بات تو کچھ ایسی مزے دار نہیں مگر یہ لڑی دلچسپ لگی سو محض شرکت کے لیے لکھ دیتا ہوں۔ شاید اس میں کوئی ہنسی مذاق کا پہلونکل آئے۔ ہم یار دوست لائبریری میں بیٹھے تھے۔ ایک دوست کے بارے میں معروف تھا کہ ان سے ڈھنگ کی کوئی بات بعید ہے، کھانے پینے کے علاوہ کوئی کام نہیں، شاید وہ ہمارے واحد دوست تھے جنہیں کتاب پڑھنے سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا، وہ دوستوں کی محبت میں لائبریری پہنچ جاتے تھے اور ہمیں بہت عزیز تھے۔ ایک روز میری وہاں انٹری ہوئی تو میں نے اپنے گنہگار کانوں سے انہیں فرماتے سنا، یارو یہ جو پیار کی پرتیں ہوتی ہیں نا ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یقین جانیں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ان کی زبان مبارک سے فلسفیانہ گفتگو سننے کو مل رہی تھی سو میں نے خصوصی طور پر پیار کی پرتوں کے متعلق پوچھا اور کہا کچھ یہ عقدا وا کریں حضرت توفٹ مکر گئے، کہنے لگے، یار کون سے پیار کی پرتیں۔ میں نے کہا، میں نے ابھی سنا، تو گویا ہوئے، یار تمہاری تو کوئی اپنی ہی دنیا ہے، پیار کی پرتیں نہیں، پیاز کی پرتیں۔ میں انہیں عید قربان کی ایک ڈش کی ترکیب بتا رہا تھا۔