سترھویں سالگرہ اردو محفل فورم کی سترہویں سالگرہ کے موقعے پر آپ کی تحریر

شمشاد

لائبریرین
اردو محفل کی ۱۷ویں سالگرہ بڑی دھوم دھام سے منائی جا رہی ہے۔

میری ایک تجویز ہے کہ اردو محفل کا ہر رکن اس لڑی میں اپنی کوئی نہ کوئی تحریر شریک محفل کرے۔ وہ کوئی واقعہ بھی ہو سکتا ہے، بچوں سے متعلق ہو، اسکول کالج یا یونیورسٹی کی کوئی بھولی بسری یاد، بازار میں پیش آیا کوئی واقعہ، یعنی کہ کچھ بھی لکھ دیں۔ تحریر کم از کم دس سطری تو ہو، طوالت پر کوئی پابندی نہیں۔

شرط صرف ایک ہی ہے کہ تحریر شائستہ ہو اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر لکھی گئی ہو۔ تو

سب سے پہلے میں اپنا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تب کا قصہ ہے جب میری اسلام آباد میں کراکری کی دکان ہوا کرتی تھی۔ میری دکان میں بہت زیادہ ورائٹی تھی۔ مقامی مصنوعات کے علاوہ غیر ممالک سے درآمد کی گئی بہترین اور مہنگی کراکری بھی تھی۔ ایک دن ایک فیملی، اتفاق سے وہ خاتون اردو محفل کی رکن بھی ہیں، میری دکان پر آئی۔ خاتون خانہ نے گھوم پھر کر شیشے کے غیر ملکی گلاس پسند کیے۔ یہ گلاس فرانس کے بنے ہوئے تھے، انتہائی نازک اور بہت ہی خوبصورت تھے۔ خاتون نے قیمت پوچھنےکی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور سیلز مین کو بارہ عدد گلاس پیک کرنے کا کہا۔اس میں شک نہیں کہ خاتون خانہ کی پسند بہت ہی اعلیٰ تھی۔ اب ہوا یہ کہ گلاس تو خاتون نے پسند کر لیے جبکہ ان کے شوہر نامدار کو وہ گلاس بالکل بھی پسند نہیں آئے۔ یہ نہیں کہ ان کی قیمت زیادہ تھی، بس وہ اس بات پر اڑ گئے کہ یہ گلاس نہیں لینے۔سیلز مین نےبھی خاتون کی پسند کو سراہا اور صاحب کو اس بات پر قائل کرنا چاہا کہ یہ گلاس بہت اچھے ہیں۔ اب صاحب مصر ہیں کہ کوئی اور گلاس لے لیں اور خاتون کا اصرار تھا کہ یہی لینے ہیں۔ مزید یہ کہ سیلز مین نے بھی سفارش کی کہ یہی گلاس لے لیں۔ عقدہ تب کُھلا جب صاحب کہنے لگے کہ یار میرا اس میں ہاتھ نہیں جاتا، میں انہیں دھوؤں گا کیسے؟ اور تم ہو کہ یہی گلاس بیچنے کے چکر میں ہو۔

لیکن وہ بیوی ہی کیا جو شوہر کی بات مان لے۔ خاتون خانہ نے اپنی بات منوا کر ہی چھوڑی۔
 

علی وقار

محفلین
یہ تب کا قصہ ہے جب میری اسلام آباد میں کراکری کی دکان ہوا کرتی تھی۔ میری دکان میں بہت زیادہ ورائٹی تھی۔ مقامی مصنوعات کے علاوہ غیر ممالک سے درآمد کی گئی بہترین اور مہنگی کراکری بھی تھی۔ ایک دن ایک فیملی، اتفاق سے وہ خاتون اردو محفل کی رکن بھی ہیں، میری دکان پر آئی۔ خاتون خانہ نے گھوم پھر کر شیشے کے غیر ملکی گلاس پسند کیے۔ یہ گلاس فرانس کے بنے ہوئے تھے، انتہائی نازک اور بہت ہی خوبصورت تھے۔ خاتون نے قیمت پوچھنےکی زحمت ہی گوارا نہیں کی اور سیلز مین کو بارہ عدد گلاس پیک کرنے کا کہا۔اس میں شک نہیں کہ خاتون خانہ کی پسند بہت ہی اعلیٰ تھی۔ اب ہوا یہ کہ گلاس تو خاتون نے پسند کر لیے جبکہ ان کے شوہر نامدار کو وہ گلاس بالکل بھی پسند نہیں آئے۔ یہ نہیں کہ ان کی قیمت زیادہ تھی، بس وہ اس بات پر اڑ گئے کہ یہ گلاس نہیں لینے۔سیلز مین نےبھی خاتون کی پسند کو سراہا اور صاحب کو اس بات پر قائل کرنا چاہا کہ یہ گلاس بہت اچھے ہیں۔ اب صاحب مصر ہیں کہ کوئی اور گلاس لے لیں اور خاتون کا اصرار تھا کہ یہی لینے ہیں۔ مزید یہ کہ سیلز مین نے بھی سفارش کی کہ یہی گلاس لے لیں۔ عقدہ تب کُھلا جب صاحب کہنے لگے کہ یار میرا اس میں ہاتھ نہیں جاتا، میں انہیں دھوؤں گا کیسے؟ اور تم ہو کہ یہی گلاس بیچنے کے چکر میں ہو۔

لیکن وہ بیوی ہی کیا جو شوہر کی بات مان لے۔ خاتون خانہ نے اپنی بات منوا کر ہی چھوڑی۔
بہت اعلیٰ!
 

علی وقار

محفلین
بات تو کچھ ایسی مزے دار نہیں مگر یہ لڑی دلچسپ لگی سو محض شرکت کے لیے لکھ دیتا ہوں۔ شاید اس میں کوئی ہنسی مذاق کا پہلونکل آئے۔ ہم یار دوست لائبریری میں بیٹھے تھے۔ ایک دوست کے بارے میں معروف تھا کہ ان سے ڈھنگ کی کوئی بات بعید ہے، کھانے پینے کے علاوہ کوئی کام نہیں، شاید وہ ہمارے واحد دوست تھے جنہیں کتاب پڑھنے سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا، وہ دوستوں کی محبت میں لائبریری پہنچ جاتے تھے اور ہمیں بہت عزیز تھے۔ ایک روز میری وہاں انٹری ہوئی تو میں نے اپنے گنہگار کانوں سے انہیں فرماتے سنا، یارو یہ جو پیار کی پرتیں ہوتی ہیں نا ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یقین جانیں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ان کی زبان مبارک سے فلسفیانہ گفتگو سننے کو مل رہی تھی سو میں نے خصوصی طور پر پیار کی پرتوں کے متعلق پوچھا اور کہا کچھ یہ عقدا وا کریں حضرت توفٹ مکر گئے، کہنے لگے، یار کون سے پیار کی پرتیں۔ میں نے کہا، میں نے ابھی سنا، تو گویا ہوئے، یار تمہاری تو کوئی اپنی ہی دنیا ہے، پیار کی پرتیں نہیں، پیاز کی پرتیں۔ میں انہیں عید قربان کی ایک ڈش کی ترکیب بتا رہا تھا۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
۔ عقدہ تب کُھلا جب صاحب کہنے لگے کہ یار میرا اس میں ہاتھ نہیں جاتا، میں انہیں دھوؤں گا کیسے؟ اور تم ہو کہ یہی گلاس بیچنے کے چکر میں ہو۔

لیکن وہ بیوی ہی کیا جو شوہر کی بات مان لے۔ خاتون خانہ نے اپنی بات منوا کر ہی چھوڑی۔
بہت بہترین ۔۔۔بیچارہ شوہر 😱😱😱😱😱
 
میں آیا نہیں ہوں بلایا گیا ہوں
کھلایا نہیں میں پلایا گیا ہوں
دبئی کے دنوں یعنی اپریل مئی 2003 کا ایک واقعہ ہے ۔ میں طلحہ اور اس کی ماں کے ساتھ العین کی ایک مارکیٹ مرکز الفلاح کے پچھلی سائیڈ ایک مرکز کے ایم ہوا کرتا تھا وہاں گیا ۔ طلحہ ابھی چھوٹا ہی تھا ۔ شاید ایک ڈیڑھ ماہ کا تو وہ اسٹرالر میں تھا ۔ میں چھبیس سال کا تھا اور وزن میرا تھا کم و بیش 120 کلو کے قریب ۔ ہم لوگ مارکیٹ کے اندر جیسے ہی داخل ہوئے ایک خاتون اپنے خاوند سے کہنے لگی ۔ دھیان نال ۔ ایہہ ٹینکر کولوں بچ کے ۔ اب یہ بات میں نے سن لی اور ایسے ناٹک کیا جیسے میں نے کچھ سنا ہی ناں ہو ، پھر جب گھر آگئے تو میں نے اپنی اس وقت کی زوجہ ام طلحہ کو یہ معاملہ بتایا تو وہ بہت محظوظ ہوئیں اور جب تک ہمارا ساتھ رہا ہم اس واقعہ کو یاد کر کر کے ہنستے رہے ۔
 

زوجہ اظہر

محفلین
وہ تو صحیح ہے، لیکن لڑی کے عنوان کی مناسبت سے آپ کی تحریر کا انتظار ہے۔
پانچ سال
محفل میں شامل ہوئے پانچ سال گذرے ، شروع سالوں تو تقریبا خاموش قاری رہی پھر تھوڑا تھوڑا حصہ ڈالنا شروع کیا
خیال یہی رہا کہ کبھی کچھ لکھا ، تو تحریر ایک جگہ موجود رہے -
محفل پر آئی ڈی بناتے وقت مسز اظہر کےاردو ترجمے"زوجہ اظہر" کا انتخاب کیا
البتہ کبھی کسی سے ذاتی مکالمے میں بات ہوئی تو سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا ۔
اس تحریر کو لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ حلفا بیان کردوں کہ
بھئ میں "مسٹر اظہر " نہیں بلکہ " مسز اظہر " ہی ہوں 🙂🙂

ذاتی طور پر مجھے محفل پر اپنا نام پسند ہے اور محفلین جب زوجہ اظہر بہن یا صاحبہ کہتے ہیں ، تو خوشی محسوس ہوتی ہے
پھر ایک اور انسیت میری اور محفل کی سالگرہ کا ایک ساتھ ہونا ہے
پہلے بھی لکھا تھا کہ محفل ایک سہیلی کی طرح ساتھ ہے جس سے اکثر دن میں کئی دفعہ ملاقات رہتی ہے
عید کی مصروفیات میں فوری طور پر کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا لکھا جائے بس کچھ چیزیں ذہن میں تھیں
سو درج کردیں
سلامت رہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پانچ سال
محفل میں شامل ہوئے پانچ سال گذرے ، شروع سالوں تو تقریبا خاموش قاری رہی پھر تھوڑا تھوڑا حصہ ڈالنا شروع کیا
خیال یہی رہا کہ کبھی کچھ لکھا ، تو تحریر ایک جگہ موجود رہے -
محفل پر آئی ڈی بناتے وقت مسز اظہر کےاردو ترجمے"زوجہ اظہر" کا انتخاب کیا
البتہ کبھی کسی سے ذاتی مکالمے میں بات ہوئی تو سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا ۔
اس تحریر کو لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ حلفا بیان کردوں کہ
بھئ میں "مسٹر اظہر " نہیں بلکہ " مسز اظہر " ہی ہوں 🙂🙂

ذاتی طور پر مجھے محفل پر اپنا نام پسند ہے اور محفلین جب زوجہ اظہر بہن یا صاحبہ کہتے ہیں ، تو خوشی محسوس ہوتی ہے
پھر ایک اور انسیت میری اور محفل کی سالگرہ کا ایک ساتھ ہونا ہے
پہلے بھی لکھا تھا کہ محفل ایک سہیلی کی طرح ساتھ ہے جس سے اکثر دن میں کئی دفعہ ملاقات رہتی ہے
عید کی مصروفیات میں فوری طور پر کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا لکھا جائے بس کچھ چیزیں ذہن میں تھیں
سو درج کردیں
سلامت رہیں
سلامت رہیں بہنا۔
اور اپنی تحاریر سے محفل کی رونق بھی بڑھاتی رہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
گھر کے کام کاج پر تو اماّں نے بچپن سے ہى لگا ديا تھا سب کے کام بانٹ ديے تھے برتن ، صفائى ، کھانا پکانا اور کپڑے دھونا استرى کرنا جو معمول کے ہوتے ہر ماہ بعد ہمارے کام تبديل کئے جاتے مطلب ڈيوٹياں بدل جاتيں جو برتن دھوتى اسے کوئى اور کام مل جاتا مجھے سمجھ نہیں آتى تھى ۔۔۔۔۔۔۔
اماّں ايسا کيوں کرتى ہیں کہ ايک کام سے جب واقفیت اور دوستى ہو جاتى ۔۔۔۔۔ تو کوئى دوسرا کام ذمے لگا ديتى ہیں ان کى سوچ يہ کہ بيٹى کو گھر کا ہر کام آتا ہو اور مہارت ہو!!!! خير زندگى گزرتى رہى اور پتہ ہى نہ چلا پڑھائى اور اماّں کى نصيحتوں سے نمپٹتے ہمارى شادى ہو گئى اور يوں ايک دن اس سانحہ سے دوچار ہونا پڑا جس رخصتی کا بڑا اہتمام کيا جاتا ہے بہت روپے لگائے جاتے ہیں خير اس سحر انگیز ہجرت کے بعد خير سے سسرال آ گئے سب کچھ بدل گيا اطوار انداز اور سمجھو اک امتحان شروع ہو گيا جس میں کمزورى پر صرف آپ کو ہى برا بھلا نہیں کہا جاتا بلکہ آپ کے والدين اور گھر کى تربيت پر نام آجاتا ہے ۔۔۔۔ مطلب پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہڑتا وہ سارے محاورے ياد رکھنے پڑتے کہ ؀ پہلے تولو پھر بولو
آج کا کام کل پر مت ٹالو
با ادب با نصيب !!!!!!!!!!!!!!!!؟؟؟!
ہر وقت اماّں سنائیں کام پیارا ہوتا ہے چام کسی کو پیارا نہیں ہوتا
ہر گھڑى ہنسی خوشی تيار و کامران رہنا پڑتا !!!!!! رجب میں شادی ہوئی !!دو مہینے بعد سسرال میں پہلى عيد آگئی افف توبہ سارا دن کام کے علاوہ جو پورا دن تيار رہنا پڑا ہر آئے رشتہ دار کے سامنے جانا پڑا کہ يہ ہے ہمارى بہو ہر آنٹى چچى پھپو کى نصيحتوں پر اثبات میں سر ہلانا ان کى جوانى کے قصے سننا چوڑياں ايک ہاتھ میں کيوں آئے ہائے بہو دونوں ہاتھوں میں جب تک چوڑى کى کھنک نہ ہو تو!!!!!!!!فوراً بد شگونی ہوجاتی ۔۔۔ کہ اتنا حبس گرمى!!!! کچن کڑھائى والے کپڑے !!!! زيور چوڑى کا کوئى آپس میں تعلق رشتہ بنتا ہے۔بھلا ۔۔ پھر چوڑياں پہن کر آٹا گوندھنا روٹى بنانا برتن دھونا اچھا بھلا مشکل کام ہے اوپر سے ميک اپ بھى نہ بہنے پائے ايسے ايسے کرشموں سے گذر کر کامياب اور ہر دل عزیز بہو بننا بھی ہر ایک کا خواب ہے ۔۔۔۔ اب ياد آ ئیں ساری وہ پرانى عيديں جو اماں کے گھر گذريں کيا دور تھا کہ عيد پہلے ہى اماّں سے طے کر ليتے !!!!!! کہ عيد سے پہلے جتنے مرضى کام کروا ليں ليکن عيد کے تين دن نہ کچن میں قدم رکھیں گے!!!!!!! برتن نہ ڈسٹنگ اور ہماری معصوم اماّں سب شرائط مان لیتیں ۔۔۔۔ مزے سے جو دل چاہتا پہنتے !!!! کوئى شرط نہیں کہ يوں بيٹھو يوں اٹھو اور رات کو کچن کو سمیٹنے سے تو شديد الرجی تھى اب رات کو ايک آواز نند کى روز رات کو سنتى بھابھی کچن سميٹ ليں سب چيزيں فريج میں رکھ ديں يہ وہ فلاں فلاں ______ بہرحال زندگى کے ہر مرحلے سے لطف اندوز ہو کر آگے بڑھا جائے تو زيادہ اچھا ہے يہ ہماری سوچ ہے آگے آپ کى مرضى سے اگر رولا ڈالنا ہے تو دونوں کی زندگی مشکل !!!!!!!! ذاتی تجربات میں آپ سب کو شامل کرلیا۔۔۔۔جس سے کم و بیش ہر لڑکی کو گذرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا ہی ہوں کہ مجھے آج ابو نے کلینک پر بلایا۔ امتحان سے فراغت کے بعد نتائج تک فارغ رہنے کی بجائے کچھ کر لو یہ لو دو ہزار روپیہ اور کچھ بن کے دکھاؤ۔ زندگی میں عملیت پسندی بہت ضروری ہے ابھی تمہاری عمر ہے ابھی سے عادت پڑ جائے گی تو ساری عمر کسی سے مانگنے یا ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں نے اس پر سوائے جی ڈیڈی کہنے کے اور کچھ نہیں کہا۔ جانتا تھا کہ والد محترم خود میٹرک کے بعد لاہور آگئے تھے اور اپنی تمام عمر کسی پر تکیہ نہیں کیا۔ خود ہی پڑھتے بھی رہے ، کلینک کیا، شادی کی اور اپنا گھر بھی بنایا۔ تو تین بھائیوں میں منجھلا ہونے کے ناطے مجھے ہی والد کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ دوسرے ہی دن صبح اٹھا شریف قسطوں والے کے پاس جا کر سائیکل قسطوں پر لی۔ شریف مجھے جانتا تھا اور والد صاحب کو بھی لہذا کوئی جان پہچان بتانے کی ضرورت نہ پڑی چھے سو روپے ایڈوانس دیا اور ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر سائیکل لے لی۔ والد کے دو ہزار سے اب چودہ سو روپے باقی بچے تھے۔ ایک محلے دار تھے صوفی بشیر صاحب ان سے بات کی اور ان سے گولیاں ٹافیاں خرید کر سائیکل کے پیچھے ایک کارٹن باندھ کر اس میں سجالیں۔ایک ایک دو دو روپے منافع رکھ کر نکل پڑا قسمت پڑیوں میں تین چار روپے بچ جاتے تھے جبکہ آٹھ روپے کی فانٹا گولی میں ڈیڑھ روپیہ بچتا تھا، بسکٹ میں تین روپے کی بچت تھی اس طرح تمام سامان کی قیمتیں لکھ کر ساتھ رکھیں اور شہر میں نکل پڑا، تین چار گھنٹے میں سامان بک گیا اور سائیکل خالی ہو گئی گھر آ کر پیسے گنے تو ایک سو تیرہ روپے کی بچت ہوئی تھی۔ امی کو ایک سو روپیہ دیا تو بلائیں لینے لگیں فورا کاشف کو بھیج کر نمک پارے اور بدانہ منگوا لیا ختم پڑھا کر شکر کر کے بانٹ دیا اور باقی پیسے ایک محلے کی بیوہ خاتون جسے مائی خیراں کہتے تھے ان کی خدمت میں بھیج دیا۔ یہ تھی اپنے بیٹے کی پہلی کمائی ۔ عمر چودہ پندرہ سال سائیکل پر جاکر گولیاں ٹافیاں بیچتا اور اسی طرح نتیجہ آگیا ۔ میٹرک میں باسٹھ فیصد نمبر لے کر پاس ہوا تو داخلے کے کاغذات گورنمنٹ کالج، ایف سی کالج اور سول لائنز کالج میں جمع کروائے۔ والدہ سے چھوٹی چھوٹی چخ چخ چلتی رہتی تھی کب سنجیدہ ہو گئی اور ان چھٹیوں میں ہی والد صاحب کی دوسری شادی ہوگئی اور وہ نئی زندگی کی طرف مشغول ہوگئے ۔پھر جیسا ہمارے معاشرے میں ہوا کرتا ہے پہلے والدہ کافی عرصہ ڈسٹرب رہیں اس دوران گھر کا خرچ گولیاں ٹافیاں اور سائیکل اٹھاتی رہی جبکہ شام کو ایک جاننے والے کے میڈیکل اسٹور پر ساتھ کے ساتھ بطور معاون کام بھی چلتا رہا۔ چھٹیوں کے بعد سول لائنز کالج میں پڑھائی شروع ہوئی ، کالج میں کشتی اور باکسنگ کی ٹیموں میں شرکت کی اور پڑھائی بھی چلتی رہی اور ساتھ ساتھ کاروبار بھی ۔ دوست یار ہنستے کہ کیا گولیاں ٹافیاں بیچتے ہو لیکن کبھی شرم نہ آئی کرتے کرتے کچھ عرصہ بعد والد صاحب نے گولیاں ٹافیاں بیچنے سے منع کیا کہ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر کا بیٹا گولیاں ٹافیاں بیچتا ہے۔ انٹر میڈیٹ کر لیا۔ میڈیکل اسٹور پر کام کرتے کرتے دواؤں کے نئے برانڈز سے تعارف ہو چکا تھا۔ فارمولیشن، مرہم پٹی کرنا، ٹانکے لگانا پہلے ہی آتا تھا۔ ڈاکٹر کے بیٹے تھے لہذا ڈاکٹر (عطائی) بن کر بیٹھ گئے۔ اپنا کلینک کر لیا۔ میٹھی گولیاں ٹافیاں بسکٹ بیچنے چھوڑ کر کڑوی گولیاں ، ٹیکے لگانے شروع کر دیئے ۔ اس دوران ایک دوست جس کے بھائی کی اپنی میڈیکل لیبارٹری تھی کی وساطت سے لیبارٹری کا کام سیکھنے لگے۔ رات کی ڈیوٹی لگوا لی نیا نیا دنیا میں نکلا نرسیں دیکھیں ، ایک پر لٹو ہو گیا۔ شام کلینک، رات لیبارٹری اور دن میں سول ڈیفنس میں کام کرنا شروع کر دیا۔ایک جانب یہ مصروفیات دوسری جانب عشق کا بھوت ۔ جوانی نرالی شے ہے جی ۔ پیسے، مصروفیت اور عشق کے ساتھ ساتھ وردی بھی ہو تو انسان اس دنیا میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ آخرش ایک دن محبوبہ کو کسی اور میں دل چسپی لیتے دیکھ لیا۔ بریک اپ ہوگیا ۔ ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوگیا۔ پھر ایک ماہر نفسیات سے رابطہ کیا اس نے لیگزوٹانل جیسی دوائیں دینا شروع کر دیں ۔جو کچھ دن استعمال کے بعد چھوڑ دیں کہ یہ فضول نشے پر لگا دیں گی۔ اداس شکل نہ آنے کا پتہ نہ جانے کا علم۔ ماں پریشان میرے بیٹے کو کیا ہو گیا۔ ایک گھر میں لڑکی پسند کر کے اس سے رشتہ طے کردیا۔ لیبارٹری کی نوکری اب ترقی کر چکی تھی اور اسسٹنٹ پیتھالوجسٹ کا کام کیا جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ سول ڈیفنس اور کلینک بھی جاری تھا ۔ چلتے چلتے شادی ہوگئی اور شازیہ گھر میں آگئی۔ شازیہ کا والد اور بھائی عمان میں ہوتے تھے۔ اس دوران والد کی بے توجہی اور والد کی نئی بیگم کی توجہ کے باعث گھر ٹوٹ رہا تھا۔ والدہ سے والد کی چپقلش کی وجہ سے ڈسٹرب ہو کر والد سے برگشتہ ہوگئے ۔ جھگڑے شروع ہوگئے ۔ والد اور والدہ میں علیحدگی اور بالآخر طلاق تک نوبت آن پہنچی ۔ سختیاں زیادہ ہوئیں تو گھر سے والد نے نکال باہر کیا۔ کلینک اور لیبارٹری کی نوکری چلتی رہی ۔ سول ڈیفنس کی طرف توجہ کم ہوگئی ۔ شازیہ کے بھائی نے عمان سے وزٹ ویزہ بھیج کر بلوایا وہیں پہلی نوکری دیار غیر میں بھی ملی جو شومئی قسمت ایک ماہ ہی چل سکی ۔ نئی نوکری جلد نہ ملی شازیہ کے بھائیوں نے آنکھیں بدلیں تو نکل پڑے کوئی بھی کام کرنے کو ایک عرب کیفے ٹیریا میں نوکری مل گئی رہائش اور کھانا انہی کی طرف سے تھا۔ یہ کیفے ٹیریا کمپیوٹر مارکیٹ میں تھا۔ لہذا کمپیوٹر والے دکانداروں سے سلام دعا ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد کیفے ٹیریا بیچ دیا گیا اور نوکری ختم ہو گئی۔ مارکیٹ میں دعا سلام کافی لوگوں سے بن چکا تھا دوپہر میں سڑکوں پر کھڑے ہوکر سی ڈی پروگرامز بیچنا شروع کردیا ساتھ ہی ساتھ کمپیوٹر ہارڈ ویئر کا کام سیکھنا شروع کر دیااور ایک دوکان بنا لی ۔اسی دوران پاکستان سے پتہ چلا کہ زوجہ کا جھگڑا ہو گیا ہے۔ ماموں کی طرف رہتی تھی ان سے کھٹ پٹ ہو گئی ہے۔ واپس لوٹے بیگم صاحبہ کو ساتھ لیا اور والد کی طرف جا پہنچے۔ شرم سے رات کو جاگ کر رکشہ چلاتے اور دن بھر اینٹھ کر سویا جاتا کہ حضرت باہر سے آئے ہیں۔ کچھ دنوں بعد شازیہ کے ایک ماموں آئے اور پاسپورٹ لے گئے کہ ٹکٹ کروا لائیں ۔ لیکن پاسپورٹ دبا کر بیٹھ گئے کہ شازیہ کی والدہ کوئی آپسی لین دین کا حساب کتاب باقی ہے چھے ماہ کے اندر اندر شازیہ کی والدہ نے پیسے کلیئر کر کے پاسپورٹ واپس دلوایا اور میں فورا واپس پہنچا ۔ پندرہ دن کے اندر اندر شازیہ کا ویزہ نکلوایا اور اسے عمان بلوا لیا۔ اس دوران دکان جا چکی تھی کیونکہ چھے ماہ سے کرایہ ادا نہ ہوا تھا ۔ فورا کمپیوٹر مارکیٹ میں نکلا ایک دکان میں معمولی تنخواہ پر نوکری مل گئی ۔ وہاں نوکری کرتے کرتے ایک واقعہ ایسا ہوا کہ کسی وجہ سے اس دکان کے پاکستانی مالک نے قرآن کا جھوٹا حلف اٹھا لیا۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ آٹھ دن کے اندر اندر اس کی دکان بند ہو گئی وجہ کفیل کا جھگڑا بنا۔ مجھے تو نئی نوکری چاہیئے تھی نکلے ایک اور دکان میں تین عرب دوستوں کے پاس ٹیکنیشن کی نوکری مل گئی۔اب ایک چھوٹا سا مکان دیکھا کرائے پر لیا اور کام کرتے رہے ۔وہ تینوں دوست جن کے پاس میں کام کرتا تھا کی آپس میں علیحدگی ہو گئی اور تینوں نے دکانیں الگ کر لیں ۔ میں نے ان میں سے ایک کے پاس کام کرنا پسند کیا، اس نے اپنی دکان امارات کے شہر العین میں بنائی اور اس طرح میں بھی العین ۔ متحدہ عرب امارات میں چلا گیا۔رہائش ابھی عمان میں ہی تھی۔کچھ عرصہ بعد مجھے اللہ نے طلحہ سے نوازا۔ شادی کے پانچ برس بعد پہلا بیٹا ہوا تھا ۔ اس دوران مجھے ایک مرتبہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہاں سے واپس آنے پر دبئی کی طرف چلے اور کمپیوٹر مارکیٹ کے قریب خالد بن ولید سٹریٹ پر ایک انٹرنیٹ کیفے میں نوکری مل گئی ۔ وہ کمپنی جس کے انٹرنیٹ کیفے میں میں کام کرتا تھا ایک اور اردنی شخص نے خرید لی جس کے پاس پھر میں بھی کام کرنے لگا۔ اس طرح کمپیوٹر مارکیٹ میں سلام دعا ہوگئی ۔ اب کام کے دوران ویب سائٹس بنانے کا سلسلہ چلتا رہا جبکہ فری وقت میں کمپیوٹر ، ڈرائیونگ سیکھنا وغیرہ چلتا رہا۔لائسنس بن گیا۔ گاڑی خرید لی پھر طلحہ اور شازیہ کا ویزہ پراسیس کروا کے انہیں بھی امارات کے ویزے پر لایا۔ کام چلتا رہا۔ بہتر نوکری ملی تو پہلی نوکری ترک کر دی اور بطور بزنس ڈیولپمنٹ مینیجر ایک سافٹ ویئر کمپنی میں کام شروع کردیا۔ اس دوران ایک لوکل دوست سے کہہ کر شازیہ کے بھائی کا بزنس لائسنس بنوا دیا۔ پھر اپنا کمپیوٹر کمپنی کا لائسنس بنوا کر کاروبار شروع کر دیا۔ زندگی بہتر سے بہتر کی طرف روانہ تھی۔ ساتھ ساتھ رینٹ اے کار کا کام شروع کر دیا۔ کاغذات وغیرہ کی تکمیل میں اچھی صلاحیت تھی جو کام آئی۔ فیسیں وغیرہ لگانا ان کا کام تھا کاغذات کی تکمیل میرا۔ لہذا شازیہ کا ایک بھائی پہلے بمع اہل و عیال برطانیہ بھیجا جہاں سے وہ پانچ ماہ میں واپس آگیا پھر اس کے کاغذات کی تکمیل کروا کر اسے امریکہ کا ویزہ لگوا کر دیا، اس دوران شازیہ کی ایک بہن کو کاغذات مکمل کر کے فرانس بھیجا ۔ اس طرح ایک بھائی کا دبئی میں کاروبار سیٹ ہو گیا، دوسرا امریکہ میں سیٹل ہو گیا، تیسری بہن فرانس میں سیٹل ہو گئی اور میں دبئی میں ہی اپنا کام کرتا رہا۔ جب کام ہوتا اپنا کام کرتا جب کوئی کام نہ ہوتا تو ٹورازم اور رینٹ اے کار والوں سے مل کر گاڑی چلا کر شوفر کے طور پر اپنا گزارا کر لیتا۔ اسی طرح ایک رینٹ اے کار کمپنی میں بطور سیلز مینیجر نوکری مل گئی اور ہر چیز اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھنے لگی۔ اچانک ایک دن پاکستان سے فون آتا ہے کہ والد صاحب کا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے اور پاس کچھ بھی نہیں تھا اس لئے فورا کچھ کرو ورنہ والد سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ ناراضگی، گلے شکوے سب بھول کر فورا ایمرجنسی چھٹی لے کر واپس پاکستان آیا۔ آ کر پتہ چلا کہ والد کا موٹر سائیکل پر حادثہ ہوا تھا جس میں سر میں خون جم جانے کی وجہ سے جان کو خطرہ ہے کمپنی نے چھٹی صرف تین دن کی دی جبکہ والد کا دماغ کا آپریشن ہونا ہے۔ لہذا چھٹی سے وقت پر واپس نہ آ سکا تو کمپنی نے نوکری سے نکال دیا۔ واپس پہنچنے پر ویزہ کینسل کر کے واپس بھیج دیا ۔ اس دوران کچھ پیسے جمع کر کے شازیہ کو اور طلحہ کو دبئی میں ہی ویزہ بچانے کے لئے چھوڑ کر میں اکیلا پاکستان آ گیا۔ شازیہ اور طلحہ دبئی میں ہیں جبکہ میں پاکستان میں ۔ ادھر ادھر سے ویزہ کی کوشش کرتا رہا۔پرانے پرانے دوست کام نہیں آئے۔جبکہ میں خود پاکستان میں پھنس کر رہ گیا۔ اور شازیہ اور طلحہ دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ لیکن شازیہ اور طلحہ کے پاس شازیہ کے میکے ، والدہ ، والد، بھائی بطور سپورٹ موجود ہیں ۔بہرحال ایک جگہ سے وزٹ ویزہ کا بندو بست کر کے جب واپس دبئی پہنچا تو شازیہ نے گھر پہنچتے ہی فورا مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا جب میں نکلنے لگا تو کہنے لگی یہ اپنے کپڑے وغیرہ شاپر میں ڈالو اور دفعہ ہو جاؤ یہاں سے ۔ غصے میں میں نے اسے تھپڑ جڑ دیا۔ فورا اپنی والدہ کو فون کیا اور انہیں بلانے لگی کہ فورا آپ ہمارے گھر آجائیں اور اسے پولیس کے حوالے کریں یہ بے غیرت انسان مجھے مارنے لگا ہے۔ والدہ نے اسے کہا تم پولیس کو فون کرو میں آ رہی ہوں ۔ میں نے غصے میں انہیں برا بھلا کہا کہ آپ کی لڑکی اگر غلط کر رہی ہے تو بجائے اسے سمجھانے کے آپ اسے پولیس بلوانے کا مشورہ دے رہی ہیں یہ کہاں کی انسانیت ہے۔ شازیہ کے بھائی کا فون آیا تو کوئی بات نہ کی کہنے لگا بے غیرت انسان جاؤ پہلے اپنی ماں سے یہ پوچھو تمہارا باپ کون ہے۔ میں نے غصے میں اسے ماں کی گالی دے دی اور فون بند کر دیا۔ ذہنی طور پر بے حد پریشان گھر سے نکلا تو جیب میں کوئی پیسہ نہ تھا۔ ایک دوست کو فون کر کے کچھ پیسے حاصل کئے اور عارضی رہائش کا بندو بست ہوا۔ پریشانی میں نوکری کا پتہ کرنا تو درکنار خود بیمار ہو گیا اس قدر کہ پیشاب سے خون آنا شروع ہو گیا۔ کچھ دنوں میں واپسی کا بندوبست کر کے پاکستان واپس آگیا۔ لیکن شازیہ اور طلحہ کا ویزہ میرے کفالت میں ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی رکھوا کر جو منجمند کیا ہوا تھا کی وجہ سے وہ وہاں سے کہیں سفر نہ کر سکتے تھے ۔ البتہ وہاں رہتے ہوئے آزادی سے اپنے تمام معاملات سر انجام دے سکتے تھے ۔ شاید یہی وہ وقت تھا جب میں ہمیشہ کے لئے شازیہ کے دل سے اتر گیا۔ وہ مجھے فون کر کے بد دعائیں دیتی ہے کہ تم مر جاؤ، تمہارا ایکسیڈنٹ ہو ، تمہارا قیمہ ہو جائے اس طرح چپقلش بڑھ گئی اور میں نے بد دل ہو کر واپس دبئی آنے کی کوشش چھوڑ دی ۔ اس سے بھی تلخیاں مزید بڑھ گئیں ۔ اچانک شازیہ کی والدہ جو کافی عرصے سے کینسر کی مریضہ تھی اور اس کے علاج میں بھی میری کافی کوششیں تھیں۔فوت ہو گئیں ۔ ایسے میں تمام مخالفتیں بھلا کر میں نے شازیہ کے بھائی کو فون کیا اور تعزیت کی بہر حال ماں کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آخر شازیہ نے مجھے فون کر کے اپنی بد تمیزی پر معذرت کرلی اور میں نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ ایک بار پھر شدت سے کوشش کی تو ایک دوست سے کہہ کر معاملہ بن گیا اور وہ وزٹ پر واپس دبئی پہنچ گیا۔واپس جا کر وہ پھر نوکری تلاش کرنے لگا اسی دوران سابقہ کمپنی سےا س کی نوکری دوبارہ آفر ہوئی تو فورا انہیں جوائن کر لیا۔ شازیہ اور طلحہ کے ویزے درست کروائے اور پھر گھر سب اچھا ہو گیا۔ایک دن شازیہ مجھے کہنے لگی کہ کب تک ایسے دوڑ بھاگ کرتے رہیں گے ۔ پردیس ہے فیملی کے ساتھ گزارا آسان نہیں ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ پاکستان چلتے ہیں آپ مجھے پاکستان چھوڑ آئیں طلحہ وہاں تعلیم حاصل کرے آپ یہاں سے پیسے بھیجتے رہیں اور ہمارا اچھا چلتا رہے۔ میں نے اتفاق کیا اور فورا کچھ دنوں کی چھٹی لے کر پاکستان واپسی کا کیا۔ شازیہ اور طلحہ کے ویزے کینسل کروائے اور پاکستان آ کر علامہ اقبال ٹاؤن میں گھر کرائے پر لیا۔اس میں نیا فرنیچر لے کر ڈالا۔ طلحہ کو بیکن ہاؤس میں داخل کروایا مکمل سیٹنگز کرنے کے بعد شازیہ اور طلحہ کو چھوڑ کر واپس دبئی چلا گیا۔ جاکر شازیہ کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجتا رہا اور خود کام کرتا رہا۔ ایک دن شازیہ پوچھتی ہے کہ میرے بھائی نے لاہور میں گھر لیا ہے ۔ اگر کہیں تو میں وہاں شفٹ ہو جاؤں ۔ میں نے کہا کہ اگر کرایہ دینا ہے تو شفٹ ہو جاؤ مفت رہنا ہے تو نہیں ۔ بات آئی گئی ہو گئی اور طے یہ ہوا کہ شازیہ گھر تبدیل نہیں کرے گی ۔ مہینے بعد مالک مکان کا فون آتا ہے کہ بھائی آپ نے ہمیں جو ایڈوانس دیا تھا کیا آپ کی زوجہ کو واپس کر دیں ۔ میں نے پوچھا کہ کیوں کہنے لگے کہ وہ پچھلے مہینے سے گھر چھوڑ چکی ہیں ۔ میں نے کہا کہ اگر گھر چھوڑ چکی ہیں تو پھر انہیں واپس کر دیں۔ شازیہ کو فون کرتا ہوں وہ جواب نہیں دیتی۔ بار بار فون کا جواب نہ ملنے پر شازیہ کے بھائی کو جو دبئی میں ہے رابطہ کیا جاتا ہے تو پھر شازیہ سے بات ہو جاتی ہے۔ شازیہ کہتی ہے کہ اب میں یہاں رہ رہی ہوں تم خرچ بھیجتے رہو لیکن بھو ل جاؤ کہ میرے پاس کبھی آ سکو گے یا مجھے مل سکو گے ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ کوئی مکان جائیداد پاکستان میں بنا کر میرے نام لگاؤ تو پھر تم ہمیں مل سکو گے ورنہ نہیں۔ میں یہ بات سن کر فلیش بیک میں دیکھتا ہوں تو یہ تمام تر صلح اور واپسی اور سلوک اس لئے تھا کہ ویزے منجمند ہونے کی وجہ سے جو نقل و حرکت بند تھی وہ جاری ہو سکے اور وہ محتاجی ختم ہو جائے جس کی وجہ سے وہ مجھے ٹھیک طرح سے بلانے پر مجبور ہوئی تھی۔ایک بار پھر شدید ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار ہو گیا۔ کام کاروبار پر اس کا برا اثر پڑا اور نوکری پھر سے جاتی رہی۔ واپس لوٹا نئے گھر کا پتہ نہیں تھا کہ شازیہ اور طلحہ کہاں رہتے ہیں ۔لہذا سیدھا اپنے والد کی طرف گیا۔ وہاں والد صاحب نے شازیہ کو فون کیا تو اس نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے کوشش کی تو پھر فون کا جواب ندارد بار بار کوششوں کے بعد جب رابطہ نہ ہو سکا تو آخر اس کے بھائی کو فون کیا کہ کیا مسئلہ ہے شازیہ فون نہیں اٹھا رہی ۔ جوابا وہ کہنے لگا میں تمہیں یا کسی کو بھی اس کے متعلق جواب دہ نہیں ہوں ۔ یہ وہ جانے یا تم جانو بات کرتی ہے ٹھیک نہیں کرتی تو میں کیا کروں۔میں مزید پریشان ہوگیا۔ آخر ایک دن شازیہ سے بات ہو ہی گئی وہ کہنے لگی تم مجھے مل کر جاؤ میں فلاں جگہ پر ہوں ۔ میں دوڑا دوڑا وہاں گیا ۔ ملنے کے لئے تو ایک ہزار درہم دے کر کہنے لگی یہ لو پیسے واپس جاؤ اور وہاں سیٹل ہو کر اپنا گھر مکان بناؤ جب بن جائے تو مجھ سے بات کرنا تب تک مجھے اور طلحہ کو بھول جاؤ۔ خوش ہو گیا کہ گھر بچ گیا۔ واپس آیا خوش ہو کردبئی واپسی کو قصد کیا اور واپس دبئی پہنچ گیا۔ دوڑ بھاگ کر کے ایک نوکری کا بندوبست ہوا جنہوں نے واپس پاکستان بھیج دیا کہ آپ جائیں ہم آپ کو ویزہ بھیجیں گے ۔یہ کمپنی آرگوناٹ نام کی تھی یہاں نوکری کنفرم کر کے ، واپس پاکستان پہنچا اور ویزے کا انتظار کرنے لگا، شازیہ کی جانب سے پھر نہ ملاقات ہوئی نہ رابطہ۔ اچانک ایک دن شازیہ کے ایک ماموں کا فون آتا ہے کہ شازیہ کو طلاق دے دو اسے تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔ میں پھر پریشان اور منتشر ہو گیا۔ فورا اپنے خاندان کو اکٹھا کیا ان کے سامنے تمام حقائق رکھے اور انہیں کہا کہ آپ لوگ میری مدد کریں اور کسی طرح میرا گھر بچائیں ۔ایک تایا زاد بہن نے شازیہ سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ کیا مسئلہ ہے تو جواب ملا کہ میں اس شخص سے ملنا ہی نہیں چاہتی نہ کوئی تعلق رکھنا چاہتی ہوں۔ میں نے تو تنسیخ نکاح کا کیس بھی فائل کر دیا ہے جو تین ماہ میں ویسے ہی مجھے طلاق دلوا دے گا۔لہذا تم نے اپنی ذاتی حیثیت میں فیصل کی بہن ہو کر نہیں میری دوست ہو کر اگر مجھے ملنا ہے تو مل لو اگر ایسا نہیں ہے تو تمہاری مرضی۔ تمام کوششیں ناکام ہوئیں ۔ میں نے ایک د ن طلحہ سے ملنے کی کوشش کی اور بیکن ہاؤس سکول چلا گیا ۔ وہاں جب طلحہ کو دیکھا تو طلحہ مجھے چھوڑ کر اندر چلا گیا اور سکول والوں کے کہنے کے باوجود دوبارہ نہ ملا۔ یہ وقت میرے لئے بہت سخت وقت تھا۔ میں نصف پاگل ہو چکا تھا۔ کئی کئی دن مسلسل جاگتا رہتا۔ بلاوجہ رونے لگتا ۔ سگریٹ بے تحاشا پینے لگا۔ آخر میرا ویزہ آگیا۔ دوڑ بھاگ کر ویزہ کے پراسیس میڈیکل ، پروٹیکٹر وغیرہ کروائے لیکن اندر سے بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ ایک دوست نے مشورہ دیا دوسری شادی کر لوایک خاتون ہے جو تمہیں بہت عزت دے گی اور میرے لئے میری بہن ہے، شازیہ کو کہا میں دوسری شادی کر لوں گا تو جواب ملا اجازت نامہ بنو کر بھیج دو دستخط کر دونگی ویسے بھی مجھے کون سا تمہارے ساتھ رہنا ہے جو مجھے کوئی پروا ہو۔ اجازت نامہ بنا کر اسے بھیجا تو دستخط کر دئیے گئے ۔اسے دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ اب یہ رشتہ سچ میں ختم ہو گیا ہے۔ نیا رشتہ دیکھا تو جس خاتون سے رشتہ ہو رہا تھا وہ بھی اپنی زندگی کے پہلے سفر میں اسی عذاب یعنی زندگی کے سفر میں ساتھی کی طرف سے چھوڑ دیئے جانے کا عذاب سے گزر چکی تھیں جس سے میں گزر رہا تھا۔ سوچا دو ایک جیسے مل بیٹھیں گے تو شاید کچھ احساس کر سکیں ایک دوسرے کا۔ اور رشتے کے لئے کوشش کرنی شروع کر دی۔ آخر نکاح ہو گیا اور رخصتی کی تاریخ طے ہوگئی یہ سب کچھ دبئی میں ہو رہا تھا۔ رخصتی سے تین دن پہلے شازیہ کا فون آتا ہے کہ میں اب رشتہ نہیں توڑ رہی آپ بتائیں مجھے واپس قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ اب میری زندگی میں یہ فیصلہ کرنے کا حق میرا اکیلے کا نہیں رہا کہ میں تمہیں واپس لے سکتا ہوں یا نہیں یہ فیصلہ میری نئی بیگم کا ہوگا جس نے مجھے اس ٹوٹی پھوٹی حالت میں قبول کیا ہے۔ فورا نئی دلہن سے بات کی کہ ایسے ایسے فون آیا ہے تو نئی دلہن نے جواب میں یہ کہا کہ اگر گھر بچتا ہے تو بچا لیں میں کسی طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی ۔ آپ اسے قبول کریں میں آپ کو ناکام نہیں ہونے دوں گی ان شاء اللہ ۔ اور اس طرح شازیہ فیصل طلحہ اور ماہا کا خاندان بنا۔ رخصتی ہو کر ماہا اپنے گھر آئی تو شازیہ کو خرچ بھیجنے کے لئے اس نے اپنے گھر میں کم از کم راشن ڈالا اور باقی پیسے شازیہ کو بھجوا دیئے ۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ کیسے ۔ ہم دالیں کھاتے اور کم از کم زندگی کی حد تک اپنا گزر کرتے لیکن جو کماتے شازیہ کو بھییج دیتے ۔ایک دن شازیہ سے میسیج پر بات ہو رہی تھی تو شازیہ کہنے لگی کی تم یہ نہ سمجھو کہ میں نے تمہارے ساتھ واپس پیچ اپ تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ یہ خرچ ہے جس کی وجہ سے تم سے بات کر رہی ہوں ورنہ میں تو تمہیں دیکھنے کی بھی روادار نہیں ہوں۔ ساتھ ہی اس نے ماہا کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میں کہ ماہا کی قربانی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اس بات پر شازیہ کی اصلیت سے ایک بار پھر آگاہ ہوا اور شازیہ کو ایک طلاق دے دی ۔ کہنے لگی باپ کے ہو تو اور طلاق دے کر دکھاؤ اسی دوران ایک اور طلاق دے دی گئی اس طرح دو طلاقیں دینے کے بعد ماہا نے دیکھا کہ کیا ہو رہا ہے اور اس نے فون ہاتھ سے پکڑ لیا کیا کر رہے ہیں کیوں ایسے طلاق پر طلاق دیئے جا رہے ہیں۔ بس کردیں ۔ اس طرح دو طلاق کے بعد بات رک گئی۔ اور میں نے خود کو مزید طلاق دینے سے ماہا کی وجہ سے باز رکھا۔ لیکن پھر اس دن کے بعد شازیہ سے بات نہ کی۔کچھ عرصے بعد اس کا والد کو فون آیا کہ میں اب آپ کے بیٹے کی زندگی میں باقی نہیں ہوں۔ میرے نام کے ساتھ اب اس کا نام بھی نہ ہوگا۔بہر حال میں نے ماہا کی مدد سے خود کو سنبھالا اور اپنی زندگی کو واپس ٹریک پر لانا شروع کر دیا۔آہستہ آہستہ کام چلتا رہا۔ زندگی گزرتی رہی پھر دبئی میں جس طرف بھی جاتا شازیہ اور طلحہ کی یادیں مجھے بار بار رلاتیں ۔ ماہا مجھے سنبھالنے کی کوشش کرتی رہی پھر ایک نئی جگہ نوکری ملی ۔ یہ نوکری ایک رینٹ اے کار کمپنی میں لیگل ایڈوائزر کی تھی جو قبول کی اور ویزہ تبدیلی کے لئے ماہا کے ساتھ پاکستان آگیا۔ اس طرح ماہا کو پاکستان چھوڑ کر واپس دبئی چلا گیا اور اس کمپنی میں کام شروع کر دیا۔ یہ ایک انڈین کی کمپنی تھی ایک دن ایک ملازم جو کمپنی میں کام کرتا تھا اسے نوکری چھوڑنے کی پاداش میں جھوٹے چوری کے کیس میں پھنسانے کا جب حکم ملا تو انصاف اور انسانیت کے تقاضے سے اس حکم ماننے سے انکار کردیا اور استعفیٰ دے کر پاکستا ن واپس لوٹ آیا۔اس طرح پاکستان پہنچنے پر کوئی پیسہ ماسوائے پاکستانی پندر ہ ہزار کے جیب میں نہ تھا جب پاکستان آیا۔ لیکن اللہ نے ہاتھ پکڑا اور اپنا ویب سائیٹ بنانے کا کام شروع کیا پہلے ایک دو آرڈرز اچھے ملے جس سے بہت جلد اللہ کے کرم سے گھر بھی بن گیا اور سواری سے بھی اسی مالک نے نوازا۔ ماہا دوسری طرف نہ صرف سمجھداری سے گھر چلاتی رہے بلکہ واقعتا اس نے اپنے طرز عمل اور سلوک سے یہ ثابت کیا کہ شادی شدہ پر سکون زندگی کسے کہتے ہیں۔کچھ عرصے بعد سول ڈیفنس میں بھی پروموشن نے ساتھ بحالی ہوگئی۔ البتہ اپنا کاروبار ملازمین کی کام چوریوں، اور بے پروائیوں کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ کیونکہ ملازمین میں وقت کی عدم پابندی، کام سے سنجیدگی کا فقدان اور دفتری وسائل جیسے فون وغیرہ کو اپنی ذاتی (گرل فرینڈز وغیرہ) ضرورتوں میں مس یوز کرنا ایک بنیادی عادت ہے جو مجھے قبول نہ تھی۔ اب میں ہوں اور ماہا ہے۔ زندگی بحمد اللہ پر سکون ہے۔ یک سو ہو کر زندگی کے فیصلے کرتے ہیں، اور آپس میں محبت سے رہتے ہیں۔ یہ سمجھ میں آیا کہ غلامی میں آنکھ کھولنے والوں کے لئے غلامی اور آزادی میں کوئی فرق نہیں جب تک حقیقی آزادی کو وہ دیکھ نہ لیں اور اس سے پہلے غلامی گزر چکی ہو تو ہی یہ سمجھ آتی ہے کہ غلامی اور آزادی کن پرندوں کے نام ہیں۔ اللہ سب کو زندگی کے سفر میں آنے والے فتنوں اور آزمائشوں سے بخوبی کامیابی سے نمٹنے کی توفیق اور ہمت دے اور ہمیشہ ہمیں اپنی رحمت کے تلے اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے۔



آمین ثم آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا ہی ہوں کہ مجھے آج ابو نے کلینک پر بلایا۔ امتحان سے فراغت کے بعد نتائج تک فارغ رہنے کی بجائے کچھ کر لو یہ لو دو ہزار روپیہ اور کچھ بن کے دکھاؤ۔ زندگی میں عملیت پسندی بہت ضروری ہے ابھی تمہاری عمر ہے ابھی سے عادت پڑ جائے گی تو ساری عمر کسی سے مانگنے یا ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں نے اس پر سوائے جی ڈیڈی کہنے کے اور کچھ نہیں کہا۔ جانتا تھا کہ والد محترم خود میٹرک کے بعد لاہور آگئے تھے اور اپنی تمام عمر کسی پر تکیہ نہیں کیا۔ خود ہی پڑھتے بھی رہے ، کلینک کیا، شادی کی اور اپنا گھر بھی بنایا۔ تو تین بھائیوں میں منجھلا ہونے کے ناطے مجھے ہی والد کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ دوسرے ہی دن صبح اٹھا شریف قسطوں والے کے پاس جا کر سائیکل قسطوں پر لی۔ شریف مجھے جانتا تھا اور والد صاحب کو بھی لہذا کوئی جان پہچان بتانے کی ضرورت نہ پڑی چھے سو روپے ایڈوانس دیا اور ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر سائیکل لے لی۔ والد کے دو ہزار سے اب چودہ سو روپے باقی بچے تھے۔ ایک محلے دار تھے صوفی بشیر صاحب ان سے بات کی اور ان سے گولیاں ٹافیاں خرید کر سائیکل کے پیچھے ایک کارٹن باندھ کر اس میں سجالیں۔ایک ایک دو دو روپے منافع رکھ کر نکل پڑا قسمت پڑیوں میں تین چار روپے بچ جاتے تھے جبکہ آٹھ روپے کی فانٹا گولی میں ڈیڑھ روپیہ بچتا تھا، بسکٹ میں تین روپے کی بچت تھی اس طرح تمام سامان کی قیمتیں لکھ کر ساتھ رکھیں اور شہر میں نکل پڑا، تین چار گھنٹے میں سامان بک گیا اور سائیکل خالی ہو گئی گھر آ کر پیسے گنے تو ایک سو تیرہ روپے کی بچت ہوئی تھی۔ امی کو ایک سو روپیہ دیا تو بلائیں لینے لگیں فورا کاشف کو بھیج کر نمک پارے اور بدانہ منگوا لیا ختم پڑھا کر شکر کر کے بانٹ دیا اور باقی پیسے ایک محلے کی بیوہ خاتون جسے مائی خیراں کہتے تھے ان کی خدمت میں بھیج دیا۔ یہ تھی اپنے بیٹے کی پہلی کمائی ۔ عمر چودہ پندرہ سال سائیکل پر جاکر گولیاں ٹافیاں بیچتا اور اسی طرح نتیجہ آگیا ۔ میٹرک میں باسٹھ فیصد نمبر لے کر پاس ہوا تو داخلے کے کاغذات گورنمنٹ کالج، ایف سی کالج اور سول لائنز کالج میں جمع کروائے۔ والدہ سے چھوٹی چھوٹی چخ چخ چلتی رہتی تھی کب سنجیدہ ہو گئی اور ان چھٹیوں میں ہی والد صاحب کی دوسری شادی ہوگئی اور وہ نئی زندگی کی طرف مشغول ہوگئے ۔پھر جیسا ہمارے معاشرے میں ہوا کرتا ہے پہلے والدہ کافی عرصہ ڈسٹرب رہیں اس دوران گھر کا خرچ گولیاں ٹافیاں اور سائیکل اٹھاتی رہی جبکہ شام کو ایک جاننے والے کے میڈیکل اسٹور پر ساتھ کے ساتھ بطور معاون کام بھی چلتا رہا۔ چھٹیوں کے بعد سول لائنز کالج میں پڑھائی شروع ہوئی ، کالج میں کشتی اور باکسنگ کی ٹیموں میں شرکت کی اور پڑھائی بھی چلتی رہی اور ساتھ ساتھ کاروبار بھی ۔ دوست یار ہنستے کہ کیا گولیاں ٹافیاں بیچتے ہو لیکن کبھی شرم نہ آئی کرتے کرتے کچھ عرصہ بعد والد صاحب نے گولیاں ٹافیاں بیچنے سے منع کیا کہ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر کا بیٹا گولیاں ٹافیاں بیچتا ہے۔ انٹر میڈیٹ کر لیا۔ میڈیکل اسٹور پر کام کرتے کرتے دواؤں کے نئے برانڈز سے تعارف ہو چکا تھا۔ فارمولیشن، مرہم پٹی کرنا، ٹانکے لگانا پہلے ہی آتا تھا۔ ڈاکٹر کے بیٹے تھے لہذا ڈاکٹر (عطائی) بن کر بیٹھ گئے۔ اپنا کلینک کر لیا۔ میٹھی گولیاں ٹافیاں بسکٹ بیچنے چھوڑ کر کڑوی گولیاں ، ٹیکے لگانے شروع کر دیئے ۔ اس دوران ایک دوست جس کے بھائی کی اپنی میڈیکل لیبارٹری تھی کی وساطت سے لیبارٹری کا کام سیکھنے لگے۔ رات کی ڈیوٹی لگوا لی نیا نیا دنیا میں نکلا نرسیں دیکھیں ، ایک پر لٹو ہو گیا۔ شام کلینک، رات لیبارٹری اور دن میں سول ڈیفنس میں کام کرنا شروع کر دیا۔ایک جانب یہ مصروفیات دوسری جانب عشق کا بھوت ۔ جوانی نرالی شے ہے جی ۔ پیسے، مصروفیت اور عشق کے ساتھ ساتھ وردی بھی ہو تو انسان اس دنیا میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ آخرش ایک دن محبوبہ کو کسی اور میں دل چسپی لیتے دیکھ لیا۔ بریک اپ ہوگیا ۔ ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوگیا۔ پھر ایک ماہر نفسیات سے رابطہ کیا اس نے لیگزوٹانل جیسی دوائیں دینا شروع کر دیں ۔جو کچھ دن استعمال کے بعد چھوڑ دیں کہ یہ فضول نشے پر لگا دیں گی۔ اداس شکل نہ آنے کا پتہ نہ جانے کا علم۔ ماں پریشان میرے بیٹے کو کیا ہو گیا۔ ایک گھر میں لڑکی پسند کر کے اس سے رشتہ طے کردیا۔ لیبارٹری کی نوکری اب ترقی کر چکی تھی اور اسسٹنٹ پیتھالوجسٹ کا کام کیا جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ سول ڈیفنس اور کلینک بھی جاری تھا ۔ چلتے چلتے شادی ہوگئی اور شازیہ گھر میں آگئی۔ شازیہ کا والد اور بھائی عمان میں ہوتے تھے۔ اس دوران والد کی بے توجہی اور والد کی نئی بیگم کی توجہ کے باعث گھر ٹوٹ رہا تھا۔ والدہ سے والد کی چپقلش کی وجہ سے ڈسٹرب ہو کر والد سے برگشتہ ہوگئے ۔ جھگڑے شروع ہوگئے ۔ والد اور والدہ میں علیحدگی اور بالآخر طلاق تک نوبت آن پہنچی ۔ سختیاں زیادہ ہوئیں تو گھر سے والد نے نکال باہر کیا۔ کلینک اور لیبارٹری کی نوکری چلتی رہی ۔ سول ڈیفنس کی طرف توجہ کم ہوگئی ۔ شازیہ کے بھائی نے عمان سے وزٹ ویزہ بھیج کر بلوایا وہیں پہلی نوکری دیار غیر میں بھی ملی جو شومئی قسمت ایک ماہ ہی چل سکی ۔ نئی نوکری جلد نہ ملی شازیہ کے بھائیوں نے آنکھیں بدلیں تو نکل پڑے کوئی بھی کام کرنے کو ایک عرب کیفے ٹیریا میں نوکری مل گئی رہائش اور کھانا انہی کی طرف سے تھا۔ یہ کیفے ٹیریا کمپیوٹر مارکیٹ میں تھا۔ لہذا کمپیوٹر والے دکانداروں سے سلام دعا ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد کیفے ٹیریا بیچ دیا گیا اور نوکری ختم ہو گئی۔ مارکیٹ میں دعا سلام کافی لوگوں سے بن چکا تھا دوپہر میں سڑکوں پر کھڑے ہوکر سی ڈی پروگرامز بیچنا شروع کردیا ساتھ ہی ساتھ کمپیوٹر ہارڈ ویئر کا کام سیکھنا شروع کر دیااور ایک دوکان بنا لی ۔اسی دوران پاکستان سے پتہ چلا کہ زوجہ کا جھگڑا ہو گیا ہے۔ ماموں کی طرف رہتی تھی ان سے کھٹ پٹ ہو گئی ہے۔ واپس لوٹے بیگم صاحبہ کو ساتھ لیا اور والد کی طرف جا پہنچے۔ شرم سے رات کو جاگ کر رکشہ چلاتے اور دن بھر اینٹھ کر سویا جاتا کہ حضرت باہر سے آئے ہیں۔ کچھ دنوں بعد شازیہ کے ایک ماموں آئے اور پاسپورٹ لے گئے کہ ٹکٹ کروا لائیں ۔ لیکن پاسپورٹ دبا کر بیٹھ گئے کہ شازیہ کی والدہ کوئی آپسی لین دین کا حساب کتاب باقی ہے چھے ماہ کے اندر اندر شازیہ کی والدہ نے پیسے کلیئر کر کے پاسپورٹ واپس دلوایا اور میں فورا واپس پہنچا ۔ پندرہ دن کے اندر اندر شازیہ کا ویزہ نکلوایا اور اسے عمان بلوا لیا۔ اس دوران دکان جا چکی تھی کیونکہ چھے ماہ سے کرایہ ادا نہ ہوا تھا ۔ فورا کمپیوٹر مارکیٹ میں نکلا ایک دکان میں معمولی تنخواہ پر نوکری مل گئی ۔ وہاں نوکری کرتے کرتے ایک واقعہ ایسا ہوا کہ کسی وجہ سے اس دکان کے پاکستانی مالک نے قرآن کا جھوٹا حلف اٹھا لیا۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ آٹھ دن کے اندر اندر اس کی دکان بند ہو گئی وجہ کفیل کا جھگڑا بنا۔ مجھے تو نئی نوکری چاہیئے تھی نکلے ایک اور دکان میں تین عرب دوستوں کے پاس ٹیکنیشن کی نوکری مل گئی۔اب ایک چھوٹا سا مکان دیکھا کرائے پر لیا اور کام کرتے رہے ۔وہ تینوں دوست جن کے پاس میں کام کرتا تھا کی آپس میں علیحدگی ہو گئی اور تینوں نے دکانیں الگ کر لیں ۔ میں نے ان میں سے ایک کے پاس کام کرنا پسند کیا، اس نے اپنی دکان امارات کے شہر العین میں بنائی اور اس طرح میں بھی العین ۔ متحدہ عرب امارات میں چلا گیا۔رہائش ابھی عمان میں ہی تھی۔کچھ عرصہ بعد مجھے اللہ نے طلحہ سے نوازا۔ شادی کے پانچ برس بعد پہلا بیٹا ہوا تھا ۔ اس دوران مجھے ایک مرتبہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہاں سے واپس آنے پر دبئی کی طرف چلے اور کمپیوٹر مارکیٹ کے قریب خالد بن ولید سٹریٹ پر ایک انٹرنیٹ کیفے میں نوکری مل گئی ۔ وہ کمپنی جس کے انٹرنیٹ کیفے میں میں کام کرتا تھا ایک اور اردنی شخص نے خرید لی جس کے پاس پھر میں بھی کام کرنے لگا۔ اس طرح کمپیوٹر مارکیٹ میں سلام دعا ہوگئی ۔ اب کام کے دوران ویب سائٹس بنانے کا سلسلہ چلتا رہا جبکہ فری وقت میں کمپیوٹر ، ڈرائیونگ سیکھنا وغیرہ چلتا رہا۔لائسنس بن گیا۔ گاڑی خرید لی پھر طلحہ اور شازیہ کا ویزہ پراسیس کروا کے انہیں بھی امارات کے ویزے پر لایا۔ کام چلتا رہا۔ بہتر نوکری ملی تو پہلی نوکری ترک کر دی اور بطور بزنس ڈیولپمنٹ مینیجر ایک سافٹ ویئر کمپنی میں کام شروع کردیا۔ اس دوران ایک لوکل دوست سے کہہ کر شازیہ کے بھائی کا بزنس لائسنس بنوا دیا۔ پھر اپنا کمپیوٹر کمپنی کا لائسنس بنوا کر کاروبار شروع کر دیا۔ زندگی بہتر سے بہتر کی طرف روانہ تھی۔ ساتھ ساتھ رینٹ اے کار کا کام شروع کر دیا۔ کاغذات وغیرہ کی تکمیل میں اچھی صلاحیت تھی جو کام آئی۔ فیسیں وغیرہ لگانا ان کا کام تھا کاغذات کی تکمیل میرا۔ لہذا شازیہ کا ایک بھائی پہلے بمع اہل و عیال برطانیہ بھیجا جہاں سے وہ پانچ ماہ میں واپس آگیا پھر اس کے کاغذات کی تکمیل کروا کر اسے امریکہ کا ویزہ لگوا کر دیا، اس دوران شازیہ کی ایک بہن کو کاغذات مکمل کر کے فرانس بھیجا ۔ اس طرح ایک بھائی کا دبئی میں کاروبار سیٹ ہو گیا، دوسرا امریکہ میں سیٹل ہو گیا، تیسری بہن فرانس میں سیٹل ہو گئی اور میں دبئی میں ہی اپنا کام کرتا رہا۔ جب کام ہوتا اپنا کام کرتا جب کوئی کام نہ ہوتا تو ٹورازم اور رینٹ اے کار والوں سے مل کر گاڑی چلا کر شوفر کے طور پر اپنا گزارا کر لیتا۔ اسی طرح ایک رینٹ اے کار کمپنی میں بطور سیلز مینیجر نوکری مل گئی اور ہر چیز اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھنے لگی۔ اچانک ایک دن پاکستان سے فون آتا ہے کہ والد صاحب کا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے اور پاس کچھ بھی نہیں تھا اس لئے فورا کچھ کرو ورنہ والد سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ ناراضگی، گلے شکوے سب بھول کر فورا ایمرجنسی چھٹی لے کر واپس پاکستان آیا۔ آ کر پتہ چلا کہ والد کا موٹر سائیکل پر حادثہ ہوا تھا جس میں سر میں خون جم جانے کی وجہ سے جان کو خطرہ ہے کمپنی نے چھٹی صرف تین دن کی دی جبکہ والد کا دماغ کا آپریشن ہونا ہے۔ لہذا چھٹی سے وقت پر واپس نہ آ سکا تو کمپنی نے نوکری سے نکال دیا۔ واپس پہنچنے پر ویزہ کینسل کر کے واپس بھیج دیا ۔ اس دوران کچھ پیسے جمع کر کے شازیہ کو اور طلحہ کو دبئی میں ہی ویزہ بچانے کے لئے چھوڑ کر میں اکیلا پاکستان آ گیا۔ شازیہ اور طلحہ دبئی میں ہیں جبکہ میں پاکستان میں ۔ ادھر ادھر سے ویزہ کی کوشش کرتا رہا۔پرانے پرانے دوست کام نہیں آئے۔جبکہ میں خود پاکستان میں پھنس کر رہ گیا۔ اور شازیہ اور طلحہ دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ لیکن شازیہ اور طلحہ کے پاس شازیہ کے میکے ، والدہ ، والد، بھائی بطور سپورٹ موجود ہیں ۔بہرحال ایک جگہ سے وزٹ ویزہ کا بندو بست کر کے جب واپس دبئی پہنچا تو شازیہ نے گھر پہنچتے ہی فورا مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا جب میں نکلنے لگا تو کہنے لگی یہ اپنے کپڑے وغیرہ شاپر میں ڈالو اور دفعہ ہو جاؤ یہاں سے ۔ غصے میں میں نے اسے تھپڑ جڑ دیا۔ فورا اپنی والدہ کو فون کیا اور انہیں بلانے لگی کہ فورا آپ ہمارے گھر آجائیں اور اسے پولیس کے حوالے کریں یہ بے غیرت انسان مجھے مارنے لگا ہے۔ والدہ نے اسے کہا تم پولیس کو فون کرو میں آ رہی ہوں ۔ میں نے غصے میں انہیں برا بھلا کہا کہ آپ کی لڑکی اگر غلط کر رہی ہے تو بجائے اسے سمجھانے کے آپ اسے پولیس بلوانے کا مشورہ دے رہی ہیں یہ کہاں کی انسانیت ہے۔ شازیہ کے بھائی کا فون آیا تو کوئی بات نہ کی کہنے لگا بے غیرت انسان جاؤ پہلے اپنی ماں سے یہ پوچھو تمہارا باپ کون ہے۔ میں نے غصے میں اسے ماں کی گالی دے دی اور فون بند کر دیا۔ ذہنی طور پر بے حد پریشان گھر سے نکلا تو جیب میں کوئی پیسہ نہ تھا۔ ایک دوست کو فون کر کے کچھ پیسے حاصل کئے اور عارضی رہائش کا بندو بست ہوا۔ پریشانی میں نوکری کا پتہ کرنا تو درکنار خود بیمار ہو گیا اس قدر کہ پیشاب سے خون آنا شروع ہو گیا۔ کچھ دنوں میں واپسی کا بندوبست کر کے پاکستان واپس آگیا۔ لیکن شازیہ اور طلحہ کا ویزہ میرے کفالت میں ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی رکھوا کر جو منجمند کیا ہوا تھا کی وجہ سے وہ وہاں سے کہیں سفر نہ کر سکتے تھے ۔ البتہ وہاں رہتے ہوئے آزادی سے اپنے تمام معاملات سر انجام دے سکتے تھے ۔ شاید یہی وہ وقت تھا جب میں ہمیشہ کے لئے شازیہ کے دل سے اتر گیا۔ وہ مجھے فون کر کے بد دعائیں دیتی ہے کہ تم مر جاؤ، تمہارا ایکسیڈنٹ ہو ، تمہارا قیمہ ہو جائے اس طرح چپقلش بڑھ گئی اور میں نے بد دل ہو کر واپس دبئی آنے کی کوشش چھوڑ دی ۔ اس سے بھی تلخیاں مزید بڑھ گئیں ۔ اچانک شازیہ کی والدہ جو کافی عرصے سے کینسر کی مریضہ تھی اور اس کے علاج میں بھی میری کافی کوششیں تھیں۔فوت ہو گئیں ۔ ایسے میں تمام مخالفتیں بھلا کر میں نے شازیہ کے بھائی کو فون کیا اور تعزیت کی بہر حال ماں کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آخر شازیہ نے مجھے فون کر کے اپنی بد تمیزی پر معذرت کرلی اور میں نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ ایک بار پھر شدت سے کوشش کی تو ایک دوست سے کہہ کر معاملہ بن گیا اور وہ وزٹ پر واپس دبئی پہنچ گیا۔واپس جا کر وہ پھر نوکری تلاش کرنے لگا اسی دوران سابقہ کمپنی سےا س کی نوکری دوبارہ آفر ہوئی تو فورا انہیں جوائن کر لیا۔ شازیہ اور طلحہ کے ویزے درست کروائے اور پھر گھر سب اچھا ہو گیا۔ایک دن شازیہ مجھے کہنے لگی کہ کب تک ایسے دوڑ بھاگ کرتے رہیں گے ۔ پردیس ہے فیملی کے ساتھ گزارا آسان نہیں ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ پاکستان چلتے ہیں آپ مجھے پاکستان چھوڑ آئیں طلحہ وہاں تعلیم حاصل کرے آپ یہاں سے پیسے بھیجتے رہیں اور ہمارا اچھا چلتا رہے۔ میں نے اتفاق کیا اور فورا کچھ دنوں کی چھٹی لے کر پاکستان واپسی کا کیا۔ شازیہ اور طلحہ کے ویزے کینسل کروائے اور پاکستان آ کر علامہ اقبال ٹاؤن میں گھر کرائے پر لیا۔اس میں نیا فرنیچر لے کر ڈالا۔ طلحہ کو بیکن ہاؤس میں داخل کروایا مکمل سیٹنگز کرنے کے بعد شازیہ اور طلحہ کو چھوڑ کر واپس دبئی چلا گیا۔ جاکر شازیہ کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجتا رہا اور خود کام کرتا رہا۔ ایک دن شازیہ پوچھتی ہے کہ میرے بھائی نے لاہور میں گھر لیا ہے ۔ اگر کہیں تو میں وہاں شفٹ ہو جاؤں ۔ میں نے کہا کہ اگر کرایہ دینا ہے تو شفٹ ہو جاؤ مفت رہنا ہے تو نہیں ۔ بات آئی گئی ہو گئی اور طے یہ ہوا کہ شازیہ گھر تبدیل نہیں کرے گی ۔ مہینے بعد مالک مکان کا فون آتا ہے کہ بھائی آپ نے ہمیں جو ایڈوانس دیا تھا کیا آپ کی زوجہ کو واپس کر دیں ۔ میں نے پوچھا کہ کیوں کہنے لگے کہ وہ پچھلے مہینے سے گھر چھوڑ چکی ہیں ۔ میں نے کہا کہ اگر گھر چھوڑ چکی ہیں تو پھر انہیں واپس کر دیں۔ شازیہ کو فون کرتا ہوں وہ جواب نہیں دیتی۔ بار بار فون کا جواب نہ ملنے پر شازیہ کے بھائی کو جو دبئی میں ہے رابطہ کیا جاتا ہے تو پھر شازیہ سے بات ہو جاتی ہے۔ شازیہ کہتی ہے کہ اب میں یہاں رہ رہی ہوں تم خرچ بھیجتے رہو لیکن بھو ل جاؤ کہ میرے پاس کبھی آ سکو گے یا مجھے مل سکو گے ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ کوئی مکان جائیداد پاکستان میں بنا کر میرے نام لگاؤ تو پھر تم ہمیں مل سکو گے ورنہ نہیں۔ میں یہ بات سن کر فلیش بیک میں دیکھتا ہوں تو یہ تمام تر صلح اور واپسی اور سلوک اس لئے تھا کہ ویزے منجمند ہونے کی وجہ سے جو نقل و حرکت بند تھی وہ جاری ہو سکے اور وہ محتاجی ختم ہو جائے جس کی وجہ سے وہ مجھے ٹھیک طرح سے بلانے پر مجبور ہوئی تھی۔ایک بار پھر شدید ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار ہو گیا۔ کام کاروبار پر اس کا برا اثر پڑا اور نوکری پھر سے جاتی رہی۔ واپس لوٹا نئے گھر کا پتہ نہیں تھا کہ شازیہ اور طلحہ کہاں رہتے ہیں ۔لہذا سیدھا اپنے والد کی طرف گیا۔ وہاں والد صاحب نے شازیہ کو فون کیا تو اس نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے کوشش کی تو پھر فون کا جواب ندارد بار بار کوششوں کے بعد جب رابطہ نہ ہو سکا تو آخر اس کے بھائی کو فون کیا کہ کیا مسئلہ ہے شازیہ فون نہیں اٹھا رہی ۔ جوابا وہ کہنے لگا میں تمہیں یا کسی کو بھی اس کے متعلق جواب دہ نہیں ہوں ۔ یہ وہ جانے یا تم جانو بات کرتی ہے ٹھیک نہیں کرتی تو میں کیا کروں۔میں مزید پریشان ہوگیا۔ آخر ایک دن شازیہ سے بات ہو ہی گئی وہ کہنے لگی تم مجھے مل کر جاؤ میں فلاں جگہ پر ہوں ۔ میں دوڑا دوڑا وہاں گیا ۔ ملنے کے لئے تو ایک ہزار درہم دے کر کہنے لگی یہ لو پیسے واپس جاؤ اور وہاں سیٹل ہو کر اپنا گھر مکان بناؤ جب بن جائے تو مجھ سے بات کرنا تب تک مجھے اور طلحہ کو بھول جاؤ۔ خوش ہو گیا کہ گھر بچ گیا۔ واپس آیا خوش ہو کردبئی واپسی کو قصد کیا اور واپس دبئی پہنچ گیا۔ دوڑ بھاگ کر کے ایک نوکری کا بندوبست ہوا جنہوں نے واپس پاکستان بھیج دیا کہ آپ جائیں ہم آپ کو ویزہ بھیجیں گے ۔یہ کمپنی آرگوناٹ نام کی تھی یہاں نوکری کنفرم کر کے ، واپس پاکستان پہنچا اور ویزے کا انتظار کرنے لگا، شازیہ کی جانب سے پھر نہ ملاقات ہوئی نہ رابطہ۔ اچانک ایک دن شازیہ کے ایک ماموں کا فون آتا ہے کہ شازیہ کو طلاق دے دو اسے تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔ میں پھر پریشان اور منتشر ہو گیا۔ فورا اپنے خاندان کو اکٹھا کیا ان کے سامنے تمام حقائق رکھے اور انہیں کہا کہ آپ لوگ میری مدد کریں اور کسی طرح میرا گھر بچائیں ۔ایک تایا زاد بہن نے شازیہ سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ کیا مسئلہ ہے تو جواب ملا کہ میں اس شخص سے ملنا ہی نہیں چاہتی نہ کوئی تعلق رکھنا چاہتی ہوں۔ میں نے تو تنسیخ نکاح کا کیس بھی فائل کر دیا ہے جو تین ماہ میں ویسے ہی مجھے طلاق دلوا دے گا۔لہذا تم نے اپنی ذاتی حیثیت میں فیصل کی بہن ہو کر نہیں میری دوست ہو کر اگر مجھے ملنا ہے تو مل لو اگر ایسا نہیں ہے تو تمہاری مرضی۔ تمام کوششیں ناکام ہوئیں ۔ میں نے ایک د ن طلحہ سے ملنے کی کوشش کی اور بیکن ہاؤس سکول چلا گیا ۔ وہاں جب طلحہ کو دیکھا تو طلحہ مجھے چھوڑ کر اندر چلا گیا اور سکول والوں کے کہنے کے باوجود دوبارہ نہ ملا۔ یہ وقت میرے لئے بہت سخت وقت تھا۔ میں نصف پاگل ہو چکا تھا۔ کئی کئی دن مسلسل جاگتا رہتا۔ بلاوجہ رونے لگتا ۔ سگریٹ بے تحاشا پینے لگا۔ آخر میرا ویزہ آگیا۔ دوڑ بھاگ کر ویزہ کے پراسیس میڈیکل ، پروٹیکٹر وغیرہ کروائے لیکن اندر سے بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ ایک دوست نے مشورہ دیا دوسری شادی کر لوایک خاتون ہے جو تمہیں بہت عزت دے گی اور میرے لئے میری بہن ہے، شازیہ کو کہا میں دوسری شادی کر لوں گا تو جواب ملا اجازت نامہ بنو کر بھیج دو دستخط کر دونگی ویسے بھی مجھے کون سا تمہارے ساتھ رہنا ہے جو مجھے کوئی پروا ہو۔ اجازت نامہ بنا کر اسے بھیجا تو دستخط کر دئیے گئے ۔اسے دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ اب یہ رشتہ سچ میں ختم ہو گیا ہے۔ نیا رشتہ دیکھا تو جس خاتون سے رشتہ ہو رہا تھا وہ بھی اپنی زندگی کے پہلے سفر میں اسی عذاب یعنی زندگی کے سفر میں ساتھی کی طرف سے چھوڑ دیئے جانے کا عذاب سے گزر چکی تھیں جس سے میں گزر رہا تھا۔ سوچا دو ایک جیسے مل بیٹھیں گے تو شاید کچھ احساس کر سکیں ایک دوسرے کا۔ اور رشتے کے لئے کوشش کرنی شروع کر دی۔ آخر نکاح ہو گیا اور رخصتی کی تاریخ طے ہوگئی یہ سب کچھ دبئی میں ہو رہا تھا۔ رخصتی سے تین دن پہلے شازیہ کا فون آتا ہے کہ میں اب رشتہ نہیں توڑ رہی آپ بتائیں مجھے واپس قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ اب میری زندگی میں یہ فیصلہ کرنے کا حق میرا اکیلے کا نہیں رہا کہ میں تمہیں واپس لے سکتا ہوں یا نہیں یہ فیصلہ میری نئی بیگم کا ہوگا جس نے مجھے اس ٹوٹی پھوٹی حالت میں قبول کیا ہے۔ فورا نئی دلہن سے بات کی کہ ایسے ایسے فون آیا ہے تو نئی دلہن نے جواب میں یہ کہا کہ اگر گھر بچتا ہے تو بچا لیں میں کسی طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی ۔ آپ اسے قبول کریں میں آپ کو ناکام نہیں ہونے دوں گی ان شاء اللہ ۔ اور اس طرح شازیہ فیصل طلحہ اور ماہا کا خاندان بنا۔ رخصتی ہو کر ماہا اپنے گھر آئی تو شازیہ کو خرچ بھیجنے کے لئے اس نے اپنے گھر میں کم از کم راشن ڈالا اور باقی پیسے شازیہ کو بھجوا دیئے ۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ کیسے ۔ ہم دالیں کھاتے اور کم از کم زندگی کی حد تک اپنا گزر کرتے لیکن جو کماتے شازیہ کو بھییج دیتے ۔ایک دن شازیہ سے میسیج پر بات ہو رہی تھی تو شازیہ کہنے لگی کی تم یہ نہ سمجھو کہ میں نے تمہارے ساتھ واپس پیچ اپ تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ یہ خرچ ہے جس کی وجہ سے تم سے بات کر رہی ہوں ورنہ میں تو تمہیں دیکھنے کی بھی روادار نہیں ہوں۔ ساتھ ہی اس نے ماہا کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میں کہ ماہا کی قربانی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اس بات پر شازیہ کی اصلیت سے ایک بار پھر آگاہ ہوا اور شازیہ کو ایک طلاق دے دی ۔ کہنے لگی باپ کے ہو تو اور طلاق دے کر دکھاؤ اسی دوران ایک اور طلاق دے دی گئی اس طرح دو طلاقیں دینے کے بعد ماہا نے دیکھا کہ کیا ہو رہا ہے اور اس نے فون ہاتھ سے پکڑ لیا کیا کر رہے ہیں کیوں ایسے طلاق پر طلاق دیئے جا رہے ہیں۔ بس کردیں ۔ اس طرح دو طلاق کے بعد بات رک گئی۔ اور میں نے خود کو مزید طلاق دینے سے ماہا کی وجہ سے باز رکھا۔ لیکن پھر اس دن کے بعد شازیہ سے بات نہ کی۔کچھ عرصے بعد اس کا والد کو فون آیا کہ میں اب آپ کے بیٹے کی زندگی میں باقی نہیں ہوں۔ میرے نام کے ساتھ اب اس کا نام بھی نہ ہوگا۔بہر حال میں نے ماہا کی مدد سے خود کو سنبھالا اور اپنی زندگی کو واپس ٹریک پر لانا شروع کر دیا۔آہستہ آہستہ کام چلتا رہا۔ زندگی گزرتی رہی پھر دبئی میں جس طرف بھی جاتا شازیہ اور طلحہ کی یادیں مجھے بار بار رلاتیں ۔ ماہا مجھے سنبھالنے کی کوشش کرتی رہی پھر ایک نئی جگہ نوکری ملی ۔ یہ نوکری ایک رینٹ اے کار کمپنی میں لیگل ایڈوائزر کی تھی جو قبول کی اور ویزہ تبدیلی کے لئے ماہا کے ساتھ پاکستان آگیا۔ اس طرح ماہا کو پاکستان چھوڑ کر واپس دبئی چلا گیا اور اس کمپنی میں کام شروع کر دیا۔ یہ ایک انڈین کی کمپنی تھی ایک دن ایک ملازم جو کمپنی میں کام کرتا تھا اسے نوکری چھوڑنے کی پاداش میں جھوٹے چوری کے کیس میں پھنسانے کا جب حکم ملا تو انصاف اور انسانیت کے تقاضے سے اس حکم ماننے سے انکار کردیا اور استعفیٰ دے کر پاکستا ن واپس لوٹ آیا۔اس طرح پاکستان پہنچنے پر کوئی پیسہ ماسوائے پاکستانی پندر ہ ہزار کے جیب میں نہ تھا جب پاکستان آیا۔ لیکن اللہ نے ہاتھ پکڑا اور اپنا ویب سائیٹ بنانے کا کام شروع کیا پہلے ایک دو آرڈرز اچھے ملے جس سے بہت جلد اللہ کے کرم سے گھر بھی بن گیا اور سواری سے بھی اسی مالک نے نوازا۔ ماہا دوسری طرف نہ صرف سمجھداری سے گھر چلاتی رہے بلکہ واقعتا اس نے اپنے طرز عمل اور سلوک سے یہ ثابت کیا کہ شادی شدہ پر سکون زندگی کسے کہتے ہیں۔کچھ عرصے بعد سول ڈیفنس میں بھی پروموشن نے ساتھ بحالی ہوگئی۔ البتہ اپنا کاروبار ملازمین کی کام چوریوں، اور بے پروائیوں کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ کیونکہ ملازمین میں وقت کی عدم پابندی، کام سے سنجیدگی کا فقدان اور دفتری وسائل جیسے فون وغیرہ کو اپنی ذاتی (گرل فرینڈز وغیرہ) ضرورتوں میں مس یوز کرنا ایک بنیادی عادت ہے جو مجھے قبول نہ تھی۔ اب میں ہوں اور ماہا ہے۔ زندگی بحمد اللہ پر سکون ہے۔ یک سو ہو کر زندگی کے فیصلے کرتے ہیں، اور آپس میں محبت سے رہتے ہیں۔ یہ سمجھ میں آیا کہ غلامی میں آنکھ کھولنے والوں کے لئے غلامی اور آزادی میں کوئی فرق نہیں جب تک حقیقی آزادی کو وہ دیکھ نہ لیں اور اس سے پہلے غلامی گزر چکی ہو تو ہی یہ سمجھ آتی ہے کہ غلامی اور آزادی کن پرندوں کے نام ہیں۔ اللہ سب کو زندگی کے سفر میں آنے والے فتنوں اور آزمائشوں سے بخوبی کامیابی سے نمٹنے کی توفیق اور ہمت دے اور ہمیشہ ہمیں اپنی رحمت کے تلے اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے۔



آمین ثم آمین
آمین ثم آمین
یقیناً۔۔۔۔ ایک محبت کرنے والے شریکِ حیات کا ساتھ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے۔
 

علی وقار

محفلین
میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا ہی ہوں کہ مجھے آج ابو نے کلینک پر بلایا۔ امتحان سے فراغت کے بعد نتائج تک فارغ رہنے کی بجائے کچھ کر لو یہ لو دو ہزار روپیہ اور کچھ بن کے دکھاؤ۔ زندگی میں عملیت پسندی بہت ضروری ہے ابھی تمہاری عمر ہے ابھی سے عادت پڑ جائے گی تو ساری عمر کسی سے مانگنے یا ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں نے اس پر سوائے جی ڈیڈی کہنے کے اور کچھ نہیں کہا۔ جانتا تھا کہ والد محترم خود میٹرک کے بعد لاہور آگئے تھے اور اپنی تمام عمر کسی پر تکیہ نہیں کیا۔ خود ہی پڑھتے بھی رہے ، کلینک کیا، شادی کی اور اپنا گھر بھی بنایا۔ تو تین بھائیوں میں منجھلا ہونے کے ناطے مجھے ہی والد کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ دوسرے ہی دن صبح اٹھا شریف قسطوں والے کے پاس جا کر سائیکل قسطوں پر لی۔ شریف مجھے جانتا تھا اور والد صاحب کو بھی لہذا کوئی جان پہچان بتانے کی ضرورت نہ پڑی چھے سو روپے ایڈوانس دیا اور ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر سائیکل لے لی۔ والد کے دو ہزار سے اب چودہ سو روپے باقی بچے تھے۔ ایک محلے دار تھے صوفی بشیر صاحب ان سے بات کی اور ان سے گولیاں ٹافیاں خرید کر سائیکل کے پیچھے ایک کارٹن باندھ کر اس میں سجالیں۔ایک ایک دو دو روپے منافع رکھ کر نکل پڑا قسمت پڑیوں میں تین چار روپے بچ جاتے تھے جبکہ آٹھ روپے کی فانٹا گولی میں ڈیڑھ روپیہ بچتا تھا، بسکٹ میں تین روپے کی بچت تھی اس طرح تمام سامان کی قیمتیں لکھ کر ساتھ رکھیں اور شہر میں نکل پڑا، تین چار گھنٹے میں سامان بک گیا اور سائیکل خالی ہو گئی گھر آ کر پیسے گنے تو ایک سو تیرہ روپے کی بچت ہوئی تھی۔ امی کو ایک سو روپیہ دیا تو بلائیں لینے لگیں فورا کاشف کو بھیج کر نمک پارے اور بدانہ منگوا لیا ختم پڑھا کر شکر کر کے بانٹ دیا اور باقی پیسے ایک محلے کی بیوہ خاتون جسے مائی خیراں کہتے تھے ان کی خدمت میں بھیج دیا۔ یہ تھی اپنے بیٹے کی پہلی کمائی ۔ عمر چودہ پندرہ سال سائیکل پر جاکر گولیاں ٹافیاں بیچتا اور اسی طرح نتیجہ آگیا ۔ میٹرک میں باسٹھ فیصد نمبر لے کر پاس ہوا تو داخلے کے کاغذات گورنمنٹ کالج، ایف سی کالج اور سول لائنز کالج میں جمع کروائے۔ والدہ سے چھوٹی چھوٹی چخ چخ چلتی رہتی تھی کب سنجیدہ ہو گئی اور ان چھٹیوں میں ہی والد صاحب کی دوسری شادی ہوگئی اور وہ نئی زندگی کی طرف مشغول ہوگئے ۔پھر جیسا ہمارے معاشرے میں ہوا کرتا ہے پہلے والدہ کافی عرصہ ڈسٹرب رہیں اس دوران گھر کا خرچ گولیاں ٹافیاں اور سائیکل اٹھاتی رہی جبکہ شام کو ایک جاننے والے کے میڈیکل اسٹور پر ساتھ کے ساتھ بطور معاون کام بھی چلتا رہا۔ چھٹیوں کے بعد سول لائنز کالج میں پڑھائی شروع ہوئی ، کالج میں کشتی اور باکسنگ کی ٹیموں میں شرکت کی اور پڑھائی بھی چلتی رہی اور ساتھ ساتھ کاروبار بھی ۔ دوست یار ہنستے کہ کیا گولیاں ٹافیاں بیچتے ہو لیکن کبھی شرم نہ آئی کرتے کرتے کچھ عرصہ بعد والد صاحب نے گولیاں ٹافیاں بیچنے سے منع کیا کہ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر کا بیٹا گولیاں ٹافیاں بیچتا ہے۔ انٹر میڈیٹ کر لیا۔ میڈیکل اسٹور پر کام کرتے کرتے دواؤں کے نئے برانڈز سے تعارف ہو چکا تھا۔ فارمولیشن، مرہم پٹی کرنا، ٹانکے لگانا پہلے ہی آتا تھا۔ ڈاکٹر کے بیٹے تھے لہذا ڈاکٹر (عطائی) بن کر بیٹھ گئے۔ اپنا کلینک کر لیا۔ میٹھی گولیاں ٹافیاں بسکٹ بیچنے چھوڑ کر کڑوی گولیاں ، ٹیکے لگانے شروع کر دیئے ۔ اس دوران ایک دوست جس کے بھائی کی اپنی میڈیکل لیبارٹری تھی کی وساطت سے لیبارٹری کا کام سیکھنے لگے۔ رات کی ڈیوٹی لگوا لی نیا نیا دنیا میں نکلا نرسیں دیکھیں ، ایک پر لٹو ہو گیا۔ شام کلینک، رات لیبارٹری اور دن میں سول ڈیفنس میں کام کرنا شروع کر دیا۔ایک جانب یہ مصروفیات دوسری جانب عشق کا بھوت ۔ جوانی نرالی شے ہے جی ۔ پیسے، مصروفیت اور عشق کے ساتھ ساتھ وردی بھی ہو تو انسان اس دنیا میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ آخرش ایک دن محبوبہ کو کسی اور میں دل چسپی لیتے دیکھ لیا۔ بریک اپ ہوگیا ۔ ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوگیا۔ پھر ایک ماہر نفسیات سے رابطہ کیا اس نے لیگزوٹانل جیسی دوائیں دینا شروع کر دیں ۔جو کچھ دن استعمال کے بعد چھوڑ دیں کہ یہ فضول نشے پر لگا دیں گی۔ اداس شکل نہ آنے کا پتہ نہ جانے کا علم۔ ماں پریشان میرے بیٹے کو کیا ہو گیا۔ ایک گھر میں لڑکی پسند کر کے اس سے رشتہ طے کردیا۔ لیبارٹری کی نوکری اب ترقی کر چکی تھی اور اسسٹنٹ پیتھالوجسٹ کا کام کیا جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ سول ڈیفنس اور کلینک بھی جاری تھا ۔ چلتے چلتے شادی ہوگئی اور شازیہ گھر میں آگئی۔ شازیہ کا والد اور بھائی عمان میں ہوتے تھے۔ اس دوران والد کی بے توجہی اور والد کی نئی بیگم کی توجہ کے باعث گھر ٹوٹ رہا تھا۔ والدہ سے والد کی چپقلش کی وجہ سے ڈسٹرب ہو کر والد سے برگشتہ ہوگئے ۔ جھگڑے شروع ہوگئے ۔ والد اور والدہ میں علیحدگی اور بالآخر طلاق تک نوبت آن پہنچی ۔ سختیاں زیادہ ہوئیں تو گھر سے والد نے نکال باہر کیا۔ کلینک اور لیبارٹری کی نوکری چلتی رہی ۔ سول ڈیفنس کی طرف توجہ کم ہوگئی ۔ شازیہ کے بھائی نے عمان سے وزٹ ویزہ بھیج کر بلوایا وہیں پہلی نوکری دیار غیر میں بھی ملی جو شومئی قسمت ایک ماہ ہی چل سکی ۔ نئی نوکری جلد نہ ملی شازیہ کے بھائیوں نے آنکھیں بدلیں تو نکل پڑے کوئی بھی کام کرنے کو ایک عرب کیفے ٹیریا میں نوکری مل گئی رہائش اور کھانا انہی کی طرف سے تھا۔ یہ کیفے ٹیریا کمپیوٹر مارکیٹ میں تھا۔ لہذا کمپیوٹر والے دکانداروں سے سلام دعا ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد کیفے ٹیریا بیچ دیا گیا اور نوکری ختم ہو گئی۔ مارکیٹ میں دعا سلام کافی لوگوں سے بن چکا تھا دوپہر میں سڑکوں پر کھڑے ہوکر سی ڈی پروگرامز بیچنا شروع کردیا ساتھ ہی ساتھ کمپیوٹر ہارڈ ویئر کا کام سیکھنا شروع کر دیااور ایک دوکان بنا لی ۔اسی دوران پاکستان سے پتہ چلا کہ زوجہ کا جھگڑا ہو گیا ہے۔ ماموں کی طرف رہتی تھی ان سے کھٹ پٹ ہو گئی ہے۔ واپس لوٹے بیگم صاحبہ کو ساتھ لیا اور والد کی طرف جا پہنچے۔ شرم سے رات کو جاگ کر رکشہ چلاتے اور دن بھر اینٹھ کر سویا جاتا کہ حضرت باہر سے آئے ہیں۔ کچھ دنوں بعد شازیہ کے ایک ماموں آئے اور پاسپورٹ لے گئے کہ ٹکٹ کروا لائیں ۔ لیکن پاسپورٹ دبا کر بیٹھ گئے کہ شازیہ کی والدہ کوئی آپسی لین دین کا حساب کتاب باقی ہے چھے ماہ کے اندر اندر شازیہ کی والدہ نے پیسے کلیئر کر کے پاسپورٹ واپس دلوایا اور میں فورا واپس پہنچا ۔ پندرہ دن کے اندر اندر شازیہ کا ویزہ نکلوایا اور اسے عمان بلوا لیا۔ اس دوران دکان جا چکی تھی کیونکہ چھے ماہ سے کرایہ ادا نہ ہوا تھا ۔ فورا کمپیوٹر مارکیٹ میں نکلا ایک دکان میں معمولی تنخواہ پر نوکری مل گئی ۔ وہاں نوکری کرتے کرتے ایک واقعہ ایسا ہوا کہ کسی وجہ سے اس دکان کے پاکستانی مالک نے قرآن کا جھوٹا حلف اٹھا لیا۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ آٹھ دن کے اندر اندر اس کی دکان بند ہو گئی وجہ کفیل کا جھگڑا بنا۔ مجھے تو نئی نوکری چاہیئے تھی نکلے ایک اور دکان میں تین عرب دوستوں کے پاس ٹیکنیشن کی نوکری مل گئی۔اب ایک چھوٹا سا مکان دیکھا کرائے پر لیا اور کام کرتے رہے ۔وہ تینوں دوست جن کے پاس میں کام کرتا تھا کی آپس میں علیحدگی ہو گئی اور تینوں نے دکانیں الگ کر لیں ۔ میں نے ان میں سے ایک کے پاس کام کرنا پسند کیا، اس نے اپنی دکان امارات کے شہر العین میں بنائی اور اس طرح میں بھی العین ۔ متحدہ عرب امارات میں چلا گیا۔رہائش ابھی عمان میں ہی تھی۔کچھ عرصہ بعد مجھے اللہ نے طلحہ سے نوازا۔ شادی کے پانچ برس بعد پہلا بیٹا ہوا تھا ۔ اس دوران مجھے ایک مرتبہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہاں سے واپس آنے پر دبئی کی طرف چلے اور کمپیوٹر مارکیٹ کے قریب خالد بن ولید سٹریٹ پر ایک انٹرنیٹ کیفے میں نوکری مل گئی ۔ وہ کمپنی جس کے انٹرنیٹ کیفے میں میں کام کرتا تھا ایک اور اردنی شخص نے خرید لی جس کے پاس پھر میں بھی کام کرنے لگا۔ اس طرح کمپیوٹر مارکیٹ میں سلام دعا ہوگئی ۔ اب کام کے دوران ویب سائٹس بنانے کا سلسلہ چلتا رہا جبکہ فری وقت میں کمپیوٹر ، ڈرائیونگ سیکھنا وغیرہ چلتا رہا۔لائسنس بن گیا۔ گاڑی خرید لی پھر طلحہ اور شازیہ کا ویزہ پراسیس کروا کے انہیں بھی امارات کے ویزے پر لایا۔ کام چلتا رہا۔ بہتر نوکری ملی تو پہلی نوکری ترک کر دی اور بطور بزنس ڈیولپمنٹ مینیجر ایک سافٹ ویئر کمپنی میں کام شروع کردیا۔ اس دوران ایک لوکل دوست سے کہہ کر شازیہ کے بھائی کا بزنس لائسنس بنوا دیا۔ پھر اپنا کمپیوٹر کمپنی کا لائسنس بنوا کر کاروبار شروع کر دیا۔ زندگی بہتر سے بہتر کی طرف روانہ تھی۔ ساتھ ساتھ رینٹ اے کار کا کام شروع کر دیا۔ کاغذات وغیرہ کی تکمیل میں اچھی صلاحیت تھی جو کام آئی۔ فیسیں وغیرہ لگانا ان کا کام تھا کاغذات کی تکمیل میرا۔ لہذا شازیہ کا ایک بھائی پہلے بمع اہل و عیال برطانیہ بھیجا جہاں سے وہ پانچ ماہ میں واپس آگیا پھر اس کے کاغذات کی تکمیل کروا کر اسے امریکہ کا ویزہ لگوا کر دیا، اس دوران شازیہ کی ایک بہن کو کاغذات مکمل کر کے فرانس بھیجا ۔ اس طرح ایک بھائی کا دبئی میں کاروبار سیٹ ہو گیا، دوسرا امریکہ میں سیٹل ہو گیا، تیسری بہن فرانس میں سیٹل ہو گئی اور میں دبئی میں ہی اپنا کام کرتا رہا۔ جب کام ہوتا اپنا کام کرتا جب کوئی کام نہ ہوتا تو ٹورازم اور رینٹ اے کار والوں سے مل کر گاڑی چلا کر شوفر کے طور پر اپنا گزارا کر لیتا۔ اسی طرح ایک رینٹ اے کار کمپنی میں بطور سیلز مینیجر نوکری مل گئی اور ہر چیز اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھنے لگی۔ اچانک ایک دن پاکستان سے فون آتا ہے کہ والد صاحب کا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے اور پاس کچھ بھی نہیں تھا اس لئے فورا کچھ کرو ورنہ والد سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ ناراضگی، گلے شکوے سب بھول کر فورا ایمرجنسی چھٹی لے کر واپس پاکستان آیا۔ آ کر پتہ چلا کہ والد کا موٹر سائیکل پر حادثہ ہوا تھا جس میں سر میں خون جم جانے کی وجہ سے جان کو خطرہ ہے کمپنی نے چھٹی صرف تین دن کی دی جبکہ والد کا دماغ کا آپریشن ہونا ہے۔ لہذا چھٹی سے وقت پر واپس نہ آ سکا تو کمپنی نے نوکری سے نکال دیا۔ واپس پہنچنے پر ویزہ کینسل کر کے واپس بھیج دیا ۔ اس دوران کچھ پیسے جمع کر کے شازیہ کو اور طلحہ کو دبئی میں ہی ویزہ بچانے کے لئے چھوڑ کر میں اکیلا پاکستان آ گیا۔ شازیہ اور طلحہ دبئی میں ہیں جبکہ میں پاکستان میں ۔ ادھر ادھر سے ویزہ کی کوشش کرتا رہا۔پرانے پرانے دوست کام نہیں آئے۔جبکہ میں خود پاکستان میں پھنس کر رہ گیا۔ اور شازیہ اور طلحہ دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ لیکن شازیہ اور طلحہ کے پاس شازیہ کے میکے ، والدہ ، والد، بھائی بطور سپورٹ موجود ہیں ۔بہرحال ایک جگہ سے وزٹ ویزہ کا بندو بست کر کے جب واپس دبئی پہنچا تو شازیہ نے گھر پہنچتے ہی فورا مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا جب میں نکلنے لگا تو کہنے لگی یہ اپنے کپڑے وغیرہ شاپر میں ڈالو اور دفعہ ہو جاؤ یہاں سے ۔ غصے میں میں نے اسے تھپڑ جڑ دیا۔ فورا اپنی والدہ کو فون کیا اور انہیں بلانے لگی کہ فورا آپ ہمارے گھر آجائیں اور اسے پولیس کے حوالے کریں یہ بے غیرت انسان مجھے مارنے لگا ہے۔ والدہ نے اسے کہا تم پولیس کو فون کرو میں آ رہی ہوں ۔ میں نے غصے میں انہیں برا بھلا کہا کہ آپ کی لڑکی اگر غلط کر رہی ہے تو بجائے اسے سمجھانے کے آپ اسے پولیس بلوانے کا مشورہ دے رہی ہیں یہ کہاں کی انسانیت ہے۔ شازیہ کے بھائی کا فون آیا تو کوئی بات نہ کی کہنے لگا بے غیرت انسان جاؤ پہلے اپنی ماں سے یہ پوچھو تمہارا باپ کون ہے۔ میں نے غصے میں اسے ماں کی گالی دے دی اور فون بند کر دیا۔ ذہنی طور پر بے حد پریشان گھر سے نکلا تو جیب میں کوئی پیسہ نہ تھا۔ ایک دوست کو فون کر کے کچھ پیسے حاصل کئے اور عارضی رہائش کا بندو بست ہوا۔ پریشانی میں نوکری کا پتہ کرنا تو درکنار خود بیمار ہو گیا اس قدر کہ پیشاب سے خون آنا شروع ہو گیا۔ کچھ دنوں میں واپسی کا بندوبست کر کے پاکستان واپس آگیا۔ لیکن شازیہ اور طلحہ کا ویزہ میرے کفالت میں ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی رکھوا کر جو منجمند کیا ہوا تھا کی وجہ سے وہ وہاں سے کہیں سفر نہ کر سکتے تھے ۔ البتہ وہاں رہتے ہوئے آزادی سے اپنے تمام معاملات سر انجام دے سکتے تھے ۔ شاید یہی وہ وقت تھا جب میں ہمیشہ کے لئے شازیہ کے دل سے اتر گیا۔ وہ مجھے فون کر کے بد دعائیں دیتی ہے کہ تم مر جاؤ، تمہارا ایکسیڈنٹ ہو ، تمہارا قیمہ ہو جائے اس طرح چپقلش بڑھ گئی اور میں نے بد دل ہو کر واپس دبئی آنے کی کوشش چھوڑ دی ۔ اس سے بھی تلخیاں مزید بڑھ گئیں ۔ اچانک شازیہ کی والدہ جو کافی عرصے سے کینسر کی مریضہ تھی اور اس کے علاج میں بھی میری کافی کوششیں تھیں۔فوت ہو گئیں ۔ ایسے میں تمام مخالفتیں بھلا کر میں نے شازیہ کے بھائی کو فون کیا اور تعزیت کی بہر حال ماں کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آخر شازیہ نے مجھے فون کر کے اپنی بد تمیزی پر معذرت کرلی اور میں نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ ایک بار پھر شدت سے کوشش کی تو ایک دوست سے کہہ کر معاملہ بن گیا اور وہ وزٹ پر واپس دبئی پہنچ گیا۔واپس جا کر وہ پھر نوکری تلاش کرنے لگا اسی دوران سابقہ کمپنی سےا س کی نوکری دوبارہ آفر ہوئی تو فورا انہیں جوائن کر لیا۔ شازیہ اور طلحہ کے ویزے درست کروائے اور پھر گھر سب اچھا ہو گیا۔ایک دن شازیہ مجھے کہنے لگی کہ کب تک ایسے دوڑ بھاگ کرتے رہیں گے ۔ پردیس ہے فیملی کے ساتھ گزارا آسان نہیں ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ پاکستان چلتے ہیں آپ مجھے پاکستان چھوڑ آئیں طلحہ وہاں تعلیم حاصل کرے آپ یہاں سے پیسے بھیجتے رہیں اور ہمارا اچھا چلتا رہے۔ میں نے اتفاق کیا اور فورا کچھ دنوں کی چھٹی لے کر پاکستان واپسی کا کیا۔ شازیہ اور طلحہ کے ویزے کینسل کروائے اور پاکستان آ کر علامہ اقبال ٹاؤن میں گھر کرائے پر لیا۔اس میں نیا فرنیچر لے کر ڈالا۔ طلحہ کو بیکن ہاؤس میں داخل کروایا مکمل سیٹنگز کرنے کے بعد شازیہ اور طلحہ کو چھوڑ کر واپس دبئی چلا گیا۔ جاکر شازیہ کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجتا رہا اور خود کام کرتا رہا۔ ایک دن شازیہ پوچھتی ہے کہ میرے بھائی نے لاہور میں گھر لیا ہے ۔ اگر کہیں تو میں وہاں شفٹ ہو جاؤں ۔ میں نے کہا کہ اگر کرایہ دینا ہے تو شفٹ ہو جاؤ مفت رہنا ہے تو نہیں ۔ بات آئی گئی ہو گئی اور طے یہ ہوا کہ شازیہ گھر تبدیل نہیں کرے گی ۔ مہینے بعد مالک مکان کا فون آتا ہے کہ بھائی آپ نے ہمیں جو ایڈوانس دیا تھا کیا آپ کی زوجہ کو واپس کر دیں ۔ میں نے پوچھا کہ کیوں کہنے لگے کہ وہ پچھلے مہینے سے گھر چھوڑ چکی ہیں ۔ میں نے کہا کہ اگر گھر چھوڑ چکی ہیں تو پھر انہیں واپس کر دیں۔ شازیہ کو فون کرتا ہوں وہ جواب نہیں دیتی۔ بار بار فون کا جواب نہ ملنے پر شازیہ کے بھائی کو جو دبئی میں ہے رابطہ کیا جاتا ہے تو پھر شازیہ سے بات ہو جاتی ہے۔ شازیہ کہتی ہے کہ اب میں یہاں رہ رہی ہوں تم خرچ بھیجتے رہو لیکن بھو ل جاؤ کہ میرے پاس کبھی آ سکو گے یا مجھے مل سکو گے ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ کوئی مکان جائیداد پاکستان میں بنا کر میرے نام لگاؤ تو پھر تم ہمیں مل سکو گے ورنہ نہیں۔ میں یہ بات سن کر فلیش بیک میں دیکھتا ہوں تو یہ تمام تر صلح اور واپسی اور سلوک اس لئے تھا کہ ویزے منجمند ہونے کی وجہ سے جو نقل و حرکت بند تھی وہ جاری ہو سکے اور وہ محتاجی ختم ہو جائے جس کی وجہ سے وہ مجھے ٹھیک طرح سے بلانے پر مجبور ہوئی تھی۔ایک بار پھر شدید ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار ہو گیا۔ کام کاروبار پر اس کا برا اثر پڑا اور نوکری پھر سے جاتی رہی۔ واپس لوٹا نئے گھر کا پتہ نہیں تھا کہ شازیہ اور طلحہ کہاں رہتے ہیں ۔لہذا سیدھا اپنے والد کی طرف گیا۔ وہاں والد صاحب نے شازیہ کو فون کیا تو اس نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے کوشش کی تو پھر فون کا جواب ندارد بار بار کوششوں کے بعد جب رابطہ نہ ہو سکا تو آخر اس کے بھائی کو فون کیا کہ کیا مسئلہ ہے شازیہ فون نہیں اٹھا رہی ۔ جوابا وہ کہنے لگا میں تمہیں یا کسی کو بھی اس کے متعلق جواب دہ نہیں ہوں ۔ یہ وہ جانے یا تم جانو بات کرتی ہے ٹھیک نہیں کرتی تو میں کیا کروں۔میں مزید پریشان ہوگیا۔ آخر ایک دن شازیہ سے بات ہو ہی گئی وہ کہنے لگی تم مجھے مل کر جاؤ میں فلاں جگہ پر ہوں ۔ میں دوڑا دوڑا وہاں گیا ۔ ملنے کے لئے تو ایک ہزار درہم دے کر کہنے لگی یہ لو پیسے واپس جاؤ اور وہاں سیٹل ہو کر اپنا گھر مکان بناؤ جب بن جائے تو مجھ سے بات کرنا تب تک مجھے اور طلحہ کو بھول جاؤ۔ خوش ہو گیا کہ گھر بچ گیا۔ واپس آیا خوش ہو کردبئی واپسی کو قصد کیا اور واپس دبئی پہنچ گیا۔ دوڑ بھاگ کر کے ایک نوکری کا بندوبست ہوا جنہوں نے واپس پاکستان بھیج دیا کہ آپ جائیں ہم آپ کو ویزہ بھیجیں گے ۔یہ کمپنی آرگوناٹ نام کی تھی یہاں نوکری کنفرم کر کے ، واپس پاکستان پہنچا اور ویزے کا انتظار کرنے لگا، شازیہ کی جانب سے پھر نہ ملاقات ہوئی نہ رابطہ۔ اچانک ایک دن شازیہ کے ایک ماموں کا فون آتا ہے کہ شازیہ کو طلاق دے دو اسے تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔ میں پھر پریشان اور منتشر ہو گیا۔ فورا اپنے خاندان کو اکٹھا کیا ان کے سامنے تمام حقائق رکھے اور انہیں کہا کہ آپ لوگ میری مدد کریں اور کسی طرح میرا گھر بچائیں ۔ایک تایا زاد بہن نے شازیہ سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ کیا مسئلہ ہے تو جواب ملا کہ میں اس شخص سے ملنا ہی نہیں چاہتی نہ کوئی تعلق رکھنا چاہتی ہوں۔ میں نے تو تنسیخ نکاح کا کیس بھی فائل کر دیا ہے جو تین ماہ میں ویسے ہی مجھے طلاق دلوا دے گا۔لہذا تم نے اپنی ذاتی حیثیت میں فیصل کی بہن ہو کر نہیں میری دوست ہو کر اگر مجھے ملنا ہے تو مل لو اگر ایسا نہیں ہے تو تمہاری مرضی۔ تمام کوششیں ناکام ہوئیں ۔ میں نے ایک د ن طلحہ سے ملنے کی کوشش کی اور بیکن ہاؤس سکول چلا گیا ۔ وہاں جب طلحہ کو دیکھا تو طلحہ مجھے چھوڑ کر اندر چلا گیا اور سکول والوں کے کہنے کے باوجود دوبارہ نہ ملا۔ یہ وقت میرے لئے بہت سخت وقت تھا۔ میں نصف پاگل ہو چکا تھا۔ کئی کئی دن مسلسل جاگتا رہتا۔ بلاوجہ رونے لگتا ۔ سگریٹ بے تحاشا پینے لگا۔ آخر میرا ویزہ آگیا۔ دوڑ بھاگ کر ویزہ کے پراسیس میڈیکل ، پروٹیکٹر وغیرہ کروائے لیکن اندر سے بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ ایک دوست نے مشورہ دیا دوسری شادی کر لوایک خاتون ہے جو تمہیں بہت عزت دے گی اور میرے لئے میری بہن ہے، شازیہ کو کہا میں دوسری شادی کر لوں گا تو جواب ملا اجازت نامہ بنو کر بھیج دو دستخط کر دونگی ویسے بھی مجھے کون سا تمہارے ساتھ رہنا ہے جو مجھے کوئی پروا ہو۔ اجازت نامہ بنا کر اسے بھیجا تو دستخط کر دئیے گئے ۔اسے دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ اب یہ رشتہ سچ میں ختم ہو گیا ہے۔ نیا رشتہ دیکھا تو جس خاتون سے رشتہ ہو رہا تھا وہ بھی اپنی زندگی کے پہلے سفر میں اسی عذاب یعنی زندگی کے سفر میں ساتھی کی طرف سے چھوڑ دیئے جانے کا عذاب سے گزر چکی تھیں جس سے میں گزر رہا تھا۔ سوچا دو ایک جیسے مل بیٹھیں گے تو شاید کچھ احساس کر سکیں ایک دوسرے کا۔ اور رشتے کے لئے کوشش کرنی شروع کر دی۔ آخر نکاح ہو گیا اور رخصتی کی تاریخ طے ہوگئی یہ سب کچھ دبئی میں ہو رہا تھا۔ رخصتی سے تین دن پہلے شازیہ کا فون آتا ہے کہ میں اب رشتہ نہیں توڑ رہی آپ بتائیں مجھے واپس قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ اب میری زندگی میں یہ فیصلہ کرنے کا حق میرا اکیلے کا نہیں رہا کہ میں تمہیں واپس لے سکتا ہوں یا نہیں یہ فیصلہ میری نئی بیگم کا ہوگا جس نے مجھے اس ٹوٹی پھوٹی حالت میں قبول کیا ہے۔ فورا نئی دلہن سے بات کی کہ ایسے ایسے فون آیا ہے تو نئی دلہن نے جواب میں یہ کہا کہ اگر گھر بچتا ہے تو بچا لیں میں کسی طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی ۔ آپ اسے قبول کریں میں آپ کو ناکام نہیں ہونے دوں گی ان شاء اللہ ۔ اور اس طرح شازیہ فیصل طلحہ اور ماہا کا خاندان بنا۔ رخصتی ہو کر ماہا اپنے گھر آئی تو شازیہ کو خرچ بھیجنے کے لئے اس نے اپنے گھر میں کم از کم راشن ڈالا اور باقی پیسے شازیہ کو بھجوا دیئے ۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ کیسے ۔ ہم دالیں کھاتے اور کم از کم زندگی کی حد تک اپنا گزر کرتے لیکن جو کماتے شازیہ کو بھییج دیتے ۔ایک دن شازیہ سے میسیج پر بات ہو رہی تھی تو شازیہ کہنے لگی کی تم یہ نہ سمجھو کہ میں نے تمہارے ساتھ واپس پیچ اپ تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ یہ خرچ ہے جس کی وجہ سے تم سے بات کر رہی ہوں ورنہ میں تو تمہیں دیکھنے کی بھی روادار نہیں ہوں۔ ساتھ ہی اس نے ماہا کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میں کہ ماہا کی قربانی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اس بات پر شازیہ کی اصلیت سے ایک بار پھر آگاہ ہوا اور شازیہ کو ایک طلاق دے دی ۔ کہنے لگی باپ کے ہو تو اور طلاق دے کر دکھاؤ اسی دوران ایک اور طلاق دے دی گئی اس طرح دو طلاقیں دینے کے بعد ماہا نے دیکھا کہ کیا ہو رہا ہے اور اس نے فون ہاتھ سے پکڑ لیا کیا کر رہے ہیں کیوں ایسے طلاق پر طلاق دیئے جا رہے ہیں۔ بس کردیں ۔ اس طرح دو طلاق کے بعد بات رک گئی۔ اور میں نے خود کو مزید طلاق دینے سے ماہا کی وجہ سے باز رکھا۔ لیکن پھر اس دن کے بعد شازیہ سے بات نہ کی۔کچھ عرصے بعد اس کا والد کو فون آیا کہ میں اب آپ کے بیٹے کی زندگی میں باقی نہیں ہوں۔ میرے نام کے ساتھ اب اس کا نام بھی نہ ہوگا۔بہر حال میں نے ماہا کی مدد سے خود کو سنبھالا اور اپنی زندگی کو واپس ٹریک پر لانا شروع کر دیا۔آہستہ آہستہ کام چلتا رہا۔ زندگی گزرتی رہی پھر دبئی میں جس طرف بھی جاتا شازیہ اور طلحہ کی یادیں مجھے بار بار رلاتیں ۔ ماہا مجھے سنبھالنے کی کوشش کرتی رہی پھر ایک نئی جگہ نوکری ملی ۔ یہ نوکری ایک رینٹ اے کار کمپنی میں لیگل ایڈوائزر کی تھی جو قبول کی اور ویزہ تبدیلی کے لئے ماہا کے ساتھ پاکستان آگیا۔ اس طرح ماہا کو پاکستان چھوڑ کر واپس دبئی چلا گیا اور اس کمپنی میں کام شروع کر دیا۔ یہ ایک انڈین کی کمپنی تھی ایک دن ایک ملازم جو کمپنی میں کام کرتا تھا اسے نوکری چھوڑنے کی پاداش میں جھوٹے چوری کے کیس میں پھنسانے کا جب حکم ملا تو انصاف اور انسانیت کے تقاضے سے اس حکم ماننے سے انکار کردیا اور استعفیٰ دے کر پاکستا ن واپس لوٹ آیا۔اس طرح پاکستان پہنچنے پر کوئی پیسہ ماسوائے پاکستانی پندر ہ ہزار کے جیب میں نہ تھا جب پاکستان آیا۔ لیکن اللہ نے ہاتھ پکڑا اور اپنا ویب سائیٹ بنانے کا کام شروع کیا پہلے ایک دو آرڈرز اچھے ملے جس سے بہت جلد اللہ کے کرم سے گھر بھی بن گیا اور سواری سے بھی اسی مالک نے نوازا۔ ماہا دوسری طرف نہ صرف سمجھداری سے گھر چلاتی رہے بلکہ واقعتا اس نے اپنے طرز عمل اور سلوک سے یہ ثابت کیا کہ شادی شدہ پر سکون زندگی کسے کہتے ہیں۔کچھ عرصے بعد سول ڈیفنس میں بھی پروموشن نے ساتھ بحالی ہوگئی۔ البتہ اپنا کاروبار ملازمین کی کام چوریوں، اور بے پروائیوں کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ کیونکہ ملازمین میں وقت کی عدم پابندی، کام سے سنجیدگی کا فقدان اور دفتری وسائل جیسے فون وغیرہ کو اپنی ذاتی (گرل فرینڈز وغیرہ) ضرورتوں میں مس یوز کرنا ایک بنیادی عادت ہے جو مجھے قبول نہ تھی۔ اب میں ہوں اور ماہا ہے۔ زندگی بحمد اللہ پر سکون ہے۔ یک سو ہو کر زندگی کے فیصلے کرتے ہیں، اور آپس میں محبت سے رہتے ہیں۔ یہ سمجھ میں آیا کہ غلامی میں آنکھ کھولنے والوں کے لئے غلامی اور آزادی میں کوئی فرق نہیں جب تک حقیقی آزادی کو وہ دیکھ نہ لیں اور اس سے پہلے غلامی گزر چکی ہو تو ہی یہ سمجھ آتی ہے کہ غلامی اور آزادی کن پرندوں کے نام ہیں۔ اللہ سب کو زندگی کے سفر میں آنے والے فتنوں اور آزمائشوں سے بخوبی کامیابی سے نمٹنے کی توفیق اور ہمت دے اور ہمیشہ ہمیں اپنی رحمت کے تلے اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے۔



آمین ثم آمین
سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیا ریٹنگ دوں۔ زندگی کے گرم اور سرد کا مزا ہر کوئی نہیں چکھ پاتا، اور یہ آزمائشیں بھی ہر کسی کے حصے میں نہیں آتیں۔ آپ نے تو پوری زندگی کی داستان کھول دی، یہ ہمت بھی خال خال ہی کسی میں ہوتی ہے اور کیتھارسس کے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں۔ قریبی رشتوں کا بدل جانا اذیت ناک ہوتا ہے جس کا مجھے کچھ تجربہ ہے۔ یہ جو آپ نے نیم دیوانہ ہونے کی بات کہی ہے، ایسا ہی ہوتا ہے۔ فیصل بھائی، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے، یہ اللہ کریم کا وعدہ ہے، اور میں دعا گو ہوں کہ آپ کا آنے والا وقت آپ کے حق میں خوشگوار ثابت ہو۔ میری خواہش ہو گی کہ آپ کے بیٹے کو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے، آمین۔
 
Top