شمیل قریشی
10 ستمبر کو محفل کے اب تک کے سب سے معصوم اور بھولے رکن کی آمد ہوتی ہے ، جی ہاں کوئی اور نہیں بلکہ ہم سب کا پیارا اور بے ضرر شمیل قریشی ۔ سب سے پہلے آ کر ‘ آنے والا کون ہے ‘ دھاگے پر جا کر اپنی آمد کی اطلاع دی کہ میں بھی تو ہوں ( مجھے بھی تو دیکھے سمجھے کوئی ) اور آنے والے کی اطلاع دینے کی زحمت کیے بغیر ہی چلے آئے۔ اس پر افتخار راجہ نے پوچھا کہ اگلے بندے کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کرنی تو فرمایا کہ
اب میں دوبارہ اور
پھر کہیں جا کر آپ
فرذوق نے فورم میں ابھی شمولیت اختیار کرکے گانوں کے کھیل میں پوسٹ کرنا شروع ہی کیا تھا کہ شمیل نے موقع اچھا سمجھتے ہوئے خوش آمدید کہا اور بجائے یہ کہنے کہ مجھے بھی آپ کی طرح پرانے گانے پسند ہیں یوں گویا ہوئے
محفل میں آپ کے تعارف سے معلوم ہوا کہ آپ کو میری طرح پرانے گیتوں سے لگاؤ ہے ۔
اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ پوچھا کہ پرانے گلوکاروں میں کون پسند ہے اور جواب کا انتظار کیے بغیر ہی یہ بھی بتا دیا کہ مجھے تو بہرحال لتا منگیشکر پسند ہیں ( اگر تمہیں کوئی اور پسند ہے تو اپنی پسند سے رجوع کر لو ورنہ ۔۔۔ ۔ خود سمجھدار ہو)۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ایک گیت کی فرمائش بھی کر ڈالی کہ میں ڈھونڈ رہا ہوں کیا آپ کے پاس ہے ( بہت خوب ڈھونڈ خود رہے ہو بھائی اور پوچھ نئے نویلے معصوم رکن سے رہے ہو )
کوئی شہر کا نام پوچھے تو ج سے جلوانا بتاتے ہیں پھر کوئی شہر کا نام نہیں پوچھتا کہ جانے آگے کیا حال کرے۔ جیسبادی کو بھائی بھی کہنے سے باز نہیں آتے اور ساتھ میں یہ فرمائش بھی کرتے ہیں کہ ایسی تصویر لگائیں جس میں پینگوئن کی جگہ اپنا چہرہ واضح ہو ( معلوم نہیں اس پوسٹ کے بعد جیسبادی اور پینگوئن کے تعلقات کیسے ہیں اور جیسبادی نے کس کو ترجیح دی خود کو یا پینگوئن کو )۔ زکریا کی بہت جی حضوری کرنے کی عادت ہے ، جی زکریا ، شکریہ زکریا ، اچھا زکریا ، میں کرتا ہوں زکریا ، میں آتا ہوں زکریا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اور جانے کیا کیا زکریا ، منتظمین کا اتنا احترام کسی اور کو کرتے ان گہنگار آنکھوں نے نہیں دیکھا ہے جتنا شمیل قریشی نے کیا ہے۔
گانوں کی طلب شمیل کو اس طرح اٹھتی ہے جس طرح کسی کو نشہ کی حاجت ہوتی ہے ایک دم تیز اور سخت بے چینی مگر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ طلب کہاں سے پوری ہوگی نہ ہی پوری معلومات ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو شدید طلب کا ایک منظر
مجھے ایک پرانے گیت کی اشہد طلب ہے ۔ یہ گیت لتا منگیشکر کی آواز میں ہے ۔گیت کے بول ہیں " یہ دل اور ان کی نگاہوں کے سائے " ۔فلم کا نام معلوم نہیں ۔
ایک جگہ تفسیر نے غلطی سے کہہ دیا کہ اس مصرعہ کے ساتھ مصرعہ ملاؤ
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
شمیل کی تو جیسے برسوں پرانی آس بر آئی جتنے ارمان تھے سب مصرعوں میں لکھ ڈالے
یؤں نہ ہو کہ یہ رت ملن کی بے قرار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے
َکہیں روتا ہوا یہ موسمِ بہار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے
ے آنگن سے تو پہلے ہی غم گسار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے
ہے یہ خواہش تیرا افسوں بار بار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے
ساتھ لکھ ڈالا کہ مزید بنا رہا ہوں ، نتیجہ یہ نکلا کہ منفرد ممبر نے اپنی طرف سے مصرعہ پوسٹ کرنے کی فرمائش شروع کردی جسے سادہ لوح شمیل نے فورا قبول کر لیا اور اگلے مصرعے منفرد ممبر کی طرف سے اپنے نام سے پوسٹ کرنے شروع کردیے جس سے منفرد ممبر کی چالاکی اور شمیل کی سادگی دونوں طشت از بام ہوگئے۔ شمیل کو شک ہوا بھی تو تفسیر پر کہ کہیں وہ بانس پر تو نہیں چڑھا رہے پر تصدیق چاہی تو کس سے گنوں کی پوری منفرد ممبر سے کہ ماجرا کیا ہے۔ منفرد ممبر نے اپنے نام سے شعر پوسٹ ہونے سے رکتے دیکھے تو فورا کہا بھئی صحیح جا رہے ہو نا بس اگلا مصرعہ میری طرف سے پوسٹ کردینا ( باقی میری بلا جانے کہ ٹھیک جا رہے ہو کہ نہیں میرا کام تو نکلے ) پھر خیال آیا کہ نہیں تعریف کرنی چاہیے کہیں بندہ ہاتھ سے ہی نہ جائے ، لکھ ڈالا
نہیں واقعی، بہت اچھے ہیں۔۔اور ویسے بھی حوصلہ افزائی سے ہی تو انسان آگے بڑھتا ہے نا۔
شمیل نے جھٹ تین اور مصرعے منفرد ممبر کے نام کر ڈالے اور مزید بنانے کا بھی لکھ ڈالا۔ خدا جانے گھر مصرعے بنانے کا آٹومیٹک پلانٹ لگا لیا تھا جو دھڑا دھڑ مصرعے بن رہے تھے بہرحال یہ شمیل شعر فیکڑی اعجاز صاحب کی تیز نظروں سے بچ نہ سکی اور انہوں نے جھٹ شمیل کو ففٹی ففٹی میں بزنس کی آفر کر ڈالی۔ تفسیر نے بھی اپنے دھاگے کی رونق بڑھتے دیکھ کر ہلا شیری دی شمیل کو کہ جاری رکھیے نکہار آرہا ہے ۔ ہجوں کی غلطیوں کے بے تاج بادشاہ ہونے کی وجہ سے تفسیر کا نکھار ایسا بن گیا جیسے کوئی نہ کہہ کر ہار رہا ہو۔ پریم روگ بھی لگا بیٹھے جس کا ایک جگہ یوں اعتراف کیا
لگا لگا لگا رے
لگا لگا لگا رے
لگا لگا لگا رے لگا پریم روگ
اب اتنے دل سے لگا لگا کر لگاؤ گے تو بھائی پریم روگ لگے بغیر کیسے رہے گا۔ پریم روگ چھوڑ کر کوئی بھی روگ لگ جائے گا ، پریم روگ تو ویسے ہی لگنے تو تیار کھڑا ہوتا ہے۔
فرذوق کا اتنا خیال رہتا ہے جتنا خود فرذوق کو بھی اپنا نہیں رہتا ہوگا۔ اس کی جان کو ننھی سمجھ رکھا ہے جبکہ غیر اعلانیہ طور پر محفل پر شمیل کی جان کو سب سے ننھی سمجھا جاتا ہے البتہ بتایا نہیں جاتا کہ ننھی جان ہے یہ خبر سہہ نہ سکے گی۔ بات ہو رہی تھی شمیل کے خیال رکھنے کی ، ایک جگہ سب کو یوں سمجھایا
فرزوق کو کل اعجاز صاحب نے ڈانٹا تھا کہ پڑھتے نہیں ہو اور یہاں آتے جاتے رہتے ہو ۔شمشاد بھائی نے آج ٹکا سا جواب دے دیا ۔ مجھے تو ڈر ہے ننہی سی جان کا کہیں
دل نہ ٹوٹ جائے ۔فرزوق اس محفل کا لا ڈلا اور سب سے کم سن رکن ہے ۔ اس بات کو مد نظر رکھا جائے ۔
آپ نے دیکھا کس خوبصورتی سے سب کو خبردار بھی کردیا اور فرذوق کے ساتھ ساتھ اپنے لاڈ بھی اٹھوالیے۔مزید فرذوق سے اپنی انسیت اور تعلق کا احوال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں
“ میں تمہارا ہر خط ضرور پڑھتا ہوں ۔ پتا نہیں کیوں مجھے تمہاری ہر تحریر میں معصومیت ، شرافت ، سادگی اور روحانیت محسوس ہوتی ہے ۔
انسان کی خوبصورتی معصومیت میں پوشیدہ ہے ۔ اسے کبھی جانے نہ دینا ۔
خوش رہو ۔ “
یہ سب پڑھ کر معصوم فرذوق خوش تو بہت ہوا مگر ان باتوں پر یقین لانے میں کچھ تامل ہوا اور بے اختیار پوچھ بیٹھا کہ ویسے کہیں آپ نے مسکا تو نہیں لگایا نہ ۔ جو کلمات شمیل نے فرذوق کے لیے ادا کیے ہیں بعینہ یہی کلمات شمیل کے لیے بھی کہے جا سکتے ہیں بلکہ میرے خیال میں شمیل نے درپردہ اپنی ہی بات کہی ہے بس نام فرذوق کا لیا ہے ورنہ یہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم شمیل میں پائی جاتی ہیں۔ سب سے دلچسپ شے جو شمیل کے محسوسات میں ہے وہ ہے روحانیت جو اسے فورا سے پیشتر ہو جاتی ہے جیسا کہ آپ نے ابھی پڑھا کہ فرذوق کے آنے کے کچھ دیر بعد ہی شمیل کو روحانیت محسوس ہونے لگی اور وہ بھی ہر تحریر میں چاہے وہ گانے اور فلموں کے دھاگے میں ہی کیوں نہ ہو۔ اور تو اور راقم بھی شمیل کی روحانیت کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکا اور ایک جگہ یہ پڑھ کر حیرت سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچا
محب بھائی مجھے آپ سے ایک روحانی تعلق ہے۔
اس کے پیچھے جڑی کہانی خود شمیل کی زبانی
لگتا ہے کہ محب بھائي مجھ سے ناراض ہیں اور وہ بھی اسی دن سے جب میں نے جشن آزادی کے سلسلے میں کچھ وال پیپرز بنائے تھے اور ایک میں صدر پرویز مشرف صاحب کی تعریف میں بھی بنایا تھا ۔ اور اس دن ہی محب بھائی کا ایک نہایت چھوٹا لیکن پر زور سا پیغام بھی دیکھنے کو ملا کہ میں اس وال پیپر کو ہٹاوں ۔ پر میں اپنی سستی کی وجہ سے وہ نہ ہٹا پایا اور اس دن سے محسوس کرتا ہوں کہ محب بھائي مجھ سے دور دور سے رہتے ہیں ۔ پر آج معلوم ہوا ہے کہ وہ کونسلر کے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں تو یہ بات تو پکی ہے کہ ان کی سیاسی وابستگی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے رہی ہو گی اور وہ یقیناً پرویز صاحب سے نفرت کرتے ہیں ۔ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں کسی بھی قسم کی سیاسی وابستگی نہیں رکھتا اور نان پولیٹیکل نیچر رکھتا ہوں ۔میں نے ابھی تک ووٹینگ میں حصہ نہیں لیا ۔ اور صدر صاحب کی تصویر میں نے اپنے ملک کے صدر کو عزت دینے کے لیے کی تھی نہ کہ صدر صاحب کی ذاتی شخصیت کو ابھارنے کی کوشش کی تھی ۔
مجھے امید ہے کہ محب بھائی ( جن سے میں اس اردو محفل میں ایک مخصوص روحانی وابستگی رکھتا ہوں ) میری یہ صفائی قبول کریں گے ۔
محب کا جواب اس پوسٹ پر
استغفراللہ شمیل (نبیل تمہارا آدھا قرض تو شمیل پر اتر جائے گا ) Laughing کیسی باتیں کر رہے ہو۔
میں اور تم سے ناراض اور وجہ مشرف کا وال پیپر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔لا حول ولا قوتہ
نہ تو میری کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ہے اور نہ میں کسی سیاسی جماعت سے فی الحال کوئی وابستگی رکھنا چاہ رہا ہوں۔
کونسلر کا الیکشن میں لڑ چکا ہوں
مگر صرف نبیل کی تحریر اور تخیل میں
ضمانتیں ضبط ہونے والی بات پڑھ کر تو میری ہنسی نہیں رک رہی تھی اور تم نے سچ سمجھ لیا ، کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں الیکشن لڑوں تو میری ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی ( اتنا غیر مقبول یا غیر معقول سمجھ لیا ہے تم نے مجھے )
تمہاری آخری بات میں چونکہ روحانیت کا ذکر ہے جس سے مجھے مستقبل میں کوئی روحانی گدی ملنے کی توقع پیدا ہورہی ہے تو اگر تم صفائی دینے کی بجائے وقت آنے پر مریدی کا وعدہ کرو تو میں تم پر لطف و کرم کی بارش کر دوں گا۔
باقی کسر جو اس پیغام میں رہ گئی ہے وہ میں تمہاری محفل کی سرگزشت میں باری آنے پر پوری کروں گا۔ Laughing ( شمیل دیکھ لو میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے اور اس پوسٹ کو خاص یاد رکھا ہے )
بقول نبیل؛ شمیل اتنی مرتبہ اپنی روح کو پہنچنے والی تکلیف کا ذکر کر چکے ہیں کہ انہیں کچھ کہتے ہوئے اب ڈر ہی لگتا ہے۔کسی بے ضرر سی بات پر بھی ان کی روح کے مَسَل پُل ہوجاتے ہیں۔
Music
شمیل بظاہر کام کرنے کو تیار ، چست و چوبند اور پرجوش نظر آتے ہیں مگر درپردہ کام کسی اور سے نکلوانے اور کروانے کے مشورے اور ترکیبیں پیش پیش رہتی ہے ۔ شمیل بہت اچھے گرافک ڈیزائنر ہیں اور رنگوں سے کھیلنے کا شوق بھی کافی ہے ( اس سے آپ شمیل کو رنگین مزاج نہ سمجھ لیجیے گا بس رنگ اچھے لگتے ہیں دور سے خود کبھی نہ ہاتھ رنگے ہیں اور نہ کبھی رنگے ہاتھوں کہیں پکڑے گئے ہیں)۔ ملاحظہ ہو ایک زور دے کر کسی اور سے کام کروانے کی مثال جس میں زور سارا کسی سے کام کروانے پر ہے مگر ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بھی بالکل تیار ہیں (جانے اپنی ذمہ داریوں سے کیا مراد ہوتی ہے شمیل کی )
“نبیل بھائی ، آپ دوبئی والے شعیب بھائی سے ویب سائیٹ کو ڈیزائن کرنے کی بات کیوں نہیں کرتے ؟ وہ بھی بہت اچھے گرافک ڈیزائنر ہیں ۔میں اپنی ذمہ داریاں سمبھالنے کے لیے بالکل تیار ہوں
( یہ تیاری ہے تو پھر عیاری کیا ہے ) “۔
شمیل کو اردو سے لگاؤ ہے اس لیے بقول ان کے وہ محفل پر چلے آتے ہیں ورنہ اکثر اوقات پڑھائی کرتے ہی پائے جاتے ہیں جس کی ایک بنیادی وجہ ان کی والدہ کا پرنسپل ہونا بھی ہے گو شمیل کا اصرار ہے کہ پڑھائی کا شوق ان کا ذاتی ہے نہ کہ کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ۔شمیل کو شاعری کا بہت شوق ہے اور بس نہیں چلتا کہ کس طرح کسی کو دے دلا کر شاعر بن جائیں ، تفسیر نے ایک سلسلہ شروع کیا تو فورا ٹپک پڑے۔
مجھے شاعری کرنے کا بہت شوق ہے پر شاعری کبھی نہیں کی ۔ اب تفسیر صاحب کی شاعری کلاسوں میں شرکت کر کے امید بندھ چلی ہے کہ شاعری آ ہی جائے گی ۔ جسے ہی تفسیر صاحب نے کہا کہ شمیل میاں اب تم اچھی شاعری کرنے لگے ہو میں سب سے پہلے نعت لکھ کر اپنی شاعری کی شروعات کروں گا ۔
نعت کا اس لیے لکھا کہ اگر کوئی شاعری کو بے وزن سمجھے بھی تو ادب کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکے ورنہ نو آموز شعرا کا جو حال لوگ کرتے ہیں وہ احاظہ تحریر میں نہیں آ سکتا۔
اسکول سے جڑی اپریل فول کی کہانی خود شمیل کی زبانی
شمیل کو اب تک اپنے منہ میاں مٹھو بننا نہیں آیا ہے اور فورم پر پوچھتے پھرتے ہیں کہ
اپنے منہ میاں مٹھو کیسے بنتے ہیں ( اب بھلا یہ کوئی بتانے والی یا سکھانے والی بات ہے ) ۔
شمیل جیسے سادہ ، صلح جو اور مخلص لوگ اب نایاب ہیں اور جتنی بھی قدر کی جائے وہ کم ہے۔ شمیل پر اور بھی لکھنے کو بہت جی چاہ رہا ہے مگر پہلے ہی خاصہ طویل ہوگیا ہے اور شمیل کی اپنی تحریریں ہی ایسی ہیں کہ کچھ اور لکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔