انگریزی و دیگر زبانوں کے متعلق تو اکثر یہ بحث اٹھائی گئی ہے کہ کونسا لفظ سب سے طویل ہے ۔ لیکن اردو زبان کے حوالے سے کبھی کوئی ایسی بات پڑھنے کو نہیں ملی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اردو کا سب طویل لفظ کونسا ہے؟
"صلائےعام ہے یاران ِنکتہ داں کیلیے"
برادرم، یہ بحث غالباً اردو میں اسی لیے نہیں اٹھائی گئی کہ شاید اردو کے موجودہ مزاج کے موافق نہیں۔
کیا اسم ہائے جمع کو بھی ہم لفظ شمار کریں گے؟ انگریزی میں فقط ایس کے اضافے سے عام طور پر واحد جمع میں بدل جاتا ہے۔ اردو میں اکثر معاملہ اتنا سادہ نہیں ہوتا۔
کسی لفظ کو اردو تسلیم کرنے کے لیے کیا پیمانہ ہو گا؟ کیا موبائل فون کو ہم اردو شمار کریں گے؟ ہاں تو کیوں؟ نہیں تو کیوں نہیں؟
کیا موبائل فون میں موجود ہمزہ حرف شمار ہو گا؟ ہاں تو کیوں؟ نہیں تو کیوں نہیں؟
اگر موبائل فون کو اردو شمار کر لیا گیا تو کیا موبائل فونز بھی اردو شمار ہو گا؟ بالکل ویسے ہی جیسے ہم نے عربی سے کتاب کا لفظ اخذ کیا اور اس کی جمع کتب قرار دیتے ہیں؟
انگریزی میں اور اکثر دیگر زبانوں میں کسرۂِ اضافت سے ملتی جلتی کوئی شے نہیں۔ کسرہ بہرحال کوئی لفظ یا حرف نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم تراکیبِ اضافی از قسم ابتدائے آفرینش کو ایک لفظ قیاس نہ کریں؟
اگر ابتدائے آفرینش کو ایک لفظ قرار دینے میں تامل ہو تو اس کا کیا علاج؟
میرا مقصود آپ کی جستجو کی ناقدری نہیں بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ ہماری پیاری زبان پر ہم نے توجہ ہی کس قدر دی ہے؟ اس کے ضوابط کو ترتیب دینے میں کتنی چستی دکھائی ہے؟ میرے مشاہدے کے مطابق مہذب زبانوں میں شاید اردو واحد زبان ہے جس کی طے شدہ قواعد کے معاملے میں کم مائیگی دیہی زبانوں سے بھی زیادہ ہی ہو گی۔ ہم اسے بولتے ہیں، سمجھتے ہیں، اس میں پڑھتے لکھتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہمارے سلوک کا اندازہ ہمیں تبھی ہوتا ہے جب ہم کسی غیرملکی کو یہ زبان سکھانا چاہیں۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ آدھی سے زیادہ زبان الل ٹپ چل رہی ہے۔ جیسی سنی، ویسی بول لی۔ جیسی پڑھی، ویسی لکھ دی۔ نہ کوئی سند، نہ کوئی اصول، نہ کوئی ضابطہ۔ اگر معدودے چند قاعدے مل بھی جائیں تو ان پر یا تو اتفاق نہیں یا ان کا نفاذ علی العموم نہیں۔
اردو کو اس قسم کے چونچلوں سے پہلے اپنے اس شباب کی فکر کرنی چاہیے جس سے پہلے ہی اس پر بڑھاپا طاری ہونے لگا ہے۔ مجھے، بلکہ بہت سوں کو، اردو کی وقعت اور صلاحیت میں شبہ نہیں۔ مگر زبانیں اقوام کے ساتھ پنپتی اور انھی کے ساتھ مرجھاتی ہیں۔ اگر ہمیں اپنے معاش کی فکر سے آزادی نصیب ہوئی اور ایک ہمہ گیر پاکستانی ثقافت کی تشکیل کا ہما ہمارے سر بیٹھ گیا تو عجب نہیں کہ ان معصوم لسانیاتی سوالوں کے جواب بچے دیا کریں جو فی الحال بڑوں کے بھی بس کے نہیں معلوم ہوتے۔