اردو محفل سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترم شرکاءِ محفل السلام علیکم!
سب سے پہلے تو اس خوبصورت محفل ِ مشاعرہ کو سجانے کے لئے منتظمین جناب خلیل صاحب، مقدس صاحبہ، تابش صدیقی ، حسن محمود اور بلال اعظم صاحبان کا ازحد شکریہ لازم ہے ۔ اتنی خوبصورت محفل بہت دنوں کے بعد کہین نظر آئی ۔ اللہ تعالیٰ سلامت رکھے ۔ بہت ممنون ہوں کہ مجھے اس میں شرکت کا موقع دیا گیا ۔

صدرِ مشاعرہ محترمی و مکرمی استادِ گرامی جنابِ اعجاز عبید صاحب کی اجازت سے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں ۔
پہلے ایک تازہ غزل ۔

قریہء سیم و زر و نام و نسب یاد آیا
پھر مجھے ترکِ تعلق کا سبب یاد آیا

ہجر میں بھول گئے یہ بھی کہ بچھڑے تھے کبھی
دور وہ دل سے ہوا کب ،ہمیں کب یاد آیا

کارِ بیکار جسے یاد کہا جاتا ہے
بات بے بات یہی کارِ عجب یاد آیا

۔ق ۔
پارہء ابر ہٹا سینہء مہتاب سے جب
عشوہء ناز سرِ خلوتِ شب یاد آیا

عارضِ شب ہوئے گلنار ، صبا شرمائی
جب ترا غمزہء غمازِ طلب یاد آیا

پھر مری توبہء لرزاں پہ قیامت گزری
پھر مجھےرقصِ شبِ بنتِ عنب یاد آیا

یاد آئے ترےکم ظرف بہکنے والے
جامِ کم کیف بصد شور و شغب یاد آیا

۔

چاندنی ، جھیل ، ہوا ، زلفِ پریشاں ، بادل
دل و جاں ہم نے کہاں کھوئے تھے اب یاد آیا


کیا لکھے کوئی بجز نوحہء قرطاس کہ حیف
بے ادب خامہء ارزاں کو ادب یاد آیا


آپ کی اجازت سے ایک اور تازہ غزل پیش کرنا چاہتا ہوں ۔

میں اشکبارہوں نا ممکنہ کی خواہش میں
نمک مثال گھلے جارہا ہوں بارش میں

دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع
مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں

خمارِ شام، غمِ تیرگی ، امیدِ سحر
عجیب عکس ہیں بجھتے دیئے کی تابش میں

بجا ہے طعنہء باطل مری دلیلوں پر
ہزار جہل بھی شامل ہیں میری دانش میں

یہ جبرِ راہ گزر ہے ، سفر نہیں میرا
کہ دل شریک نہیں منزلوں کی کاوش میں

وہ عکس ہوں جو کسی آنکھ سے بچھڑ کے ظہیر
بھٹک رہا ہے وصالِ نظر کی خواہش میں


ایک دو غزلوں کے کچھ منتخب اشعار پیش ِ خدمت ہیں ۔
راز درپردہء دستار و قبا جانتی ہے
کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے

کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں
کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے


اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر
فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے

اور کیا دیتی محبت کے سوا ارضِ وطن
ماں تو بیٹوں کے لئے صرف دعا جانتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دونوں سرے ہی کھوگئے ، بس یہ سرا ملا
اپنی خبر ملی ہے نہ اُس کا پتہ ملا

اُس کو کمالِ ضبط ملا ، مجھ کو دشتِ ہجر
لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو کیا ملا

رو رو کے مٹ گیا ہوں تو مجھ پر ہوئی نظر
بینائی کھوگئی تو مجھے آئنہ ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب آخر میں مصرعِ طرح پر کچھ طبع آزمائی ۔
گھر بسانے کی تمنا کوچہء قاتل میں ہے
زندگی مصروف اک تحصیلِ لاحاصل میں ہے

شورِ طوفاں قلقلِ مینا ہے پیاسوں کے لئے
اک پیالے کی طرح ساگر کفِ ساحل میں ہے

چاک کو دیتے ہیں گردش دیکھ کر گِل کا خمیر
اک پرانی رسم ہم کوزہ گرانِ گِل میں ہے

مرکزِ دل سے گریزاں ہے محیطِ روزگار
دائرہ کیسے بنے ، پرکارِ جاں مشکل میں ہے

دے گیا ہے ڈوبتا سورج اجالے کی نوید
ایک تازہ دن کہیں تقویم کی منزل میں ہے

عیب اُنہی کی آنکھ میں ہو عین ممکن ہے ظہیر
جو سمجھتے ہیں کہ خامی جوہرِ کامل میں ہے

خواتین و حضرات بصر خراشی کے لئے معذرت چاہتا ہوں ۔ :):):) برداشت کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔ السلام علیکم ۔
 

مقدس

لائبریرین
چاندنی ، جھیل ، ہوا ، زلفِ پریشاں ، بادل
دل و جاں ہم نے کہاں کھوئے تھے اب یاد آیا
کیا لکھے کوئی بجز نوحہء قرطاس کہ حیف
بے ادب خامہء ارزاں کو ادب یاد آیا

دیا ہے میں نے ہی دشمن کو وار کا موقع
مرا بھی ہاتھ ہے اپنے خلاف سازش میں
خمارِ شام، غمِ تیرگی ، امیدِ سحر
عجیب عکس ہیں بجھتے دیئے کی تابش میں

اپنے پر خیال کلام سے اہلِ محفل کے ذوق کی تسکین کا سامان کر رہے تھے محترم ظہیر احمدظہیر صاحب۔

اور اب ہم دعوتِ کلام دیتے ہیں ہر دلعزیز محترم فاتح الدین فاتح صاحب کو، جن کا کہنا ہے کہ:

جا اس کے در پہ عرقِ ندامت لیے ہوئے
جامِ انا کو بیچ کے کاسہ خرید لا

ارزانیوں پہ اپنی پشیماں ہے کس قدر
اے میرے خواب! اس کا سراپا خرید لا

یوسف کو بیچ مصر کی بازار گہ کے بیچ
یونان سے تُو زہر کا پیالہ خرید لا

ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ:


نالۂ شعر میں آثارِ اثر چاہتا ہوں
گو ہوں درماندہ مگر دستِ ہنر چاہتا ہوں

بے کراں ایک سمندر ہے محبت میری
چار اطراف میں اعجازِ اثر چاہتا ہوں

محترم فاتح الدین فاتح صاحب۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
سب سے پہلے تو انتظامیہ کی ہمت کو داد پیش کرتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں جو اپنے مصروف اوقات میں سے مستقل مزاجی سے خصوصی وقت نکال کر مشاعرے کی نظامت کے فرائض احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کے بعد صدر گرامی کی اجازت سے دو اشعار، دو غزلیں اور مصرع طرح پر اپنی کوشش آپ کی سماعتوں اور بصارتوں کی نذر کرتا ہوں:

کیف و سُرور و لذّتِ نظّارگی تو دیکھ
ہر یک مَسامِ جاں ہے بصارت لیے ہوئے

میری حدیثِ دل پہ ترا تبصرہ ستم
تیرا سخن ہے ضُعفِ روایت لیے ہوئے
(فاتح)​

---------------------------


میری اوقات، سیکھتا ہوں فُنون
تیرا منصب، کہے تُو کُن، فَیَکُون

خواب میں خواب سی حلاوتِ وصل
کون دے ہجرتی کو تیرے بدون

خاک قاتل ہے خاک ہی مقتول
خاک مدفن ہے خاک ہی مدفون

عکس اپنا ہی اجنبی سا لگے
وقت کے چاک پر وہ بگڑی جُون

چشمِ قاتل میں احمری ڈورے
ہاں، جدھر دیکھیے اُدھر ہی خون

سر میں سودا تھا، پھُوٹتا ہی رہا
نقشِ دیوار ہو گیا ہے جنون

یہ جہاں ہو یا وہ جہاں فاتحؔ
جس کی طاقت اسی کا ہے قانون
(فاتح)​

---------------------------



کیسی ادا تھی کر دیا شامل بوسۂ نطق بہانے میں
کیا کوئی اس کا ثانی ہو گا روٹھا یار منانے میں

لوحِ وجود میں پیوستہ تھا، روح و قلب سے وابستہ
اپنا آپ گنوا بیٹھے ہیں ہم اک نام مٹانے میں

شامِ عنایتِ دزدیدہ کی یاد میں بیتا اپنا دن
مت پوچھو کیا جشن سہے ہیں ہجر کی رات منانے میں

دکھتی رگ سے بھی واقف ہے اور میری برداشت سے بھی
ورنہ کیا تفریق بچی تھی اپنے اور بیگانے میں

ایک شرابِ طہور کی خاطر کس کس کو ہم ترک کریں
قدم قدم پر نشّے بچھے ہیں دنیا کے مے خانے میں

کوئی طنابیں خاطر میں کب لاتا ہے طوفانِ عدم
دیر ہی کتنی لگتی ہے یہ خیمۂ جاں اڑ جانے میں
(فاتح)​

---------------------------


اور اب پیش ہے مصرع طرح پر غزل کی کوشش۔۔۔ حالانکہ یہ مصرع طرح میں نے ہی تجویز کیا تھا لیکن ایک عرصے سے جو بانجھ پن طاری ہے اس کے باعث یہ پانچ چھے اشعار کہنا بھی کارِ دشوار تھا اور جیسے تیسے کر کے ہی کیے ہیں گر قبول افتد زہے عز و شرف:

کیا کمالِ جذب پنہاں جذبۂ کامل میں ہے
منزلِ مجذوب گویا جادۂ منزل میں ہے

کل تلک اک نرخرہ کٹنے ہی کی آواز تھی
آج برپا شور محشر کوچۂ قاتل میں ہے

انجمن تھا جو مری اور میرا سب کچھ تھا کبھی
اب فقط اک دوست ہے اور یاروں کی محفل میں ہے

منحصر لوحِ مورخ پر سبھی عدل و ستم
عدل جیسے قصّۂ نوشیرواں عادل میں ہے

لٹ گیا باغ محبت اور ثمر برباد لیک
کُو کُو کُو کُو کی صدا ہی نغمۂ کوئل میں ہے

داخلہ ممنوع میرا، تذکرہ جاری ہے یہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
(فاتح)​
 
آخری تدوین:
کیف و سُرور و لذّتِ نظّارگی تو دیکھ
ہر یک مَسامِ جاں ہے بصارت لیے ہوئے

میری حدیثِ دل پہ ترا تبصرہ ستم
تیرا سخن ہے ضُعفِ روایت لیے ہوئے

کیسی ادا تھی کر دیا شامل بوسۂ نطق بہانے میں
کیا کوئی اس کا ثانی ہو گا روٹھا یار منانے میں

لوحِ وجود میں پیوستہ تھا، روح و قلب سے وابستہ
اپنا آپ گنوا بیٹھے ہیں ہم اک نام مٹانے میں

جی محفلین یہ تھے اردو محفل کے ہردل عزیز شاعر جو اپنی خوبصورت شاعری اور خوب صورت آواز سے محفل کے ماحول کو گرمارہے تھے

یاور ماجد اردو شاعری کا ایک معتبر نام ہے۔ یاور صاحب کی دل پر اثر کرنے والی غزلوں سے ہم سب واقف ہیں۔

خواہشوں کی ہوا سنبھلنے دے
دشتِ حسرت مجھے نکلنے دے

یہ لکیریں ہی میری مجرم ہیں
اے گئے وقت ہاتھ ملنے دے

وہی جو کہ توڑا تھا پچھلے برس
وہی عہد میرا پھر اس سال ہے

دعوتِ کلام دیتے ہیں جناب یاور ماجد صاحب کو۔استقبال فرمائیے!
 

Yawar Maajed

محفلین
پیارے احباب، اگر یہ کہا جائے کہ اردو محفل انٹرنیٹ پر اردو ادب کا سب سے سنجیدہ اور بہترین فورم ہے تو قطعاً مبالغہ نہیں ہو گا۔ آپ لوگوں نے ایک خوبصورت محفل سجا رکھی ہے۔ اس مشاعرے میں دعوت پیارے دوست فاتح کے توسط سے ملی، فورم کے ایڈمن حضرات اور اس مشاعری کے متنظمین کا بےحد شکرگزار ہوں کہ انہوں نے عزت بخشی۔
بہت سارے شاعر اپنا خوبصورت کلام پیش کر چکے ہیں، ان کے لئے بہت داد۔

احباب کے لئے پہلے ایک پرانی غزل کے چند اشعار پیش ہیں

چلو گمان سہی کچھ تو مان ہی ہوتا
جو میرے سر پہ کوئی آسمان ہی ہوتا

میں بے امان رہا اپنے گھر میں رہ کر بھی
کوئی بھی ہوتا یہاں، بےامان ہی ہوتا

جہاں پہ بسنا تھا ہر ایک لامکانی کو
ضرور تھا کہ وہ میرا مکان ہی ہوتا؟

تو اختیار میں کچھ لفظ ہی عطا ہوتے!!
دیا جو درد ہے مجھ سے بیان ہی ہوتا!

نہ رہتا فاصلہ گر مجھ میں اور زمانے میں
تو میرے اور مرے درمیان ہی ہوتا


ضرور تھا کہ کمالِ بیاں عطا کرتے؟
ضرور تھا کہ مرا امتحان ہی ہوتا؟

نہیں گلہ کوئی یاؔور پہ بحرِ غم میں کہیں
مرے سفینے پہ اک بادبان ہی ہوتا


اور خصوصاً اس مشاعرے کے لئے کہی گئی غزل۔ یہ زندگی میں شاید پہلا موقع ہے کہ کسی دوست کی فرمائش پر کسی خاص زمین میں غزل کہی ہے۔

روح سے پوچھو کہ آخر کون سی مشکل میں ہے؟
وزن تو تھوڑا سا ہی اب جسم کی اس سِل میں ہے

پیتا جائے، پیتا ہی جائے ہے ہر اک لہر کو
تشنگی ہی تشنگی لیکن لبِ ساحل میں ہے

تیری یادوں کا خزینہ دل میں ہے رکھا ہوا
اور اک مارِ سیہ بیٹھا ہوا اس بِل میں ہے

آنسوؤں سے چیر لیں گے آئی جب کوئی کرن
اک دھنک رنگوں بھری اپنے بھی مستقبل میں ہے

ایک مرکز، ایک میں اور عمر بھر کی گردشیں
فاصلہ اک مستقل راہی میں اور منزل میں ہے

لغو ہے لفظوں کا فن، لیکن ہم اس کا کیا کریں
یہ جو اک لذّت ہماری سعئِ بے حاصل میں ہے

یاور ماجد
 
میں بے امان رہا اپنے گھر میں رہ کر بھی
کوئی بھی ہوتا یہاں، بےامان ہی ہوتا

جہاں پہ بسنا تھا ہر ایک لامکانی کو
ضرور تھا کہ وہ میرا مکان ہی ہوتا؟

آنسوؤں سے چیر لیں گے آئی جب کوئی کرن
اک دھنک رنگوں بھری اپنے بھی مستقبل میں ہے

ایک مرکز، ایک میں اور عمر بھر کی گردشیں
فاصلہ اک مستقل راہی میں اور منزل میں ہے​

یہ تھے جناب یاور ماجد صاحب جو اپنے کلام سے مشاعرہ کو معطر فرما رہے تھے۔
٭
دشت میں موجودگی کے آخری ذرے تلک
ریت کا ٹیلا ہوا سے دوستی کرتا رہا

رات کی آغوش میں گرتے رہے بجھتے رہے
میں کئی روشن دنوں کی پیروی کرتا رہا

اپنی ہٹ دھرمی پہ خوش ہوں اپنی ضد پر مطمئن
جو مجھے کرنا نہیں تھا میں وہی کرتا رہا

کبھی خوشبو میں کبھی پھول میں ظاہر ہونا
کیا ضروری تھا ترا ذات سے باہر ہونا

کیسے ہونا ہے ترا حدِ خرد سے آگے
کیسے ہونا ہے مرا صرف بظاہر ہونا

کیسے ہو سکتا ہے عرفانِ الہی کا ثبوت
یہ مرا کشف و کرامات میں ماہر ہونا

منصور آفاق موجودہ دور کے منجھے ہوئے شعراء میں ایک معتبر نام ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ اردو محفل مشاعرہ میں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اب میں بغیر کسی تاخیر کے جناب منصور آفاق صاحب کو دعوتِ کلام دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنے کلام سے مشاعرہ کی رونق بڑھائیں۔
جناب منصور آفاق
 

منصور آفاق

محفلین
ایک پائوں ماضی میں ہے ایک مستقبل میں ہے
کیاکہوں روزِ ازل سے کوئی کس مشکل میں ہے

سارے ہیں مدہوش زر کے میکدہ میں اہلِ حق
اور مرجانے کی جرات لشکرِ باطل میں ہے

ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے

حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے

مانگتا ہے جاکے بیعت ہر گلی میں خود یزید
ان دنوں ظلِ الہ بھی آدمی کے ظل میں ہے

جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے

ڈھونڈھ لینا ہے کسی دن آخرش امکان نے
موت کا جو کوڈ اپنے جین کی فائل میں ہے

دیکھنا انگلی گھمانا دھیان سے ہر مرتبہ
صفر سے پہلے کا نمبر فون کے ڈائل میں ہے

کچھ نہیں تو پھوک ہی گنے کا دے جو جل مرے
زندگی اپنی ملازم تیری شوگر مل میں ہے

بنک بیلنس بے تحاشا اور بنگلے بے شمار
یہ کرامت وقت کے ہر مرشدِ کامل میں ہے

وہ کسی میرا کے پاکیزہ الاپوں میں نہیں
جو ترنم خیز چھن چھن یار کی پائل میں ہے

ویسے رنگ و نور کے انوار پیرس میں نہیں
روشنی جو اپنی شامِ سرمئی مائل میں ہے

بول پاکستان! تیری نکہتوں کی ریل کار
کونسی وادی میں ہے اب کونسی منزل میں ہے

دور سے آواز دیتا آ رہا ہے کوئی قیس
قافلے والو رکو میرا خدا محمل میں ہے

آخرش ہونی تو ہے اک دن رسائی اُس تلک
جو مکاں اپنا زمینِ غیر مستعمل میں ہے

ایسے تو میں ہر جگہ موجود ہو سکتا نہیں
یہ کرشمہ اسمِ اللہ ذات کے عامل میں ہے

سبز ہونی چاہئے اس کی نمو ہر حال میں
اک لکیر سرخ جو چلتی خطِ فاصل ہے

کھیل کوئی ہارنے کے واسطے منصور کھیل
لطف جو لاحاصلی میں وہ کہاں حاصل میں ہے
 
مدیر کی آخری تدوین:
ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے

حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے

جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے


یہ تھے جناب منصور آفاق صاحب جو اپنے عمدہ اور منفرد کلام سے مشاعرہ کو مزین کر رہے تھے۔

مشاعرہ بالآخر اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ اب میں بلا تاخیر دعوت دینا چاہوں گا مشاعرہ کے مہمانِ خصوصی جناب منیر انور صاحب کو کہ وہ آئیں اور مشاعرہ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی فرمائیں اور اپنے خوبصورت کلام سے بھی قارئینِ مشاعرہ کے ذوق کی تسکین کا سامان کریں۔


ہمارا کیا ہے کہ ہم وہ ستم ظریف ہیں جو
یقین کرتے رہے ہیں گمان پر اکثر
لکیریں ہاتھ کی اکثر بگڑ گئیں انور
ستارے ٹوٹ گئے آسمان پر اکثر
٭
یہ اور بات کہ اب مصلحت شعار ہوئے
قریب میرے بھی ورنہ کبھی رہے ہو تم
کوئی رفیق نہ منزل نہ کوئی رخت سفر
یہ کس خمار میں ، کس سمت کو چلے ہو تم
فضائیں اس کی تمہیں اب بھی یاد کرتی ہیں
کہ جس دیار میں کچھ دن رہے بسے ہو تم
استقبال کیجئے

جناب منیر انور صاحب
 

منیر انور

محفلین
جناب صدر کی اجازت سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضورِ ربِ دو عالم غلام حاضر ہے
سب اپنے نقش لئے نا تمام حاضر ہے

یہ تیرا بندہ ، یہ سائل ترا ، ترا انور
بصد خلوص بصد احترام حاضر ہے

فقط ہے تجھ ہی سے روشن یہ کائناتِ ضمیر
حضورِ نور یہ ظلمت کی شام حاضر ہے

طلب یہ ہے کہ ملے آگہی کا سوز دروں
لئے زباں پہ مقدس کلام حاضر ہے

ترے کرم کی امیدیں سجائے پلکوں پر
مقام والے ترا بے مقام حاضر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت رسول مقبول، خاتم النبین صلى الله عليه وسلم
۔۔
نہ مال و زر نہ کلاہ و قبا سے مطلب تھا
انہیں ہمیشہ خدا کی رضا سے مطلب تھا

کسی بھی شخص سے مطلوب کچھ نہ تھا ان کو
فقط کرم سے غرض تھی ، عطا سے مطلب تھا

کچھ اور چاہتے کب تھے خدا کے بندوں سے
خدا کی راہ میں ان کی وفا سے مطلب تھا

رسولِ پاک انہیں لائے راستی کی طرف
کہ جن کو ظلم سے، کذب و ریا سے مطلب تھا

وہ برگزیدہ پیمبر وہ منتخب بندے
انہیں کہاں کسی حرص و ہوا سے مطلب تھا

کیا معاف سبھی کو فقط خدا کے لئے
انہیں سزا کی بجائے ہُدیٰ سے مطلب تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالات حاضرہ پر چند اشعار
۔۔۔
بغض دلوں میں بھرتے ہو کچھ شرم کرو
ڈالر، پونڈ پہ مرتے ہو کچھ شرم کرو

اپنے گھر پر، اپنے لوگوں پر لوگو
کیا کیا تہمت دھرتے ہو کچھ شرم کرو

جس تھالی میں کھاتے عمر گذاری ہے
چھید اسی میں کرتے ہو کچھ شرم کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں ایک غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا
۔۔۔

تو اگر پیاس آشنا ہوتا
میرا صحرا ہرا بھرا ہوتا

خامشی باوقار ہے جیسے
معتبر تیرا بولنا ہوتا

اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا

حاسدوں کی کہاں کمی تھی ہمیں
تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا

عمر بھر گھر جلائے ظالم نے
کسی دل کا سکوں رہا ہوتا

کم نسب دشمنوں سے مل بیٹھا
اس سے اچھا تھا مر گیا ہوتا

کائنات ضمیر زندہ ہے
ورنہ میں تیرا ہم نوا ہوتا

تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر
میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا

در بہ در خاک چھاننے والے
مجھ سے پیمان کر لیا ہوتا

وہ میسر نہیں رہا ورنہ
میں اسے کب کا کھو چکا ہوتا

کس قدر سوچتے ہو تم انور
ارے اظہار کر دیا ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ محفلین۔ اللہ حافظ
 
مدیر کی آخری تدوین:
ترے کرم کی امیدیں سجائے پلکوں پر
مقام والے ترا بے مقام حاضر ہے
٭
کیا معاف سبھی کو فقط خدا کے لئے
انہیں سزا کی بجائے ہُدیٰ سے مطلب تھا
٭
خامشی باوقار ہے جیسے
معتبر تیرا بولنا ہوتا

اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا​

یہ تھے محترم جناب منیر انور صاحب جو گلہائے عقیدت اور خوبصورت غزل پیش کر رہے تھے۔ ہم ان کے ممنون ہیں کہ انہوں نے اردو محفل مشاعرہ میں وقت دے کر مشاعرہ کی رونق بڑھائی اور اور ہماری حوصلہ افزائی کا باعث بنے۔
---
اور اب مشاعرہ کے اختتام پر میں ملتمس ہوں صدرِ مشاعرہ استادِ محفل محترم جناب اعجاز عبید صاحب سے کہ وہ آئیں اور اردو محفل مشاعرہ کے حوالے سے اپنی گذارشات بھی پیش کریں اور اپنے کلامِ معطر سے بھی مشاعرہ کو مہکائیں۔ آپ اردو ادب کے حوالے سے نہ صرف ایک معتبر نام ہیں بلکہ اردو کی ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے بھی ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں۔

دعا کرو کہ دعا میں مری اثر ہو جائے
میں اس کا نام نہ لوں، اور اسے خبر ہوجائے
بس اب یہ آخری خواہش بچی ہے، اس کے حضور
یہ صرف سادہ مرا حرف معتبر ہوجائے
بس اک شرار خسِ خشک جاں کو کافی ہے
چلو کہ آج تماشہ یہ رات پھر ہوجائے
٭
کون مجرم ہے کہ دوری ہے وہی پہلی سی
پاس آ کر چلے جانے کی ادا کس کی تھی
دل تو سلگا تھا مگر آنکھوں میں آنسو کیوں آئے
مل گئی کس کو سزا اور خطا کس کی تھی
شام آتے ہی اتر آئے مرے گاؤں میں رنگ
جس کے یہ رنگ تھے ، جانے وہ قبا کس کی تھی
٭​
نہایت ادب و احترام کے ساتھ بغیر کسی تاخیر کے مائک سونپتا ہوں محترم اعجاز عبید صاحب کو
 

الف عین

لائبریرین
تمام محفلینس کو سلام عرض ہے۔

سب سے پہلے تو میں اس بات کی یاد دہانی کر دوں جو ممکن ہے کہ سب کے ذہن سےمحو ہو چکا ہو کہ یہ پیاری پیاری محفل اردو محفل کی گیارویں سالگرہ کی تقریب میں رکھی گئی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے تو میں بانیان محفل، اور ان میں مَیں بزعم خود، خود کو بھی شمار کرتا ہوں، کو مبارکباد دوں۔ نبیل جن کے ذہن میں پہلی بار یہ خیال آیا کہ اردو کی ترویج کے لیے ایسی ایک محفل شروع کی جائے، اور زیک اور دوسرے بانیوں نے جو اب محفل میں فعال نہیں ہیں، اس پر لبیک کہا۔ تو نبیل اور زیک کو محفل کی سالگرہ ایک بار پھر بہت بہت مبارک ہو۔ اور ان کے بعد نئے منتظم ابن سعید اور پھر تمام محفلینس ہی نہیں، تمام اردو دنیا کو بھی مبارک ہو۔

پہلی بار اس مشاعرے کا انعقاد اس پیمانے پر ہوا ہے کہ بہت سے اردو شاعری کے اہم ناموں نے محض اس محفل میں شرکت کے لئے اردو محفل کی رکنیت حاصل کی ہے۔ میں ان نئے ممبران کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ ادریس آزاد، یاور ماجد اور ایمان قیصرانی کے نام ذہن میں آ رہے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے۔ اور اس کا تمام تر کریڈٹ منتظمین مشاعرہ کو جاتا ہے۔ میں @محمدخلیل الرحمن ، محمد تابش صدیقی ، مقدس حیات اور محمد بلال اعظم کو مبارکباد دیتا ہوں۔

بزرگی کے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں۔ ایک فائدہ تو یہی ہوتا ہے کہ سب ادبدا کر اس کو صدارت کی کرسی پر بٹھا دیتے ہیں۔ تو محض یہی وجہ ہے کہ میں یہاں صدارتی خطاب جھاڑنے کا شرف حاصل کر رہا ہوں۔ دوسرے بزرگوں کو بھی کبھی کبھی موقع دینا چاہیے۔ میں محمد یعقوب آسی کی کمی بھی محسوس کر رہا ہوں جو نہ جانے کس بات پر ناراض ہیں۔بہر حال۔

مشاعرے میں شعرائے کرام نے واقعی بہت عمدہ کلام پیش کیا ۔ تمام کی خدمت میں داد تحسین پیش کرتا ہوں۔

میں خود کو تو آج کل ’سابق شاعر‘ کہنے لگا ہوں۔ آج کل خاموشی ہی ایسی طاری تھی۔ بہر حال اس مشاعرے کی وجہ سے کچھ جمود ٹوٹا ہے۔ جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
پہلے ایک پرانی غزل: جس کے ایک شعر سے اپنے ایک مجموعے کا نام بھی برآمد کیا تھا۔ شاید کچھ لوگوں نے اس مجموعے میں پڑھ لی ہو گی۔ اب دوبارہ سہی! تو عرض ہے:

ہزار یادوں نے محفل یہاں سجائی۔۔۔ پر
جو نیند آتی ہے سولی پہ بھی، سو آئی ۔۔ پر

سلگتی ریت کو دو دن میں بھول جائیں نہ ہم
یہ ایک شعر ہے اپنی برہنہ پائی پر

میں فرشِ خاک پہ لیٹوں تو سوتا رہتا ہوں
ہزار خواب اترتے ہیں چار پائی پر

نہ جانے کب مری آنکھوں سے اشک چھن جائیں
بھروسہ اب نہیں کرتا ہے بھائی بھائی پر

عطا کرے مجھے اقلیمِ شعر کی شاہی
یہ شک نہیں ہے مجھے تیری کبریائی پر

اب کچھ تازہ اشعار ۔چار عدد تو یہ ہیں۔
عرض کیا ہے۔

اپنی دھرتی سے تکوں، عرش بریں سے دیکھوں
ایک ہی شکل نظر آئے، کہیں سے دیکھوں

آج یہ خواب جہاں ٹوٹا، جہاں چھوٹا ہے
کاش پھر سے نظر آئے، تو وہیں سے دیکھوں

ذرۂ خاک ہوں کیا اس کو دکھائی دوں گا
وہ ستارہ ہے، اسے اپنی زمیں سے دیکھوں

میرا اللہ مری آنکھوں سے اوجھل ہی سہی
اس کو سجدہ کروں، اور اپنی جبیں سے دیکھوں

مزید تازہ، یہ بھی چار عدد، لیکن یہ طے نہیں کہ ردیف قوافی کیا ہوں گے۔ دو غزلیں کہی جائیں، یا ’ایطا‘ کا اعتراف کر کے ایک ہی غزل میں شامل کر دوں۔

آبلے پھوٹ بہیں، چھاؤں گھنی ہو جائے
اور پھر جشنِ غریب الوطنی ہو جائے

ظلم ڈھا لے تو، کرم جان کے کر لوں گا قبول
یوں نہ ہو، تیری کہیں دل شکنی ہو جائے

زلف کی چھاؤں کہیں ہے تو کہیں سایۂ دار
کچھ بھی مل جائے، مری شب بسری ہو جائے

دل کی دل میں ہی رکھیں، ہونٹوں کو سی لیجے عبید
یہ خطا، کیا پتا، گردن زدنی ہو جائے

اور آخر میں ٹوٹے پھوٹے کچھ اشعار جو دی گئی طرح میں ممکن ہو سکے ہیں۔ صاف لگتا ہے کہ زبردستی کے ہیں!!

غالباً کچھ کہہ رہا ہے یہ سمندر کا سکوت
اب کہاں وہ اضطراب اس موجۂ ساحل میں ہے

ہاتھ بھی تھامے ہو، چھپ کر وار بھی کرتے ہو تم
یہ کہاں کی دوستی ہے جو تمہارے دل میں ہے

اور یہ نمکین شعر:
بھائی مجنوں، اپنی لیلیٰ کو تو ڈھونڈھو اور جا
یہ تو میری ہی محل ہے جو کہ اس محمل میں ہے
اب اس خوش گوار محفل کو ختم کیا جائے۔اردو محفل اور تمام اراکین کے لئے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ اب اجازت۔
 
نہ جانے کب مری آنکھوں سے اشک چھن جائیں
بھروسہ اب نہیں کرتا ہے بھائی بھائی پر

عطا کرے مجھے اقلیمِ شعر کی شاہی
یہ شک نہیں ہے مجھے تیری کبریائی پر
٭
آج یہ خواب جہاں ٹوٹا، جہاں چھوٹا ہے
کاش پھر سے نظر آئے، تو وہیں سے دیکھوں

ذرۂ خاک ہوں کیا اس کو دکھائی دوں گا
وہ ستارہ ہے، اسے اپنی زمیں سے دیکھوں

میرا اللہ مری آنکھوں سے اوجھل ہی سہی
اس کو سجدہ کروں، اور اپنی جبیں سے دیکھوں
٭​

صدرِ مشاعرہ کے ان تاثرات اور خوبصورت کلام کے ساتھ ہی اردو محفل مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ تمام شعراء کا شکریہ کہ جنہوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر مشاعرہ کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا۔ قارئینِ مشاعرہ کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر شعراء اور منتظمین کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اور مشاعرہ میں پے در پے آنے والے تعطل کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
محمد خلیل الرحمٰن صاحب کا تہِ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالا بلکہ مجھ جیسے نو آموز منتظم کو انگلی پکڑ کر چلایا۔
مقدس بہن کا بھی ممنون ہوں کہ شاعری میں عدم دلچسپی کے باوجود اردو محفل کی محبت میں مشاعرہ کی کامیابی کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ ایک وقت جب مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے ہی مشاعرہ کے انعقاد کے حوالے سے مسائل کا سامنا تھا، تو مقدس بہن نے ہی حوصلہ دیا اور مشاعرہ ہر صورت میں ہونے کی یقین دیانی کروائی۔
حسن محمود جماعتی بھائی کا شکر گذار ہوں کہ جنہوں نے باحسن و خوبی مشاعرہ کے انتظامات میں اپنا کردار ادا کیا۔
محمد بلال اعظم بھائی کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے شدید تعلیمی مصروفیات کے باوجودمشاعرہ کے انتظامات میں حصہ لیا۔
مشاعرہ کے انتظامات میں اگر کوئی کمی بیشی رہ گئی ہو تو نا تجربہ کاری سمجھ کر معاف کر دیجئے گا۔
فاتح بھائی کا بھی تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ منتظم نہ ہوتے ہوئے بھی مشاعرہ کی کامیابی میں ایک اہم کردار ادا کیا اور اس بات کو ممکن بنایا کہ موجودہ دور کے معتبر شعراء اس محفل کا حصہ بن سکیں۔
جو شعراء شرکت کرنا چاہتے تھے اور بوجوہ ان کو اطلاع نہ ہو سکی، ان سے بھی معذرت کا خواست گذار ہوں،
اس دعا کہ ساتھ اجازت چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ محفل کو ہمیشہ پھلتا پھولتا رکھے۔ اور ہمارے درمیان محبتوں کو قائم دائم رکھے۔ رنجشوں اور کدورتوں کو بھول جانے اور معاف کر دینے کا حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین
جزاک اللہ
 
آخری تدوین:
مشاعرہ منعقد کروانے والی ٹیم بشمول ناظمین، صدر، سرپرست، کارکنان و دیگر احباب ڈھیروں مبارکباد کی مستحق ہے۔ اور ان تمام شعرا کے لیے نذرانہ داد و ستائش جنھوں نے اپنے کلام سے محفل کو رونق بخشی۔ بظاہر مشاعرہ بعض اوقات سست روی کا شکار نظر آیا لیکن ہماری خادمانہ قوتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ ٹیم مشاعرہ اس دوران بھی مکمل حرکت میں رہی اور اپنی مستعدی میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ جو بھی تاخیر ہوئی وہ آن لائن تال میل کے مسائل کا نتیجہ رہی خواہ وہ بر وقت متعلقہ شعرا کی عدم دستیابی کا مسئلہ ہو یا پھر مختلف اوقات کار والے ممالک میں موجود احباب کے روابط کا۔ ٹیم مشاعرہ کی کوشش رہی کہ شعرا اپنا کلام اپنی باری آنے پر خود پیش کریں، وگرنہ سبھی کا کلام آف لائن جمع کر کے بالترتیب شائع کر کے یہ کام ایک دن میں نمٹایا جا سکتا تھا، جو کہ مشاعرے کے رواج کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ عالمی سطح پر آن لائن مشاعرہ چند ایام یا چند ہفتوں پر محیط ہونا عین متوقع ہے۔ ان تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے مستقبل میں قدرے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ زیادہ منظم انداز میں مشاعروں اور دیگر تقریبات کے انعقاد کی کوشش کی جانی چاہیے۔ :) :) :)

آج ہم نے کچھ فرصت نکال کر اس لڑی سے غیر ضروری مراسلے متعلقہ مقامات پر منتقل کر دیے ہیں اور اب اس لڑی کو مقفل کر رہے ہیں۔ :) :) :)

مشاعرہ منعقد کروانے اور اسے بخوبی تکمیل تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے احباب کے لیے ہم پر ایک عدد شاندار دعوت ادھار رہی۔ "ٹیم مشاعرہ یو ہیو ڈن آ فیبولس جاب!" :) :) :)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top