خلیل الرحمٰن سر! یہ آپ کا یقیناً بڑا پن اور آپ کی شفقت ہے کہ میرے جیسے بندے کو جو کسی اعدادو شمار میں نہیں اسے بھی یاد رکھتے ہیں۔ میرے نام کی تعارفی لڑی کھول کر آپ نے مجھ فقیر کو جو عزت بخشی ہے میں خود کو آپ کی محبت کا مقروض سمجھتا ہوں۔ اللہ آپ کو ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔
چونکہ یہ تعارف اردو محفل کے ایک نثر نگار کی حیثیت سے پیش کرنا ہے تو میں نے سوچا کہ یہاں کچھ ذکر اس بات کا کرتا چلوں کہ میرا ادبی شوق پروان کیسے چڑھا اور اردو محفل تک کا سفر کیسے طےہوا ۔درحقیقت میرا بچپن سےہی اردو ادب کےساتھ گہرا لگاؤ تھا۔اگرچہ میرےلکھنے کا سفربچپن سے بچپن تک ہی محدودرہا۔گزرے دنوں کو یاد کروں تو مجھے ماضی کی دھند کےاس پارکچھ ہیولے سے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ گہری سوچ کے پردے پر عمررفتہ کے مدھم نقوش آہستہ آہستہ واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذہن کی بلیک اینڈ وائٹ سکرین پر زندگی کے خوشنما رنگ بکھرنے لگتے ہیں۔ اچھلتے کودتے متحرک سائے مانوس سی شکلوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ میرے حافظے کی بنجر زمین سے ننھے منے گھروندے سر ابھارنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے خیال کی دنیا میں ایک چھوٹی سے بستی آباد ہونے لگتی ہے۔ اس بستی میں ایک گھر کےچھوٹے سے کمرے میں ایک معصوم سا بچہ دنیا و مافیہا سے بے خبرمطالعے میں گم دکھائی دیتا ہے۔ اس بچے کا چہرہ مجھے کچھ مانوس سا لگتا ہے۔ ذہن پر ذرا سازور دینے پر میں اسے پہچان لیتا ہوں۔ تب میرے اند رسے کوئی فرطِ مسرت سے چلا اٹھتا ہے۔میرا بچپن۔
میری حد درجہ حساس طبیعت ،تخیل پسندی اور کتابوں کی صحبت نے کم عمری میں ہی میرے اندر کہانیاں لکھنے کا شوق پیدا کر دیا تھا۔ مختلف مکتبہ فکر کے ادباء کی کتابیں پڑھنے سے میں افسانہ نگاری کے کچھ اسرارو رموز سے بخوبی واقف ہو چکا تھا۔ میری پہلی کہانی اخبار میں اس وقت چھپی تھی جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ میٹرک تک میں نے کافی کچھ لکھا اور بہت کچھ چھپا بھی۔ بچپن میں ۔۔۔میں ساگر کے قلمی نا م سے لکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نام میں نے اردو محفل کے لیے بھی استعمال کیا۔اس نام سے میرا بچپن جُڑا ہے شاید اسی لیے مجھے اس نام سے پکارا جانا اور پہچانا جانا اچھا لگتا ہے۔ میرےلکھنے کا سفر کچھ ذاتی وجوہات کی بنا ء پرمیڑک کے بعد جاری نہ رہ سکا۔ لگ بھگ پچیس سال تک میں نے قلم کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور کوئی بھی کہانی نہیں لکھی۔ بعد کی زندگی صرف اور صرف معاشی ضروریات کے پیش نظرپروفیشنل ایجوکیشن حاصل کرنے میں گزری۔ اس دوران میں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گیا۔
فکر معاش ختم ہوئی توپھر سے لکھنے کا شوق جاگ اٹھا۔ پچیس سال کا طویل عرصہ بنا کچھ لکھے اور پڑھے گزر چکا تھا۔اند ر کہیں ایک ڈر جنم لے چکا تھا کہ اب کچھ لکھ پاؤں گا یا نہیں۔ پھر سوچا کہ پرندہ چاہے قفس میں رہے اپنی اڑان نہیں بھولتا، مچھلی کبھی تیرنا نہیں بھولتی۔ جو صلاحیت قدرت ایک دفعہ آپ کے اندر ودیعت کر دیتی ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ہاں! صلاحیتوں کو اگر استعمال نہ کیا جائے تو وہ زنگ آلود ضرور ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ انسان اگر کچھ کرنے کا پکا اور مصمم ارادہ باندھ لے تو رب کریم کی ذات ِپاک اس کے لیے راستے کھول دیتی ہے۔
ایک روز اچانک سے انٹر نیٹ پر یونہی آوارہ گردی کرتے اردو محفل کا صفحہ کھل کر نظروں کے سامنے آ گیا۔ یوں لگا گویا کسی لق و دق صحرا میں ایک نخلستان دکھائی دے گیا ہو۔ شروع میں محفل کے اصول و ضوابط اور اس کے مزاج کو جاننے کے لیے سوچا اس پر کچھ پوسٹ کیا جائے۔ سو میں نے اپنی ایک پرانی تحریر (عنوان: کبوتربازی) اس پر پوسٹ کردی۔ یہ تحریر میں نے چھٹی جماعت میں لکھی تھی اور اس وقت ایک اخبار میں چھپی بھی تھی۔ محفل پر میری یہ پہلی تحریر تھی جیسا کہ میں نے لکھا بھی تھا۔ بعد میں کچھ دوسرے محفلین کی تحریریں دیکھ کر عقلِ سلیم میں یہ بات آئی کہ مجھے اس تحریر کے نیچے تاریخ لکھنی چاہیے تھی تا کہ محفلین میری نئی اور پرانی تحریروں کو الگ سے شنا خت کر سکیں۔ اس کے لیے معذرت چاہوں گا ( یہ غلطی غیر دانستگی میں سرزد ہوئی)۔ پہلی تحریر پر سب احبابِ محفل نے اتنا حوصلہ بڑھایا کہ میں نے پھر سے لکھنا شروع کیا اور یوں میرے شوق کے سفر کا نئے سرے سے آغاز ہو گیا۔ میں اس کے لیے سب احباب کا تہہ دل سے ممنون و شکر گزار ہوں اور آپ سب کی محبتوں کا مقروض ہوں۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا کہ میرا یہ سفرآپ کی رہنمائی میں جاری و ساری رہے اور میں اب لکھتا رہوں۔