رضوان
محفلین
خاصی عالمانہ گفتگو چل رہی ہے تو کیوں نہ زبان کا ذائقہ بدلنے کے لیے کچھ سلیس سا ہوجائے۔۔۔۔
رضا علی عابدی کی کتاب “ اُردو کا حال“ سے اقتباس
سارے جہاں میں
میں نے ہندوستان اور پاکستان کے بڑے دور افتادہ علاقے دیکھے ہیں۔ مگر ایک عجیب بات دیکھی۔ میں جہاں کہیں بھی پہنچا، اردو مجھ سے پہلے پہنچ چُکی تھی۔
ہمالیہ کے پچھواڑے لدّاخ میں ایک بڑے نالے جیسے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا میں وہاں پہنچا جس کے آگے چینی تبت ہے۔ میں دریا کے کنارے ایک گاؤں پہنچا جس کا نام اُپشی تھا۔ مجھے دیکھ کر گاؤں والے میرے گرد جمع ہوگئے۔ جی چاہا ان سے باتیں کروں مگر خیال آیا کہ خدا جانے کون سی زبان بولتے ہوں گے۔ مگر میرے السلام علیکم کہنے کی دیر تھی کہ اب جو وہ بولے بالکل میری ہی جیسی اردو بولے۔ ان میں سے کسی نے مدرسے کی صورت بھی نہیں دیکھی۔ لکھنا پڑھنا نام کو بھی نہیں آتا مگر اردو اس روانی سے بول رہے تھے جیسے نیچے میدانوں میں عمر گزار کر آئے ہوں۔ نیچے کے وہی علاقے جن کی طرف سے ان غریبوں کا دل صاف نہیں تھا۔
میں ان سے کہہ رہا تھا کہ آپ کے بڑے شہر لیہ میں تو بڑی ترقی ہوئی ہے۔ پیسہ آگیا ہے اچھے مکان بن گئے ہیں۔ اچھے کپڑے پہننے لگے ہیں۔ آپ کے گاؤں کا کیا حال ہے؟
ان مین سے ایک بولا۔ “ ہم لوگوں کا گاؤں چھوٹا ہے۔ اسے کون دیکھے گا۔ اوپر سے کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ جب کوئی چیز آتی ہے بس نیچے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہم لوگوں تک تو چار آنے بھی نہیں پہنچتے۔ ایسے تو یہ لوگ بہت پبلک پبلک کرتے ہیں مگر ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔“
اس گفتگو مین اردو روزمرہ اور محاورہ پوری آن بان سے کار فرما تھا۔ بات میں سلاست اور روانی تھی۔ لفظوں کی نشست وبرخاست زبان دانی کے تمام اصولوں پر پوری اترتی تھی اور محسوس ہوتا تھا کہ چین کی سرحد پر رہنے والے یہ ان پڑھ دیہاتی نہیں بول رہے ہیں اردو کا اعجاز بول رہا ہے۔
اور جب چلتے چلتے میں اسکردو پہنچا تو وہاں دوسری ہی دنیا آباد دیکھی۔ کسی زمانےمیں یہاں کی زبان لدّاخی تھی اور رسم الخط تبّتی تھا۔ لوگ اسے بچانے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر اردو زبان معاشرت میں یوں گھُل مِل گئی ہے کہ علاقے میں پیدا ہونے والی شیریں خوبانی اور شہتوت بھی مقابلتاً پھیکے پڑگئے ہوں گے۔
بلتستان کے ایک بزرگ دانش ور وزیر غلام مہدی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ایسے لوگ نصیبوں ہی سے ملتے ہیں۔ ان کی باتیں دریائے سندھ میں بہتے ہوئے چاندی جیسے پانی میں دھلی ہوئی تھیں۔
ان سے بلتستان کی ثقافتی اقدار کی گفتگو ہورہی تھی۔ میں نے کہا کہ آپ کا علاقہ باقی بریصغیر سے اتنا دور، اتنا الگ تھلگ ہے کہ اصولاً اس کی زبان اور خصوصاً لب و لہجہ جدا ہونا چاہیے تھا مگر یہاں لوگ سلیس اور رواں اردو بول رہے ہیں اور ان کے لب ولہجہ پر نہ پنجاب کے اثرات تھے، نہ کشمیر کے اور نہ ہزارہ کے۔ اس کا کیا راز ہے؟
وزیر غلام مہدی صاحب نے کہا۔“ ہم ہر آواز کا تلفظ ادا کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارے لب ولہجے اور گفتگو میں ایسی فطری خوبی ہے کہ اردو ہو یا عربی فارسی، ہم آسانی سے بول لیتے ہیں، چنانچہ ایک بڑے آدمی نے کہا تھا کہ اردو سپھل ہو سکتی ہے تو بلتستان میں، کیونکہ بلتستان کی تہذیب وہی ہے جو اردو کی تہذیب ہے۔ ہر زبان کے پیچھے ایک تہذیب ہوتی ہے اور اردو کی تہذیب میں بَلتی کی طرح بہت سی ثقافتوں کا اشتراک ہے چنانچہ اُس بڑے آدمی نے کہا تھا کہ بَلتی لوگ آسانی اور روانی سے اردو بول سکیں گے۔ اب اپنے کانوں سے سُن کر آپ بھی تصدیق کر رہے ہیں۔“ وزیر غلام مہدی صاحب کی یہ باتیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کیا اردو واقعی دکن، لکھنؤ اور دہلی کی زبان ہے؟ کیا یہ درباروں کی زبان ہے؟ کیا یہ غیروں کی مسافروں کی اور اجنبیوں کی زبان ہے؟ پھر یہ کیسا چمتکار ہے کہ ہمالیہ کے اُس پار جہاں مانسون گھٹائیںبھی نہیں پہنچ پاتیں، وہاں اردو کی جَھڑی لگی ہے؟
سمجھ میں نہیں آتا کہ جس گھر کے آنگن میں اردو نام کی سانولی سلونی سی لڑکی گنگناتی، سُر بکھیرتی پِھرتی ہو، اور جہاں اس کی پائل کے چھوٹے چھوٹے گھُنگرو بجتے ہوں تو فضا میں چاندی گھُل جاتی ہو، اُس گھر والے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ “ ہم جب کبھی اردو میں لکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنے مکان میں نہیں، کرائے کے مکان میں بیٹھے ہیں۔“
اس دوسرے سوال کے جواب میں کسی نے کیا اچھی بات کہی کہ مسلمان فاتحین کے آنے سے پہلے بھی تو بریصغیر کے لوگ کوئی زبان تو بولتے ہوں گے۔ وہی اپنے رُخ پر غازہ لگا کر سنور گئی ہے۔
اردو کس علاقے میں پیدا ہوئی؟ ہزارہ میں، سندھ میں، پنجاب میں، ہریانہ میں، گجرات میں، دکن میں یا میرٹھ اور دلی کے درمیاں والے علاقے میں۔
میں تو اسے اردو کی خوش نصیبی جانتا ہوں کہ اتنے بہت سے علاقے خود کو اردو کی جائے ولادت مانتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں وہ جو دلائل دیتے ہیں وہ دل کو لگتے ہیں، ذہن کو قائل بھی کرتے ہیں۔
میں اس بارے میں کوئی انکشاف کرنے کی اپنے میں جرات نہیں پاتا، صرف اتنی بات کہنا چاہتا ہوں کہ اردو زبان کے الفاظ کہیں سے بھی آئے ہوں۔ اس کے سارے اسم اور تمام صفتیں کتنی ہی درآمد شدہ ہوں، اس کے verbs، اس کے فعل چند ایک کو چھوڑ کر سارے کے سارے مقامی ہیں۔ جو فعل مقامی نہیں ان میں بھی “ نا “ لگا کر انہیں ہندوستانی بنایا گیا ہے۔
تحقیق کرنے والے کہیں دور نہ جائیں۔ اردو میں جتنے بھی فعل رائج ہیں: آنا، جانا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، کھانا، پینا، ہنسنا، رونا، ان سب کی چھان بین کر کے دیکھ لیں کے یہ کس خطے اور کس علاقے میں رائج تھے، کہاں ان کی بنیاد تھی اور کہاں انہوں نے یہ شکل اختیار کی۔ جس علاقے پر تحقیق کرنے والوں کا اتفاق ہوجائے، اُس کو اردو کا گہوارہ سمجھنا چاہیے۔
میں مانتا ہوں کہ یہ کوئی اعلیٰ علمی دلیل نہیں ہے اور اس سے میرا مبتدی ہونا صاف جھلکتا ہے مگر اسطرح سوچنے سے کسی کا کچھ جاتا بھی تو نہیں۔ ذرا سی زحمت تو کریں زبان کے اس پہلو پر۔ شاید کوئی دلچسپ نتیجہ نکل آئے۔
ایک اور سوال یہ بھی زیرِ بحث آتا ہے کہ زبان کو اردو کا نام کب مِلا۔ لفظ اردو کب سے رائج ہے۔ کیا یہ ترکی زبان سے آیا ہے۔ کیا جہاں سے لفظ horde نکلا ہے وہیں سے اردو کا چلن ہوا ہے؟ چنگیز خان کے علاقے میں، جہاں رہائشی خیمے کو آج بھی گھر کہتے ہیں، ہر نئی بیوی کو رہنے کا جو ٹھکانہ فراہم کیا جاتا تھا اسے اردو کہا جاتا تھا۔
یہ صحیح ہے کہ پہلے پہل اردو کو ہندی کہا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کے مسلمان فاتحین شمالی درّوں سے اتر کر جس سرزمین پر آئے تھے اسے ہند کہتے تھے۔ موجودہ اٹک کے پاس جس جگہ سے وہ دریائے سندھ پار کرتے تھے اس کا نام اوہند پڑگیا تھا۔ وہیں لوگ انگلی کے اشارے سے دوسرا کنارہ دکھاتے ہوئے کہا کرتے ہوں گے کہ وہ ہند ہے۔ اسی ہند کی مناسبت سے یہاں کے باشندوں کو کسی مذہب کے امتیاز کے بغیر ہندو کہا گیا ہوگا اور اسی نسبت سے یہاں کی زبان ہندی کہلائی، چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لفظ “ہندی“ بذات خود ہندی زبان کا لفظ نہیں ہے۔
غالب کے زمانے تک تو اس زبان کو ہندی اور ہندوی کہا گیا۔ تاریخی شہر ملتان میں قدیم صوفی شاعروں کے کلام کے ابتدائی نسخے میں نے دیکھے ہیں، ان میں ان کے کلام کو پنجابی یا سرائیکی نہیں بلکہ ہندی لکھا گیا ہے۔ گویا اُس مخصوص دور میں ہندوستان کی بولیوںکو ہندی کہا جانا بعید از قیاس نہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے تفرقہ ڈالنے کے لیے اردو اور ہندی میں تخصیص کی اور اردو کو ہندوستانی کا نام دیا جو آگے چل کر اردو ہوگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو پر اسی وقت مسلمانوں کی زبان ہونے کا ٹھپہ لگ گیا ہوگا اور کچھ یہی صورت ہندی کے ساتھ بھی پیش آئی ہوگی لٰہذا ایک درمیانی صورت نکالنے کے لیے ‘ہندوستانی‘ سے کام چلایا گیا۔ فیلن کی ڈکشنری اس کا ثبوت ہے۔
جب اردو رسم الخط میں ہندی آوازیں کثرت سے شامل ہونے لگیں تو نئی وضع کے حروف ڈھالنے کا مرحلہ آیا۔ جس کے جو جی میں آیا وہ کر گزرا۔ ان ہی انگریزوں نے رسم الخط کو سلیقہ دیا۔ اس میں تو چھوٹی ی اور بڑی ے میں فرق نہیں کرتے تھے۔ ٹ، ڑ، ڈ ابھی میرے بچپن تک یوں لکھے جاتے تھے کہ ایک چھوٹی سے ط بنانے کے بجائے کوئی دو نقطے ڈالتا تھا، کوئی چار اور کوئی چھوٹی سی افقی لکیر کھینچ دیتا تھا۔
انگریزوں ہی نے اردو حروف کا ٹائپ تراشا اور طباعت شروع کی۔ انہوں نے دو چشمی ھ لگا کر ہندی الفاظ بنائے ورنہ بھائی اور بہائی میں کوئی فرق نہ تھا۔
ایک وقت تو ایسا آیا، وہ اور وہ پرانے قلمی نسخے میں نے دیکھے ہیں جن میں ہمارے بزرگ نقطوں سے بے نیاز ہو چلے تھے اور بے نقط لکھتے تھے۔ یہ بھی ہوا کہ لفظ ‘اور‘ لکھتے تو آخر میں رے بنانے کی زحمت ختم کیے ڈالتے تھے۔
عوام میں تفرقہ اور رخنہ ڈالنے والوں نے ہمارے اس رسم الخط کو ضابطہ دیا۔ اسے سائنسی بنیادوں پر استوار کیا اور پھر اسے رائج بھی کیا۔ انہوں نے لاکھ چاہا کہ اردو ٹائپ رواج پا جائےاور اس غرض سے جیسے بھی بنا نستعلیق ٹائپ وضع کیا مگر ہم لوگوں نے نقشے چھاپنے والی پتھر کی سِلوں پر کتابت شروع کردی اور ٹائپ کو رائج ہونے نہیں دیا۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ اردو رسم الخط سیکھنا مشکل ہے وہ زیادہ دور نہیں، سو برس پرانی اردو کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں اور موازنہ کریں تو اندازہ ہو کہ اردو جس قدر بولنے اور سننے میں مہزب زبان ہے، اسی قدر اس کا رسم الخط بھی تہذیب یافتہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں گھر گھر خوشنویسی کا چلن اٹھ گیا ورنہ اس کی تحریر میں لوگ موتی ٹانکا کرتے تھے، موتی۔
رضا علی عابدی کی کتاب “ اُردو کا حال“ سے اقتباس
سارے جہاں میں
میں نے ہندوستان اور پاکستان کے بڑے دور افتادہ علاقے دیکھے ہیں۔ مگر ایک عجیب بات دیکھی۔ میں جہاں کہیں بھی پہنچا، اردو مجھ سے پہلے پہنچ چُکی تھی۔
ہمالیہ کے پچھواڑے لدّاخ میں ایک بڑے نالے جیسے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا میں وہاں پہنچا جس کے آگے چینی تبت ہے۔ میں دریا کے کنارے ایک گاؤں پہنچا جس کا نام اُپشی تھا۔ مجھے دیکھ کر گاؤں والے میرے گرد جمع ہوگئے۔ جی چاہا ان سے باتیں کروں مگر خیال آیا کہ خدا جانے کون سی زبان بولتے ہوں گے۔ مگر میرے السلام علیکم کہنے کی دیر تھی کہ اب جو وہ بولے بالکل میری ہی جیسی اردو بولے۔ ان میں سے کسی نے مدرسے کی صورت بھی نہیں دیکھی۔ لکھنا پڑھنا نام کو بھی نہیں آتا مگر اردو اس روانی سے بول رہے تھے جیسے نیچے میدانوں میں عمر گزار کر آئے ہوں۔ نیچے کے وہی علاقے جن کی طرف سے ان غریبوں کا دل صاف نہیں تھا۔
میں ان سے کہہ رہا تھا کہ آپ کے بڑے شہر لیہ میں تو بڑی ترقی ہوئی ہے۔ پیسہ آگیا ہے اچھے مکان بن گئے ہیں۔ اچھے کپڑے پہننے لگے ہیں۔ آپ کے گاؤں کا کیا حال ہے؟
ان مین سے ایک بولا۔ “ ہم لوگوں کا گاؤں چھوٹا ہے۔ اسے کون دیکھے گا۔ اوپر سے کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ جب کوئی چیز آتی ہے بس نیچے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہم لوگوں تک تو چار آنے بھی نہیں پہنچتے۔ ایسے تو یہ لوگ بہت پبلک پبلک کرتے ہیں مگر ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔“
اس گفتگو مین اردو روزمرہ اور محاورہ پوری آن بان سے کار فرما تھا۔ بات میں سلاست اور روانی تھی۔ لفظوں کی نشست وبرخاست زبان دانی کے تمام اصولوں پر پوری اترتی تھی اور محسوس ہوتا تھا کہ چین کی سرحد پر رہنے والے یہ ان پڑھ دیہاتی نہیں بول رہے ہیں اردو کا اعجاز بول رہا ہے۔
اور جب چلتے چلتے میں اسکردو پہنچا تو وہاں دوسری ہی دنیا آباد دیکھی۔ کسی زمانےمیں یہاں کی زبان لدّاخی تھی اور رسم الخط تبّتی تھا۔ لوگ اسے بچانے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر اردو زبان معاشرت میں یوں گھُل مِل گئی ہے کہ علاقے میں پیدا ہونے والی شیریں خوبانی اور شہتوت بھی مقابلتاً پھیکے پڑگئے ہوں گے۔
بلتستان کے ایک بزرگ دانش ور وزیر غلام مہدی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ایسے لوگ نصیبوں ہی سے ملتے ہیں۔ ان کی باتیں دریائے سندھ میں بہتے ہوئے چاندی جیسے پانی میں دھلی ہوئی تھیں۔
ان سے بلتستان کی ثقافتی اقدار کی گفتگو ہورہی تھی۔ میں نے کہا کہ آپ کا علاقہ باقی بریصغیر سے اتنا دور، اتنا الگ تھلگ ہے کہ اصولاً اس کی زبان اور خصوصاً لب و لہجہ جدا ہونا چاہیے تھا مگر یہاں لوگ سلیس اور رواں اردو بول رہے ہیں اور ان کے لب ولہجہ پر نہ پنجاب کے اثرات تھے، نہ کشمیر کے اور نہ ہزارہ کے۔ اس کا کیا راز ہے؟
وزیر غلام مہدی صاحب نے کہا۔“ ہم ہر آواز کا تلفظ ادا کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارے لب ولہجے اور گفتگو میں ایسی فطری خوبی ہے کہ اردو ہو یا عربی فارسی، ہم آسانی سے بول لیتے ہیں، چنانچہ ایک بڑے آدمی نے کہا تھا کہ اردو سپھل ہو سکتی ہے تو بلتستان میں، کیونکہ بلتستان کی تہذیب وہی ہے جو اردو کی تہذیب ہے۔ ہر زبان کے پیچھے ایک تہذیب ہوتی ہے اور اردو کی تہذیب میں بَلتی کی طرح بہت سی ثقافتوں کا اشتراک ہے چنانچہ اُس بڑے آدمی نے کہا تھا کہ بَلتی لوگ آسانی اور روانی سے اردو بول سکیں گے۔ اب اپنے کانوں سے سُن کر آپ بھی تصدیق کر رہے ہیں۔“ وزیر غلام مہدی صاحب کی یہ باتیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کیا اردو واقعی دکن، لکھنؤ اور دہلی کی زبان ہے؟ کیا یہ درباروں کی زبان ہے؟ کیا یہ غیروں کی مسافروں کی اور اجنبیوں کی زبان ہے؟ پھر یہ کیسا چمتکار ہے کہ ہمالیہ کے اُس پار جہاں مانسون گھٹائیںبھی نہیں پہنچ پاتیں، وہاں اردو کی جَھڑی لگی ہے؟
سمجھ میں نہیں آتا کہ جس گھر کے آنگن میں اردو نام کی سانولی سلونی سی لڑکی گنگناتی، سُر بکھیرتی پِھرتی ہو، اور جہاں اس کی پائل کے چھوٹے چھوٹے گھُنگرو بجتے ہوں تو فضا میں چاندی گھُل جاتی ہو، اُس گھر والے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ “ ہم جب کبھی اردو میں لکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنے مکان میں نہیں، کرائے کے مکان میں بیٹھے ہیں۔“
- - - - -
اردو کے بارے میں اکثر بہت دلچسپ بحثیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اردو بریصغیر کے کس علاقے میں پیدا ہوئی۔ اور دوسرے یہ کہ یہ زبان کتنی پرانی ہے۔اس دوسرے سوال کے جواب میں کسی نے کیا اچھی بات کہی کہ مسلمان فاتحین کے آنے سے پہلے بھی تو بریصغیر کے لوگ کوئی زبان تو بولتے ہوں گے۔ وہی اپنے رُخ پر غازہ لگا کر سنور گئی ہے۔
اردو کس علاقے میں پیدا ہوئی؟ ہزارہ میں، سندھ میں، پنجاب میں، ہریانہ میں، گجرات میں، دکن میں یا میرٹھ اور دلی کے درمیاں والے علاقے میں۔
میں تو اسے اردو کی خوش نصیبی جانتا ہوں کہ اتنے بہت سے علاقے خود کو اردو کی جائے ولادت مانتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں وہ جو دلائل دیتے ہیں وہ دل کو لگتے ہیں، ذہن کو قائل بھی کرتے ہیں۔
میں اس بارے میں کوئی انکشاف کرنے کی اپنے میں جرات نہیں پاتا، صرف اتنی بات کہنا چاہتا ہوں کہ اردو زبان کے الفاظ کہیں سے بھی آئے ہوں۔ اس کے سارے اسم اور تمام صفتیں کتنی ہی درآمد شدہ ہوں، اس کے verbs، اس کے فعل چند ایک کو چھوڑ کر سارے کے سارے مقامی ہیں۔ جو فعل مقامی نہیں ان میں بھی “ نا “ لگا کر انہیں ہندوستانی بنایا گیا ہے۔
تحقیق کرنے والے کہیں دور نہ جائیں۔ اردو میں جتنے بھی فعل رائج ہیں: آنا، جانا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، کھانا، پینا، ہنسنا، رونا، ان سب کی چھان بین کر کے دیکھ لیں کے یہ کس خطے اور کس علاقے میں رائج تھے، کہاں ان کی بنیاد تھی اور کہاں انہوں نے یہ شکل اختیار کی۔ جس علاقے پر تحقیق کرنے والوں کا اتفاق ہوجائے، اُس کو اردو کا گہوارہ سمجھنا چاہیے۔
میں مانتا ہوں کہ یہ کوئی اعلیٰ علمی دلیل نہیں ہے اور اس سے میرا مبتدی ہونا صاف جھلکتا ہے مگر اسطرح سوچنے سے کسی کا کچھ جاتا بھی تو نہیں۔ ذرا سی زحمت تو کریں زبان کے اس پہلو پر۔ شاید کوئی دلچسپ نتیجہ نکل آئے۔
ایک اور سوال یہ بھی زیرِ بحث آتا ہے کہ زبان کو اردو کا نام کب مِلا۔ لفظ اردو کب سے رائج ہے۔ کیا یہ ترکی زبان سے آیا ہے۔ کیا جہاں سے لفظ horde نکلا ہے وہیں سے اردو کا چلن ہوا ہے؟ چنگیز خان کے علاقے میں، جہاں رہائشی خیمے کو آج بھی گھر کہتے ہیں، ہر نئی بیوی کو رہنے کا جو ٹھکانہ فراہم کیا جاتا تھا اسے اردو کہا جاتا تھا۔
یہ صحیح ہے کہ پہلے پہل اردو کو ہندی کہا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کے مسلمان فاتحین شمالی درّوں سے اتر کر جس سرزمین پر آئے تھے اسے ہند کہتے تھے۔ موجودہ اٹک کے پاس جس جگہ سے وہ دریائے سندھ پار کرتے تھے اس کا نام اوہند پڑگیا تھا۔ وہیں لوگ انگلی کے اشارے سے دوسرا کنارہ دکھاتے ہوئے کہا کرتے ہوں گے کہ وہ ہند ہے۔ اسی ہند کی مناسبت سے یہاں کے باشندوں کو کسی مذہب کے امتیاز کے بغیر ہندو کہا گیا ہوگا اور اسی نسبت سے یہاں کی زبان ہندی کہلائی، چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لفظ “ہندی“ بذات خود ہندی زبان کا لفظ نہیں ہے۔
غالب کے زمانے تک تو اس زبان کو ہندی اور ہندوی کہا گیا۔ تاریخی شہر ملتان میں قدیم صوفی شاعروں کے کلام کے ابتدائی نسخے میں نے دیکھے ہیں، ان میں ان کے کلام کو پنجابی یا سرائیکی نہیں بلکہ ہندی لکھا گیا ہے۔ گویا اُس مخصوص دور میں ہندوستان کی بولیوںکو ہندی کہا جانا بعید از قیاس نہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے تفرقہ ڈالنے کے لیے اردو اور ہندی میں تخصیص کی اور اردو کو ہندوستانی کا نام دیا جو آگے چل کر اردو ہوگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو پر اسی وقت مسلمانوں کی زبان ہونے کا ٹھپہ لگ گیا ہوگا اور کچھ یہی صورت ہندی کے ساتھ بھی پیش آئی ہوگی لٰہذا ایک درمیانی صورت نکالنے کے لیے ‘ہندوستانی‘ سے کام چلایا گیا۔ فیلن کی ڈکشنری اس کا ثبوت ہے۔
جب اردو رسم الخط میں ہندی آوازیں کثرت سے شامل ہونے لگیں تو نئی وضع کے حروف ڈھالنے کا مرحلہ آیا۔ جس کے جو جی میں آیا وہ کر گزرا۔ ان ہی انگریزوں نے رسم الخط کو سلیقہ دیا۔ اس میں تو چھوٹی ی اور بڑی ے میں فرق نہیں کرتے تھے۔ ٹ، ڑ، ڈ ابھی میرے بچپن تک یوں لکھے جاتے تھے کہ ایک چھوٹی سے ط بنانے کے بجائے کوئی دو نقطے ڈالتا تھا، کوئی چار اور کوئی چھوٹی سی افقی لکیر کھینچ دیتا تھا۔
انگریزوں ہی نے اردو حروف کا ٹائپ تراشا اور طباعت شروع کی۔ انہوں نے دو چشمی ھ لگا کر ہندی الفاظ بنائے ورنہ بھائی اور بہائی میں کوئی فرق نہ تھا۔
ایک وقت تو ایسا آیا، وہ اور وہ پرانے قلمی نسخے میں نے دیکھے ہیں جن میں ہمارے بزرگ نقطوں سے بے نیاز ہو چلے تھے اور بے نقط لکھتے تھے۔ یہ بھی ہوا کہ لفظ ‘اور‘ لکھتے تو آخر میں رے بنانے کی زحمت ختم کیے ڈالتے تھے۔
عوام میں تفرقہ اور رخنہ ڈالنے والوں نے ہمارے اس رسم الخط کو ضابطہ دیا۔ اسے سائنسی بنیادوں پر استوار کیا اور پھر اسے رائج بھی کیا۔ انہوں نے لاکھ چاہا کہ اردو ٹائپ رواج پا جائےاور اس غرض سے جیسے بھی بنا نستعلیق ٹائپ وضع کیا مگر ہم لوگوں نے نقشے چھاپنے والی پتھر کی سِلوں پر کتابت شروع کردی اور ٹائپ کو رائج ہونے نہیں دیا۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ اردو رسم الخط سیکھنا مشکل ہے وہ زیادہ دور نہیں، سو برس پرانی اردو کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں اور موازنہ کریں تو اندازہ ہو کہ اردو جس قدر بولنے اور سننے میں مہزب زبان ہے، اسی قدر اس کا رسم الخط بھی تہذیب یافتہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں گھر گھر خوشنویسی کا چلن اٹھ گیا ورنہ اس کی تحریر میں لوگ موتی ٹانکا کرتے تھے، موتی۔