قیصرانی
لائبریرین
کئی ہفتوں میں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ اکثر میرے تلاش کردہ انگریزی آرٹیکلز میں اردو کا بھی لنک ہوتا ہے۔ یعنی ان کی اردو موجود ہوتی ہے۔ آج اتفاق سے وقت ملا تو کچھ تفصیل سے دیکھا۔
ذرا یہ لنک چیک کیجئے
میں مقدار کے خلاف نہیں، لیکن معیار کچھ تو ہو۔ لگتا ہے کہ آن لائن ٹرانسلیشن پروگرام کی مدد سے سائٹ کا ترجمہ کر کے ڈال دیا گیا ہے۔ متن کس طرح موجود ہے، اس کی ترتیب، فارمیٹنگ وغیرہ سرے سے ندارد۔ ایک پیراگراف اسی مندرجہ بالا لنک سے کاپی کرتا ہوں
ایک اور پیرگراف
ذرا یہ لنک چیک کیجئے
میں مقدار کے خلاف نہیں، لیکن معیار کچھ تو ہو۔ لگتا ہے کہ آن لائن ٹرانسلیشن پروگرام کی مدد سے سائٹ کا ترجمہ کر کے ڈال دیا گیا ہے۔ متن کس طرح موجود ہے، اس کی ترتیب، فارمیٹنگ وغیرہ سرے سے ندارد۔ ایک پیراگراف اسی مندرجہ بالا لنک سے کاپی کرتا ہوں
تعليم اور كھيل
کوئٹہ روڈ پر سخی سرور سے پہلے جدید ائر پورٹ تعمیر کیا گیا ہے جہاں سے کراچی ، بہاولپور، لاہور اور اسلام آباد کے لئے پروازیں چلتی کلو میٹر کے فاصلے پر جنوبی پنجاب کا سرد ترین تفریحی مقام فورٹ منرو ہے، شہر میں تفریحی سہولتوں75ہیں کوئٹہ روڈ پر ہی تقریباّ کےلئے سٹی پارک ،غازی پارک، وائلڈ لائف پارک، چند کھیل کے میدان اور آرٹ کونسل ہے، بلدیہ کی لائبریری میں کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے علاقے کے لوگ بشمول خواتین تعلیم کے حصول میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں،شہر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ایلیمنٹری کالجز ہیں ، تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرز کے سخی سرور روڈ پر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی قائم ہے، جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کےلئیے علیحدہ علیحدہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں ریلوے روڈ پر واقع گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین، گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ آف کامرس برائے خواتین ، ایگریکلچر سکول وغیرہ شامل ہیں شہر میں پرائیوٹ لا، کالجز ،پرائیویٹ ہومیو پیتھک کالج ، درجنوں کمپیوٹر کے تربیتی ادارے اور درجنوں پرائیویٹ سکول ہیں جبکہ ڈویژنل پبلک سکول اور کالج گورنمنٹ کالج انٹر کالج ،سنٹرل ماڈل سکول، گورنمنٹ کمپری ہینسو سکول،اسلامیہ ہائی سکول اور لڑکوں اور لڑکیوں کے لئیے ، گونمنٹ ہائی اور دیگر تمام تعلیمی ادارے شہر میں علم کے فروغ کے لئیے سرگرم عمل ہیں، جامعہ رحمانیہ اسلامیہ اور کلیتہ النبات ، 1،2،3سکول نمبر للدراسات الا اسلامیہ ممتاز دینی مدارس ہیں والی بال یہاں کے لوگوں میں مقبول کھیل ہے لیکن اب کرکٹ اس کی جگہ لے رہا۔
ایک اور پیرگراف
غازی خان کی دھرتی ڈیرہ غازی خان تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے، پندرہویں (15) صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا، ایک ممتاز بلوچی سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر، میں دریائے سندھ ، میں غازی خان کا یہ ڈیرہ دریائے سندھ کے کٹاوُ کی لپیٹ میں آگیا اور اس وقت 1887کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی ،?? کلو میٹر دور مغرب میں واقع ہے بنیاد رکھی ڈیرہ کا لفظ فارسی 15کے انگریز حاکموں نے موجودہ ڈیرہ غازی خان جو پرانے ڈیرہ سے تقریباّ زبان میں رہائش گاہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، بلوچی ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ مہمان خانہ یا وساخ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، سرائیکی زبان میں لفظ فارسی سے آیا ہے ، محل و قوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے ، شمال میں تھل اور مشرق میں سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، روحانی حوالے سے مغرب میں حضرت سخی سرور ، شمال میں خواجہ سلیمان تونسوی اور جنوب سے شاعر حسن و جمال خواجہ غلام فرید کا روحانی فیض جاری ہے، طبقات الارض کے حوالے سے یہ خطہ پہاڑی، دامانی ، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے، لغاری ، کھوسہ، مزاری، دریشک ، گورچانی، کیتھران، بزدار اور قیصرانی یہاں کے تمندار ہیں ، بلوچ قبیلوں کی یہ تقسیم انگریز حکمرانوں نے کی ، انہوں نے قبائیلی سرداروں کو اختیارات دئیے ، عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشتیں ڈیرہ غازی فٹ بلند ہے منعقد ہوتی تھیں ، انتظامیہ کے لئیے بارڈر ملٹری پولیس 6470خان کے صحت افزا، مقامفورٹ منرو جو سطع سمندر سے ، میں ڈیرہ اور راجن پور کے تمنداروں کے مشترکہ فیصلے 1950بنائی گئی جس کی ملازمتیں انہی نو بااثر خاندانوں میں تقسیم ہوتی ہیں ، کے مطابق یہ علا قہ پنجاب میں شامل ہوا، سن 1925 میں نواب آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع ریاست بہاولپور میں شامل ہوئے لیکن بعد میں ڈیرہ اور مظفرگڑھ کے اضلاع ،ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ ،راجن پور کے اضلاع پر 1982بہاولپور سے علیحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں شامل کئے گئے، یکم جولائی مشتمل علےقے کو ڈویژن کا درجہ دیا گیا،میں بننے والے اس شہر کو منفرد اور ایک خاص نقشے کے مطابق آباد کرنے کا پروگرام بنایا گیا ، شہر کی تمام سڑکیں ، گلیاں اور 1900 مختلف بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے نقشے کے مطابق ہر مکان کم از کم پانچ66چوک شرقاّ ، غرباّ اور شمالاّ جنوباّ بنائے گئے ہیں ، شہر کو پلاٹ رکھے گئے تھے لیکن اولاد اور وارثوں میں تقسیم اور خریدو فروخت کے باعث آج کل 112مرلے کا رکھا گیا ، ہر بلاک میں تقریباّ صورت حال قدرے مختلف ہے ، ڈیرہ کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث ناقابل کاشت ہے، علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رُخ کرتی ہے، تونسہ کے علاقے سے گیس اور تیل نکلتا ہے، علاقے میں یورینیم جیسی کے باعث پر تیار کئے گئے پاکستان آج ایٹمی طاقت بن چکا ہے ، روڑہ بجری ، خاکہ اور پتھر کے تاجر کروڑوں روپے کما رہے ہیں الغازی ٹریکٹرپلانٹ فیٹ ٹریکٹراور ڈی جی سیمنٹ اس علاقے کی پہچان ہے، اندرون ملک سفر کےلئے ریل ، بسوں اور ویگنوں سے ملک کے چاروں صوبوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے چلتن ایکسپریس کوئٹہ سے لاہور، لاہور سے کوئٹہ کےلئے براستہ ڈیرہ غازی خان چلتی ہے ، خوشحال خان خٹک ایکسپریس کراچی سے پشاور اور پشور سے کراچی براستہ ڈیرہ چلتی ہے ،