اردو محفل کی چھٹی سالگر ہ کے موقع پر مورخ نے غلطی سے بادشاہ سلامت کے لو ہے کا پاجامے کا ذکر کردیا تھا ۔ جس کی پاداش میں بادشاہ نے اُسے 14 سال بامشقت کی سزا دیدی تھی ۔ اردو محفل کی انیسویں سالگرہ پر اُسے بہترین کردار کی بناء پر مقررہ مدت سےصرف چند گھنٹوں پہلے رہا ئی دیدی گئی ۔ مورخ کا قیدِ تنہائی نے بہت برا حال کردیا تھا ۔وقت بدل گیا تھا۔پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا ۔ بادشاہ سلامت ریٹائر منٹ لے چکے تھے ۔ ان کی جگہ ایک نامعلوم بادشاہ جگہ لے چکے تھے ۔ جو بضد تھے کہ ا ن کو شنہشاہ پکارا جائے ۔وہ بھی اندھیری راتوں والوں شنہشاہ ۔ جو صرف راتوں کو نکلتا تھا ۔ رعایا کو صرف ایک شخص پر شنہشاہ ہونے کا شک تھا جورمضان کی راتوں میں ڈھول بجا بجا کر لوگوں کوسحری کے لیئے جگاتا تھا ،خیر۔
وزیرِ اعظم نے بھی ریٹائرمنٹ لے لی تھی ۔ چائے کی کثرت کی باعث شاہی حکیم نے ان کو مذید چائے نوشی سے منع کردیا تھا ۔ مگر انہوں نے اپنے شوق کو رسوا ہونے نہیں دیا ۔ اور راجہ بازار میں نیٹ کیفے کے برابر ایک چائے کا ڈھابہ کھول کر چائے کا ذائقہ چیک کرنے کے بہانےچائے کی کچھ چُسکیاں بھی لگا لیتے تھے اور گاہے بہ گاہے نیٹ کیفے میں جھانک کر شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی ،کی ہلکی سی جھک دیکھ کر بیتے ہوئے دنوں کی یاد بھی تازہ کرلیا کرتے تھے ۔ مُشیرِ خاص کی بھی ترقی ہوچکی تھی ۔ انہوں نے محل کے باہر بھی اپنا کاروبار شروع کردیا تھا ۔ اور خوب ترقی کی تھی ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس میں اردومحفل کے سپہ سالار کا بھی خفیہ سرمایہ لگا ہوا ہے۔ جو ہر قسم کے ٹیکس سے بھی مستثنی تھا۔ محفل کے جاسوس فہیم کو بھی بادشاہ نے ریٹائر منٹ سے پہلے اپنے شوشل میڈیا کے خفیہ اکاؤنٹس کی ملکہ کو خبر دینے پر عمر قید کی سزا شادی کی صورت میں سنا دی تھی ۔ انہوں نے تقریبا جاسوسی چھوڑ دی تھی ۔ کیونکہ اب ان کی جاسوسی شروع ہوچکی تھی ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر جمعہ کی نماز میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر مولوی صاحب سے بھی بلند آواز میں بادشا ہ کو کوستے رہتے تھے ۔ قیصرانی کا پھر معلوم نہیں کیا ہوا ۔ سنا ہے یمن کے صحرا میں ایک خاص تیل جو سر کے بالوں کی افزائش کے لیئے انتہائی مفید تھا ۔ اس کی تلاش میں ایسے گئے کہ پھر نہیں لوٹے ۔ محب علوی نے بھی عمر کو مدِنظر رکھتے ہوئے سیاحت چھوڑ کر ایک مدرسہ کھول رکھا تھا ۔ جہاں وہ ایک پائی سے کپڑے کی تھانوں ( پائتھون) بنانے کے گُر سیکھاتے تھے ۔ غرض کہ دنیا بدل چکی تھی ۔ اردو محفل کی رعایا میں اضافہ ہوچکا تھا ۔ آبادی کے لحاظ نہیں بلکہ اراکین کی تعداد کی وجہ سے ۔بادشاہ سلامت نے پچھلے خدشوں کی بناء پر سلطنتِ محفل کی شہریت کے لیئے نئے اراکین پر شادی شہداء شرط عائد کر رکھی تھی ۔ جس کی وجہ سے سلطنتِ محفل پر گویا ایک سوگواری کی کیفیت طاری تھی ۔ سب آپس میں بھائی بہن تھے ۔ اسی وجہ سے اکثر غیر شادی شہداء اراکین سلطنتِ محفل کو چھوڑ کر دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت کر چکے تھے۔سلطنتِ محفل کے آئی جی فیصل عظیم فیصل کو بادشاہ سلامت نے ٹاسک دیا تھا کہ وہ انہیں بتائے کہ ان کی سلطنت میں اتنا سناٹا کیوں ہے ۔ آئی جی صاحب نے تقریبا ساڑے تین سو صفحات پر مشتمل ایک ر پورٹ پیش کی تھی ۔ جیسے دیکھ کر بادشا ہ کو غش آگیا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق شادی شہداءہونے کے باعث سلطنت میں اٹھکیلیاں اور آنکھ مٹکا تقریبا ناپید تھا ۔ یہ مسئلہ بادشاہ کے نئے قانون کی وجہ نہیں بلکہ اندورنِ خانہ کے قانون کی وجہ سے تھا ۔ کچھ اراکین کےہوم منسٹرز کسی اور نام سے لاگ ان ہوکر اپنے فارن منسٹرپر باقاعدگی سے نظر رکھتے تھے ۔ کسی اراکین کو مخاطب کرنا مطلوب ہو تو، خواہر یا برادر اپنے اپنے جملوں میں استعمال کرنا گویا ایک طرح کا آئین بن چکا تھا ۔ جس کی روگردانی سلطنتِ محفل سےدو ہفتے کی دوری اور دو دنوں کے طعام کی پابندی سے مشروط تھی ۔پرانے اراکین تو سلام دعا کرکے چپکے سے نکل جاتے تھے ۔اکثر تو نماز پڑھنے کا کہہ کر نکل جاتے تھے۔ نئے اراکین کے بارے میں مورخ مذید معلومات حاصل کرکے پھر تفصیل سے تبصرہ کرے گا ۔ ابھی تو مورخ کو نیند آرہی ہے کہ بہت دنوں کے بعد قید خانے کی ٹھنڈی سل کے بجائے سونے کے نرم بستر نصیب ہوا ہے ۔
(جاری ہے )
وزیرِ اعظم نے بھی ریٹائرمنٹ لے لی تھی ۔ چائے کی کثرت کی باعث شاہی حکیم نے ان کو مذید چائے نوشی سے منع کردیا تھا ۔ مگر انہوں نے اپنے شوق کو رسوا ہونے نہیں دیا ۔ اور راجہ بازار میں نیٹ کیفے کے برابر ایک چائے کا ڈھابہ کھول کر چائے کا ذائقہ چیک کرنے کے بہانےچائے کی کچھ چُسکیاں بھی لگا لیتے تھے اور گاہے بہ گاہے نیٹ کیفے میں جھانک کر شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی ،کی ہلکی سی جھک دیکھ کر بیتے ہوئے دنوں کی یاد بھی تازہ کرلیا کرتے تھے ۔ مُشیرِ خاص کی بھی ترقی ہوچکی تھی ۔ انہوں نے محل کے باہر بھی اپنا کاروبار شروع کردیا تھا ۔ اور خوب ترقی کی تھی ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس میں اردومحفل کے سپہ سالار کا بھی خفیہ سرمایہ لگا ہوا ہے۔ جو ہر قسم کے ٹیکس سے بھی مستثنی تھا۔ محفل کے جاسوس فہیم کو بھی بادشاہ نے ریٹائر منٹ سے پہلے اپنے شوشل میڈیا کے خفیہ اکاؤنٹس کی ملکہ کو خبر دینے پر عمر قید کی سزا شادی کی صورت میں سنا دی تھی ۔ انہوں نے تقریبا جاسوسی چھوڑ دی تھی ۔ کیونکہ اب ان کی جاسوسی شروع ہوچکی تھی ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر جمعہ کی نماز میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر مولوی صاحب سے بھی بلند آواز میں بادشا ہ کو کوستے رہتے تھے ۔ قیصرانی کا پھر معلوم نہیں کیا ہوا ۔ سنا ہے یمن کے صحرا میں ایک خاص تیل جو سر کے بالوں کی افزائش کے لیئے انتہائی مفید تھا ۔ اس کی تلاش میں ایسے گئے کہ پھر نہیں لوٹے ۔ محب علوی نے بھی عمر کو مدِنظر رکھتے ہوئے سیاحت چھوڑ کر ایک مدرسہ کھول رکھا تھا ۔ جہاں وہ ایک پائی سے کپڑے کی تھانوں ( پائتھون) بنانے کے گُر سیکھاتے تھے ۔ غرض کہ دنیا بدل چکی تھی ۔ اردو محفل کی رعایا میں اضافہ ہوچکا تھا ۔ آبادی کے لحاظ نہیں بلکہ اراکین کی تعداد کی وجہ سے ۔بادشاہ سلامت نے پچھلے خدشوں کی بناء پر سلطنتِ محفل کی شہریت کے لیئے نئے اراکین پر شادی شہداء شرط عائد کر رکھی تھی ۔ جس کی وجہ سے سلطنتِ محفل پر گویا ایک سوگواری کی کیفیت طاری تھی ۔ سب آپس میں بھائی بہن تھے ۔ اسی وجہ سے اکثر غیر شادی شہداء اراکین سلطنتِ محفل کو چھوڑ کر دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت کر چکے تھے۔سلطنتِ محفل کے آئی جی فیصل عظیم فیصل کو بادشاہ سلامت نے ٹاسک دیا تھا کہ وہ انہیں بتائے کہ ان کی سلطنت میں اتنا سناٹا کیوں ہے ۔ آئی جی صاحب نے تقریبا ساڑے تین سو صفحات پر مشتمل ایک ر پورٹ پیش کی تھی ۔ جیسے دیکھ کر بادشا ہ کو غش آگیا تھا ۔ رپورٹ کے مطابق شادی شہداءہونے کے باعث سلطنت میں اٹھکیلیاں اور آنکھ مٹکا تقریبا ناپید تھا ۔ یہ مسئلہ بادشاہ کے نئے قانون کی وجہ نہیں بلکہ اندورنِ خانہ کے قانون کی وجہ سے تھا ۔ کچھ اراکین کےہوم منسٹرز کسی اور نام سے لاگ ان ہوکر اپنے فارن منسٹرپر باقاعدگی سے نظر رکھتے تھے ۔ کسی اراکین کو مخاطب کرنا مطلوب ہو تو، خواہر یا برادر اپنے اپنے جملوں میں استعمال کرنا گویا ایک طرح کا آئین بن چکا تھا ۔ جس کی روگردانی سلطنتِ محفل سےدو ہفتے کی دوری اور دو دنوں کے طعام کی پابندی سے مشروط تھی ۔پرانے اراکین تو سلام دعا کرکے چپکے سے نکل جاتے تھے ۔اکثر تو نماز پڑھنے کا کہہ کر نکل جاتے تھے۔ نئے اراکین کے بارے میں مورخ مذید معلومات حاصل کرکے پھر تفصیل سے تبصرہ کرے گا ۔ ابھی تو مورخ کو نیند آرہی ہے کہ بہت دنوں کے بعد قید خانے کی ٹھنڈی سل کے بجائے سونے کے نرم بستر نصیب ہوا ہے ۔
(جاری ہے )
آخری تدوین: