نگار ف
محفلین
اردو ميں الف کو کس طرح لکهنا ہے؟
الف ممدودہ
الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات ميں پيدا ہوتا ہے- يعني دل آرام لکھا جائے يا دلارام- ايسي صورت ميں اصول يہ ہونا چاہيے کہ معياري تلفّظ کو رہنما بنايا جائے اور مرکّب جيسے بولا جاتا ہو، ويسے ہي لکھا جائے-
بغير مد کے: برفاب تيزاب سيلاب غرقاب سيماب زہراب گلافتاب تلخاب
سردابہ گرمابہ مرغابي خوشامد دستاويز
مع مد کے: گرد آلود دل آويز عالم آرا جہان آباد دل آرا دل آرام دو آبہ ابر آلود
خمار آلود قہر آلود زہر آلود زنگ آلود خون آلود رنگ آميز درد آميز جہاں آرا
حسن آرا خانہ آباد عشق آباد عدم آباد
تنوين
اردو ميں عربي کے ايسے کئي لفظ استعمال ہوتے ہيں جن پر دو زبر آتے ہيں، جيسے فوراً، عموماً، وقتاً، فوقتاً، اتفاقاً- تنوين اردو املا کا حصّہ بن چکي ہے- اس ليے اسے بدلنا مناسب نہيں- چنانچہ فوراً کو فورن لکھنے کي سفارش نہيں کي جا سکتي- اس کو فوراً لکھنا ہي صحيح ہے- البتہ وہ لفظ تصفيہ طلب ہيں جن کے آخر ميں ت آتي ہے- ايسے لفظوں کے بارے عربي املا کا اصول يہ ہے کہ اگر ت کسي لفظ کے مادے ميں شامل ہے تو تنوين کي صورت ميں اُس پر الف کا اضافہ کر کے تنوين لگائي جاتي ہے، جيسے وقتاً فوقتاً- ليکن اگر ت مادے ميں شامل نہيں تو وہ تائے مُدَوَّرہ ۃ کي صورت ميں لکھي جاتي ہے اور اس پر دو زبر لگا ديے جاتے ہيں، جيسے عادۃً- اس صورت ميں الف کا اضافہ نہيں کيا جاتا اور تنوين تائے مُدَوَّرہ پر لگائي جاتي ہے- اردو املا ميں عام طور سے اس فرق کو ملحوظ نہيں رکھا جاتا، اور تنوين ايسے تمام الفاظ ميں الف کا اضافہ کر کے لگائي جاتي ہے-
اس ضمن ميں ہميں ڈاکٹر عبد السّتار صديقي کے اس اصول کو تسليم کر لينا چاہيے کہ "عربي کي ۃ کو اردو ميں ہميشہ ت لکھنا چاہيے"- چنانچہ اردو ميں تنوين کے ليے ت والے لفظوں کے بارے ميں قاعدہ يہ ہوا کہ سب لفظوں کے آخر ميں الف کا اضافہ کر کے تنوين لکھي جائے، مثلاً
نسبتاً مروَّتاً کنايتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً شکايتاً کليتاً
قدرتاً حقيقتاً حکايتاً طبيعتاً وقتاً فوقتاً شريعتاً طاقتاً
اشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقيدتاً وضاحتاً شرارتاً
تحرير: ڈاکٹر گوپي چند نارنگ، پروفيسر اردو، دہلي يوني ورسٹي
پیشکش : خواھر سکینہ زھرا از تبیان، تہران
الف ممدودہ
الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات ميں پيدا ہوتا ہے- يعني دل آرام لکھا جائے يا دلارام- ايسي صورت ميں اصول يہ ہونا چاہيے کہ معياري تلفّظ کو رہنما بنايا جائے اور مرکّب جيسے بولا جاتا ہو، ويسے ہي لکھا جائے-
بغير مد کے: برفاب تيزاب سيلاب غرقاب سيماب زہراب گلافتاب تلخاب
سردابہ گرمابہ مرغابي خوشامد دستاويز
مع مد کے: گرد آلود دل آويز عالم آرا جہان آباد دل آرا دل آرام دو آبہ ابر آلود
خمار آلود قہر آلود زہر آلود زنگ آلود خون آلود رنگ آميز درد آميز جہاں آرا
حسن آرا خانہ آباد عشق آباد عدم آباد
تنوين
اردو ميں عربي کے ايسے کئي لفظ استعمال ہوتے ہيں جن پر دو زبر آتے ہيں، جيسے فوراً، عموماً، وقتاً، فوقتاً، اتفاقاً- تنوين اردو املا کا حصّہ بن چکي ہے- اس ليے اسے بدلنا مناسب نہيں- چنانچہ فوراً کو فورن لکھنے کي سفارش نہيں کي جا سکتي- اس کو فوراً لکھنا ہي صحيح ہے- البتہ وہ لفظ تصفيہ طلب ہيں جن کے آخر ميں ت آتي ہے- ايسے لفظوں کے بارے عربي املا کا اصول يہ ہے کہ اگر ت کسي لفظ کے مادے ميں شامل ہے تو تنوين کي صورت ميں اُس پر الف کا اضافہ کر کے تنوين لگائي جاتي ہے، جيسے وقتاً فوقتاً- ليکن اگر ت مادے ميں شامل نہيں تو وہ تائے مُدَوَّرہ ۃ کي صورت ميں لکھي جاتي ہے اور اس پر دو زبر لگا ديے جاتے ہيں، جيسے عادۃً- اس صورت ميں الف کا اضافہ نہيں کيا جاتا اور تنوين تائے مُدَوَّرہ پر لگائي جاتي ہے- اردو املا ميں عام طور سے اس فرق کو ملحوظ نہيں رکھا جاتا، اور تنوين ايسے تمام الفاظ ميں الف کا اضافہ کر کے لگائي جاتي ہے-
اس ضمن ميں ہميں ڈاکٹر عبد السّتار صديقي کے اس اصول کو تسليم کر لينا چاہيے کہ "عربي کي ۃ کو اردو ميں ہميشہ ت لکھنا چاہيے"- چنانچہ اردو ميں تنوين کے ليے ت والے لفظوں کے بارے ميں قاعدہ يہ ہوا کہ سب لفظوں کے آخر ميں الف کا اضافہ کر کے تنوين لکھي جائے، مثلاً
نسبتاً مروَّتاً کنايتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً شکايتاً کليتاً
قدرتاً حقيقتاً حکايتاً طبيعتاً وقتاً فوقتاً شريعتاً طاقتاً
اشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقيدتاً وضاحتاً شرارتاً
تحرير: ڈاکٹر گوپي چند نارنگ، پروفيسر اردو، دہلي يوني ورسٹي
پیشکش : خواھر سکینہ زھرا از تبیان، تہران