منیب احمد فاتح
محفلین
مثنوی
جائیے جشن گر منانے کو
آئیے میرےہی ٹھکانے کو
میز کرسی لگائے دیتا ہوں
ٹاٹ قالیں بچھائے دیتا ہوں
ماہا* اور عینی* ہے کہاں نَمرہ*
تم سبھوں نے سجانا ہے کمرہ
کام چورو! کرو نہ یوں بَھیں بھَیں
گر مدد چاہیئے مدیحہ* ہیں
تھیں جنہیں بزمِ بادہ خواراں میں
آج سلطانیاتِ مے لانی
بسکہ افسوس سے یہ کہتا ہوں
آ نہ پائیں وہ آج گیلانی*
اور فرخ* اِدھر نہیں آئے
والی وارث* نظر نہیں آئے
خیر اے محفلینِ بزمِ طرب
کام کی بات سنئے گا اب سب
کہ خورونوش کی جو لیجو سدھ
اپنا سامان لائیے گا خود
کیک لے آئیے خلیل* الدیں
احمد* ہیں بھوک سے بڑے غمگیں
اور الف عین جی* کہاں ہیں آپ
کوک لائیے کہ مہرباں ہیں آپ
آپ یوں کیجئے میاں حسان*
گھر سے لے آئیے کوئی پکوان
شوکت* آپ اِس طرح کریں کہ سنیں
کوئی بابا* لگاتا ہو آواز
تو اُسے پھیرئیے گا مت واپس
میری مجلس کا یہ نہیں انداز
آج ہیں ایک پست و عالی مقام
آج مدعو ہیں سب خواص و عوام
(کیا کوئی شاہ* و حضرتِ یعقوب*
کیا کوئی مریم* و مہِ معتوب
کیا کوئی مہدی* کیا علم بردار*
کیا کوئی فاتح و شہِ گفتار*)
چلئے پھر ضبط کب تلک کیجے
لے خدا نام کھائیے پیجے
سرسری* طور کوئی مت کھاؤ
ختم کچھ ہو تو اور منگواؤ
کاہے شرماتے ہو مزمل* آج؟
ہشت سالہ ہوئی ہے محفل آج
کھاؤ ایسے کہ جیسے باپ کا مال
پیو جیسے کہ شیرِ مادرِ زال
ہاں رکھو اتنا ہی لحاظ تمام
رہ نہ جائے کوئی حریصِ طعام
یعنی ہر ڈِش نہ آج چکھ چھوڑو
کچھ مرے واسطے بھی رکھ چھوڑو
خیر گر بجھ گئی ہو بھوک پیاس
تو سنو حرفِ آخرِ اجلاس
نام ہر ایک کے محبت سے
زیبِ قرطاسِ برقی محنت سے
کر دئیے جتنے سمرتی میں تھے
رہ گئے جو وہ عاجزی میں تھے
یاں پہ کرتے ہیں اختتامِ جلوس
ضعفِ دل تاڑنے لگا منحوس
میری جانب سے لو مبارک باد
رکھنا شادی میں اور غمی میں یاد
فاتحِ ناتوان و عاجز کو
آج دعوت کا میزباں تھا جو
روزِ روشن بہ وقتِ شام رسید
بر لبِ صبح خیز جام رسید
ماہا عطا عینی شاہ نمرہ مدیحہ گیلانی سارہ بشارت گیلانی فرخ منظور محمد وارث محمد خلیل الرحمٰن محمد احمد الف عین حسان خان شوکت پرویز باباجی سید شہزاد ناصر محمد یعقوب آسی مریم اسلم مہدی نقوی حجاز @محمد علم اللہ اصلاحی فاتح @محمد اسامہ سرسری مزمل شیخ بسمل