محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
اسباب سے میں انجان ہوں، کیوں وقفے وقفے سے اردو کو متنازع بنادیا جاتا ہے؟ میں نہیں جانتا، میرا علم محدود ہے، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تقریباً ایک سو برس سے اردو کے ساتھ یہی رویہ برقرار رکھا گیا ہے، آل انڈیا مسلم لیگ نے اردو کا بے دریغ استعمال کیا، اس قدر بے دریغ استعمال کیا کہ وہ حیرت انگیز زبان جوکہ پورے ہندوستان کی چہیتی زبان تھی اس پر ہندوستان کے بٹوارے کی زبان کی چھاپ لگ گئی، نفرتیں اس قدر بڑھیں کہ اردو کو ایک عقیدے سے منسوب کردیا گیا، لوگ عقیدوں سے منسلک ہوتے ہیں، لوگ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی ہوتے ہیں، زبانیں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی نہیں ہوتیں، مواصلات کے ذرائع کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہوائی جہاز، پانی کے جہاز، ٹرین، ٹرک، کار، موٹر سائیکل، سائیکل، ریڈیو، ٹیلیویژن، مائیکرو فون، اسپیکرز، موبائل فون وغیرہ کا کوئی عقیدہ، کوئی مذہب نہیں ہوتا، زبانیں بنیادی طور پر مواصلات Communication کا ایک ذریعہ ہوتی ہیں، اردو غالباً دنیا کی واحد زبان ہے جس پر تقسیم ہند سے پہلے مسلمان اور مسلمانوں کی زبان ہونے کی چھاپ لگادی گئی تھی، یاد رہے کہ عربی صرف مسلمان نہیں بولتے، بہت بڑی تعداد میں عیسائی اور یہودی بھی عربی بولتے ہیں، خلیل جبران عیسائی تھا، اس کی مادری زبان عربی تھی، ایک عرصے تک وہ عربی کے علاوہ دوسری کوئی زبان نہیں بول سکتا تھا، امریکہ چلے جانے کے بعد میری ہیکل نے اسے انگریزی سکھائی تھی۔
ہندوستان کا بٹورا اردو نے نہیں کیا تھا، مسلمان سیاستدانوں نے تحریک پاکستان کے دوران اردو کا بے دریغ استعمال کیا تھا، اس لئے اردو پر ہندوستان توڑنے کا الزام لگا تھا، پاکستان بننے کے چوبیس برس بعد انیس سو اکہتر میں جب پاکستان دو لخت ہوا تھا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تھا تب بھی اردو پر پاکستان توڑنے کا الزام لگا تھا، برصغیر کے دو ممالک ہندوستان اور پاکستان دنیا کے دو نرالے ممالک ہیں، جہاں ناقص سیاسی حکمت عملی اور متعصب اور مطلبی سیاستدانوں کی بجائے بہت بڑے سیاسی المیوں کے اسباب کہیں اور تلاش کئے جاتےہیں۔
غیر معیاری سیاستدانوں نے پاکستان کو شوشوں پے چلایا ہے، ایک شوشا ختم ہونے کو ہوتا ہے، تو دوسرے شوشے کی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں، اس نیک کام میں پچاسیوں ٹیلیویژن چینل ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں، بیس کروڑ حیران پریشان پاکستانیوں کو مزید مائوف کرنے کے لئے ان کو لگاتار شور شرابوں سے لبریز سیاسی پروگرام دکھائے جاتےہیں، جن میں سب کے سب شرکاء ایک ساتھ چیختے چلاتے رہتے ہیں، اور احمق دکھائی دیتے ہیں، پاناما کا شوشا ختم ہونے کو ہے، نئے شوشے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں، اس مرتبہ ایک بار پھر مشق ستم اردو ہے، جو بات طے ہے اس بات کو مسئلہ بناکر اٹھایا گیا ہے، اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے، کون لوگ ہیں جو کچھ عرصے کےبعد اردو کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ میں نہیں جانتا کہ وہ لوگ کون ہیں اور کیا چاہتےہیں، مجھے لگتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اردو کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے، اردو کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، انہوں نے اردو کو بے ساکھیوں کی طرح استعمال کیا ہے، اردو کو متنازع بنایاہے۔
میں ایک مرتبہ پھر دہرادوں کہ اردو ایک کرشماتی زبان ہے کوئی ادارہ یا لوگ اردو کو قومی زبان بنانے کا سہرا اپنے سر نہیں لے سکتے، یہ کارنامہ اردو نے خود بہ خود سر انجام دے دیا ہے، قدرت نے اردو کو اپنے بل بوتے پر پھلنے پھولنے، دلوں میں اتر جانے کی صلاحیت دی ہے، پاکستان کے چپے چپے پر اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، ہر ادارے میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، عدالتوں میں اردو بولنے کی ممانعت نہیں ہے، اردو کو وکالت کی ضرورت نہیں ہے، اردو نے خود بہ خود ثابت کردیا ہے کہ وہ پورے پاکستان کی زبان ہے، پاکستان کی قومی زبان ہے اس میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے، اردو کے بغیر پاکستان کا کام نہیں چل سکتا۔
سوال اردو کے قومی زبان ہونے کانہیں ہے، سوال ہے پاکستان میں صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی زبانوں کا، پاکستانی قوم پاکستان میں بسنے والے لوگوں پر مشتمل ہے، اس قوم میں بولی جانے والی تمام زبانیں پاکستانی قوم کی زبانیں ہیں، لہذا قومی زبانیں ہیں، اردو کے ساتھ ساتھ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی وغیرہ پاکستان کی قومی زبانیں ہیں، میں عرض کرچکا ہوں کہ اردو کو کسی کی وکالت کی ضرورت نہیں ہے، یہ مصدقہ حقیقت ہے کہ اردو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، اس بات میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے، مگر ہندوستان کے جس حصے پر پاکستان بنا ہوا ہے، اس حصے کی اصلی زبانوں سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو کو اردو کے برابر قومی زبان کا درجہ دینے کے بجائے دوسرے درجے کی صوبائی زبانیں جتانے سے اردو کے درجات بلند نہیں ہونگے، آپ خوامخواہ اردو کو ایک بار پھر متنازع بنادیں گے، اردو خود بخود اپنی کشش سے، اپنے بل بوتے پر پاکستان کی قومی زبان بن چکی ہے، پاکستانی قوم کی دیگر زبانوں کو قومی زبان کی حیثیت دینے سے اردو کی اپنی افادیت اور حیثیت میں کسی قسم کی کمی نہیں آئے گی۔
ہندوستان اور پاکستان دنیا کے دو بدنصیب پڑوسی ممالک ہیں جن کے حکمراں ایک دوسرے سے بے انتہا نفرت کرتے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھائیں، مگر دونوں ممالک اگر ایک دوسرے کے مثبت تجربوں کے نتائج سے فائدہ اٹھائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، ہندی کے علاوہ ہندوستان میں اٹھائیس قومی زبانیں ہیں، ہندی ہندوستان کی سرکاری زبان ہے، عین اسی طرح اردو کے علاوہ سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتو پاکستان کی قومی زبان ہیں ، اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔
امر جلیل ٭ روزنامہ جنگ
ہندوستان کا بٹورا اردو نے نہیں کیا تھا، مسلمان سیاستدانوں نے تحریک پاکستان کے دوران اردو کا بے دریغ استعمال کیا تھا، اس لئے اردو پر ہندوستان توڑنے کا الزام لگا تھا، پاکستان بننے کے چوبیس برس بعد انیس سو اکہتر میں جب پاکستان دو لخت ہوا تھا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تھا تب بھی اردو پر پاکستان توڑنے کا الزام لگا تھا، برصغیر کے دو ممالک ہندوستان اور پاکستان دنیا کے دو نرالے ممالک ہیں، جہاں ناقص سیاسی حکمت عملی اور متعصب اور مطلبی سیاستدانوں کی بجائے بہت بڑے سیاسی المیوں کے اسباب کہیں اور تلاش کئے جاتےہیں۔
غیر معیاری سیاستدانوں نے پاکستان کو شوشوں پے چلایا ہے، ایک شوشا ختم ہونے کو ہوتا ہے، تو دوسرے شوشے کی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں، اس نیک کام میں پچاسیوں ٹیلیویژن چینل ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں، بیس کروڑ حیران پریشان پاکستانیوں کو مزید مائوف کرنے کے لئے ان کو لگاتار شور شرابوں سے لبریز سیاسی پروگرام دکھائے جاتےہیں، جن میں سب کے سب شرکاء ایک ساتھ چیختے چلاتے رہتے ہیں، اور احمق دکھائی دیتے ہیں، پاناما کا شوشا ختم ہونے کو ہے، نئے شوشے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں، اس مرتبہ ایک بار پھر مشق ستم اردو ہے، جو بات طے ہے اس بات کو مسئلہ بناکر اٹھایا گیا ہے، اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے، کون لوگ ہیں جو کچھ عرصے کےبعد اردو کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ میں نہیں جانتا کہ وہ لوگ کون ہیں اور کیا چاہتےہیں، مجھے لگتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اردو کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے، اردو کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، انہوں نے اردو کو بے ساکھیوں کی طرح استعمال کیا ہے، اردو کو متنازع بنایاہے۔
میں ایک مرتبہ پھر دہرادوں کہ اردو ایک کرشماتی زبان ہے کوئی ادارہ یا لوگ اردو کو قومی زبان بنانے کا سہرا اپنے سر نہیں لے سکتے، یہ کارنامہ اردو نے خود بہ خود سر انجام دے دیا ہے، قدرت نے اردو کو اپنے بل بوتے پر پھلنے پھولنے، دلوں میں اتر جانے کی صلاحیت دی ہے، پاکستان کے چپے چپے پر اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، ہر ادارے میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، عدالتوں میں اردو بولنے کی ممانعت نہیں ہے، اردو کو وکالت کی ضرورت نہیں ہے، اردو نے خود بہ خود ثابت کردیا ہے کہ وہ پورے پاکستان کی زبان ہے، پاکستان کی قومی زبان ہے اس میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے، اردو کے بغیر پاکستان کا کام نہیں چل سکتا۔
سوال اردو کے قومی زبان ہونے کانہیں ہے، سوال ہے پاکستان میں صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی زبانوں کا، پاکستانی قوم پاکستان میں بسنے والے لوگوں پر مشتمل ہے، اس قوم میں بولی جانے والی تمام زبانیں پاکستانی قوم کی زبانیں ہیں، لہذا قومی زبانیں ہیں، اردو کے ساتھ ساتھ سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی وغیرہ پاکستان کی قومی زبانیں ہیں، میں عرض کرچکا ہوں کہ اردو کو کسی کی وکالت کی ضرورت نہیں ہے، یہ مصدقہ حقیقت ہے کہ اردو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، اس بات میں کسی شک شبہ کی گنجائش نہیں ہے، مگر ہندوستان کے جس حصے پر پاکستان بنا ہوا ہے، اس حصے کی اصلی زبانوں سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو کو اردو کے برابر قومی زبان کا درجہ دینے کے بجائے دوسرے درجے کی صوبائی زبانیں جتانے سے اردو کے درجات بلند نہیں ہونگے، آپ خوامخواہ اردو کو ایک بار پھر متنازع بنادیں گے، اردو خود بخود اپنی کشش سے، اپنے بل بوتے پر پاکستان کی قومی زبان بن چکی ہے، پاکستانی قوم کی دیگر زبانوں کو قومی زبان کی حیثیت دینے سے اردو کی اپنی افادیت اور حیثیت میں کسی قسم کی کمی نہیں آئے گی۔
ہندوستان اور پاکستان دنیا کے دو بدنصیب پڑوسی ممالک ہیں جن کے حکمراں ایک دوسرے سے بے انتہا نفرت کرتے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھائیں، مگر دونوں ممالک اگر ایک دوسرے کے مثبت تجربوں کے نتائج سے فائدہ اٹھائیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، ہندی کے علاوہ ہندوستان میں اٹھائیس قومی زبانیں ہیں، ہندی ہندوستان کی سرکاری زبان ہے، عین اسی طرح اردو کے علاوہ سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتو پاکستان کی قومی زبان ہیں ، اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔
امر جلیل ٭ روزنامہ جنگ