اردو زبان کا آغاز و ارتقا
لشکری زبان
تیرہویں صدی عیسوی کے آغازمیں وسطی ایشیا کی چراگاہوں سے ایک ایسا طوفان اٹھا جس نے معلوم دنیا کی بنیادوں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ چنگیز خان کی سفاک دانش کی رتھ پر سوار منگول موت اور تباہی کا پیغام ثابت ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے بعد شہر،علاقے کے بعد علاقہ اور ملک کے بعد ملک سرنگوں ہوتے چلے گئے۔ محض چند عشروں کے اندر اندر خون کی ہولی کھیلتے، کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرتے،سنگین قلعوں اور عا لی شان محلوں کی راکھ اڑاتے منگول بیجنگ سے ماسکو تک پھیلی دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی متصل سلطنت کے مالک بن گئے۔
اس سے پہلے کہ آپ سوچیں کہ اس سب قصے کا اردو سے کیا تعلق ہے میں جلدی سے اضافہ کردوں کہ یہی وہ اتھل پتھل تھی جس نے لفظ "اردو" کو معلوم دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم اس بات کی تفصیل میں جائیں پہلے کچھ لفظ اردو کے اشتقاق کی بات ہو جائے۔ ہر کوئی یہ سمجھتاہے کہ "اردو" ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب لشکر ہے۔ اور اسے لشکر اس لیے کہا جاتا ہے کہ مغلوں کی افواج میں کئی زبانیں بولنے والے سپاہی تھے۔ ان کے اختلاط سے ایک نئی زبان وجود میں آگئی۔ اس بات پر بحث آگے آئے گی لیکن پہلے میں ایک قیاس پیش کرتا چلوں کہ ہو سکتا ہے اردو ترکی کا نہیں بلکہ اصل میں سنسکرت زبان کا لفظ ہو ۔ اور وہ یوں کہ پرانی ترکی میں ایک لفظ پایا جاتا ہے "
اُرتا" جس کے معنی ہیں مرکز۔ یہ لفظ بعدمیں تبدیل ہو کر
"اوردُو" ہو گیا اور محل یا دارالحکومت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ (اس سے ملتا جلتا استعمال عربی لفظ صدر کےضمن میں سامنے آتا ہے۔ صدر ویسے تو چھاتی کو کہتے ہیں لیکن دیکھئے کہ پاکستان کے کئی شہروں کے مرکزی علاقے کو صدر کہا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ صدر مقام دارالحکومت کو کہا جاتا ہے)۔ اب ملاحظہ ہو کہ سنسکرت کا لفظ
ہردے (دل) نہ صرف صوتی بلکہ معنیاتی اعتبار سے بھی ترکی "اُرتا" اور "اوردو"سے مشابہ ہے۔ چوں کہ سنسکرت ترکی سے زیادہ قدیم زبان ہے اس لیے ممکن ہے التائی کی چراگاہوں کے خانہ بدوشوں نے یہ لفظ سنسکرت سے اخذ کیا ہو ۔ اگر قاری کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ کہاں ہندوستان اور کہاں وسطی ایشیا کی چراگاہیں توعرض ہے کہ ترکی زبان کی تمام قبل از اسلام مذہبی تحریریں بدھ مت سے متعلق ہیں
(ارکان ترکمان 1987ء)۔ اس پہ مستزاد سنسکرت زبان کا ایک مادہ
"اُر" بھی ہے جس کا مطب بھی دل ہے ۔
(برج موہن کیفی، 1966ء)۔ اب ہم لفظ اردو کی ترسیل کی طرف آتے ہیں۔ تحریری ترکی کی سب سے پرانی مثال منگولیا کی ایک لاٹھ پر کندہ ملتی ہے جسے
کُل تگین تحریر کہا جاتاہے۔ یہ یادگار 732ء میں اس نام کے ایک بادشاہ کی یاد میں اس کے بھائی نے تعمیرکرائی تھی۔ تحریر کا رسم الخط
گوک ترک ہے اور اس میں کل چھیاسٹھ سطور ہیں۔ اس لاٹھ کی موضوعِ زیرِ بحث سے متعلق بات یہ ہے کہ اس میں الفاظ "اورتو " اور "اوردو " کئی بارآئے ہیں۔ انٹر نیٹ پر اس لاٹھ کی زبان کی فرہنگ موجود ہے جس میں ان الفاظ کے معنی کچھ یوں دیے گئے ہیں ۔
اورتو : کاغان (مفرس شکل خاقان یعنی بادشاہ) کی رہائش گاہ ، دارالحکومت ، چلتا پھرتا شہر
اوردو: درمیان، مرکز
ہر چند کہ ہندوستان میں لفظ اردو کے استعمال کی چند قبل از مغل دور مثالیں مل جاتی ہیں لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ بعد میں اضافہ کیا گیا ہے
(شیرانی 1928ء)۔ تاہم ظہیر الدین بابر کے وقت یقینا لفظ اردو کا استعمال عام ہو چکاتھا حتیٰ کہ خود بابر نے اسے اپنی تزک میں لکھا ہے۔ اکبر کے دور میں اس لفظ کے مرکبات عام استعمال کیے جاتے تھے ۔ مثال کے طور پر اردوے معلیٰ ، اردوئے علیا ، اردوے بزرگ ، حتیٰ کہ اردوئے لشکر ۔تمام مرکبات میں اردو کا مطلب شاہی کیمپ ہے
(شیرانی 1929ء) ۔ اکبر کے درباری وقیعہ نویس ابوالفضل نے اپنی مشہور کتاب
آئینِ اکبری میں ایسی ہی ایک خیمہ گاہ
اردوئے ظفر قریں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے :
" شاہی خیمے اور حرم کے لیے ایک 1530 گزلمبا میدان منتخب کیا گیا۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم خیمہ گلال باڑ ہے جو ایک قلعہ نما تہ ہو جانے والاچوبی خیمہ ہے جس کی لمبائی اور چوڑائی سو سو گز ہے۔ اس کے جنوبی حصے میں دربارہے جس کے 45 حصے ہیں ۔ہر حصہ 24 ضرب 24 گز ہے ۔ مرکز میں دو منزلہ چوبی شاہی محل ہے جہاں بادشاہ صبح عبادت کرتا ہے۔ بیگمات اس حصے میں بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتیں۔ اس سے ملحق 24 چوبی راوٹیاں (چوکور خیمے) ہیں ۔ ہر ایک 10 ضرب 10 گز ہے جہاں بیگمات رہائش پذیر ہوتی ہیں۔ ۔ وسط میں بڑا چوبی دربار ہے ۔ ایک ہزار ملازم اسے نصب کرنے پر مامور ہیں۔ اس کے 72 دروازے ہیں اور اس میں دس ہزار لوگوں کی نشست کی گنجائش ہے" ۔
( شیرانی1929ء) ۔
آپ نے دیکھا کہ خیمہ گاہ کیا ہے چلتا پھرتا شہر ہے۔ جرمن مورخ
فریڈرک آگسٹس نے بھی اپنی کتاب شہنشاہ اکبر میں ایک خیمہ گاہ کا ذکر کیا ہے:
"ایسے ہر خیمے کی ترسیل کے لیے 1000 ہاتھی، 500 اونٹ، 100 بیل گاڑیاں اور 100 قلی استعمال کیے جاتے تھے۔"
(آگسٹس 1885ء)
اردوئے ظفر قریں میں ایک سفری ٹکسال بھی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے بھی اردوئے ظفر قریں کہا جاتا تھا۔ یہ ٹکسال جہانگیر اور شاہجہاں کے وقت بھی زیرِ استعمال تھی اور بعد میں صرف اردوکہلانے لگی ۔
(شیرانی 1929ء)۔ اس ٹکسال کے کئی سکے اب بھی پائے جاتے ہیں جن پر ضربِ اردوئے ظفر قریں کندہ ہے۔ ان میں سے کچھ سکوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔