نکتہ ور
محفلین
اردو میں ترجمہ کے مسائل
انتظار حسین پير 5 اکتوبر 2015
ابھی ڈھائی تین ہفتے پہلے گجرات یونیورسٹی کی طرف سے ہمیں ایک سیمینار میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ وہاں ترجموں کی اہمیت اور افادیت کا مسئلہ زیر بحث تھا۔ واپس گھر آ کر ہم نے سانس ہی لیا تھا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی ٹرانس لیشن سوسائٹی کی طرف سے اسی قسم کی دعوت موصول ہوئی۔ یعنی وہاں بھی یہی مسئلہ زیر بحث تھا۔
یہ جو یکایک ترجمہ کی اہمیت پر یاروں کی توجہ مرکوز ہوئی ہے کیا اس میں کچھ اس واقعہ کا دخل ہے کہ سپریم کورٹ نے اردو کو فوری طور پر قومی زبان کے طور پر نافذ کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔
شاید ایسا ہی ہو۔ مگر ان دونوں مذاکروں میں جو شخصیت پیش پیش نظر آئی وہ تو اس سے پہلے سے اس کام پر لگی ہوئی تھی۔ یہ ہیں توحید احمد صاحب۔ ہم خالی ہاتھ ان مذاکروں میں پہنچے تھے مگر توحید احمد صاحب بھرے ہاتھوں ان مذاکروں میں شامل تھے۔ ان کی بغل میں دو کتابیں تھیں جو اسی مسئلہ سے متعلق ہیں۔ ایک تو براہ راست اس موضوع پر ہے یعنی سوزن بینسٹ کی کتاب Translation Studies جس کا ترجمہ انھوں نے ’علوم ترجمہ‘ کے نام سے کیا ہے اور جو گجرات یونیورسٹی کی طرف سے شایع ہوئی ہے۔ دوسری کتاب بھی ہر پھر کر اسی مسئلہ پر بحث کرتی نظر آتی ہے۔ Comparative Literature, A Critical Introduction اس کتاب کا ترجمہ ’’تقابلی ادب‘ ایک تنقیدی جائزہ‘ کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ تقابلی ادب کی بحث کی تان بھی ترجمہ ہی پر ٹوٹی ہے۔
اس مسئلہ کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ خالی نشستند و گفتند و برخاستند کا معاملہ نہیں ہے۔ کچھ اسکالر سنجیدگی کے ساتھ اس مہم میں مصروف ہیں۔ توحید احمد صاحب نے دو ایسی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں جہاں مصنفہ نے مغربی ادب کے سیاق و سباق میں اس مسئلہ پر بحث کی اور ترجمہ کے کام کو ایک علمی مسئلہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ یعنی ترجمہ کے کام کو یہ مت سمجھئے کہ آپ کا دو زبانوں سے معمولی تعارف ہے۔ اس زور پر آپ نے ایک کتاب کو ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کر دیا۔ ترجمہ کا کاروبار اس بی بی کے حساب سے اپنے طور پر ایک علم ہے۔ اس کے اپنے قواعد و ضوابط‘ اپنے رموز و اسرار ہیں۔ پہلے ان پر عبور حاصل کرو۔ پھر ترجمہ کے میدان میں قدم رکھو۔ مصنفہ کو شکایت یہ ہے کہ ترجمہ کو ادب کی روایت میں زیادہ عزت نہیں ملی۔ اصل چیز تو لکھنے والے کی تصنیف ہے۔ مصنفہ کی زبان میں اسے ’ماخذی متن‘ کہئے ترجمہ کی حیثیت ثانوی سمجھی جاتی ہے لیکن اس خاتون کی دانست میں ترجمہ کی حیثیت بھی ماخذی متن سے کم نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ڈرائیڈن کا ایک دو ٹوک بیان نقل کیا گیا ہے کہ ترجمہ کا مرتبہ بھی اصل متن کے برابر ہو سکتا ہے اس شرط پر کہ وہ خالی لفظی ترجمہ نہ ہو۔
علمی کتابوں سے بڑھ کر یہ مسئلہ تخلیقی کاموں کے سلسلہ میں زیادہ پیش آتا ہے۔ وہاں مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ مترجم کو متن سے بیشک وفاداری برتنی چاہیے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مکھی پہ مکھی ماری جائے جسے ڈرائیڈن نے لفظی ترجمہ کہہ کر رد کیا ہے۔
باقی علمی کتابوں کے سلسلہ میں آپ قدرے آزادی بھی برت سکتے ہیں۔ یعنی قاری کی سمجھ کو پیش نظر رکھ کر ترجمہ تھوڑا سا آزاد بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً توحید احمد صاحب اس حد تک ترجمہ میں آزادی برت سکتے تھے کہ قاری پر تھوڑا رحم کھا کر اسے بول چال کے قریب لا سکتے تھے۔ اب انھوں نے کچھ مخصوص لفظوں اور اصطلاحوں کے ترجمے اس طرح کیے ہیں کہ وہ لفظی ترجمہ کے حساب سے صحیح ہوں مگر قاری پریشان ہو جاتا ہے۔ مثلاً انھوں نے ایک لفظ Otherness کا ترجمہ ’حریفت‘ کیا ہے۔ اس اجنبی نامانوس لفظ کے معنی سمجھانے کے لیے انھیں بریکٹ میں Otherness لکھنا پڑے گا۔ ایک اصطلاح کا ترجمہ انھوں کیا ہے۔ بین اللسانی تنقیل۔ ایسے ترجموں کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ
مگر ان کا کہا وہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
ویسے یہاں ملا جلا معاملہ ہے۔ بعض مقامات پر ترجمے آسان اور سہل بھی ہیں۔
اچھا خیر ان دو کتابوں کے ترجمے تو کر دیے مگر اس سے آگے کا کام یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو ترجمے ہوئے ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر ترجمہ پر بات کی جائے۔ بات تو تب ہی پوری طرح سمجھ میں آئے گی جب اردو میں جو اچھے برے ترجمے ہوئے ہیں انھیں پیش نظر رکھ کر یہ بتایا جائے کہ مناسب اور موزوں ترجمہ کونسا ہے۔ کہاں متن سے اتنی شدت سے وفاداری برتی گئی ہے کہ متن منہ تکتا رہ جاتا ہے کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ کہیں متن کو روانی کے شوق میں اس طرح نظر انداز کیا گیا ہے کہ متن کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کدھر گیا۔ آخر اس کی اپنی بھی کوئی قدر و قیمت تھی۔
پھر ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ آپ نے ترجمہ کو ایک علم یا سائنس تصور کر کے اس پر بحث کی۔ بہت اچھا کیا۔ مگر یہ بحث کیا تقاضا کرتی ہے۔ کیا ایسی بحث اپنا مقصد آپ ہے۔ یا وہ یہ تقاضا کرتی ہے کہ اچھا آپ نے ترجمہ کے نیک و بد کو‘ اس کی خوبیوں خرابیوں کو سمجھ لیا۔ اب اس سے آگے کا کام کیجیے۔ ترجمہ پر بحث تو کر لی مگر ترجمہ کہاں ہے۔ یہ کیا ہوا کہ ترجمہ پر بس بحث ہو رہی ہے‘ ترجمہ ندارد ہے ع
پلیٹوں کی صدا آتی ہے پر کھانا نہیں آتا
یعنی ان مذاکروں مباحثوں کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی ادارہ اس مقصد سے قائم کیا جائے اور بڑے پیمانے پر ترجموں کا کوئی منصوبہ باندھا جائے یعنی ملک گیر سطح پر کوئی ٹرانس لیشن بیور قائم کیا جائے اور وہ آج کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر علمی ادبی تہذیبی حوالوں سے جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے ترجمے ہوں مگر ایسے نہ ہوں کہ لکھیں عیسیٰ اور پڑھیں موسیٰ۔ وہ اس لیے کہا کہ ہمارے یہاں کتنی علمی کتابوں کے ایسے ہی ترجمے ہوئے ہیں۔ اس تجربے سے آج کے مترجم کو کچھ تو سیکھنا چاہیے۔
مگر ٹرانس لیشن بیورو ایک زمانے سے ہمارا خواب چلا آتا ہے۔ اس کی تعبیر کہاں سے آئے‘ کیسے آئے۔ پاکستان میں جو حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں ان میں سے کسی حکومت نے ایسے کسی مطالبہ پر توجہ ہی نہیں کی۔ ایک کان سنا دوسرے کان اڑا دیا۔ اگر حکومت کی سمجھ میں ایسے کام کی کوئی وقعت نہیں ہے تو یہ جو موٹی آسامیاں اس ملک میں بیٹھی ہیں اور دولت میں کھیلتی ہیں ان میں سے کسی میں کسی کے یہاں دریائے سخاوت میں ایسا جوش آ سکتا ہے۔ ایک دھنا سیٹھ نے ایک سیاسی رہنما کے نام پر یکمشت دو یونیورسٹیاں قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس پر واہ واہ ہو گئی۔ ویسے دیکھتے دیکھتے یونیورسٹیوں کی ریل پیل اتنی ہو گئی ہے کہ سوچنا پڑتا ہے کہ وہ یونیورسٹیاں کون کونسی ہیں جو کاروبار سے بڑھ کر تعلیمی علمی تہذیبی مقاصد پورے کر رہی ہیں۔
باقی حکومت کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو علمی ادبی ادارے پہلے سے موجود ہیں وہ رو رہے ہیں کہ گرانٹ ملے تو کام چالو ہو۔ باہر لکھ لٹ رہے ہیں۔ ان اداروں کو معمولی گرانٹ میسر نہیں ہے۔ کتنے اداروں میں سربراہ کی کرسی خالی پڑی ہے۔ تو وہاں مضمون یہ ہے کہ ع
عزیزو بس اللہ ہی اللہ ہے
انتظار حسین پير 5 اکتوبر 2015
ابھی ڈھائی تین ہفتے پہلے گجرات یونیورسٹی کی طرف سے ہمیں ایک سیمینار میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ وہاں ترجموں کی اہمیت اور افادیت کا مسئلہ زیر بحث تھا۔ واپس گھر آ کر ہم نے سانس ہی لیا تھا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی ٹرانس لیشن سوسائٹی کی طرف سے اسی قسم کی دعوت موصول ہوئی۔ یعنی وہاں بھی یہی مسئلہ زیر بحث تھا۔
یہ جو یکایک ترجمہ کی اہمیت پر یاروں کی توجہ مرکوز ہوئی ہے کیا اس میں کچھ اس واقعہ کا دخل ہے کہ سپریم کورٹ نے اردو کو فوری طور پر قومی زبان کے طور پر نافذ کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔
شاید ایسا ہی ہو۔ مگر ان دونوں مذاکروں میں جو شخصیت پیش پیش نظر آئی وہ تو اس سے پہلے سے اس کام پر لگی ہوئی تھی۔ یہ ہیں توحید احمد صاحب۔ ہم خالی ہاتھ ان مذاکروں میں پہنچے تھے مگر توحید احمد صاحب بھرے ہاتھوں ان مذاکروں میں شامل تھے۔ ان کی بغل میں دو کتابیں تھیں جو اسی مسئلہ سے متعلق ہیں۔ ایک تو براہ راست اس موضوع پر ہے یعنی سوزن بینسٹ کی کتاب Translation Studies جس کا ترجمہ انھوں نے ’علوم ترجمہ‘ کے نام سے کیا ہے اور جو گجرات یونیورسٹی کی طرف سے شایع ہوئی ہے۔ دوسری کتاب بھی ہر پھر کر اسی مسئلہ پر بحث کرتی نظر آتی ہے۔ Comparative Literature, A Critical Introduction اس کتاب کا ترجمہ ’’تقابلی ادب‘ ایک تنقیدی جائزہ‘ کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ تقابلی ادب کی بحث کی تان بھی ترجمہ ہی پر ٹوٹی ہے۔
اس مسئلہ کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ خالی نشستند و گفتند و برخاستند کا معاملہ نہیں ہے۔ کچھ اسکالر سنجیدگی کے ساتھ اس مہم میں مصروف ہیں۔ توحید احمد صاحب نے دو ایسی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں جہاں مصنفہ نے مغربی ادب کے سیاق و سباق میں اس مسئلہ پر بحث کی اور ترجمہ کے کام کو ایک علمی مسئلہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ یعنی ترجمہ کے کام کو یہ مت سمجھئے کہ آپ کا دو زبانوں سے معمولی تعارف ہے۔ اس زور پر آپ نے ایک کتاب کو ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کر دیا۔ ترجمہ کا کاروبار اس بی بی کے حساب سے اپنے طور پر ایک علم ہے۔ اس کے اپنے قواعد و ضوابط‘ اپنے رموز و اسرار ہیں۔ پہلے ان پر عبور حاصل کرو۔ پھر ترجمہ کے میدان میں قدم رکھو۔ مصنفہ کو شکایت یہ ہے کہ ترجمہ کو ادب کی روایت میں زیادہ عزت نہیں ملی۔ اصل چیز تو لکھنے والے کی تصنیف ہے۔ مصنفہ کی زبان میں اسے ’ماخذی متن‘ کہئے ترجمہ کی حیثیت ثانوی سمجھی جاتی ہے لیکن اس خاتون کی دانست میں ترجمہ کی حیثیت بھی ماخذی متن سے کم نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ڈرائیڈن کا ایک دو ٹوک بیان نقل کیا گیا ہے کہ ترجمہ کا مرتبہ بھی اصل متن کے برابر ہو سکتا ہے اس شرط پر کہ وہ خالی لفظی ترجمہ نہ ہو۔
علمی کتابوں سے بڑھ کر یہ مسئلہ تخلیقی کاموں کے سلسلہ میں زیادہ پیش آتا ہے۔ وہاں مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ مترجم کو متن سے بیشک وفاداری برتنی چاہیے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مکھی پہ مکھی ماری جائے جسے ڈرائیڈن نے لفظی ترجمہ کہہ کر رد کیا ہے۔
باقی علمی کتابوں کے سلسلہ میں آپ قدرے آزادی بھی برت سکتے ہیں۔ یعنی قاری کی سمجھ کو پیش نظر رکھ کر ترجمہ تھوڑا سا آزاد بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً توحید احمد صاحب اس حد تک ترجمہ میں آزادی برت سکتے تھے کہ قاری پر تھوڑا رحم کھا کر اسے بول چال کے قریب لا سکتے تھے۔ اب انھوں نے کچھ مخصوص لفظوں اور اصطلاحوں کے ترجمے اس طرح کیے ہیں کہ وہ لفظی ترجمہ کے حساب سے صحیح ہوں مگر قاری پریشان ہو جاتا ہے۔ مثلاً انھوں نے ایک لفظ Otherness کا ترجمہ ’حریفت‘ کیا ہے۔ اس اجنبی نامانوس لفظ کے معنی سمجھانے کے لیے انھیں بریکٹ میں Otherness لکھنا پڑے گا۔ ایک اصطلاح کا ترجمہ انھوں کیا ہے۔ بین اللسانی تنقیل۔ ایسے ترجموں کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ
مگر ان کا کہا وہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
ویسے یہاں ملا جلا معاملہ ہے۔ بعض مقامات پر ترجمے آسان اور سہل بھی ہیں۔
اچھا خیر ان دو کتابوں کے ترجمے تو کر دیے مگر اس سے آگے کا کام یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو ترجمے ہوئے ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر ترجمہ پر بات کی جائے۔ بات تو تب ہی پوری طرح سمجھ میں آئے گی جب اردو میں جو اچھے برے ترجمے ہوئے ہیں انھیں پیش نظر رکھ کر یہ بتایا جائے کہ مناسب اور موزوں ترجمہ کونسا ہے۔ کہاں متن سے اتنی شدت سے وفاداری برتی گئی ہے کہ متن منہ تکتا رہ جاتا ہے کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ کہیں متن کو روانی کے شوق میں اس طرح نظر انداز کیا گیا ہے کہ متن کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کدھر گیا۔ آخر اس کی اپنی بھی کوئی قدر و قیمت تھی۔
پھر ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ آپ نے ترجمہ کو ایک علم یا سائنس تصور کر کے اس پر بحث کی۔ بہت اچھا کیا۔ مگر یہ بحث کیا تقاضا کرتی ہے۔ کیا ایسی بحث اپنا مقصد آپ ہے۔ یا وہ یہ تقاضا کرتی ہے کہ اچھا آپ نے ترجمہ کے نیک و بد کو‘ اس کی خوبیوں خرابیوں کو سمجھ لیا۔ اب اس سے آگے کا کام کیجیے۔ ترجمہ پر بحث تو کر لی مگر ترجمہ کہاں ہے۔ یہ کیا ہوا کہ ترجمہ پر بس بحث ہو رہی ہے‘ ترجمہ ندارد ہے ع
پلیٹوں کی صدا آتی ہے پر کھانا نہیں آتا
یعنی ان مذاکروں مباحثوں کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی ادارہ اس مقصد سے قائم کیا جائے اور بڑے پیمانے پر ترجموں کا کوئی منصوبہ باندھا جائے یعنی ملک گیر سطح پر کوئی ٹرانس لیشن بیور قائم کیا جائے اور وہ آج کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر علمی ادبی تہذیبی حوالوں سے جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے ترجمے ہوں مگر ایسے نہ ہوں کہ لکھیں عیسیٰ اور پڑھیں موسیٰ۔ وہ اس لیے کہا کہ ہمارے یہاں کتنی علمی کتابوں کے ایسے ہی ترجمے ہوئے ہیں۔ اس تجربے سے آج کے مترجم کو کچھ تو سیکھنا چاہیے۔
مگر ٹرانس لیشن بیورو ایک زمانے سے ہمارا خواب چلا آتا ہے۔ اس کی تعبیر کہاں سے آئے‘ کیسے آئے۔ پاکستان میں جو حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں ان میں سے کسی حکومت نے ایسے کسی مطالبہ پر توجہ ہی نہیں کی۔ ایک کان سنا دوسرے کان اڑا دیا۔ اگر حکومت کی سمجھ میں ایسے کام کی کوئی وقعت نہیں ہے تو یہ جو موٹی آسامیاں اس ملک میں بیٹھی ہیں اور دولت میں کھیلتی ہیں ان میں سے کسی میں کسی کے یہاں دریائے سخاوت میں ایسا جوش آ سکتا ہے۔ ایک دھنا سیٹھ نے ایک سیاسی رہنما کے نام پر یکمشت دو یونیورسٹیاں قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس پر واہ واہ ہو گئی۔ ویسے دیکھتے دیکھتے یونیورسٹیوں کی ریل پیل اتنی ہو گئی ہے کہ سوچنا پڑتا ہے کہ وہ یونیورسٹیاں کون کونسی ہیں جو کاروبار سے بڑھ کر تعلیمی علمی تہذیبی مقاصد پورے کر رہی ہیں۔
باقی حکومت کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو علمی ادبی ادارے پہلے سے موجود ہیں وہ رو رہے ہیں کہ گرانٹ ملے تو کام چالو ہو۔ باہر لکھ لٹ رہے ہیں۔ ان اداروں کو معمولی گرانٹ میسر نہیں ہے۔ کتنے اداروں میں سربراہ کی کرسی خالی پڑی ہے۔ تو وہاں مضمون یہ ہے کہ ع
عزیزو بس اللہ ہی اللہ ہے