب شمس تبریزی دمشق سے قونیہ واپس آگئے تھے لیکن ابھی قتل (یا پھر غائب) نہیں ہوئے تھے۔ مولانا نے اسی تناظر میں یہ غزل کہی تھی کہ یہ خوشی ہمیشہ رہے اور ختم نہ ہو۔ اسی منظر کے لئے یہ استعارات و تشبیہات استعمال کی گئیں تھیں۔ اس کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو پہلا شعر یہی بتاتا ہے کہ وہ شمس تبریزی جو لوگوں کے لئے فرعون جتنا بُرا تھا، اب دیکھو کہ یہاں وہ بغیر کسی مصیبت کے ہمارے ہاں موجود ہے فلہٰذا اب وہی فرعون موسیِ عمران ہوگیا ہے۔
لیکن بہرحال یہ فقط ایک رائے ہے، درست یا غلط ہوسکتی ہے۔
 
مولوی رومی والے شمس تبریزی نے کوئی شعر کہہ نہیں رکھا۔ اور ہم اس غلوآمیز شعر کا ترجمہ اسی لئے نہیں کر رہے کہ یہ برِصغیر کی بےانتہا عقیدت‌پسند عوام میں آ کر پھر رومی سے منسوب ہوجائے گی اور پھر لوگ اپنے غلوآمیز عقائد کے دفاع میں انہی غلط طور پر منسوب اقوال و اشعار سے استناد کر کے اپنے عقائد کو بنیاد فراہم کریں گے۔ اقبالِ لاہوری سے بھی غلط اشعار منسوب کر کے لوگوں نے اپنے بےبنیاد باوروں کے لئے استناد کیا ہے۔ فلہٰذا ہم محبانِ رومی اور محبانِ فارسی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی الحاقی اور بےسند شاعری سے شاعرانِ بزرگ کے دامن کو داغ‌دار نہ کیا جائے۔ ازیں‌رو ہماری معذرت قبول کیجیے
ترجمہ کرنا نا کرنا آپ کی صوابدید ہے۔ لیکن شاہ شمس تبریز شاعر ہیں۔ ان کا دیوان موجود ہے ۔ اب آپ رومی والا کس کو کہتے ہیں اس میں اختلاف کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن دیوان کی موجود گی میں شاہ شمس تبریز کے شاعر نہ ہونے کا دعویٰ درست نہیں معلوم ہوتا ہے
 
ترجمہ کرنا نا کرنا آپ کی صوابدید ہے۔ لیکن شاہ شمس تبریز شاعر ہیں۔ ان کا دیوان موجود ہے ۔ اب آپ رومی والا کس کو کہتے ہیں اس میں اختلاف کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن دیوان کی موجود گی میں شاہ شمس تبریز کے شاعر نہ ہونے کا دعویٰ درست نہیں معلوم ہوتا ہے
آپ کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ دیوانِ شمس درحقیقت مولانا رومی ہی کی تصنیف ہے۔ اور شمس تبریزی سے کوئی اشعار ثابت نہیں۔برِصغیر کی عوام کا مزاج افراط‌‌گرایانہ حد تک عقیدت‌پسندانہ ہے اور اس معاملے میں وہ تحقیق اور سندجُوئی کو خاطر میں نہیں لاتے اسی لئے اس قسم کے بہت سے بےسند اور معیار سے گرے ہوئے اشعار کے ساتھ حافظ، جامی، رومی اور سعدی وغیرہ کا نام دیکھتے ہیں تو انہی کا سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارا کام یہی ہے کہ ان الحاقی اشعار کو ہٹا کر ان شعراٗ کے اصلی کلام سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے ۔ دیوانِ شمس کے مستند نسخے میں مندرجہ بالا غلوآمیز اشعار موجود نہیں ہیں۔ کہیں پڑھا ہے کہ یہ اشعار اسماعیلی مسلک کی کتاب ’’المناقب‘‘ میں موجود ہیں۔ اس بارے میں مجھے زیادہ علم نہیں، البتہ اتنا قطعی ہے کہ یہ رومی (یا شمس) کے ہرگز نہیں۔
 
آخری تدوین:
Top