انیسویں سالگرہ اردو محفل کی تاخیری انیسویں سالگرہ

ظفری

لائبریرین
اردو محفل کی چھٹی سالگر ہ کے موقع پر مورخ نے غلطی سے بادشاہ سلامت کے لو ہے کا پاجامے کا ذکر کردیا تھا ۔ جس کی پاداش میں بادشاہ نے اُسے 14 سال بامشقت کی سزا دیدی تھی ۔ اردو محفل کی انیسویں سالگرہ پر اُسے بہترین کردار کی بناء پر مقررہ مدت سےصرف چند گھنٹوں پہلے رہا ئی دیدی گئی ۔ مورخ کا قیدِ تنہائی نے بہت برا حال کردیا تھا ۔وقت بدل گیا تھا۔پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا ۔ بادشاہ سلامت ریٹائر منٹ لے چکے تھے ۔ ان کی جگہ ایک نامعلوم بادشاہ جگہ لے چکے تھے ۔ جو بضد تھے کہ ا ن کو شنہشاہ پکارا جائے ۔وہ بھی اندھیری راتوں والوں شنہشاہ ۔ جو صرف راتوں کو نکلتا تھا ۔ رعایا کو صرف ایک شخص پر شنہشاہ ہونے کا شک تھا جورمضان کی راتوں میں ڈھول بجا بجا کر لوگوں کوسحری کے لیئے جگاتا تھا ،خیر۔
وزیرِ اعظم نے بھی ریٹائرمنٹ لے لی تھی ۔ چائے کی کثرت کی باعث شاہی حکیم نے ان کو مذید چائے نوشی سے منع کردیا تھا ۔ مگر انہوں نے اپنے شوق کو رسوا ہونے نہیں دیا ۔ اور راجہ بازار میں نیٹ کیفے کے برابر ایک چائے کا ڈھابہ کھول کر چائے کا ذائقہ چیک کرنے کے بہانےچائے کی کچھ چُسکیاں بھی لگا لیتے تھے اور گاہے بہ گاہے نیٹ کیفے میں جھانک کر شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی ،کی ہلکی سی جھک دیکھ کر بیتے ہوئے دنوں کی یاد بھی تازہ کرلیا کرتے تھے ۔ مُشیرِ خاص کی بھی ترقی ہوچکی تھی ۔ انہوں نے محل کے باہر بھی اپنا کاروبار شروع کردیا تھا ۔ اور خوب ترقی کی تھی ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس میں اردومحفل کے سپہ سالار کا بھی خفیہ سرمایہ لگا ہوا ہے۔ جو ہر قسم کے ٹیکس سے بھی مستثنی تھا۔ محفل کے جاسوس فہیم کو بھی بادشاہ نے ریٹائر منٹ سے پہلے اپنے شوشل میڈیا کے خفیہ اکاؤنٹس کی ملکہ کو خبر دینے پر عمر قید کی سزا شادی کی صورت میں سنا دی تھی ۔ انہوں نے تقریبا جاسوسی چھوڑ دی تھی ۔ کیونکہ اب ان کی جاسوسی شروع ہوچکی تھی ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر جمعہ کی نماز میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر مولوی صاحب سے بھی بلند آواز میں بادشا ہ کو کوستے رہتے تھے ۔ قیصرانی کا پھر معلوم نہیں کیا ہوا ۔ سنا ہے یمن کے صحرا میں ایک خاص تیل جو سر کے بالوں کی افزائش کے لیئے انتہائی مفید تھا ۔ اس کی تلاش میں ایسے گئے کہ پھر نہیں لوٹے ۔ محب علوی نے بھی عمر کو مدِنظر رکھتے ہوئے سیاحت چھوڑ کر ایک مدرسہ کھول رکھا تھا ۔ جہاں وہ ایک پائی سے کپڑے کی تھانوں ( پائتھون) بنانے کے گُر سیکھاتے تھے ۔ غرض کہ دنیا بدل چکی تھی ۔ اردو محفل کی رعایا میں اضافہ ہوچکا تھا ۔ آبادی کے لحاظ نہیں بلکہ اراکین کی تعداد کی وجہ سے ۔بادشاہ سلامت نے پچھلے خدشوں کی بناء پر سلطنتِ محفل کی شہریت کے لیئے نئے اراکین پر شادی شہداء شرط عائد کر رکھی تھی ۔ جس کی وجہ سے سلطنتِ محفل پر گویا ایک سوگواری کی کیفیت طاری تھی ۔ سب آپس میں بھائی بہن تھے ۔ اسی وجہ سے اکثر غیر شادی شہداء اراکین سلطنتِ محفل کو چھوڑ کر دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت کر چکے تھے۔سلطنتِ محفل کے آئی جی فیصل عظیم فیصل کو بادشاہ سلامت نے ٹاسک دیا تھا کہ وہ انہیں بتائے کہ ان کی سلطنت میں اتنا سناٹا کیوں ہے ۔ آئی جی صاحب نے تقریبا ساڑے تین سو صفحات پر مشتمل ایک ر پورٹ پیش کی تھی ۔ جیسے دیکھ کر بادشا ہ کو غش آگیا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق شادی شہداءہونے کے باعث سلطنت میں اٹھکیلیاں اور آنکھ مٹکا تقریبا ناپید تھا ۔ یہ مسئلہ بادشاہ کے نئے قانون کی وجہ نہیں بلکہ اندورنِ خانہ کے قانون کی وجہ سے تھا ۔ کچھ اراکین کےہوم منسٹرز کسی اور نام سے لاگ ان ہوکر اپنے فارن منسٹرپر باقاعدگی سے نظر رکھتے تھے ۔ کسی اراکین کو مخاطب کرنا مطلوب ہو تو، خواہر یا برادر اپنے اپنے جملوں میں استعمال کرنا گویا ایک طرح کا آئین بن چکا تھا ۔ جس کی روگردانی سلطنتِ محفل سےدو ہفتے کی دوری اور دو دنوں کے طعام کی پابندی سے مشروط تھی ۔پرانے اراکین تو سلام دعا کرکے چپکے سے نکل جاتے تھے ۔اکثر تو نماز پڑھنے کا کہہ کر نکل جاتے تھے۔ نئے اراکین کے بارے میں مورخ مذید معلومات حاصل کرکے پھر تفصیل سے تبصرہ کرے گا ۔ ابھی تو مورخ کو نیند آرہی ہے کہ بہت دنوں کے بعد قید خانے کی ٹھنڈی سل کے بجائے سونے کے نرم بستر نصیب ہوا ہے ۔
(جاری ہے )
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اردو محفل کی چھٹی سالگر ہ کے موقع پر مورخ نے غلطی سے بادشاہ سلامت کے لو ہے کا پاجامے کا ذکر کردیا تھا ۔ جس کی پاداش میں بادشاہ نے اُسے 14 سال بامشقت کی سزا دیدی تھی ۔ اردو محفل کی انیسویں سالگرہ پر اُسے بہترین کردار کی بناء پر مقررہ مدت سےصرف چند گھنٹوں پہلے رہا ئی دیدی گئی ۔ مورخ کا قیدِ تنہائی نے بہت برا حال کردیا تھا ۔وقت بدل گیا تھا۔پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا ۔ بادشاہ سلامت ریٹائر منٹ لے چکے تھے ۔ ان کی جگہ ایک نامعلوم بادشاہ جگہ لے چکے تھے ۔ جو بضد تھے کہ ا ن کو شنہشاہ پکارا جائے ۔وہ بھی اندھیری راتوں والوں شنہشاہ ۔ جو صرف راتوں کو نکلتا تھا ۔ رعایا کو صرف ایک شخص پر شنہشاہ ہونے کا شک تھا جورمضان کی راتوں میں ڈھول بجا بجا کر لوگوں کوسحری کے لیئے جگاتا تھا ،خیر۔
کیا بات ہے
ہمارے
ظفری کی اب
پوری طرح سے
فارم میں آچکے ہیں
ماشاء اللہ
اللہ نظرِبد سے محفوظ رکھے
🧿
آمین
بتا نہیں سکتے کسقدر خوشی ہورہی
ہے
اتنی جلدی پڑھا کہ تیس سال پہلے والی اسپیڈ
یاد آگئی
ماشاء اللہ خوب لکھا
اللہ نظر بد سے محفوظ رہے اور اسی طر ح لکھتے رہیے ہم نے آپکی کمی بہت محسوس کی اور گاہے بگاہے ضد بھی کی ظفری کچھ لکھیے ۔۔
ابھی دوبارہ پڑھتے ہیں کہ دل ابھی بھرا نہیں اور بس یہ سب کمال پاکستان آمد کاہے جلدی سے آئیے کہ انتظار ہے
اب یقین ہے کہ طبعیت بالکل ٹھیک ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
بادشاہ سلامت ریٹائر منٹ لے چکے تھے ۔ ان کی جگہ ایک نامعلوم بادشاہ جگہ لے چکے تھے ۔ جو بضد تھے کہ ا ن کو شنہشاہ پکارا جائے ۔وہ بھی اندھیری راتوں والوں شنہشاہ ۔ جو صرف راتوں کو نکلتا تھا ۔ رعایا کو صرف ایک شخص پر شنہشاہ ہونے کا شک تھا جورمضان کی راتوں میں ڈھول بجا بجا کر لوگوں کوسحری کے لیئے جگاتا تھا ،خیر۔
کیا خوب نقشہ کھینچا ہے بادشاہ سلامت کاُجو راتوں والوں کاُشہنشاہ واہ !
یہ ہمارے لئے
اچنبھے
کی بات ہے کہ
بادشاہ بھی
ریٹائرمنٹ
لیتے ہیں
🤔🤔🤔🤔🤔🤔
 

سیما علی

لائبریرین
وزیرِ اعظم نے بھی ریٹائرمنٹ لے لی تھی ۔ چائے کی کثرت کی باعث شاہی حکیم نے ان کو مذید چائے نوشی سے منع کردیا تھا ۔ مگر انہوں نے اپنے شوق کو رسوا ہونے نہیں دیا ۔ اور راجہ بازار میں نیٹ کیفے کے برابر ایک چائے کا ڈھابہ کھول کر چائے کا ذائقہ چیک کرنے لے بہانےچائے کی کچھ چُسکیاں بھی لگا لیتے تھے اور گاہے بہ گاہے نیٹ کیفے میں جھانک کر شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی ،کی ہلکی سی جھک دیکھ کر بیتے ہوئے دنوں کی یاد بھی تازہ کرلیا کرتے تھے ۔ مُشیرِ خاص کی بھی ترقی ہوچکی تھی ۔ انہوں نے محل کے باہر بھی اپنا کاروبار شروع کردیا تھا ۔ اور خوب ترقی کی تھی ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس میں اردومحفل کے سپہ سالار کا بھی خفیہ سرمایہ لگا ہوا ہے۔ جو ہر قسم کے ٹیکس سے بھی مستثنی تھا۔ محفل کے جاسوس @فہیم کو بھی بادشاہ نے ریٹائر منٹ سے پہلے اپنے شوشل میڈیا کے خفیہ اکاؤنٹس کی ملکہ کو خبر دینے پر عمر قید کی سزا شادی کی صورت میں سنا دی تھی ۔ انہوں نے تقریبا جاسوسی چھوڑ دی تھی ۔ کیونکہ اب ان کی جاسوسی شروع ہوچکی تھی ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر جمعہ کی نماز میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر مولوی صاحب سے بھی بلند آواز میں بادشا ہ کو کوستے رہتے تھے ۔
فہیم
کی جاسوسی کے ہم بھی قائل ہیں
👏🏻👏🏻👏🏻👏🏻
عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعدُبھی پوری طرح
چاق و چوبند ہیں !
بس سپیڈ بہت دھیمی
ہوگئی ہے
 
اردو محفل کی چھٹی سالگر ہ کے موقع پر مورخ نے غلطی سے بادشاہ سلامت کے لو ہے کا پاجامے کا ذکر کردیا تھا ۔ جس کی پاداش میں بادشاہ نے اُسے 14 سال بامشقت کی سزا دیدی تھی ۔ اردو محفل کی انیسویں سالگرہ پر اُسے بہترین کردار کی بناء پر مقررہ مدت سےصرف چند گھنٹوں پہلے رہا ئی دیدی گئی ۔ مورخ کا قیدِ تنہائی نے بہت برا حال کردیا تھا ۔وقت بدل گیا تھا۔پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا ۔ بادشاہ سلامت ریٹائر منٹ لے چکے تھے ۔ ان کی جگہ ایک نامعلوم بادشاہ جگہ لے چکے تھے ۔ جو بضد تھے کہ ا ن کو شنہشاہ پکارا جائے ۔وہ بھی اندھیری راتوں والوں شنہشاہ ۔ جو صرف راتوں کو نکلتا تھا ۔ رعایا کو صرف ایک شخص پر شنہشاہ ہونے کا شک تھا جورمضان کی راتوں میں ڈھول بجا بجا کر لوگوں کوسحری کے لیئے جگاتا تھا ،خیر۔
وزیرِ اعظم نے بھی ریٹائرمنٹ لے لی تھی ۔ چائے کی کثرت کی باعث شاہی حکیم نے ان کو مذید چائے نوشی سے منع کردیا تھا ۔ مگر انہوں نے اپنے شوق کو رسوا ہونے نہیں دیا ۔ اور راجہ بازار میں نیٹ کیفے کے برابر ایک چائے کا ڈھابہ کھول کر چائے کا ذائقہ چیک کرنے لے بہانےچائے کی کچھ چُسکیاں بھی لگا لیتے تھے اور گاہے بہ گاہے نیٹ کیفے میں جھانک کر شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی ،کی ہلکی سی جھک دیکھ کر بیتے ہوئے دنوں کی یاد بھی تازہ کرلیا کرتے تھے ۔ مُشیرِ خاص کی بھی ترقی ہوچکی تھی ۔ انہوں نے محل کے باہر بھی اپنا کاروبار شروع کردیا تھا ۔ اور خوب ترقی کی تھی ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس میں اردومحفل کے سپہ سالار کا بھی خفیہ سرمایہ لگا ہوا ہے۔ جو ہر قسم کے ٹیکس سے بھی مستثنی تھا۔ محفل کے جاسوس فہیم کو بھی بادشاہ نے ریٹائر منٹ سے پہلے اپنے شوشل میڈیا کے خفیہ اکاؤنٹس کی ملکہ کو خبر دینے پر عمر قید کی سزا شادی کی صورت میں سنا دی تھی ۔ انہوں نے تقریبا جاسوسی چھوڑ دی تھی ۔ کیونکہ اب ان کی جاسوسی شروع ہوچکی تھی ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر جمعہ کی نماز میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر مولوی صاحب سے بھی بلند آواز میں بادشا ہ کو کوستے رہتے تھے ۔ قیصرانی کا پھر کچھ معلوم نہیں ہوا ۔ سنا ہے یمن کے صحرا میں ایک خاص تیل جو سر کے بالوں کے انتہائی مفید تھا ۔ اس کی تلاش میں ایسے گئے کہ پھر نہیں لوٹے ۔ محب علوی نے بھی عمر کو مدِنظر رکھتے ہوئے سیاحت چھوڑ کر ایک مدرسہ کھول رکھا تھا ۔ جہاں وہ ایک پائی سے کپڑے کی تھانوں ( پائتھون) بنانے کے گُر سیکھاتے تھے ۔ غرض کہ دنیا بدل چکی تھی ۔ اردو محفل کی رعایا میں اضافہ ہوچکا تھا ۔ آبادی کے لحاظ نہیں بلکہ اراکین کی تعداد کی وجہ سے ۔بادشاہ سلامت نے پچھلے خدشوں کی بناء پر سلطنتِ محفل کی شہریت کے لیئے نئے اراکین پر شادی شہداء شرط عائد کر رکھی تھی ۔ جس کی وجہ سے سلطنتِ محفل پر گویا ایک سوگواری کی کیفیت طاری تھی ۔ سب آپس میں بھائی بہن تھے ۔ اسی وجہ سے اکثر غیر شادی شہداء اراکین سلطنتِ محفل کو چھوڑ کر دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت کر چکے تھے۔سلطنتِ محفل کے آئی جی فیصل عظیم فیصل کو بادشاہ سلامت نے ٹاسک دیا تھا کہ وہ انہیں بتائے کہ ان کی سلطنت میں اتنا سناٹا کیوں ہے ۔ آئی جی صاحب نے تقریبا ساڑے تین سو صفحات پر مشتمل ایک ر پورٹ پیش کی تھی ۔ جیسے دیکھ کر بادشا ہ کو غش آگیا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق شادی شہداءہونے کے باعث سلطنت میں اٹھکیلیاں اور آنکھ مٹکا تقریبا ناپید تھا ۔ یہ مسئلہ بادشاہ کے نئے قانون کی وجہ نہیں بلکہ گھر کے قانون کی وجہ سے تھا ۔ کچھ اراکین کےشریک سفر کسی اور نام سے لاگ ان ہوکر پنے شریک سفر پر باقاعدگی سے نظر رکھتے تھے ۔ کسی اراکین کو مخاطب کرنا مطلوب ہو تو، خواہر یا برادر اپنے اپنے جملوں میں استعمال کرنا گویا ایک طرح کا آئین بن چکا تھا ۔ جس کی روگردانی پر سلطنتِ محفل سےدو ہفتے، دوری کی سزامقرر تھی ۔پرانے اراکین تو سلام دعا کرکے چپکے سے نکل جاتے تھے ۔اکثر تو نماز پڑھنے کا کہہ کر نکل جاتے تھے۔ نئے اراکین کے بارے میں مورخ مذید معلومات حاصل کرکے پھر تفصیل سے تبصرہ کرے گا ۔ ابھی تو مورخ کو نیند آرہی ہے کہ بہت دنوں کے بعد قید خانے کی ٹھنڈی سل کے بجائے سونے کے نرم بستر نصیب ہوا ہے ۔
(جاری ہے )
آئی ڈی اور انداز تو ظفری کا ہی ہے لیکن پتہ نہیں کیوں وجی یاد آرہا ہے ۔ اٹھ اوئے مورخا ۔۔! کتھے رہ گیا ایں
 

سیما علی

لائبریرین
سلطنتِ محفل کے آئی جی @فیصل عظیم فیصل کو بادشاہ سلامت نے ٹاسک دیا تھا کہ وہ انہیں بتائے کہ ان کی سلطنت میں اتنا سناٹا کیوں ہے ۔ آئی جی صاحب نے تقریبا ساڑے تین سو صفحات پر مشتمل ایک ر پورٹ پیش کی تھی ۔ جیسے دیکھ کر بادشا ہ کو غش آگیا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق شادی شہداءہونے کے باعث سلطنت میں اٹھکیلیاں اور آنکھ مٹکا تقریبا ناپید تھا ۔ یہ مسئلہ بادشاہ کے نئے قانون کی وجہ نہیں بلکہ گھر کے قانون کی وجہ سے تھا ۔
فیصل عظیم فیصل
بھیا حاضر ہوں
ٹاسک کو پائہ تکمیل تک پہنچائیں
 

ظفری

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ:
مورخ ایک بھرپور نیند کے بعد اٹھا تو اس نے سلطنتِ محفل پر ایک بار پھر گہری نظر ڈالی ۔ سلطنت کا حال سلطنت کے استادِ محترم الف عین کے ایک پڑوسی ملک سے زیادہ مختلف نہیں تھا ۔ بہت سے مخلص اور حُبِ سلطنت ِاراکین پابندِ سلاسل تھے ۔ اکثر پر شادی شہدا ء ہونے کے باعث ستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے ۔ کچھ اراکین تو باقاعدہ جیلر کو کسی ریسٹورینٹ پر عشائیہ دیکر یا پھر ناران اور مری کی سیر کروا کر سلطنتِ محفل پر کوئی بیان ( مراسلہ) داغ دیتے تھے ۔اور اس کی بھی ایک حد مقرر تھی ۔ مذہبی و سیاسی صوبوں ( فورمز ) پر بھی سنسر شپ بورڈ تعینات ہوگیا تھا ۔ جو صرف اُن بیانات ( مراسلات ) کو قابلِ اشاعت سمجھتا تھا ۔ جو ان کی مرضی کے مطابق ہوتے تھے ۔ ان کے لیئے پڑوسی ملک کی طرح کوئی پالیسز بھی مقررنہیں تھی ۔ پرانے اراکین کی کمی مورخ نے بہت محسوس کی ۔ مستورات میں مقدس ، ناعمہ عزیز ، زونی ، سارہ اور دیگر خواتین اپنے اپنے پیا کے گھر سدھار چکیں تھیں ۔ لہذا کچھ نے دائمی اور کچھ نے عارضی طور پر سلطنتِ محفل سے رخصت لے رکھی تھی ۔ غالب کی بھتیجی جیہ کا بھی کچھ نہیں معلوم کہ کدھر گئیں ۔ سنا ہے مرزا غالب نے انہیں خواب میں آکر محفل پر نہ جانے کی تنبیہ کی تھی کہ سلطنتِ محفل پر کچھ حکومتی نمائندے غالب کی غزلیں اپنے نام سے ارسال کر رہے ہیں ۔ کیونکہ سلطنت میں کرپشن اس قدر عام تھی کہ یہ فریضہ بطور تبرک انجام دیا جا رہا تھا ۔ بھتیجی نے چچا کا مان رکھا ۔ اور محفل سے تاحال خود کو دور رکھا ہوا ہے ۔ فاتح کو نئے بادشاہ نے اپنے شاعری دستے سے ہٹا کر محل کی سیکورٹی کا انچارج بنا دیا تھا ۔ انہیں محل کے اند ر اور گردونواح میں سی سی ٹی وی کی تعینا ت پر لگا دیا تھا ۔ سنا ہے سلطنت کے سپہ سالار سے ان کے خاص روابط ہیں ۔اکثر ڈیٹا بیس سے سپہ سالار کوڈیٹا دینے کی خبریں آئیں تھیں ۔ مگر سپہ سالار کے خوف سے بادشاہ سلامت بھی خاموش رہتے تھے کہ کہیں ان کے نیچے سے کرسی کھینچ نہ لی جائے ۔ سلطنتِ اردو محفل کی خزانچی زیک بھی جزوی اور جبراً ریٹائرمنٹ لے چکے تھے ۔ مگر انہیں بادشاہ نے چندہ جمع کرنے سے زیادہ اراکین کی ٹانگیں کھینچے پر مامور کیا ہوا تھا ۔ جو اکثر ان کے معنی خیز جملوں سے عیاں ہوتا رہتا تھا ۔ دوست بھی سلطنت کی حالتِ زار دیکھ کر ایک دوسری ریاست ہجرت کرچکے تھے ۔ نیرنگ خیال بھی پرانے دوستوں کی یاد میں کبھی کھبار اپنے حجرے سے نکل کر سلطنت کا چکر لگا لیا کرتے تھے ۔ وجی کو ابھی تک لائبریرین کے عہدے پر فائز کیا ہوا تھا ۔ جو اکثر لائبریری میں موجود کتابوں کی گرد جھاڑتے ہوئے نظر آتے تھے ۔ الف نظامی نے سطنتِ اردو محفل کے اخبار کی مدیریت سنبھال لی تھی ۔ گاہے بہ گاہے اندرونی اور بیرونی خبروں سے اراکینِ محفل کو نوازتے رہتے تھے ۔ سید عاطف علی اکثر اپنے اوتار گھوڑے پر سوار سلطنت کے ایک کنارے سے دوسرےکنار ے چکر لگاتے رہتے تھے ۔ پیڑول کے اس قدر ضیاع کو دیکھ کر بادشاہ سلامت نے انہیں صداکاری کا شعبہ سونپ دیا ۔ جہاں اکثر وہ اراکین کے کانوں میں حسیناؤں کی تصاویر کی آڑ میں اپنی پُر سوز آواز کا رس گھولتے نظر آتے تھے ۔اکثر شوگر ملز کے مالکان نے ان سے رابطہ کیا ہے اور آفربھی دی ہے کہ ایک پُر کشش رقم کے عوض وہ ان کی آواز کو گنوں کی جگہ شکر بنانے کے لیئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ سنا ہے یہ آفر تاحال برقرا رہے محمداحمد سلطنت کے بزرگ (دیرینہ) باسیوں میں تھے ۔ محفل پر اکثر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے تھے ۔ مجال ہے کہ ضعیفی نے ان کے اس استقال پر کوئی ضرب لگائی ہو ۔ ماسوائے کبھی کھبار جب پوتے ان کی چھڑی چھپا دیتے ہیں تو کچھ دن کے لیئے محفل پر آنے سے قاصر ہوجاتے ہیں ۔ سید شہزاد ناصر صاحب بھی اکثر سلام دعا کرتے نظر آجاتے ہیں ۔ سابقہ وزیرِ اعظم کے دیرینہ بزرگ ساتھیوں میں سے ہیں ۔ فرخ منظور صاحب بھی اکثر اپنے عمدہ شاعری انتخاب سے سلطنتِ اردو محفل کو نوارتے رہتے تھے ۔ اردو محفل کے قدیم باسیوں میں ان کو بھی شمار ہوتا تھا ۔
مورخ کا پورا دن اردو محفل کے پرانے باسیوں کی تلاش اور ان کے بارے میں معلومات کرنے میں گذر گیا ۔ بہت سے اراکین تاحال مورخ کی تحقیق کے دسترس میں نہیں آئے ۔ مورخ اپنے ان ساتھیوں کو بھی ڈھونڈتا رہا جو اس کی ہر تحقیق پر اس کی پیٹھ ٹھونکتے تھے ۔ مگر چند نئے اراکین نے کسی حد تک ان کی کمی پوری کی ۔ جن کا ذکر مورخ اپنی اگلی قسط میں کرے گا ۔ بس مورخ کو ذرا ردھم کی ضرورت ہے ۔
(جاری ہے )
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
مورخ کا پورا دن اردو محفل کے پرانے باسیوں کی تلاش اور ان کے بارے میں معلومات کرنے میں گذر گیا ۔ بہت سے اراکین تاحال مورخ کی تحقیق کے دسترس میں نہیں آئے ۔ مورخ اپنے ان ساتھیوں کو بھی ڈھونڈتا رہا جو اس کی ہر تحقیق پر اس کی پیٹھ ٹھونکتے تھے ۔ مگر چند نئے اراکین نے کسی حد تک ان کی کمی پوری کی ۔ جن کا ذکر مورخ اپنی اگلی قسط میں کرے گا ۔ بس مورخ کو ذرا ردھم کی ضرورت ہے ۔
جاری ہے)
واہ واہ ظفری مصروف رہیے ڈھونڈھیے
انہیں چراغِ رخِ زیبا لیکر
ان شاء اللہ کامیابی آپکے قدم چومے گی ہماری ہر قدم پر دعائیں آپکے ساتھ اسقدر لطف آیا پڑھ کے آپ کے جیسے خوبصورت الفاظ میں بیان ممکن نہیں جیتے رہیے اور اسی روانی سے لکھتے رہیے ۔۔🥰🥰🥰🥰🥰
 

ظفری

لائبریرین
تیسرا دن:
مورخ اگلی صبح کو اٹھا تو محل کے کونے بھی واقع ایک پٹھان کے چائے کے ریسٹورینٹ پر جا کر بیٹھ گیا ۔ یہ وہی کیفے تھا ۔ جس کے ڈؤڈو کی بڑی شہرت تھی ۔ سلطنت اردو محفل کے بہت سے اراکین اس کیفے میں بیٹھ کر ڈو ڈو کے چائے سے اپنا غم غلط کرنے آتے تھے ۔ کئی چھاپوں کے باوجود پولیس ابھی تک چائے سے کوئی نشہ آور چیز برآمد نہیں کرسکی تھی ۔ کیونکہ تحقیق کے لیئے کیفے کا مالک انہیں چائے ٹیسٹ کے لیئے پیش کردیتا تھا ۔ پھرپولیس وہاں سے ایسے روانہ ہوتی تھی کہ موبائل وین کا ڈرائیور سر دُھنتا ہوا اور اللہ ہی جانے کون بشر ہے کی گردان کرتا ہوا اورپھردونوں ہاتھوں کو ہوا میں پھیلا کر وین کی چھت پر براجمان ہوجاتا تھا۔ پھر باقی عملہ وین کو پیچھے سے دھکا لگاکر خیریت سے تھانے پہنچنے کی کوشش کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا ۔ مورخ نے ایک اُچیٹی سی نظر کیفے میں نظر ڈالی تو انہیں حیرت انگیز طور پر حسیب نذیر گِل اور عمر سیف ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے آنسو بہاتے نظر آئے ۔ ان کی نظر مورخ پر پڑی تو انہوں نے بھی مورخ کو پہچان لیا ۔ اور خائف ہو کر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے ۔ مورخ ان کے ساتھ ہی بیٹھ گیا کہ سلطنتِ اردو محفل کے بہت ہی پرانے ساتھیوں میں سے تھے۔ مورخ نے رونے کی وجہ پوچھی تو دونوں پھر کورس میں رونے لگے ۔ ایک وقفہ کے بعد حسیب نذیر گِل کہنے لگے کہ بس محفل کی ایسی عادت پڑگئی تھی کہ ایک دن بھی آئے بغیر چین نہیں آتا تھا ۔ پھر سپہ سالار نے پرانے بادشاہ کو جبری ریٹائرمنٹ دلوادی ۔ اور ایک نئے بادشاہ کو اپنی مرضی کے مطابق لاکر سلطنت پر مسلط کردیا ۔ جو شعر سنانے کا بہت شوقین تھا ۔ مگر وہ اشعار کیساتھ جو سلوک کرتا تھا ۔ وہ سلوک تارتاریوں نے اپنی مفتوح قوم کیساتھ بھی نہیں کیا ہوگا ۔ عمر سیف کو اس نے اپنے لیئے نئے اشعار لکھنے کے لیئے منتخب کیا ہوا ہے ۔ اب عمر سیف کوگھر کے لیئے سبزی خریدنے بازار جانا ہے ۔ اوروہ بادشاہ کے لیئےیہاں بیٹھا اشعار سوچ رہا ہے ۔ مورخ نے حسیب نذیر گِل سے پوچھا کہ تمہیں کیا شکایت ہے ۔ یہ سن کر حسیب نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کردیا ۔ پھر کہا کہ میری شادی ہوگئی ہے ۔ مورخ نے یہ سن کرتاسف سے کہا کہ شادی کھا گئی جواں کیسے کیسے ۔ مورخ وہاں سے اٹھنے لگا تو دونوں نے اسےچائے پینے کی دعوت دی مگر مورخ نے اس خیال سے معذرت کردی کہ چائے پینے کے بعد محل جاکر بیت خلاء استعمال کرنے کے بجائے وہ کہیں بادشاہ کی خواب گاہ میں نہ گھس جائے کہ بیت الخلاء بادشاہ کی خوابگا ہ کے بلکل ساتھ تھا ۔ مورخ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ بادشاہ کو اپنی خوابگاہ ، بیت خلاء کے بلکل ساتھ بنانے کی کیا سوجھی تھی ۔یا پھر بیت الخلاء اپنی خوابگا ہ کے ساتھ کیوں بنوایا۔
مورخ یہ سوچتا ہوا محل کی طرف روانہ ہوگیا ۔ راستے میں زین سے بھی ملاقات ہوگئی ۔ زین نے گلے ملنے بعد بتایا کہ ان کی بھی ترقی ہوگئی ہے ۔ انہوں نے اپ اپنا نیوز چینل کھول لیا ہے ۔ جہاں وہ سپہ سالار کی ہدایت کے مطابق خبریں نشر کرتے ہیں ۔ مگر وہ اپنے علاقے کی پسماندگی اور حالات سے غافل نہیں تھے ۔ گاہے بہ گاہے وہاں کےمعمولات سے رعایا کو مطلع بھی کرتے رہتے ہیں ۔محل کے دروازے پر فہیم سے مڈبھیڑ ہوگئی ۔ وہ اپنی موٹر سائیکل پر اُلٹے بیٹھے اور سر کھجاتے ہوئے نظر آئے ۔ مورخ نے حیرت سے پوچھا کہ تم اپنی موٹر سائیکل پر اُلٹے کیوں بیٹھےہو ۔؟ فہیم نے چونک کر پیچھے دیکھا اور پھر سر پکڑ کر کہا کہ میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ میری موٹر سائیکل کا ہینڈل کون چوری کر کے لے گیا ۔ مورخ کو یاد آیا کہ موصوف گذشتہ دنوں آفس کی سیڑھیوں سے گر گئے تھے اور سر پر چوٹ لگی تھی ۔ شاید چوٹ کے اثرات ابھی تک نمایاں ہیں ۔ مورخ نے کہا خیر ۔۔۔ تم یہاں کیسے ؟
تم کیسے مورخ ہو ۔ تمہیں معلوم نہیں کہ بادشاہ نے کیا منادی کرادی ہے ۔ !
کیا منادی کرادی ہے ۔؟
اگلے ہفتے بادشاہ نے اپنی تاجپوشی کا جشن رکھا ہے ۔ سب کو تاکید کی ہے کہ تحائف اور تعریف کیساتھ حاضری دینی لازمی ہے ۔
لیکن میری معلومات میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔!
تم نے چودہ سال قید کاٹی ہے ۔ تمہارا ڈیٹا بیس آؤٹ آف ڈیٹ ہوچکا ہے ۔ کوشش کرو کہ کچھ ڈیٹا ڈیلیٹ کردو تاکہ نئے ڈیٹا کی جگہ بنے ۔
مورخ نے فہیم کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے محل کے اندر قدم بڑھائے ۔ محل کی زیبائش و آرائش کی جارہی تھی ۔ پرانے بادشاہ کی تصویر ہٹا کر نئےبادشاہ کی تصویر لگائی جا رہی تھی ۔ مورخ زمانے کی بے ثباتی پر افسوس کرتے ہوئے محل کے دربار میں داخل ہوا ۔ وہاں بھی وہی حال تھا ۔ مگر اس دفعہ بادشاہ کا تخت کافی بڑا تھا ۔اگر بادشاہ بیٹھنے کے بجائے سونا بھی چاہے تو اس پر دونوں ٹانگیں پھیلا کر سو سکتا تھا ۔بادشاہ کے مشیروں اور وزیراء کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوچکا تھا ۔ حالانکہ ملکی معشیت ڈوبی ہوئی تھی ۔مگر بادشاہ کی شاہ خرچیوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ۔ رعایا ٹیکس دے دے کر ہلکان ہوچکی تھی ۔ مگر بادشاہ کو کوئی فکر نہیں تھی ۔ ٹیکس کی وصولی کے لیئے بادشاہ نے سلطنتِ محفل کے خزانچی زیک کو اپنی ٹوپی جو کہ وہ عموما ہائیکنگ کے استعمال کرتے تھے ۔ جو خاصی بڑی بھی تھی ۔ اس اتار کر الٹا کر کے ہاتھ میں تھامنے کی تاکید کی تھی ۔ بادشاہ کو گمان تھا اگر ٹیکس کی وصولی میں رکاوٹ ہو تو لوگوں کی خدا ترسی کام سے لیا جائے ۔ اور امید تھی کہ لوگ اپنی عاقبت سدھارنے لیئے ٹوپی کو بھرنے سے اجتناب نہیں کریں گے ۔مورخ اپنی سوچوں میں گم تھا کہ ایک مشیر نےملکی بجٹ کی طرح اچانک سامنے آکر بادشاہ کا فرمان سنایا کہ بادشاہ سلامت اُسے یاد فرما رہے ہیں ۔ مور خ نے کہا کہ وہ لباس تبدیل کر کے آتا ہے ۔ مگر مشیر نے کہا کہ آپ ایسے ہی چلیں کہ بادشاہ خود بھی لُنگی پہننے ہوئے ہیں ۔ مورخ اپنی قسمت کو کوستا ہوا بادشاہ کی خوابگاہ کی طرف بڑھا کہ اس سے اب کونسی نئی تاریخ لکھوائے جائے گی ۔
(جاری ہے )
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
کچھ پرانے لوگ مجھے اب بھییاد آتے ہیں، عبد الستار منہاجین، جیسبادی ، جہانزیب وغیرہ
استادِ محترم ! میں پرانے صفحات اور اپنی یاداشت کو ٹٹولتے ہوئے تما م پرانے اراکین کو اس بہانے یاد کر رہا ہوں ۔ پھر بعد کے اراکین کی طرف بھی آتا ہوں ۔ :waiting:
 

دوست

محفلین
کیا بات ہے، ہجرت کہیں بھی ہو یہاں آنا جانا رہتا ہے۔ اب یہاں کوئی کیا بات کرے۔ پبلک فورم پر جو لکھا سب چیٹ جی پی ٹی کا کھاجا ہے۔
 
Top