عارف انجم
محفلین
اردولکھنے کیلئے درجن کے قریب نستعلیق اور کئی درجن نسخ فونٹس کی موجودگی میں شاید اس لڑی میں ’’حل طلب‘‘ کے الفاظ بہت سے دوستوں کو عجیب محسوس ہوں گے لیکن میں کچھ ہی دیر میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔ پہلے ذرا اس سارے معاملے کا سیاق و سباق واضح کر لوں۔
میں لگ بھگ 18 برس سے پاکستان میں اردو صحافت سے وابستہ ہوں۔ گو کہ میرا تعلق ادارتی شعبے سے ہے لیکن شروع سے ہی ویب پر اردو لکھنے پڑھنے کے معیاری(اس لڑی میں ہر جگہ لفظ معیاری انگریزی کے standard کے معنے میں استعمال ہوا ہے) طریقے میں مجھے دلچسپی رہی ہے۔ پاک ڈیٹا والوں کی ’’اردو 98‘‘ سے لے کر ، سن 2000 میں شہزاد عاشق علی کی جانب سے نستعلیق کریکٹر فونٹ بنانے کی کاوش اوراسی زمانے میں جنگ گروپ کی طرف سے کئی فائلوں پر مشتمل الرحمٰن نوری نستعلیق فونٹ ویب سائیٹ کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں تک میں نے تقریباً ہر نستعلیق فونٹ کو پرکھا ہے۔رواں اور پچھلے عشرے میں سامنے آنے والے کئی نستعلیق فونٹ (جمیل ، فیض، فجر، علوی، پاک ، فجر، تاج، مہر، نوٹو، نفیس وغیرہ ) بھی میں نے آزمائے ہیں ۔ لیکن مجھے یہ کہنے دیں کہ ویب کے لیے ایک ’’معیاری‘‘ نستعلیق فونٹ کی ضرورت آج بھی محسوس ہوتی ہے اور یہ ضرورت محسوس ہونے کی سب سے بڑی وجہ عام قارئین ہیں۔
اس سلسلے میں دو واقعات پیش ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ہم نے اپنی تازہ ترین خبروں کی ویب سائیٹ کو تصویری؍گرافک شکل کے بجائے ٹیکسٹ کی صورت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پندرہ دن میں ویب ٹریفک کئی ہزار گر گئی۔ جمیل اور دیگر فونٹس استعمال کرنے کے باوجود باقاعدہ پڑھنے والوں میں سے کئی لوگوں نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ وہ پرانے انداز میں ویب سائیٹ چاہتے ہیں کیونکہ اس میں ’’لکھا ہوا بہتر نظر آتا تھا۔‘‘
دوسرا واقعہ۔ ہمارے ادارے میں ان پیج کی لائسنس شدہ کاپیاں استعمال ہوتی ہیں۔ 2016 میں مزید کچھ لائسنس استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت ان پیج کا آخری ورژن 3.50 تھا جس میں نوری نستعلیق فونٹ شامل نہیں تھا۔ محض اس فونٹ کے شامل نہ ہونے کی وجہ سے ادارے نے نئے ورژن کے بجائے پرانے ورژن کے لائسنس خریدے۔ وجہ یہ تھی کہ نوری نستعلیق کے سوا نہ تو اردو کے پبلشرز کو اور نہ ہی اردو کے عام قارئین کو کوئی فونٹ قبول ہے۔
نوری نستعلیق پر اس اصرار کو شاید کچھ لوگ نامعقول کہیں لیکن میں عام قارئین کی بات کر رہا ہوں۔ نستعلیق کے الگ الگ انداز پسند کرنے والے یقیناً اچھا aesthetic sense رکھتے ہیں۔ لیکن عوام کیا قبول کرتے ہیں اس پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔ یقیناًنئے رحجانات متعارف کرائے جا سکتے ہیں لیکن رحجانات بننے میں وقت لگتا ہے۔ بالخصوص پہلے سے موجود مضبوط رحجان کو توڑ کر نیا رحجان بنانے میں۔
محفل پر موجود کافی لوگ جانتے ہیں کہ کمپیوٹر پر نوری نستعلیق خط میں اردو لکھنے کی تاریخ لگ بھگ چار عشرے پرانی ہے۔ 1981 میں احمد مرزا جمیل اور مونو ٹائپ کےاشتراک سے جو نوری نستعلیق فونٹ بنا وہ 1988 کے لگ بھگ اخباری دنیا میں کافی حد تک استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ 1990 کے عشرے میں تقریباً تمام اخبارات و جرائد میں یہی فونٹ استعمال ہو رہا تھا۔ کاتب اکا دکا رہ گئے تھے اور وہ بھی صرف سرخیاں لکھنے کی حد تک۔ چند برسوں میں وہ بھی نہ رہے۔ ان پیج کے آنے سے پہلے شاہکار نامی سافٹ وئیر کے ذریعے نوری نستعلیق میں لکھے متن کے کالم کی صورت میں ٹریسنگ پیپر پر پرنٹ نکال لیے جاتے تھے جن کی پیسٹنگ کی جاتی اور کاپی تیار ہوجاتی۔
سادہ لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو پڑھنے والے پچھلے 30 برس سے صرف نوری نستعلیق فونٹ ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہی ان کے لیے معیار بن چکا ہے۔
فونٹ یا ٹائپ فیس کے حوالے سے اردو پڑھنے والوں کی توقعات کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتاہے۔
1۔ فونٹ نوری نستعلیق ہونا چاہیے۔
2۔ کرننگ ان پیج کی کرننگ جیسی ہونی چاہیئے (ویب سائیٹ کے ہمارے قارئین کی تصویری ورژن میں "لکھا ہوا بہتر نظر آتا ہے" سے یہی مراد تھی۔
3۔ اس فونٹ میں لکھنے پڑھنے کی رفتار تیز ہو۔ (پیج رینڈرنگ کی تیز رفتاری)
1. نوری نستعلیق فونٹ بنیادی طورپر دہلوی نستعلیق کے خاندان کا حصہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نوری نستعلیق کے متبادل کے طور پر اردو کے قارئین دہلوی نستعلیق کا کوئی بھی خط لاہوری نستعلیق کی بہ نسبت زیادہ جلدی قبول کرلیں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ ان کی ترجیح نوری نستعلیق سے انتہائی قریب فونٹ ہی رہے گا۔ (واضح رہے کہ یہاں میرا مقصد لاہوری نستعلیق پر تنقید نہیں ہے۔ پاکستان کے اخبارات میں بڑے عرصے تک خبروں کی سرخیاں لاہوری نستعلیق میں ہی لکھی جاتی رہی ہیں لیکن متن کے معاملے میں نوری نستعلیق معیار بن گیا۔)
2۔ یوں تو جمیل نوری نستعلیق کی کرننگ بالخصوص فائر فاکس برائوزر پر بہت ہی اچھی ہے اور ذاتی طور پر میرے لیے قابل قبول بھی لیکن ان پیج جیسی کرننگ پر عام قارئین کا اصرار محض جانے پہچانے تجربے (familiar experience ) کی بنیاد پر ہے۔ وہ اسے ایسے ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ خواہ کسی دوسری کرننگ میں readability زیادہ بہتر ہی کیوں نہ ہو۔
3 ۔ فونٹ کی رفتار کے حوالے سے میں کچھ تجربات بیان کرنا چاہوں گا۔ پچھلے عشرے میں جب نفیس نستعلیق بہت آسانی سے دستیاب تھا اسے ویب کے لیے استعمال نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ ویب پیجز بہت دیر سے لوڈ ہوتے تھے۔ ایم ایس ورڈ میں بھی یہ بڑی فائلوں میں کمپیوٹر کو سست کر دیتا تھا۔ لیگچر بیسڈ فونٹس نے رفتار کا یہ مسئلہ یقیناً حل کر دیا ہے لیکن یہ فونٹس آج بھی ہر اردو پڑھنے والے کے کمپیوٹر پر دستیاب نہیں۔ دوسری طرف اردو کی ویب سائیٹوں میں فونٹ ایمبیڈ کرنے کا چلن عام ہوگیا ہے۔ خواہ وہ بی بی سی اردو ہو یا حال ہی میں سامنے آنے والی مکالمہ اور دلیل جیسی ویب سائیٹس۔
(نوٹ: مذکورہ بالا آرا کئی برسوں سے کراچی میں اردو اخبارات کے شبعہ گرافکس و پیج میکنگ کے افراد، اردو کے مختلف ویب ڈیولپرز سے بات چیت اور ان ویب ڈیولپرز کو ملنے والے قارئین کے فیڈ بیک پر مبنی ہیں۔ مجموعی طور پر 100 سے زائد افراد کا نقطہ نظر اس میں شامل ہے۔)
اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو ویب سائیٹس کے لیے ایک ایسا فونٹ درکار ہے جو نوری نستعلیق یا اس سے انتہائی قریب ہو۔ اس میں built in بہت اچھی کرننگ ہو اور اس کی رفتار بھی تیز ہو۔ نیز فائل سائز اتنا کم ہو کہ اسے ایمبیڈ یا ڈائون لوڈ کے لے بآسانی دستیاب کیا جا سکے۔
مجھے سید منظر کا تیار کردہ علی نستعلیق اس ہدف کے بہت قریب لگا۔ گو کہ کرننگ میں بہتری ابھی درکار ہے۔ (یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سید منظر کے ساتھ جو عارف انجم کام کر رہے ہیں وہ یقیناً میں نہیں ہوں۔ میرا تعلق کراچی سے ہے جبکہ وہ غالباً ممبئی کے قریب کسی علاقے سے ہیں) لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ اسے عام دستیاب کریں گے؟ شاید نہیں۔
دوسرا اور شاید نسبتاً بہتر حل یہ ہے کہ جمیل نوری نستعلیق کا ہی کریکٹر بیسڈ ایسا ورژن بنایا جائے جس میں یہ ساری خوبیاں موجودہوں۔ یہاں پھر کاپی رائیٹ کا مسئلہ آڑے آجاتا ہے۔
شاید اس کے علاوہ بھی کچھ حل ہو۔ لیکن اس مضمون کا مقصد مسئلے کو بیان کرنا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ اردو قارئین نوری نستعلیق یا اس کے قریب تر، ان پیج جیسی کرننگ والا ایک تیز رفتار فونٹ چاہتے ہیں۔
میں لگ بھگ 18 برس سے پاکستان میں اردو صحافت سے وابستہ ہوں۔ گو کہ میرا تعلق ادارتی شعبے سے ہے لیکن شروع سے ہی ویب پر اردو لکھنے پڑھنے کے معیاری(اس لڑی میں ہر جگہ لفظ معیاری انگریزی کے standard کے معنے میں استعمال ہوا ہے) طریقے میں مجھے دلچسپی رہی ہے۔ پاک ڈیٹا والوں کی ’’اردو 98‘‘ سے لے کر ، سن 2000 میں شہزاد عاشق علی کی جانب سے نستعلیق کریکٹر فونٹ بنانے کی کاوش اوراسی زمانے میں جنگ گروپ کی طرف سے کئی فائلوں پر مشتمل الرحمٰن نوری نستعلیق فونٹ ویب سائیٹ کے لیے استعمال کرنے کی کوششوں تک میں نے تقریباً ہر نستعلیق فونٹ کو پرکھا ہے۔رواں اور پچھلے عشرے میں سامنے آنے والے کئی نستعلیق فونٹ (جمیل ، فیض، فجر، علوی، پاک ، فجر، تاج، مہر، نوٹو، نفیس وغیرہ ) بھی میں نے آزمائے ہیں ۔ لیکن مجھے یہ کہنے دیں کہ ویب کے لیے ایک ’’معیاری‘‘ نستعلیق فونٹ کی ضرورت آج بھی محسوس ہوتی ہے اور یہ ضرورت محسوس ہونے کی سب سے بڑی وجہ عام قارئین ہیں۔
اس سلسلے میں دو واقعات پیش ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ہم نے اپنی تازہ ترین خبروں کی ویب سائیٹ کو تصویری؍گرافک شکل کے بجائے ٹیکسٹ کی صورت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پندرہ دن میں ویب ٹریفک کئی ہزار گر گئی۔ جمیل اور دیگر فونٹس استعمال کرنے کے باوجود باقاعدہ پڑھنے والوں میں سے کئی لوگوں نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ وہ پرانے انداز میں ویب سائیٹ چاہتے ہیں کیونکہ اس میں ’’لکھا ہوا بہتر نظر آتا تھا۔‘‘
دوسرا واقعہ۔ ہمارے ادارے میں ان پیج کی لائسنس شدہ کاپیاں استعمال ہوتی ہیں۔ 2016 میں مزید کچھ لائسنس استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت ان پیج کا آخری ورژن 3.50 تھا جس میں نوری نستعلیق فونٹ شامل نہیں تھا۔ محض اس فونٹ کے شامل نہ ہونے کی وجہ سے ادارے نے نئے ورژن کے بجائے پرانے ورژن کے لائسنس خریدے۔ وجہ یہ تھی کہ نوری نستعلیق کے سوا نہ تو اردو کے پبلشرز کو اور نہ ہی اردو کے عام قارئین کو کوئی فونٹ قبول ہے۔
نوری نستعلیق پر اس اصرار کو شاید کچھ لوگ نامعقول کہیں لیکن میں عام قارئین کی بات کر رہا ہوں۔ نستعلیق کے الگ الگ انداز پسند کرنے والے یقیناً اچھا aesthetic sense رکھتے ہیں۔ لیکن عوام کیا قبول کرتے ہیں اس پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔ یقیناًنئے رحجانات متعارف کرائے جا سکتے ہیں لیکن رحجانات بننے میں وقت لگتا ہے۔ بالخصوص پہلے سے موجود مضبوط رحجان کو توڑ کر نیا رحجان بنانے میں۔
محفل پر موجود کافی لوگ جانتے ہیں کہ کمپیوٹر پر نوری نستعلیق خط میں اردو لکھنے کی تاریخ لگ بھگ چار عشرے پرانی ہے۔ 1981 میں احمد مرزا جمیل اور مونو ٹائپ کےاشتراک سے جو نوری نستعلیق فونٹ بنا وہ 1988 کے لگ بھگ اخباری دنیا میں کافی حد تک استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ 1990 کے عشرے میں تقریباً تمام اخبارات و جرائد میں یہی فونٹ استعمال ہو رہا تھا۔ کاتب اکا دکا رہ گئے تھے اور وہ بھی صرف سرخیاں لکھنے کی حد تک۔ چند برسوں میں وہ بھی نہ رہے۔ ان پیج کے آنے سے پہلے شاہکار نامی سافٹ وئیر کے ذریعے نوری نستعلیق میں لکھے متن کے کالم کی صورت میں ٹریسنگ پیپر پر پرنٹ نکال لیے جاتے تھے جن کی پیسٹنگ کی جاتی اور کاپی تیار ہوجاتی۔
سادہ لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو پڑھنے والے پچھلے 30 برس سے صرف نوری نستعلیق فونٹ ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہی ان کے لیے معیار بن چکا ہے۔
فونٹ یا ٹائپ فیس کے حوالے سے اردو پڑھنے والوں کی توقعات کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتاہے۔
1۔ فونٹ نوری نستعلیق ہونا چاہیے۔
2۔ کرننگ ان پیج کی کرننگ جیسی ہونی چاہیئے (ویب سائیٹ کے ہمارے قارئین کی تصویری ورژن میں "لکھا ہوا بہتر نظر آتا ہے" سے یہی مراد تھی۔
3۔ اس فونٹ میں لکھنے پڑھنے کی رفتار تیز ہو۔ (پیج رینڈرنگ کی تیز رفتاری)
1. نوری نستعلیق فونٹ بنیادی طورپر دہلوی نستعلیق کے خاندان کا حصہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نوری نستعلیق کے متبادل کے طور پر اردو کے قارئین دہلوی نستعلیق کا کوئی بھی خط لاہوری نستعلیق کی بہ نسبت زیادہ جلدی قبول کرلیں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ ان کی ترجیح نوری نستعلیق سے انتہائی قریب فونٹ ہی رہے گا۔ (واضح رہے کہ یہاں میرا مقصد لاہوری نستعلیق پر تنقید نہیں ہے۔ پاکستان کے اخبارات میں بڑے عرصے تک خبروں کی سرخیاں لاہوری نستعلیق میں ہی لکھی جاتی رہی ہیں لیکن متن کے معاملے میں نوری نستعلیق معیار بن گیا۔)
2۔ یوں تو جمیل نوری نستعلیق کی کرننگ بالخصوص فائر فاکس برائوزر پر بہت ہی اچھی ہے اور ذاتی طور پر میرے لیے قابل قبول بھی لیکن ان پیج جیسی کرننگ پر عام قارئین کا اصرار محض جانے پہچانے تجربے (familiar experience ) کی بنیاد پر ہے۔ وہ اسے ایسے ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ خواہ کسی دوسری کرننگ میں readability زیادہ بہتر ہی کیوں نہ ہو۔
3 ۔ فونٹ کی رفتار کے حوالے سے میں کچھ تجربات بیان کرنا چاہوں گا۔ پچھلے عشرے میں جب نفیس نستعلیق بہت آسانی سے دستیاب تھا اسے ویب کے لیے استعمال نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ ویب پیجز بہت دیر سے لوڈ ہوتے تھے۔ ایم ایس ورڈ میں بھی یہ بڑی فائلوں میں کمپیوٹر کو سست کر دیتا تھا۔ لیگچر بیسڈ فونٹس نے رفتار کا یہ مسئلہ یقیناً حل کر دیا ہے لیکن یہ فونٹس آج بھی ہر اردو پڑھنے والے کے کمپیوٹر پر دستیاب نہیں۔ دوسری طرف اردو کی ویب سائیٹوں میں فونٹ ایمبیڈ کرنے کا چلن عام ہوگیا ہے۔ خواہ وہ بی بی سی اردو ہو یا حال ہی میں سامنے آنے والی مکالمہ اور دلیل جیسی ویب سائیٹس۔
(نوٹ: مذکورہ بالا آرا کئی برسوں سے کراچی میں اردو اخبارات کے شبعہ گرافکس و پیج میکنگ کے افراد، اردو کے مختلف ویب ڈیولپرز سے بات چیت اور ان ویب ڈیولپرز کو ملنے والے قارئین کے فیڈ بیک پر مبنی ہیں۔ مجموعی طور پر 100 سے زائد افراد کا نقطہ نظر اس میں شامل ہے۔)
اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو ویب سائیٹس کے لیے ایک ایسا فونٹ درکار ہے جو نوری نستعلیق یا اس سے انتہائی قریب ہو۔ اس میں built in بہت اچھی کرننگ ہو اور اس کی رفتار بھی تیز ہو۔ نیز فائل سائز اتنا کم ہو کہ اسے ایمبیڈ یا ڈائون لوڈ کے لے بآسانی دستیاب کیا جا سکے۔
مجھے سید منظر کا تیار کردہ علی نستعلیق اس ہدف کے بہت قریب لگا۔ گو کہ کرننگ میں بہتری ابھی درکار ہے۔ (یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سید منظر کے ساتھ جو عارف انجم کام کر رہے ہیں وہ یقیناً میں نہیں ہوں۔ میرا تعلق کراچی سے ہے جبکہ وہ غالباً ممبئی کے قریب کسی علاقے سے ہیں) لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ اسے عام دستیاب کریں گے؟ شاید نہیں۔
دوسرا اور شاید نسبتاً بہتر حل یہ ہے کہ جمیل نوری نستعلیق کا ہی کریکٹر بیسڈ ایسا ورژن بنایا جائے جس میں یہ ساری خوبیاں موجودہوں۔ یہاں پھر کاپی رائیٹ کا مسئلہ آڑے آجاتا ہے۔
شاید اس کے علاوہ بھی کچھ حل ہو۔ لیکن اس مضمون کا مقصد مسئلے کو بیان کرنا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ اردو قارئین نوری نستعلیق یا اس کے قریب تر، ان پیج جیسی کرننگ والا ایک تیز رفتار فونٹ چاہتے ہیں۔