کچھ کام انگریزی کے لئے ہی رکھ چھوڑیں تو بہتر ہے
انیس بھائی جن ٹرمز کو انگریزی میں لکھنا ضروری ہے ان کے علاوہ باقی کتاب کا ترجمہ تو کیا جاسکتا ہے جس کے بعد ایک عام آدمی بھی آسانی سے پروگرامنگ کی دنیا میں اِن ہوسکتا ہے۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جاپان کا ایک پروفیسر اردو سیکھنے کے لئے پاکستان آیا یعنی باقاعدہ پی ایچ ڈی وغیرہ کرنے کے لئے اس کا انٹرویو ptv پر صبح کے ایک پروگرام’’اے مارننگ ود فرح‘‘ میں دکھایا گیا تھا جو میں نے بھی دیکھا تھا اس میں جاپانی سے سوال کیا گیا کہ جاپان کی ترقی کی کیا وجہ ہے کیا آپ لوگ دوسرے ممالک کے لوگوں سے زیادہ محنت کرتے ہیں؟؟؟ تو ان جاپانی صاحب نے جواب دیا تھا کہ
’’محنت تو یہاں کے لوگ بھی بہت کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ ہمیں اپنی قومی زبان یعنی جاپانی زبان میں ہی ہائیسٹ(انتہائی) لیول تک ایجوکیشن کی سہولت حاصل ہے اور یہی ہماری ترقی کا راز ہے جبکہ یہاں پر ہائر لیول ایجوکیشن کے لئے انگلش پر عبور ضروری ہے‘‘ ان صاحب کے مطابق
’’جتنا بہتر اور آسانی سے آپ اپنی قومی زبان میں علم حاصل کرسکتے ہیں کسی بھی غیر ملکی زبان میں آپ جتنے بھی ماہر ہوجائیں اس طرح سے علم حاصل نہیں کرسکتے‘‘
ہم کیوں کچھ کام انگریزی کے لئے چھوڑ دیں۔ جہاں انتہائی مجبوری ہو جیسے پروگرام کی کوڈنگ وغیرہ تب تو ٹھیک ہے (اردو پر جس طرح سے کام ہو رہا ہے امید ہے کہ کچھ عرصہ میں اردو میں پروگرامز کی کوڈنگ بھی شروع ہوجائے گی) لیکن پروگرامنگ میں کمنٹس کو تو اردو زبان میں ترجمہ کرکے لکھا اور سمجھایا جاسکتا ہے کہ اس کوڈ کا کیا مطلب ہے یا اس کوڈنگ کی وضاحت اردو میں کی جاسکتی ہے۔
انگریزوں نے مسلمان سائنسدانوں کی کتب سے ہی استفادہ کرکے اپنے علم کو بڑھایا ہے کیا انہوں نے کچھ کام عربی یا دیگر زبانوں کے لئے چھوڑا ہے جو مسلمان سائنسدانوں کی تھیں جب انہوں نے ان کتب کا ترجمہ مکمل طور پر اپنی زبانوں میں کرلیا تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟؟؟ کم از کم جس حد تک ممکن ہو۔