خاص طور پر جناب
ابن سعید کی توجہ چاہوں گا۔ آپ کی بات کے تسلسل میں میری کچھ گزارشات ہیں۔
اول: لکھاری اپنی نثری کاوش تنقید و تبصرہ کے لئے یا اصلاح کی غرض سے پیش کرے تو اس امر کا واضح طور پر اعلان کرے۔ یہ اعلان نہ ہو تو میرے جیسا شخص اصلاح یا تنقید کے لحاظ سے بات کرنے سے گریز کرتا ہے اور پسند آوری یا رسمی تعریف کر کے چپکا ہو جاتا ہے۔
دوم: اصلاح کے طالب لکھاری پر بھی لازم آتا ہے کہ اس کی کاوش پر جو بھی گفتگو ہو، اسے خندہ پیشانی سے قبول کرے۔ اصلاح دینے والے سے یہ مطالبہ نہ کرے کہ آپ نے ایسا کس بنا پر کہا وغیرہ۔ اصلاح چاہنے والا ایک بار ماتھے پر بل ڈالے گا تو اصلاح دینے والا اگلی بار اسے نظر انداز کر دے گا۔ یہ بھی فطری امر ہے۔
سوم: ایک شخص تین چار پانچ (ٹائپ کئے ہوئے) صفحات پوری باریکی سے پڑھتا ہے، اس پر تفصیلی گفتگو کرے تو اسے شاید دس صفحے ٹائپ کرنے پڑیں۔ میرے جیسا بوڑھا آدمی اتنی طویل مشقت سے کیوں کر گزرے گا، اس امر کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔
چہارم: شاعری کے ضمن میں بھی بعض معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ ایک شاعر کی دس بارہ پندرہ غزلوں پر مختلف نکات اور زاویوں سے تفصیلی بات ہوئی مگر اس کی اگلی آنے والی غزل میں پھر وہی یا ویسی ہی اغلاط بدستور موجود ہیں۔ ایسے میں اصلاح دینے والے کا بددل ہو جانا عین فطری عمل ہے۔
پنجم: لکھاری کو بھی چاہئے کہ کسی ایک فن پارے پر جو نکات اٹھائے گئے ہیں ان کو اسی ایک تک محدود نہ کرے، اپنے دیگر فن پاروں کو بھی ان مشوروں کے مطابق (اگر اسے قابلِ قبول ہیں، تو) اپنے طور پر نکھارنے سنوارنے کی خود سعی کرے۔
ششم: بالمشافہ گفتگو اور فاصلاتی گفتگو کا بنیادی فرق سب کو پتہ ہے، اس کو ملحوظ رکھا جائے۔
ہفتم: اپنے ایک مخصوص فن پارے سے ہٹ کر دیگر احباب کے فن پاروں پر جو گفتگو ہوئی ہو، اس میں بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔ لکھاری کو چاہئے کہ ان سے بھی استفادہ کرے۔ قابلِ لحاظ بات ہے کہ سیکھنے والوں کے لئے یہی ایک فورم نہیں بہت سارے اور ذرائع بھی میسر ہیں۔ کتابیں دستیاب ہیں، انٹرنیٹ پر بھی، بازار میں بھی، لائبریریوں میں بھی اور دوست احباب کے پاس بھی۔ پڑھنے کی عادت ہو تو بہت سارے مسائل از خود حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ہشتم: مصطلِح اور مصلَح دونوں کو معلوم ہوتا ہے کہ نقائص کا ادراک، نشان دہی اور تدارک یہ سب اصلاح کے مرحلے ہیں۔ مصلح کے لئے نقاص جیسے الفاظ برتے جائیں گے تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ "گھروں گھر گواوے تے باہروں بھڑوا وی اکھواوے"۔
نہم: کوئی سیکھنے والا اپنی کوئی تحریر پیش ہی نہ کرے، تو سکھانے والا کیوں کر ذمہ دار ہوا؟ یہ بھی مناسب نہیں لگتا کہ گفتگو کے ایک دور کی تکمیل پر وہی چیز پھر پیش کر دی جائے کہ جی اب پھر دیکھیں۔ اور پھر وہی سلسلہ کہ جی وہ ہو گیا، یہ رہ گیا، فلاں کوشش میں فلاں نقص اور پیدا ہو گیا۔ اتنا وقت کون دے پائے گا، ممکن ہی نہیں، سب کو اپنی دال روٹی کا بھی کچھ کرنا ہوتا ہے۔
وغیرہ وغیرہ