اردو دنیا کے پہلے لاہوری نستعلیق خط کے خالق کو ساہتیہ اکیڈمی اعزاز

تعمیر

محفلین
گزشتہ دنوں مہارشٹرا اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے بھیونڈی کے ڈاکٹر ریحان انصاری کو ساحر لدھیانوی ایوارڈ (نئی صلاحیتیں) سے نوازا گیا۔ اردو کی صحافتی و طباعتی دنیا کو دوسرا نستعلیق خط (فیض لاہوری نستعلیق) عطا کرنے کے اعتراف میں انہیں اس اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔
واضح رہے کہ یہ خط ان-پیج کے ورژن-3 میں شامل کیا گیا ہے۔

فیض نستعلیق ، اردو دنیا کا پہلا لاہوری خط نستعلیق ہے۔ شاید کچھ احباب کو اس کی تخلیق کی تاریخ کا علم نہ ہو ، لہذا ڈاکٹر ریحان انصاری سے براہ راست رابطے کے بعد فیض نستعلیق خط کا تعارفی مضمون "تعمیر نیوز" پر شائع کیا گیا ہے۔
یہاں بھی ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

***
خطِ نستعلیق اردو زبان کا چہرہ ہے۔ اردو والوں کو نستعلیق کے علاوہ کسی بھی عکسِ خط میں لکھی ہوئی تحریر کبھی پسند نہیں آئی۔ "صحیفۂ خوشنویساں" کے مؤلف مولوی احترام الدین احمد شاغل عثمانی تحریر کرتے ہیں کہ " اردو نے ایسے زمانے میں آنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا کہ جب خوشنویسی کا دائرہ عالمگیر ہو چکا تھا۔ ۔۔۔ اردو کو اپنا رسم الخط تجویز کرنے کی جب ضرورت پیش آئی تو نستعلیق کے حسن کی کشش نے اس کو اپنی طرف کھینچا اور شکستہ کے رواجِ عام نے ریختہ سے اس کا رشتہ جوڑا۔ اس لیے یہی اردو کے رسمِ خط قرار پائے۔ نستعلیق و شکستہ بھی کئی روِشیں اور شانیں بدل کر معراجِ کمال کو پہنچے ہیں۔ قدیم و جدید اردو میں جیسا بیّن فرق ملتا ہے ویسا ہی نستعلیق نویسانِ ماضی و حال کے خط میں نمایاں تفاوت ہے۔ ۔۔۔ متاخرین نے نزاکت و دلکشی اس حد پر پہنچا دی کہ آگے ترقی محال ہے۔ جس طرح اردو میں متروکات سے احتراز اور جدید الفاظ کا اضافہ ہوتا رہا ہے اسی طرح نستعلیق کے دائروں اور کششوں کو حسین سے حسین تر بنایا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ طباعتی خوشنمائی کے پیشِ نظر کاپی نویسوں نے اصول تک میں ترمیمات کرلیں۔ ۔۔۔ اردو پر عربی و فارسی کا بہت گہرا اثر ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُردو اگر اُردوؔ رہ سکتی ہے تو انھیں رسمِ خط میں۔ ورنہ وہ پھر چاہے عالمگیر زبان ہو جائے مگر اُردو زبان نہیں ہو سکتی"

نستعلیق اور لاہوری نستعلیق
فنِ خطاطی ہر دور میں اپنی عالمگیر شہرت کی بنا پر ہمیشہ مقبولِ عام رہا ہے ۔ اس فن کی رعنائیاں قرطاس سے لیکر محلات، مساجد اور مقابر کے خوبصورت محرابوں میں ہر جگہ اپنے حسن وزیبائی کی کائنات سجائے ہوئے ہیں ۔ اس کے اعلیٰ نمونے قرآن پاک کے قدیم نسخوں، قلمی تحریروں ، تاریخی عمارتوں اور اپنے دور کے اعلیٰ ترین خطاطوں کی نایاب وصلیوں میں آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے حسن کی جھلک دکھا کر آج بھی توجہ کھینچ لیتے ہیں۔ خط نستعلیق آج کے دور میں کافی مقبولیت حاصل کرچکا ہے ۔ در اصل یہ ایرانی خط ہے جو نسخ اور تعلیق نامی دو خطوں سے مل کر بنا ہے ۔ اس خط کو بعد میں مختلف مراحل پر الگ الگ اساتذہ نے اپنے اپنے ڈھنگ اور اپنے طرز پر لکھنے کی سعی کی جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے اور اس کے ساتھ ہی اس خط میں نکھار پیدا ہوتا گیا۔ نستعلیق کو جدید طریقے سے سجانے سنوارنے کا سہرا استاد الخطاطان منشی عبد المجید پرویں رقم لاہوری کے سرجاتا ہے جنہوں نے آج سے محض پون صدی قبل اصل ایرانی طرزِ نستعلیق کو لے کراس میں کچھ تصریف کی، تمام حروف کو قدرے دلکش انداز میں لکھ کر اس کے دائروں کو بیضاوی شکل دے کر ان میں مزید نزاکت پیدا کی ۔یہ دائرے کچھ سمٹے ہوئے لہر دار نزاکت لئے ہوئے مخروطی بنائے گئے ہیں۔ گویا لگتا ہے جیسے کسی مصور نے اپنے موءِ قلم سے ایک حسین مجسمہ کو بنا کر اس میں جان ڈال دی ہے۔ اسے ابتدا میں "طرزِ پروینی" کے نام سے شہرت ملی لیکن بعد میں یہی نستعلیق خط لاہوریؔ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ ان کے اس طرزِ جدید نے ایسی شہرت و مقبولیت پائی کہ علامہ اقبالؒ نے اپنی کتابوں کی اشاعت کے لیے اسی خط کو پسند فرمایا۔ اپنی نگرانی میں انھوں نے منشی پرویں رقم سے پوری کتابت بااہتمام کروائی۔ انھیں محفوظ رکھا اور اس کی پلیٹوں کی بھی اپنی پوری زندگی تک حفاظت کی۔ علامہ اقبال نے منشی پرویں رقم کو خراجِ تحسین ان الفاظ میں پیش کیا کہ "پرویں رقم اگر خطاطی چھوڑ دیں گے تو میں بھی شاعری ترک کردوں گا"۔ بعد میں منشی پرویں رقم کے دیگر تلامذہ نے اس خط میں جہاں جہاں اورجب ضرورت محسوس کی تبدیلیاں کرتے گئے ۔ ان میں مشہور خطاط تاج الدین زرّیں رقم لاہوری نے بہت ہی محنت و مشقت کے بعد اس خط کو تراش خراش کر اور بھی خوبصورت اور دلکش بنا دیا۔یہی وجہ ہے کہ خطِ نستعلیق کی دیگر صورتوں کی بہ نسبت لاہوری طرز سب سے زیادہ نازک کہلایا۔ دوسرے طرز میں حروف کی معمول سے زیادہ پیمائشیں بھی قابلِ قبول و قابلِ قدر ہو جاتی ہیں لیکن طرزِ لاہوری کی نزاکت ایسی ہے کہ قواعد کی کسی بھی قسم کی معمول سے زیادہ تبدیلی اس میں بدصورتی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ بات برسرِ تذکرہ غیر ضروری نہیں معلوم ہوتی کہ تاج الدین زرّیں رقم کو "خطاط الملک" اور "خطاطِ مشرق" کا خطاب اور حکومتِ پاکستان کا گولڈ میڈل بھی عطا کیا گیا تھا۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب ان کا انتقال ہوا (31/جون 1955ء) تو پورے ملک میں سوگواری کا اظہار کیا گیا اور غالباً یہ واحد خوشنویس ہیں کہ جن کے انتقال پر ملک بھر (پاکستان) میں تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔

فیض مجدّد لاہوری
اسی نازک طرزِ خط کے امین اور تاج الدین زرّیں رقم کے ہمعصر و شاگرد تھے محترم فیض مجدّد لاہوری صاحب جو ہندوستان کی آزادی سے قبل اور بعد میں بھی اپنی فنی صلاحیتوں کے سبب ممبئی کے حلقۂ فنکاران میں "فیض کاتب و آرٹسٹ" کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کشمیر کے ایک راج گھرانے "پال" کے چشم و چراغ تھے ۔ لاہور آپ کی جائے پیدائش اور وطنِ مالوف تھا اسی نسبت سے لاہوری کہلائے۔
فیض مجدّد لاہوری منشی عبد المجید پرویں رقم لاہوری سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ انھیں کو اپنا استاد مانتے تھے۔ بعد میں انھوں نے باقاعدہ تاج الدین زرّیں رقم لاہوری سے اصلاح لی اور خطِ لاہوری کے ماہر خطاطوں میں شمار کئے گئے۔ ان کے نام کی دھوم لاہور سے ممبئی تک ہونے لگی ۔
1928 میں فیض صاحب ممبئی تشریف لائے۔ یہاں آکر انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو خطاطی کی دنیا میں ایک ہلچل مچ گئی۔ ممبئی والوں نے انھیں اتنا سراہا کہ وہ یہیں کے ہو رہے اور آخری دم تک بمبئی میں ہی بسے رہے ۔ فیض صاحب کے لکھنے کا اپنا الگ اسٹائل ہے۔ اس اسٹائل میں انفرادیت بھی ہے اور کمالِ فن کا ثبوت بھی ۔انھوں نے خط لاہوری کے بیضوی دائروں اور دیگر حروف کو مزید لچکدار اور ان کے نازک جوڑوں کو آرٹسٹک انداز میں بنا کر ان میں نفاست اور دلکشی پیدا کردی ۔ فیض مجدد لاہوری کا یہ انفرادی طرزِ تحریر اس قدر مقبول عام ہوا کہ ہر صاحب کتاب کی خواہش ہوتی کہ وہ فیض صاحب سے ہی اپنی کتاب کا سرورق لکھوائے ۔ فیض صاحب ایک اعلیٰ خطاط ہونے کے ساتھ ساتھ مانے ہوئے مصور بھی تھے ۔آپ کی طبیعت میں نزاکت تھی، نفاست تھی، وہ حروف بناتے وقت ان میں مصوری کا حسن بھی بھر دیتے تھے چنانچہ انھوں نے طرز لاہوری میں مصوری کے رموز ونکات کا بھی لحاظ شامل کر دیا۔ جو کوئی ایک بار ان کے لکھے ہوئے طغرے یا ٹائٹل کو دیکھتااسے بار بار دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی تھی اور ایسا لگتا گویا کہ کسی حسین مجسم کو دیکھ رہے ہیں ۔

مرقعِ فیض
1928 میں فیض مجدد لاہوری کے شاگرد اسلم کرتپوری نے لاہوری خطاطی کے قواعد و ضوابط پر مبنی کتاب "مرقع فیض" شائع کی ۔ جس میں وہ تمام تختیاں شامل تھیں جو فیض صاحب نے اسلم کرتپوری کو لکھ کر دی تھیں ۔ اس کتاب میں خطاطی کے وہ طریقے بھی سکھائے گئے تھے جو عام خطاط جانے انجانے میں نظر انداز کردیا کرتے تھے ۔ ہندوستان میں لاہوری طرز کی یہ واحد کتاب ہے جس میں فیض صاحب کے لکھے ہوئے مختلف کتابوں اور اخبارات کے ٹائٹل اور ان کی وہ نایاب وصلیاں شامل ہیں جو فنی اعتبار سے ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں اور نئے لکھنے والوں کی مددگار ثابت ہوئی ہیں ۔

کمپیوٹر اور خط لاہوری
آج کے نئے دور میں جبکہ کمپیوٹر پوری دنیا پراپنی گرفت مضبوط کر چکا ہے خطاطی کو بھی نئے انداز میں نوری نستعلیق کے نام سے کمپیوٹر کے ذریعہ روشناس کرایا جا چکا ہے۔ اس سے قبل کئی اصحاب اور کمپنیوں نے نستعلیق طرز کو کمپیوٹر کے ذریعہ استعمال کرنے کی سعی کی مگر نوری نستعلیق نے بازی مار لی۔ اس خط کو "اِن پیج" نے اپنا کر اس کا استعمال بھی بڑھا دیا۔ ہندوستان میں "اردو اِن پیج" سافٹ ویئر نے کافی مقبولیت حاصل کی ۔ بیشک ان پیج اس دور کا ایک مکمل اردو پبلشر سافٹ ویئر ہے۔ اسے دہلی کی سافٹ ویئر فرم "کنسیپٹ سافٹ ویئر" نے تیار کیا ہے۔ اس میں ورژن 2۔9 تک، طرزنستعلیق کے بطور صرف ایک ہی خط ہے یعنی نوری نستعلیق جو عرفِ عام میں"دہلویؔ خط" کہلاتاہے ۔ایک ہی طرح کا خط دیکھتے دیکھتے لوگ اُوب چکے تھے اور چاہتے تھے کہ اس اسلوب تحریر میں کچھ ہٹ کر دیکھنے کو ملے۔ "ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں"۔ اسی تبدیلی کی خواہش نے لاہوری خط کو کمپیوٹر میں دیکھنے کی تمنا کو روز بروز پروان چڑھایا۔ اِن پیج کے "ورژن 3.0" کی بھی نئے سرے سے تیاری کی جانے لگی۔ اسے نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے Unicode میں ترتیب دیا جانے لگا۔
اُردو دنیا میں "نوری نستعلیق" فونٹ نے انقلاب برپا کر دیا تھا اوربعد میں "اِن پیج"کے توسط سے اردو کے اشاعتی شعبہ میں کتابت کی بہت سی مشکلات کو کافی حد تک حل کردیاگیا۔ تقریباً تیس برسوں سے اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا فونٹ اس پیمانے پر قبول نہیں کیا جا سکا۔ اس کا بڑا سبب طباعتی دنیا میں دوسرے نستعلیق فونٹ کا دستیاب نہ ہونا اور "اِن پیج" کا کثیر استعمال بھی شامل ہے۔

" AXIS سافٹ میڈیا" کے روح رواں سیّد منظر اردو کے نت نئے فونٹ بنانے اورجدید طرزتحریر کے طغروں کو کمپیوٹر کے ذریعہ پیش کرنے میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ آپ نے فیض مجدد لاہوری کے شاگرد خاص اور مرقعِ فیض کے مرتّب اسلم کرتپوری سے رابطہ قائم کیا اور لاہوری نستعلیق کا فونٹ ڈیولپ کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔
ایکسِس سافٹ میڈیا نے اردو کے حروف و الفاظ پر تحقیق شروع کی اور تقریباً دوبرس کی شبانہ روز محنت کے نتیجہ میں تمام لازمی حروف، ان کی جدا جدا مرکباتی شکلیں اور ان کی تعداد، ماقبل و مابعد کے حروف سے اتصال کا انداز و انفرادیت، نقطوں اور اعراب کی غیرپیچیدہ ترسیم کا تجزیہ و تحقیق کی۔اس کام کو ایک سہ رکنی ٹیم جس میں اسلم کرتپوری " ڈاکٹر ریحان انصاری اور سید منظر شامل ہیں، نے مل کر انجام دیا اور انتہائی استقلال و استقامت کے ساتھ نستعلیق رسم الخط کی سب سے خوبصورت اور نازک شکل لاہوری نستعلیق کو فونٹ میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھایا۔
اسلم کرتپوری نے اپنے استاد فیض مجدد لاہوری کی کتاب کو سامنے رکھ کر لاہوری نستعلیق بنانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن بعد میں طے پایا کہ فیض صاحب کی لکھی ہوئی وصلیوں کا ہی عکس لے کرکے فونٹ بنانے کا کام کیا جائے ۔

اس فونٹ کی تیاری میں ڈیجیٹل کتابت کی ذمہ داری ڈاکٹر ریحان انصاری کو سونپی گئی۔ اور اس کام کی نگرانی محمد اسلم کرتپوری مسلسل کرتے رہے۔ ڈاکٹر ریحان انصاری پیشہ سے ڈاکٹر ہیں، صحافت سے بھی وابستگی ہے لیکن ایک اچھے خطاط و آرٹسٹ بھی ہیں۔ خطاطی میں ان کی دلچسپی اپنے پیشے سے زیادہ ہی نظر آتی ہے۔ یہ نوجوان جنون کی حد تک خطاطی سے لگاؤ رکھتا ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ ڈاکٹر ریحان انصاری فیض مجدد لاہوری سے ان کے آخری ایام میں اصلاح بھی لے چکے ہیں ۔ ڈاکٹر ریحان انصاری کمپیوٹر گرافک ڈئزائنگ میں بھی مہارت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے کافی محنت اور جدو جہد کے بعد مرقع فیض کی تمام وصلیوں کا عکس حاصل کیا؛ ان کا تجزیہ کیا ۔ ان کی ڈیجیٹل کتابت کی۔ ہر حرف اور لگیچر کا باریک بینی سے پوری ٹیم بیٹھ کر مشاہدہ کرتی اور جہاں کسی تکنیکی اعتبار سے اور ضرورت کے پیش نظر ہلکی سی بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی باہمی مشورہ کرکے اس کو کمپیوٹر کے مطابق بنانے کے لیے ہلکا ساتبدیل کردیا جاتا ۔لیکن اس بات کا پورا خیال رکھا جاتا کہ اس طرز لاہوری میں فیض صاحب کی جھلک من و عن برقرار رہے ۔

پہلی بار "کشش" کا اضافہ
"فیض لاہوری نستعلیق" فونٹ تیار ہو کر مکمل کام کے قابل ہو چکا تو یہ بات سامنے آئی کہ بدلتی ہوئی دنیا میں لوگوں کا ذوق اور بھی ایک مطالبہ کر رہا ہے یعنی حروف و الفاظ میں کشش کے لیے نستعلیق کی کتابت میں کشیدہ انداز (قدرے کھینچ کر لکھنا) کو داخل کیا جائے؛ اخباری سرخیوں، مضامین کے عنوانات نیز متن اور شعری مجموعوں میں کشش کے ساتھ کتابت کی وجہ سے ایک نادر دلکشی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایکسس کمپیوٹر کی سہ رکنی ٹیم نے ایک مرتبہ پھر اس بات پر غور کیا اورڈاکٹر ریحان انصاری نے پھر کمربستہ ہو کر حروف و لگیچرس کے ہر ضروری حصے میں کشیدہ خط جوڑ دیا۔۔۔ ۔۔۔ اس طرح دنیا کے سامنے سب سے پہلی مرتبہ کمپیوٹر پر نستعلیق کی شکلوں میں کشیدہ خط بھی پیش کیا جارہا ہے۔
اس مناسبت سے ایکسس سافٹ میڈیا کو یہ امتیاز حاصل ہوا ہے کہ اردو نستعلیق کی سب سے نازک شکل جس کی ابتدا یقیناًلاہور شہر میں ہوئی تھی مگر پوری دنیا میں اسے کمپیوٹر پر استعمال کے قابل ہندوستان میں بنایا گیا ہے۔اس نسبت سے یہ خالص "ہندوستانی لاہوری" فونٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس فونٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ خفی اور جلی ہر دو صورتوں میں یہ اپنی آب و تاب اور حسنِ خط برقرار رکھے گا۔
فیض لاہوری خط میں کم و بیش بارہ ہزار لگیچر (شکلیں) تیار کئے گئے ہیں جو استعمالی صورت میں چالیس ہزار سے بھی زیادہ شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی نوری نستعلیق سے تقریباً دس ہزار سے بھی زیادہ لگیچرس اس میں موجود ہیں۔
پورے خط میں ساختی یکسانیت اس کا ایک اہم پہلو ہے۔ اس سے بننے والی کمپیوٹر دستاویز (ڈاکومنٹ) کی میموری سائز بھی چالیس فی صدی تک کم ہوگی۔ انشاء اللہ یہ فونٹ اردو عوام کے لیے سالِ رواں کا یادگار تحفہ ہوگا۔
اسی ضمن میں بین السطور فاصلے کی ضرورت کے مدِّ نظر کچھ جوڑوں کے زاویوں کو بھی قدرے پست کر دیا گیا ہے نیز زیادہ لمبائی کے الفاظ کی لمبائی میں معمولی سا سمجھوتہ بھی داخل ہے، لیکن کوشش یہی ہے کہ ان میں کوئی واضح بدنمائی نہ پیدا ہو۔ آج فیض صاحب کی شدت سے یاد سے آرہی ہے اگر یہ کام ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتا تو اسے دیکھ کر واقعی خوشی سے پھولے نہ سماتے ۔ پھر بھی ہم نے ان کے لکھے لاہوری خط کو زندہ کردیا ہے ۔ اور اس فونٹ کو "فیض لاہوری" کے نام سے موسوم کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ امید ہے کہ رہتی دنیا تک یہ فونٹ فیض صاحب کا نام قائم رکھے گا۔ اور جولوگ خط نستعلیق میں کچھ تبدیلی کے خواہش مند تھے انھیں اس خط کو دیکھ کر اپنے ذائقہ کی تبدیلی کا احساس ضرور ہوگا ۔

***
 
Top